سنن ابن ماجه
كتاب الزهد
کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
38. بَابُ : صِفَةِ النَّارِ
باب: جہنم کے احوال و صفات کا بیان۔
حدیث نمبر: 4318
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا أَبِي , وَيَعْلَى , قَالَا , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ , عَنْ نُفَيْعٍ أَبِي دَاوُدَ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ نَارَكُمْ هَذِهِ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءًا مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ , وَلَوْلَا أَنَّهَا أُطْفِئَتْ بِالْمَاءِ مَرَّتَيْنِ مَا انْتَفَعْتُمْ بِهَا , وَإِنَّهَا لَتَدْعُو اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لَا يُعِيدَهَا فِيهَا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک تمہاری یہ آگ جہنم کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے، اور اگر یہ دو مرتبہ پانی سے نہ بجھائی جاتی تو تم اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے، اور یہ آگ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہے کہ دوبارہ اس کو جہنم میں نہ ڈالا جائے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1627، ومصباح الزجاجة: 1544) (ضعیف جدا)» (سند میں نفیع ابوداود متروک راوی ہے، لیکن صحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث ثابت ہے، آخری ٹکڑا «وإنها لتدعو الله عز وجل أن لا يعيدها فيها» ثابت نہیں ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا بهذا التمام وصحيح دون قوله وإنها لتدعو
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جدًا
نفيع: متروك (تقدم:1485) وله متابعة مردودة عند الحاكم (593/4) وحديث (3265) و مسلم (2843) يُغني عنه۔
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 4318 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4318
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
(1)
ستر کا عدد عربی زبان میں کثرت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ھے۔
یعنی جہنم کی آگ دنیا کی آگ کی نسبت بے انتہا گرم ہے اور حقیقی معنی مراد لینا بھی ممکن ہے یعنی اس کی حرارت اس حرارت کا سترواں حصہ ہے۔
(2)
دنیا کی آگ سے جہنم کی آگ کو یاد کرنا چاہیے۔
تاکہ گناھوں سے بچنا ممکن ہو۔
(3)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بخاری و مسلم کی روایت اس سے کفایت کرتی ہے۔
جبکہ اسکی بابت صحیح اور راجح بات یہ معلوم۔
وتی ہےکہ مذکورہ روایت مکمل صحیح نہیں ہے۔
بلکہ اسکا پہلا حصہ تمھاری یہ آگ جہنم کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔
شواہد کی بنا صحیح ہے جبکہ دوسرا حصہ ضعیف ہے کیونکہ اس کا کوئی صحیح شاہد موجود نہیں ہے۔
جیسا کہ دیگر محققین نے اسی طرف اشارہ کیا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (الضعیفة:
رقم: 3208)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4318