(مرفوع) اخبرنا محمد بن بشار، قال: حدثنا محمد، قال: حدثنا شعبة، عن سلمة بن كهيل، قال: سمعت الشعبي يحدث، عن ابي الخليل او ابن ابي الخليل: ان ثلاثة نفر اشتركوا في طهر , قال: ابو عبد الرحمن: هذا صواب، والله سبحانه وتعالى اعلم. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ أَوْ ابْنِ أَبِي الْخَلِيلِ: أَنَّ ثَلَاثَةَ نَفَرٍ اشْتَرَكُوا فِي طُهْرٍ , قَالَ: أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا صَوَابٌ، وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ.
سلمہ بن کہیل کہتے ہیں کہ میں نے شعبی کو ابوالخیل سے یا ابن ابی الخیل سے بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ تین آدمی (ایک عورت سے) ایک ہی طہر میں (جماع کرنے میں) شریک ہوئے۔ انہوں نے حدیث کو اسی طرح بیان کیا (جیسا کہ اوپر بیان ہوئی) لیکن زید بن ارقم کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی حدیث کو مرفوع روایت کیا ہے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہی صحیح ہے، واللہ أعلم۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3522
اردو حاشہ: اس روایت میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں اور نہ اس میں رسول اللہ ﷺ کا ذکر ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ کے فرمان کے مطابق یہی درست ہے کیونکہ سلمہ بن کہیل باقی (تینوں) سے اوثق ہے‘ لہٰذا ان (تینوں) کی روایت درست نہیں لیکن راجح بات یہ ہے کہ یہ روایت مرفوع اور متصل ہوتی ہے۔ اوثق راوی کی مخالفت کا اعتبار تب ہوتا ہے جب کوئی وجہ اختلاف بھی ہو لیکن یہاں کوئی وجہ اختلاف سمجھ میں نہیں آتی‘ اس لیے صالح ہمدانی کی روایت بھی صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3522