انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک تمہاری یہ آگ جہنم کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے، اور اگر یہ دو مرتبہ پانی سے نہ بجھائی جاتی تو تم اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے، اور یہ آگ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہے کہ دوبارہ اس کو جہنم میں نہ ڈالا جائے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1627، ومصباح الزجاجة: 1544) (ضعیف جدا)» (سند میں نفیع ابوداود متروک راوی ہے، لیکن صحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث ثابت ہے، آخری ٹکڑا «وإنها لتدعو الله عز وجل أن لا يعيدها فيها» ثابت نہیں ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا بهذا التمام وصحيح دون قوله وإنها لتدعو
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جدًا نفيع: متروك (تقدم:1485) وله متابعة مردودة عند الحاكم (593/4) وحديث (3265) و مسلم (2843) يُغني عنه۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا عبد الله بن إدريس , عن الاعمش , عن ابي صالح , عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اشتكت النار إلى ربها , فقالت: يا رب , اكل بعضي بعضا , فجعل لها نفسين نفس في الشتاء , ونفس في الصيف , فشدة ما تجدون من البرد من زمهريرها , وشدة ما تجدون من الحر من سمومها". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا , فَقَالَتْ: يَا رَبِّ , أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا , فَجَعَلَ لَهَا نَفَسَيْنِ نَفَسٌ فِي الشِّتَاءِ , وَنَفَسٌ فِي الصَّيْفِ , فَشِدَّةُ مَا تَجِدُونَ مِنَ الْبَرْدِ مِنْ زَمْهَرِيرِهَا , وَشِدَّةُ مَا تَجِدُونَ مِنَ الْحَرِّ مِنْ سَمُومِهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہنم نے اپنے رب سے شکایت کی اور کہا: اے میرے رب! میرے بعض حصہ نے بعض حصے کو کھا لیا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس کو دو سانسیں عطا کیں: ایک سانس سردی میں، دوسری گرمی میں، تو سردی کی جو شدت تم پاتے ہو وہ اسی کی سخت سردی کی وجہ سے ہے، اور جو تم گرمی کی شدت پاتے ہو یہ اس کی گرم ہوا سے ہے“۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہنم ہزار برس تک بھڑکائی گئی تو اس کی آگ سفید ہو گئی، پھر ہزار برس بھڑکائی گئی تو وہ سرخ ہو گئی، پھر ہزار برس بھڑکائی گئی تو وہ سیاہ ہو گئی، اب وہ تاریک رات کی طرح سیاہ ہے“۔
(قدسي) حدثنا الخليل بن عمرو , حدثنا محمد بن سلمة الحراني , عن محمد بن إسحاق , عن حميد الطويل , عن انس بن مالك , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يؤتى يوم القيامة بانعم اهل الدنيا من الكفار , فيقال: اغمسوه في النار غمسة , فيغمس فيها , ثم يقال له: اي فلان , هل اصابك نعيم قط , فيقول: لا ما اصابني نعيم قط , ويؤتى باشد المؤمنين ضرا وبلاء , فيقال: اغمسوه غمسة في الجنة: فيغمس فيها غمسة , فيقال له: اي فلان , هل اصابك ضر قط او بلاء , فيقول: ما اصابني قط ضر ولا بلاء". (قدسي) حَدَّثَنَا الْخَلِيلُ بْنُ عَمْرٍو , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق , عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُؤْتَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَنْعَمِ أَهْلِ الدُّنْيَا مِنَ الْكُفَّارِ , فَيُقَالُ: اغْمِسُوهُ فِي النَّارِ غَمْسَةً , فَيُغْمَسُ فِيهَا , ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: أَيْ فُلَانُ , هَلْ أَصَابَكَ نَعِيمٌ قَطُّ , فَيَقُولُ: لَا مَا أَصَابَنِي نَعِيمٌ قَطُّ , وَيُؤْتَى بِأَشَدِّ الْمُؤْمِنِينَ ضُرًّا وَبَلَاءً , فَيُقَالُ: اغْمِسُوهُ غَمْسَةً فِي الْجَنَّةِ: فَيُغْمَسُ فِيهَا غَمْسَةً , فَيُقَالُ لَهُ: أَيْ فُلَانُ , هَلْ أَصَابَكَ ضُرٌّ قَطُّ أَوْ بَلَاءٌ , فَيَقُولُ: مَا أَصَابَنِي قَطُّ ضُرٌّ وَلَا بَلَاءٌ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن کافروں میں سے وہ شخص لایا جائے گا، جس نے دنیا میں بہت عیش کیا ہو گا، اور کہا جائے گا: اس کو جہنم میں ایک غوطہٰ دو، اس کو ایک غوطہٰ جہنم میں دیا جائے گا، پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ اے فلاں! کیا تم نے کبھی راحت بھی دیکھی ہے؟ وہ کہے گا: نہیں، میں نے کبھی کوئی راحت نہیں دیکھی اور مومنوں میں سے ایک ایسے مومن کو لایا جائے گا، جو سخت تکلیف اور مصیبت میں رہا ہو گا، اس کو جنت کا ایک غوطہٰ دیا جائے گا، پھر اس سے پوچھا جائے گا: کیا تم نے کبھی کوئی تکلیف یا پریشانی دیکھی؟ وہ کہے گا: مجھے کبھی بھی کوئی مصیبت یا تکلیف نہیں پہنچی“۔
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کافر جہنم میں اتنا بھاری بھر کم ہو گا کہ اس کا دانت احد پہاڑ سے بڑا ہو جائے گا، اور اس کا باقی بدن دانت سے اتنا ہی بڑا ہو گا جتنا تمہارا بدن دانت سے بڑا ہوتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4240، ومصباح الزجاجة: 1545) (ضعیف)» (عطیہ العوفی اور محمد بن عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن پہلا ٹکڑا ثابت ہے، «وفضيلة جسده» الخ ثابت نہیں ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف بهذا التمام وصحيح دون قوله وفضيلة
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف ابن أبي ليلى وعطية العوفي: ضعيفان (تقدما:117، 576) ولأصل الحديث شواهد عند مسلم:2408 وأحمد:367/4) وغيرهما بغيرهما هذا المتن۔
عبداللہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں ایک رات ابوبردہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، تو ہمارے پاس حارث بن اقیش رضی اللہ عنہ آئے، اس رات حارث نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں ایسا شخص بھی ہو گا جس کی شفاعت سے مضر قبیلے سے زیادہ لوگ جنت میں جائیں گے، اور میری امت میں سے ایسا شخص ہو گا جو جہنم کے لیے اتنا بڑا ہو جائے گا کہ وہ جہنم کا ایک کونہ ہو جائے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3273، ومصباح الزجاجة: 1546)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/312) (ضعیف)» (سند میں عبد اللہ بن قیس مجہول راوی ہیں، لیکن حدیث کا پہلا ٹکڑا «إن من أمتي من يدخل الجنة بشفاعته أكثر من مضر» صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 4823 و سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2178)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہنمیوں پر رونا آزاد چھوڑ دیا جائے گا، وہ روئیں گے یہاں تک کہ آنسو ختم ہو جائیں گے، پھر وہ خون روئیں گے یہاں تک کہ ان کے چہروں پر گڑھے بن جائیں گے، اگر ان میں کشتیاں چھوڑ دی جائیں تو وہ تیرنے لگیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1690، ومصباح الزجاجة: 1547) (ضعیف)» (سند میں یزید الرقاشی ضعیف راوی ہیں، لیکن مختصرا یہ حدیث مستدرک الحاکم میں عبد اللہ بن قیس سے ثابت ہے، «ثم يبكون الدم حتى يصير في وجوههم كهيئة» (4/605) کا لفظ ثابت نہیں ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف وصح مختصرا دون ذكر قوله ثم يبكون الدم إلى كهيئة الأخدود
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف يزيد الرقاشي: ضعيف (تقدم:431) والأعمش عنعن (تقدم:94) وأخرج الحاكم (605/4) من حديث أبي موسى رفعه: ((إن أهل النار ليبكون حتى لو أجريت السفن في دموعهم لجرت وأنهم ليبكون الدم يعني مكان الدمع)) وصححه وواقفه الذهبي وسنده حسن۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , حدثنا ابن ابي عدي , عن شعبة , عن سليمان , عن مجاهد , عن ابن عباس , قال: قرا رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يايها الذين آمنوا اتقوا الله حق تقاته ولا تموتن إلا وانتم مسلمون سورة آل عمران آية 102 , ولو ان قطرة من الزقوم قطرت في الارض , لافسدت على اهل الدنيا معيشتهم , فكيف بمن ليس له طعام غيره". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ , عَنْ شُعْبَةَ , عَنْ سُلَيْمَانَ , عَنْ مُجَاهِدٍ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ: قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلا تَمُوتُنَّ إِلا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ سورة آل عمران آية 102 , وَلَوْ أَنَّ قَطْرَةً مِنَ الزَّقُّومِ قَطَرَتْ فِي الْأَرْضِ , لَأَفْسَدَتْ عَلَى أَهْلِ الدُّنْيَا مَعِيشَتَهُمْ , فَكَيْفَ بِمَنْ لَيْسَ لَهُ طَعَامٌ غَيْرُهُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت: «يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله حق تقاته ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون»”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو“(آل عمران: ۱۰۲) تلاوت کی اور فرمایا: ”زقوم (تھوہڑ) کا ایک قطرہ (جہنمیوں کی خوراک) زمین پر ٹپک جائے، تو ساری دنیا والوں کی زندگی تباہ کر دے، تو پھر ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جن کے پاس اس کے سوا کوئی کھانا نہ ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/صفة جہنم 4 (2584)، (تحفة الأشراف: 6398)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/301، 338) (ضعیف)» (سلیمان الأعمش مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 782 وضعیف الترغیب و الترھیب: 2159)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہنم کی آگ ابن آدم کے سارے بدن کو کھائے گی سوائے سجدوں کے نشان کے، اللہ تعالیٰ نے آگ پر یہ حرام کیا ہے کہ وہ سجدوں کے نشان کو کھائے“۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا محمد بن بشر , عن محمد بن عمرو , عن ابي سلمة , عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يؤتى بالموت يوم القيامة , فيوقف على الصراط , فيقال: يا اهل الجنة , فيطلعون خائفين وجلين ان يخرجوا من مكانهم الذي هم فيه , ثم يقال: يا اهل النار , فيطلعون مستبشرين فرحين ان يخرجوا من مكانهم الذي هم فيه , فيقال: هل تعرفون هذا؟ قالوا: نعم , هذا الموت , قال: فيؤمر به فيذبح على الصراط , ثم يقال للفريقين كلاهما: خلود فيما تجدون , لا موت فيها ابدا". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُؤْتَى بِالْمَوْتِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , فَيُوقَفُ عَلَى الصِّرَاطِ , فَيُقَالُ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ , فَيَطَّلِعُونَ خَائِفِينَ وَجِلِينَ أَنْ يُخْرَجُوا مِنْ مَكَانِهِمُ الَّذِي هُمْ فِيهِ , ثُمَّ يُقَالُ: يَا أَهْلَ النَّارِ , فَيَطَّلِعُونَ مُسْتَبْشِرِينَ فَرِحِينَ أَنْ يُخْرَجُوا مِنْ مَكَانِهِمُ الَّذِي هُمْ فِيهِ , فَيُقَالُ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ قَالُوا: نَعَمْ , هَذَا الْمَوْتُ , قَالَ: فَيُؤْمَرُ بِهِ فَيُذْبَحُ عَلَى الصِّرَاطِ , ثُمَّ يُقَالُ لِلْفَرِيقَيْنِ كِلَاهُمَا: خُلُودٌ فِيمَا تَجِدُونَ , لَا مَوْتَ فِيهَا أَبَدًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن موت کو لایا جائے گا، اور پل صراط پر کھڑا کیا جائے گا، پھر کہا جائے گا: اے جنت والو! تو وہ خوف زدہ اور ڈرے ہوئے اوپر چڑھیں گے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کو ان کے مقام سے نکال دیا جائے، پھر پکارا جائے گا: اے جہنم والو! تو وہ خوش خوش اوپر آئیں گے کہ وہ اپنے مقام سے نکالے جا رہے ہیں، پھر کہا جائے گا: کیا تم اس کو جانتے ہو؟ وہ کہیں گے: ہاں، یہ موت ہے، فرمایا: پھر حکم ہو گا تو وہ پل صراط پر ذبح کر دی جائے گی، پھر دونوں گروہوں سے کہا جائے گا: اب دونوں گروہ اپنے اپنے مقام میں ہمیشہ رہیں گے، اور موت کبھی نہیں آئے گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5102، ومصباح الزجاجة: 1548)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الرقاق 50 (6545)، مسند احمد (2/261، 377، 513)، سنن الدارمی/الرقاق 90 (2853) (حسن صحیح)»