فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5152
اردو حاشہ:
”تھوڑا تھوڑا“ عربی میں لفظ ”مقطع“ استعمال کیا گیا ہے، یعنی قلیل ہو اور مختلف جگہوں پر ہو، مثلاً: تلوار کے دستے پر نقش و نگار کی صورت میں ہو یا نقاط کی صورت میں۔ پورے دستےمیں سونا نہ چڑھایا جائے۔ اسی طرح چاندی کی انگوٹھی پر سونے کے نشانات ہوں۔ اسی طرح ریشم بھی کسی اور کپڑے پر ٹکڑوں کی صورت میں قلیل مقدار میں ہو یا ریشم کی لائنیں ہوں یا چھوٹی پٹیاں ہوں تو کوئی حرج نہیں۔ گویا قلیل مقدار میں ہو اور مختلف جگہوں پر ہو۔ یاد رہے کہ یہ مردوں کے لیے ہے۔ عورتوں کےلیے سونے اور ریشم کا استعمال مطلقاً جائز ہے جیسے سابقہ حدیث میں صراحت ہوچکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5152
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5153
´مردوں کے لیے سونا استعمال کرنے کی حرمت کا بیان۔`
معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونا پہننے سے منع فرمایا، مگر ریزہ ریزہ کر کے اور سرخ گدوں پر بیٹھنے سے (بھی منع فرمایا)۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5153]
اردو حاشہ:
”ریشمی گدیلے“ جو چیزیں مشترکہ استعمال کی ہیں انہیں عورتیں بھی استعمال کرتی ہیں اور مرد بھی اور ان میں امتیاز رکھنا مشکل ہے، وہ ریشم یا سونے سے نہیں ہونی چاہیئں۔ گدیلے پر کوئی بھی بیٹھ سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5153
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5155
´مردوں کے لیے سونا استعمال کرنے کی حرمت کا بیان۔`
ابوشیخ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک مرتبہ حج میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، اسی دوران انہوں نے صحابہ کرام کی ایک جماعت اکٹھا کی اور ان سے کہا: کیا آپ کو نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونا پہننے سے منع فرمایا ہے؟ مگر ریزہ ریزہ کر کے۔ لوگوں نے کہا: جی ہاں۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں:) یحییٰ بن ابی کثیر نے مطر کے خلاف روایت کی ہے جب کہ یحییٰ بن ابی کثیر کے شاگرد خود ان سے روایت کرنے میں مختلف ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5155]
اردو حاشہ:
مطر نے بایں سند حدیث بیان کی ہے: عَنْ أَبِي شَيْخٍ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ مُعَاوِيَةَ جبکہ یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا ہے تو کہا ہے: حدثني ابو شیخ الهنائی عن أبي حمان: ان معاویة.... تو یحییٰ نے ابو شیخ اور حضرت معاویہ کے درمیان ابوحمان کا و اسطہ بڑھا دیا ہے، نیز یحییٰ بن ابی کثیر کے شاگردوں میں بھی اختلاف ہے۔ علی بن مبارک نے یحییٰ سے بیان کیا ہے تو کہا ہے: حدثني ابو شیخ الهنائی عن أبي حمان: ان معاویة لیکن جب یحییٰ کے شاگرد حرب بن شداد نے اس سے بیان کیا ہے تو کہا ہے:حدثني ابوشیخ عن اخیه حمان: أن معاویة...... اس کی تفصیل اگلی روایات میں آ رہی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5155
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5156
´مردوں کے لیے سونا استعمال کرنے کی حرمت کا بیان۔`
ابوحمّان سے روایت ہے کہ جس سال معاویہ رضی اللہ عنہ نے حج کیا، اس سال کعبے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صحابہ کو جمع کر کے کہا: میں آپ کو قسم دیتا ہوں! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونا پہننے سے منع فرمایا ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں۔ وہ بولے: میں بھی اس کا گواہ ہوں۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں:) حرب بن شداد نے اسے علی بن مبارک کے خلاف روایت کرتے ہوئے «عن یحییٰ عن ابی شیخ عن أخیہ» حمان کہا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5156]
اردو حاشہ:
سابقہ حدیث کےتحت اس کی وضاحت ہوچکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5156
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5157
´مردوں کے لیے سونا استعمال کرنے کی حرمت کا بیان۔`
ابوشیخ کے بھائی حمان سے روایت ہے کہ جس سال معاویہ رضی اللہ عنہ نے حج کیا، صحابہ کرام کی ایک جماعت کو کعبے میں اکٹھا کر کے ان سے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونا پہننے سے منع فرمایا؟ لوگوں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: میں بھی اس کا گواہ ہوں۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں:) اوزاعی نے حرب بن شداد کے خلاف روایت کی ہے جب کہ خود اوزاعی کے شاگرد ان سے روایت کرنے میں مختلف ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5157]
اردو حاشہ:
اوزاعی رحمہ اللہ نے حرب بن شداد کی مخالفت اس طرح کی ہے کہ وہ یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: حدثني أبوشیخ، قال: حدثني حمان، جبکہ حرب بن شداد نے ”حمان“ کی بجائے عن اخیه حمان‘ کہا ہے جیسا کہ پہلے اس کی وضاحت کی جا چکی ہے اوزاعی کے شاگردوں کا اس پر اختلاف یوں ہے (جس کی تفصیل اگلی روایات میں آرہی ہے) کہ شعیب نے اوزاعی سے بیان کیا تو کہا: حدثني أبوشیخ قال: حدثني حمان، قال حج معاوية..... عمارة بن بشر نے اس سے بیان کیا تو کہا: حدثني أبواسحاق، قال: حدثني حمان، قال حج معاویة اوزاعی کے ایک شاگرد عقبہ (ابن علقمہ معافری بیروتی) نے اوزاعی سے بیان کیا تو کہا: حدثنی ابو اسحاق، قال: حدثنی ابن حمان، قال: حج معاویة.... اوزاعی کے چوتھے شاگرد یحیی بن حمزہ نے بیان کیا تو اوزاعی کے دیگر بیان کرنے والے تینوں شاگردوں سے اختلاف کرتے ہوئے کہا: حدثنا یحییٰ: حدثنا حمان قال: حج معاویة.... خلاصۂ کلام یہ ہے کہ شعیب نے، اپنے استاد اوزاعی سے یحیی بن ابی کثیر والی روایت بیان کی تو یحیی بن ابی کثیر کا استاد ابوشیخ کو بیان کیا ہے۔ عمارہ بن بشر نے اوزاعی سے یحیی کی روایت بیان کی تو یحییٰ بن ابی کثیر کا استاد ابو اسحاق السبیعی کو قراردیا ہے۔ اوزاعی کے ایک اورشاگرد یحییٰ بن حمزہ نے یہی روایت بیان کی تو یحییٰ بن ابی کثیر کا استاد حمان بیان کیا۔مزید تفصیل کےلیے دیکھئے (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي للأتیوبي:38؍227۔229)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5157
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5161
´مردوں کے لیے سونا استعمال کرنے کی حرمت کا بیان۔`
حمان بیان کرتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے حج کیا، اور انصار کے کچھ لوگوں کو کعبے میں بلا کر کہا: میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں! کیا آپ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سونا سے منع فرماتے نہیں سنا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ وہ بولے: اور میں بھی اس کا گواہ ہوں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: عمارہ یحییٰ (یحییٰ بن حمزہ) سے حفظ میں زیادہ پختہ ہیں اور ان کی حدیث زیادہ قرین صواب ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5161]
اردو حاشہ:
شارح سنن النسائی محمد بن علی الایتوبی کہتے ہیں کہ ”المجتبیٰ“ والے نسخے میں ”عمارہ“ ہے لیکن درست ”قتادہ“ ہے جیسا کہ سنن نسائی ”الکبریٰ“ 5؍439 اور تحفۃ الاشراف 8؍436 میں ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے عمارہ (در حقیقت قتادہ) کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ”قتادہ“ یحیی کی نسبت احفظ ہے، اس لیے اس کی بیان کردہ روایت راجح ہے کیونکہ اس طرح وہ محفوظ صحیح روایت بنتی ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قتادۃ عن ابی شیخ عن معاویۃ رضی اللہ عنہ والی بلا واسطہ روایت ہی صحیح ہے جبکہ دیگر رواۃ نے ابوشیخ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان حمان یا ابوحمان یا ابن حمان کا واسطہ بیان کیا ہے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5161
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5163
´مردوں کے لیے سونا استعمال کرنے کی حرمت کا بیان۔`
ابوشیخ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو سنا کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونا پہننے سے منع فرمایا ہے الا یہ کہ وہ «مقطع» ہو (تو جائز ہے)۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: نضر کی حدیث زیادہ قرین صواب ہے۔ (یعنی: بیھس کی سند سے بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہونا زیادہ صواب ہے)۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5163]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ مذکورہ روایت سے پہلی روایت (حدیث: 5162) زیادہ درست ہے جو کہ نضربن شمیل بیہس بن فہد ان سے، وہ ابوشیخ ہنائی سے اور وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں جبکہ مذکورہ روایت: 5163 جو کہ علی بن غراب نے بیہس بن فہدان سے، اس نے ابوشیخ سے اور اس نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کی ہے، یہ روایت ابن عمر کی مسند کے طور پر تو ضعیف ہے، تاہم اس کا متن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی مسند کی وجہ سے صحیح ہے۔ نضربن شمیل علی بن غراب سے کہیں زیادہ حافظ اور اثبت ہے جبکہ علی بن غراب تو ضعیف و مدلس اور شیعہ تھا۔ واللہ أعلم۔
(2) ترجمے میں چونکہ سند ذکر نہیں ہوتی، لہٰذا قارئین کے لیے ایک روایت کا اس قدر زیادہ تکرار ملال و اکتاہٹ کا باعث بنتا ہے اور انہیں یہ بے فائدہ معلوم ہوتا ہے لیکن امام نسائی ؒ نے مقصود سند کے بیان میں اختلاف ظاہر کرنا ہے جو حدیث کی حیثیت جانچنے کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے اور محدثین کے نزدیک یہ انتہائی، قیمتی مفید اور دلچسپ چیز ہوتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5163
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4131
´چیتوں اور درندوں کی کھال کا بیان۔`
خالد کہتے ہیں مقدام بن معدی کرب، عمرو بن اسود اور بنی اسد کے قنسرین کے رہنے والے ایک شخص معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے پاس آئے، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے مقدام سے کہا: کیا آپ کو خبر ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا انتقال ہو گیا؟ مقدام نے یہ سن کر «انا لله وانا اليه راجعون» پڑھا تو ان سے ایک شخص نے کہا: کیا آپ اسے کوئی مصیبت سمجھتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: میں اسے مصیبت کیوں نہ سمجھوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی گود میں بٹھایا، اور فرمایا: ”یہ میرے مشابہ ہے، اور حسین علی کے۔“ یہ سن کر اسدی نے کہا: ایک انگارہ تھا ج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4131]
فوائد ومسائل:
1: صحابہ کرام رضہ اللہ حق بات کہنے میں بڑے جری تھے، حضرت مقدام رضی اللہ کو حضرت معاویہ کی امارت سے کوئی خوف نہ آیا اور بے دھڑک حق بات کہی۔
2: اس مکالمے کے شروع میں جو آیا ہے ایک آدمی نے کہا اس کے قائل شاید حضرت معاویہ ہی ہوں، جسے ادبًا مبہم رکھا گیا ہے۔
3: بنو امیہ اور اہل بیت کے خاندانوں میں سیاسی امور میں ان کے خا ص رحجانات تھے، یہ تاریخ اسلام کا انتہائی پریشان کن دور تھا جو گزر گیا۔
اب تمام صحابہ کرام رضہ اللہ کے لئے دعا گو ہیں اور کسی کے متعلق اپنے دل میں کو ئی بغض نہیں رکھتے۔
ایک مورخ کو حسب وقائع کسی بھی جانب میلان کا حق حاصل ہے، مگر خیال رہے کہ دوسری جانب بھی جلیل لقدرصحابہ ہیں۔
4: حضرت معاویہ رضی اللہ کے متعلق جو ذکر ہو ان کے گھر میں ریشم اور درندوں کی کھالیں استعمال ہوتی تھیں تو شاید فرامین رسول ؐ کی کوئی تاویل کرتے ہوں گے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4131