(مرفوع) اخبرنا ابو عاصم خشيش بن اصرم، قال: انبانا عبد الرزاق، قال: انبانا الثوري، عن صالح الهمداني، عن الشعبي، عن عبد خير، عن زيد بن ارقم، قال:" اتي علي رضي الله عنه بثلاثة وهو باليمن، وقعوا على امراة في طهر واحد، فسال اثنين: اتقران لهذا بالولد؟ قالا: لا، ثم سال اثنين: اتقران لهذا بالولد؟ قالا: لا، فاقرع بينهم، فالحق الولد بالذي صارت عليه القرعة، وجعل عليه ثلثي الدية، فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فضحك حتى بدت نواجذه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ خُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الثَّوْرِيُّ، عَنْ صَالِحٍ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ:" أُتِيَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِثَلَاثَةٍ وَهُوَ بِالْيَمَنِ، وَقَعُوا عَلَى امْرَأَةٍ فِي طُهْرٍ وَاحِدٍ، فَسَأَلَ اثْنَيْنِ: أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ؟ قَالَا: لَا، ثُمَّ سَأَلَ اثْنَيْنِ: أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ؟ قَالَا: لَا، فَأَقْرَعَ بَيْنَهُمْ، فَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالَّذِي صَارَتْ عَلَيْهِ الْقُرْعَةُ، وَجَعَلَ عَلَيْهِ ثُلُثَيِ الدِّيَةِ، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ".
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ جب یمن میں تھے ان کے پاس تین آدمی لائے گئے، ایک ہی طہر (پاکی) میں ان تینوں نے ایک عورت کے ساتھ جماع کیا تھا (جھگڑا لڑکے کے تعلق سے تھا کہ ان تینوں میں سے کس کا ہے) انہوں نے دو کو الگ کر کے پوچھا: کیا تم دونوں یہ لڑکا تیسرے کا تسلیم و قبول کرتے ہو، انہوں نے کہا: نہیں، پھر انہوں نے دو کو الگ کر کے تیسرے کے بارے میں پوچھا: کیا تم دونوں لڑکا اس کا مانتے ہو، انہوں نے کہا: نہیں، پھر انہوں نے ان تینوں کے نام کا قرعہ ڈالا اور جس کے نام پر قرعہ نکلا بچہ اسی کو دے دیا، اور دیت کا دو تہائی اس کے ذمہ کر دیا (اور اس سے لے کر ایک ایک تہائی ان دونوں کو دے دیا)۱؎ یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کی گئی تو آپ ہنس پڑے اور ایسے ہنسے کہ آپ کی داڑھ دکھائی دینے لگی ۲؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطلاق32 (2270)، سنن ابن ماجہ/الأحکام20 (2348)، (تحفة الأشراف: 3670) مسند احمد (4/473) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: دیت کے دو تہائی کا مفہوم یہ ہے کہ لونڈی کی قیمت کا دو ثلث اسے ادا کرنا پڑا، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرعہ کے ذریعہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے اور کسی لڑکے کے جب کئی دعویدار ہوں تو قیافہ کے بجائے قرعہ کے ذریعہ فیصلہ ہو گا، جو لوگ قرعہ کے بجائے قیافہ کے قائل ہیں ممکن ہے انہوں نے علی رضی الله عنہ کی اس حدیث کو اس حالت پر محمول کیا ہو جب قیافہ شناس موجود نہ ہو (واللہ اعلم)۔ ۲؎: یعنی علی رضی الله عنہ کے اس انوکھے و عجیب فیصلے پر آپ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر، قال: حدثنا علي بن مسهر، عن الاجلح، عن الشعبي، قال: اخبرني عبد الله بن ابي الخليل الحضرمي، عن زيد بن ارقم، قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ جاءه رجل من اليمن، فجعل يخبره ويحدثه وعلي بها، فقال: يا رسول الله، اتى عليا ثلاثة نفر يختصمون في ولد، وقعوا على امراة في طهر، وساق الحديث. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ الْأَجْلَحِ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الْخَلِيلِ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ الْيَمَنِ، فَجَعَلَ يُخْبِرُهُ وَيُحَدِّثُهُ وَعَلِيٌّ بِهَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَى عَلِيًّا ثَلَاثَةُ نَفَرٍ يَخْتَصِمُونَ فِي وَلَدٍ، وَقَعُوا عَلَى امْرَأَةٍ فِي طُهْرٍ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اسی اثناء میں یمن سے ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو وہاں کی باتیں بتانے اور آپ سے باتیں کرنے لگا، ان دنوں علی رضی اللہ عنہ یمن ہی میں تھے، اس نے کہا: اللہ کے رسول! تین اشخاص ایک لڑکے کے لیے جھگڑتے ہوئے علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ ان تینوں نے ایک عورت سے ایک ہی طہر میں جماع کیا تھا اور آگے وہی حدیث بیان کی جو گزر چکی ہے۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، عن الاجلح، عن الشعبي، عن عبد الله بن ابي الخليل، عن زيد بن ارقم، قال:" كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم، وعلي رضي الله عنه يومئذ باليمن، فاتاه رجل، فقال: شهدت عليا اتي في ثلاثة نفر ادعوا ولد امراة، فقال علي لاحدهم: تدعه لهذا؟ فابى، وقال لهذا: تدعه لهذا؟ فابى، وقال لهذا: تدعه لهذا؟ فابى، قال علي رضي الله عنه: انتم شركاء متشاكسون، وساقرع بينكم، فايكم اصابته القرعة فهو له، وعليه ثلثا الدية، فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بدت نواجذه" . (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ الْأَجْلَحِ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ:" كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَئِذٍ بِالْيَمَنِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: شَهِدْتُ عَلِيًّا أُتِيَ فِي ثَلَاثَةِ نَفَرٍ ادَّعَوْا وَلَدَ امْرَأَةٍ، فَقَالَ عَلِيٌّ لِأَحَدِهِمْ: تَدَعُهُ لِهَذَا؟ فَأَبَى، وَقَالَ لِهَذَا: تَدَعُهُ لِهَذَا؟ فَأَبَى، وَقَالَ لِهَذَا: تَدَعُهُ لِهَذَا؟ فَأَبَى، قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنْتُمْ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ، وَسَأَقْرَعُ بَيْنَكُمْ، فَأَيُّكُمْ أَصَابَتْهُ الْقُرْعَةُ فَهُوَ لَهُ، وَعَلَيْهِ ثُلُثَا الدِّيَةِ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ" .
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا اور علی رضی اللہ عنہ ان دنوں یمن میں تھے، ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں ایک دن علی رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا، ان کے پاس تین آدمی آئے وہ تینوں ایک عورت کے بیٹے کے دعویدار تھے (کہ یہ بیٹا ہمارا ہے) علی رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک سے کہا: کیا تم ان دونوں کے حق میں اس بیٹے سے دستبردار ہوتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، علی رضی اللہ عنہ نے (دوسرے سے) کہا: کیا تم ان دونوں کے حق میں اس بیٹے سے دستبردار ہوتے ہو؟ کہا: نہیں، اور تیسرے سے کہا: کیا تم ان دونوں کے حق میں اس بیٹے سے دستبردار ہوتے ہو؟ کہا نہیں، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: تم سب آپس میں جھگڑتے اور ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہو، میں تم لوگوں کے درمیان قرعہ اندازی کر دیتا ہوں تو جس کے نام قرعہ نکل آئے لڑکا اسی کا مانا جائے گا اور اسے دیت کا دو تہائی دینا ہو گا (جو لڑکے سے محروم دونوں کو ایک ایک ثلث تہائی کر کے دے دیا جائے گا) یہ قصہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے (اور ایسے زور سے ہنسے) کہ آپ کی داڑھ دکھائی پڑنے لگی۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن شاهين، قال: حدثنا خالد، عن الشيباني، عن الشعبي، عن رجل من حضرموت، عن زيد بن ارقم، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا على اليمن، فاتي بغلام تنازع فيه ثلاثة، وساق الحديث , خالفهم سلمة بن كهيل، (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ شَاهِينٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ حَضْرَمَوْتَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا عَلَى الْيَمَنِ، فَأُتِيَ بِغُلَامٍ تَنَازَعَ فِيهِ ثَلَاثَةٌ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ , خَالَفَهُمْ سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ،
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا۔ ان کے پاس ایک بچہ لایا گیا، جس کا باپ ہونے کے تین دعویدار تھے اور آگے وہی حدیث پوری بیان کر دی (جو پہلے گزر چکی ہے) نسائی کہتے ہیں: «خالفہم سلمۃ بن کہیل» سلمہ بن کہیل نے ان لوگوں کے خلاف روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3519 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مخالفت یہ ہے کہ اوپر کی روایتوں میں سے ایک روایت میں صالح ہمدانی نے، ایک روایت میں اجلح نے اور ایک روایت میں شیبانی نے زید بن ارقم کو سند میں ذکر کر کے حدیث مرفوع بیان کیا ہے لیکن سلمہ بن کہیل نے اپنی روایت میں زید بن ارقم کا ذکر نہیں کیا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن بشار، قال: حدثنا محمد، قال: حدثنا شعبة، عن سلمة بن كهيل، قال: سمعت الشعبي يحدث، عن ابي الخليل او ابن ابي الخليل: ان ثلاثة نفر اشتركوا في طهر , قال: ابو عبد الرحمن: هذا صواب، والله سبحانه وتعالى اعلم. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ أَوْ ابْنِ أَبِي الْخَلِيلِ: أَنَّ ثَلَاثَةَ نَفَرٍ اشْتَرَكُوا فِي طُهْرٍ , قَالَ: أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا صَوَابٌ، وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ.
سلمہ بن کہیل کہتے ہیں کہ میں نے شعبی کو ابوالخیل سے یا ابن ابی الخیل سے بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ تین آدمی (ایک عورت سے) ایک ہی طہر میں (جماع کرنے میں) شریک ہوئے۔ انہوں نے حدیث کو اسی طرح بیان کیا (جیسا کہ اوپر بیان ہوئی) لیکن زید بن ارقم کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی حدیث کو مرفوع روایت کیا ہے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہی صحیح ہے، واللہ أعلم۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة، قالت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل علي مسرورا تبرق اسارير وجهه، فقال:" الم تري ان مجززا نظر إلى زيد بن حارثة واسامة، فقال: إن بعض هذه الاقدام لمن بعض". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيَّ مَسْرُورًا تَبْرُقُ أَسَارِيرُ وَجْهِهِ، فَقَالَ:" أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا نَظَرَ إِلَى زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ وَأُسَامَةَ، فَقَالَ: إِنَّ بَعْضَ هَذِهِ الْأَقْدَامِ لَمِنْ بَعْضٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس خوش خوش آئے، آپ کے چہرے کے خطوط خوشی سے چمک دمک رہے تھے، آپ نے فرمایا: ”ارے تمہیں نہیں معلوم؟ مجزز (قیافہ شناس ہے) نے زید بن حارثہ اور اسامہ کو دیکھا تو کہنے لگا: ان کے پیروں کے بعض حصے ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خوش ہونے کا سبب یہ تھا کہ لوگ اسامہ رضی الله عنہ کے نسب میں شک و شبہ کرتے تھے کہ زید رضی الله عنہ گورے ہیں اور اسامہ رضی الله عنہ کالے ہیں، ساتھ ہی یہ لوگ قیافہ شناس کی بات پر اعتماد بھی کرتے تھے اور جب قیافہ شناس نے یہ کہہ دیا کہ اسامہ کا نسبی تعلق زید سے ہے تو آپ بےحد خوش ہوئے کیونکہ قیافہ شناس کی بات سن کر لوگ اب اسامہ کے سلسلہ میں طعن و تشنیع سے کام نہیں لیں گے، قیافہ شناس کی بات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خوش ہونا دلیل ہے اس بات کی کہ قیافہ سے نسب کا اثبات صحیح ہے، جمہور کا یہی مسلک ہے۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا سفيان، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم مسرورا، فقال:" يا عائشة، الم تري ان مجززا المدلجي دخل علي وعندي اسامة بن زيد، فراى اسامة بن زيد، وزيدا، وعليهما قطيفة، وقد غطيا رءوسهما، وبدت اقدامهما، فقال: هذه اقدام بعضها من بعض". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ مَسْرُورًا، فَقَالَ:" يَا عَائِشَةُ، أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا الْمُدْلِجِيَّ دَخَلَ عَلَيَّ وَعِنْدِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، فَرَأَى أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، وَزَيْدًا، وَعَلَيْهِمَا قَطِيفَةٌ، وَقَدْ غَطَّيَا رُءُوسَهُمَا، وَبَدَتْ أَقْدَامُهُمَا، فَقَالَ: هَذِهِ أَقْدَامٌ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس خوش خوش آئے اور کہا: عائشہ! ارے تم نے نہیں دیکھا مجزز مدلجی (قیافہ شناس) میرے پاس آیا اور (اس وقت) میرے پاس اسامہ بن زید تھے، اس نے اسامہ بن زید اور (ان کے والد) زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما دونوں کو دیکھا، ان کے اوپر ایک چھوردار چادر پڑی ہوئی تھی جس سے وہ دونوں اپنا سر ڈھانپے ہوئے تھے اور ان کے پیر دکھائی پڑ رہے تھے، اس نے ان کے پیر دیکھ کر کہا: یہ وہ پیر ہیں جن کا بعض بعض سے ہے ۱؎۔
سلمہ انصاری اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے اور ان کی بیوی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا، ان دونوں کا ایک چھوٹا بیٹا جو ابھی بالغ نہیں ہوا تھا آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بٹھا لیا، باپ بھی وہیں تھا اور ماں بھی وہیں تھی۔ آپ نے اسے اختیار دیا (ماں باپ میں سے جس کے ساتھ بھی تو ہونا چاہے اس کے ساتھ ہو جا) اور ساتھ ہی کہا (یعنی دعا کی) اے اللہ اسے ہدایت دے تو وہ باپ کی طرف ہو لیا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطلاق 26 (2244)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 22 (2352)، (تحفة الأشراف: 3594)، مسند احمد (5/446، 447) (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا ابن جريج، قال: اخبرني زياد، عن هلال بن اسامة، عن ابي ميمونة، قال: بينا انا عند ابي هريرة، فقال:" إن امراة جاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: فداك ابي وامي إن زوجي يريد ان يذهب بابني، وقد نفعني وسقاني من بئر ابي عنبة، فجاء زوجها، وقال: من يخاصمني في ابني، فقال:" يا غلام، هذا ابوك وهذه امك، فخذ بيد ايهما شئت، فاخذ بيد امه، فانطلقت به". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي زِيَادٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أُسَامَةَ، عَنْ أَبِي مَيْمُونَةَ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا عِنْدَ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقَالَ:" إِنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي إِنَّ زَوْجِي يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِابْنِي، وَقَدْ نَفَعَنِي وَسَقَانِي مِنْ بِئْرِ أَبِي عِنَبَةَ، فَجَاءَ زَوْجُهَا، وَقَالَ: مَنْ يُخَاصِمُنِي فِي ابْنِي، فَقَالَ:" يَا غُلَامُ، هَذَا أَبُوكَ وَهَذِهِ أُمُّكَ، فَخُذْ بِيَدِ أَيِّهِمَا شِئْتَ، فَأَخَذَ بِيَدِ أُمِّهِ، فَانْطَلَقَتْ بِهِ".
ابومیمونہ کہتے ہیں کہ ہم ایک دن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو انہوں نے بتایا کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! میرا شوہر میرا بیٹا مجھ سے چھین لینا چاہتا ہے جب کہ مجھے اس سے فائدہ (و آرام) ہے، وہ مجھے عنبہ کے کنویں کا پانی (لا کر) پلاتا ہے، (اتنے میں) اس کا شوہر بھی آ گیا اور اس نے کہا: کون میرے بیٹے کے معاملے میں مجھ سے جھگڑا (اور اختلاف) کرتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کے بیٹے سے کہا:) اے لڑکے! یہ تمہارا باپ ہے اور یہ تمہاری ماں ہے، تو تم جس کے ساتھ رہنا چاہو اس کا ہاتھ پکڑ لو چنانچہ اس نے اپنی ماں کا ہاتھ تھام لیا اور وہ اسے اپنے ساتھ لے گئی۔
ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو مارا اور (ایسی مار ماری کہ) اس کا ہاتھ (ہی) توڑ دیا۔ وہ عورت عبداللہ بن ابی کی بیٹی جمیلہ تھی، اس کا بھائی اس کی شکایت لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس کو بلا بھیجا (جب وہ آئے تو) آپ نے ان سے فرمایا: ”تمہاری دی ہوئی جو چیز اس کے پاس ہے اسے لے لو اور اس کا راستہ چھوڑ دو“۱؎ انہوں نے کہا: اچھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (یعنی عورت جمیلہ کو) حکم دیا کہ ایک حیض کی عدت گزار کر اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ ۲؎۔