مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دجال کے بارے میں جتنے سوالات میں نے کئے ہیں، اتنے کسی اور نے نہیں کئے، (ابن نمیر کی روایت میں یہ الفاظ ہیں «أشد سؤالا مني» یعنی ”مجھ سے زیادہ سوال اور کسی نے نہیں کئے“، آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”تم اس کے بارے میں کیا پوچھتے ہو“؟ میں نے عرض کیا: لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ کھانا اور پانی ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ پر وہ اس سے بھی زیادہ آسان ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اللہ تعالیٰ پر یہ بات دجال سے زیادہ آسان ہے، یعنی جب اس نے دجال کو پیدا کر دیا تو اس کو کھانا پانی دینا کیا مشکل ہے، صحیحین کی روایت میں ہے کہ میں نے عرض کیا: لوگ کہتے ہیں کہ اس کے پاس روٹی کا پہاڑ ہو گا اور پانی کی نہریں ہوں گی، تب آپ نے یہ فرمایا: اور ممکن ہے کہ حدیث کا ترجمہ یوں کیا جائے کہ اللہ تعالی پر یہ بات آسان ہے دجال سے زیادہ یعنی جب اس نے دجال کو پیدا کر دیا تو اس کو کھانا پانی دینا کیا مشکل ہے، اور بعضوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ دجال ذلیل ہے، اللہ تعالی کے نزدیک اس سے کہ ان چیزوں کے ذریعے سے اس کی تصدیق کی جائے کیونکہ اس کی پیشانی اور آنکھ پر اس کے جھوٹے ہونے کی نشانی ظاہر ہوگی، واللہ اعلم۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير , حدثنا ابي , حدثنا إسماعيل بن ابي خالد , عن مجالد , عن الشعبي , عن فاطمة بنت قيس , قالت: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم , وصعد المنبر , وكان لا يصعد عليه , قبل ذلك إلا يوم الجمعة , فاشتد ذلك على الناس , فمن بين قائم وجالس , فاشار إليهم بيده ان اقعدوا:" فإني والله ما قمت مقامي هذا لامر ينفعكم , لرغبة ولا لرهبة , ولكن تميما الداري , اتاني فاخبرني خبرا منعني القيلولة , من الفرح وقرة العين , فاحببت ان انشر عليكم فرح نبيكم , الا إن ابن عم لتميم الداري اخبرني ان الريح الجاتهم إلى جزيرة لا يعرفونها , فقعدوا في قوارب السفينة , فخرجوا فيها , فإذا هم بشيء اهدب اسود , قالوا له: ما انت؟ قال: انا الجساسة , قالوا: اخبرينا , قالت: ما انا بمخبرتكم شيئا , ولا سائلتكم , ولكن هذا الدير قد رمقتموه فاتوه , فإن فيه رجلا بالاشواق إلى ان تخبروه ويخبركم , فاتوه فدخلوا عليه , فإذا هم بشيخ موثق شديد الوثاق , يظهر الحزن شديد التشكي , فقال لهم: من اين؟ قالوا: من الشام , قال: ما فعلت العرب؟ قالوا: نحن قوم من العرب , عم تسال؟ قال: ما فعل هذا الرجل الذي خرج فيكم , قالوا: خيرا , ناوى قوما , فاظهره الله عليهم , فامرهم اليوم جميع إلههم واحد ودينهم واحد , قال: ما فعلت عين زغر؟ قالوا: خيرا , يسقون منها زروعهم ويستقون منها لسقيهم , قال: فما فعل نخل بين عمان وبيسان؟ قالوا: يطعم ثمره كل عام , قال: فما فعلت بحيرة الطبرية؟ قالوا: تدفق جنباتها من كثرة الماء , قال: فزفر ثلاث زفرات , ثم قال: لو انفلت من وثاقي هذا , لم ادع ارضا إلا وطئتها برجلي هاتين , إلا طيبة , ليس لي عليها سبيل" , قال النبي صلى الله عليه وسلم:" إلى هذا ينتهي فرحي , هذه طيبة , والذي نفسي بيده ما فيها طريق ضيق , ولا واسع ولا سهل ولا جبل , إلا وعليه ملك شاهر سيفه إلى يوم القيامة". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا أَبِي , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ , عَنْ مُجَالِدٍ , عَنْ الشَّعْبِيِّ , عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ , قَالَتْ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ , وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ , وَكَانَ لَا يَصْعَدُ عَلَيْهِ , قَبْلَ ذَلِكَ إِلَّا يَوْمَ الْجُمُعَةِ , فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ , فَمِنْ بَيْنِ قَائِمٍ وَجَالِسٍ , فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ بِيَدِهِ أَنِ اقْعُدُوا:" فَإِنِّي وَاللَّهِ مَا قُمْتُ مَقَامِي هَذَا لِأَمْرٍ يَنْفَعُكُمْ , لِرَغْبَةٍ وَلَا لِرَهْبَةٍ , وَلَكِنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ , أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي خَبَرًا مَنَعَنِي الْقَيْلُولَةَ , مِنَ الْفَرَحِ وَقُرَّةِ الْعَيْنِ , فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَنْشُرَ عَلَيْكُمْ فَرَحَ نَبِيِّكُمْ , أَلَا إِنَّ ابْنَ عَمٍّ لِتَمِيمٍ الدَّارِيِّ أَخْبَرَنِي أَنَّ الرِّيحَ أَلْجَأَتْهُمْ إِلَى جَزِيرَةٍ لَا يَعْرِفُونَهَا , فَقَعَدُوا فِي قَوَارِبِ السَّفِينَةِ , فَخَرَجُوا فِيهَا , فَإِذَا هُمْ بِشَيْءٍ أَهْدَبَ أَسْوَدَ , قَالُوا لَهُ: مَا أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ , قَالُوا: أَخْبِرِينَا , قَالَتْ: مَا أَنَا بِمُخْبِرَتِكُمْ شَيْئًا , وَلَا سَائِلَتِكُمْ , وَلَكِنْ هَذَا الدَّيْرُ قَدْ رَمَقْتُمُوهُ فَأْتُوهُ , فَإِنَّ فِيهِ رَجُلًا بِالْأَشْوَاقِ إِلَى أَنْ تُخْبِرُوهُ وَيُخْبِرَكُمْ , فَأَتَوْهُ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ , فَإِذَا هُمْ بِشَيْخٍ مُوثَقٍ شَدِيدِ الْوَثَاقِ , يُظْهِرُ الْحُزْنَ شَدِيدِ التَّشَكِّي , فَقَالَ لَهُمْ: مِنْ أَيْنَ؟ قَالُوا: مِنْ الشَّامِ , قَالَ: مَا فَعَلَتْ الْعَرَبُ؟ قَالُوا: نَحْنُ قَوْمٌ مِنْ الْعَرَبِ , عَمَّ تَسْأَلُ؟ قَالَ: مَا فَعَلَ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي خَرَجَ فِيكُمْ , قَالُوا: خَيْرًا , نَاوَى قَوْمًا , فَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ , فَأَمْرُهُمُ الْيَوْمَ جَمِيعٌ إِلَهُهُمْ وَاحِدٌ وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ , قَالَ: مَا فَعَلَتْ عَيْنُ زُغَرَ؟ قَالُوا: خَيْرًا , يَسْقُونَ مِنْهَا زُرُوعَهُمْ وَيَسْتَقُونَ مِنْهَا لِسَقْيِهِمْ , قَالَ: فَمَا فَعَلَ نَخْلٌ بَيْنَ عَمَّانَ وَبَيْسَانَ؟ قَالُوا: يُطْعِمُ ثَمَرَهُ كُلَّ عَامٍ , قَالَ: فَمَا فَعَلَتْ بُحَيْرَةُ الطَّبَرِيَّةِ؟ قَالُوا: تَدَفَّقُ جَنَبَاتُهَا مِنْ كَثْرَةِ الْمَاءِ , قَالَ: فَزَفَرَ ثَلَاثَ زَفَرَاتٍ , ثُمَّ قَالَ: لَوِ انْفَلَتُّ مِنْ وَثَاقِي هَذَا , لَمْ أَدَعْ أَرْضًا إِلَّا وَطِئْتُهَا بِرِجْلَيَّ هَاتَيْنِ , إِلَّا طَيْبَةَ , لَيْسَ لِي عَلَيْهَا سَبِيلٌ" , قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِلَى هَذَا يَنْتَهِي فَرَحِي , هَذِهِ طَيْبَةُ , وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا فِيهَا طَرِيقٌ ضَيِّقٌ , وَلَا وَاسِعٌ وَلَا سَهْلٌ وَلَا جَبَلٌ , إِلَّا وَعَلَيْهِ مَلَكٌ شَاهِرٌ سَيْفَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ".
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز پڑھائی، اور منبر پر تشریف لے گئے، اور اس سے پہلے جمعہ کے علاوہ آپ منبر پر تشریف نہ لے جاتے تھے، لوگوں کو اس سے پریشانی ہوئی، کچھ لوگ آپ کے سامنے کھڑے تھے کچھ بیٹھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں منبر پر اس لیے نہیں چڑھا ہوں کہ کوئی ایسی بات کہوں جو تمہیں کسی رغبت یا دہشت والے کام کا فائدہ دے، بلکہ بات یہ ہے کہ میرے پاس تمیم داری آئے، اور انہوں نے مجھے ایک خبر سنائی (جس سے مجھے اتنی مسرت ہوئی کہ خوشی کی وجہ سے میں قیلولہ نہ کر سکا، میں نے چاہا کہ تمہارے نبی کی خوشی کو تم پر بھی ظاہر کر دوں)، سنو! تمیم داری کے ایک چچا زاد بھائی نے مجھ سے یہ واقعہ بیان کیا کہ (ایک سمندری سفر میں) ہوا ان کو ایک جزیرے کی طرف لے گئی جس کو وہ پہچانتے نہ تھے، یہ لوگ چھوٹی چھوٹی کشتیوں پر سوار ہو کر اس جزیرے میں گئے، انہیں وہاں ایک کالے رنگ کی چیز نظر آئی، جس کے جسم پر کثرت سے بال تھے، انہوں نے اس سے پوچھا: تو کون ہے؟ اس نے کہا: میں جساسہ (دجال کی جاسوس) ہوں، ان لوگوں نے کہا: تو ہمیں کچھ بتا، اس نے کہا: (نہ میں تمہیں کچھ بتاؤں گی، نہ کچھ تم سے پوچھوں گی)، لیکن تم اس دیر (راہبوں کے مسکن) میں جسے تم دیکھ رہے ہو جاؤ، وہاں ایک شخص ہے جو اس بات کا خواہشمند ہے کہ تم اسے خبر بتاؤ اور وہ تمہیں بتائے، کہا: ٹھیک ہے، یہ سن کر وہ لوگ اس کے پاس آئے، اس گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں ایک بوڑھا شخص زنجیروں میں سخت جکڑا ہوا (رنج و غم کا اظہار کر رہا ہے، اور اپنا دکھ درد سنانے کے لیے بے چین ہے) تو اس نے ان لوگوں سے پوچھا: تم کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: شام سے، اس نے پوچھا: عرب کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ہم عرب لوگ ہیں، تم کس کے بارے میں پوچھ رہے ہو؟ اس نے پوچھا: اس شخص کا کیا حال ہے (یعنی محمد کا) جو تم لوگوں میں ظاہر ہوا؟ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، اس نے قوم سے دشمنی کی، پھر اللہ نے اسے ان پر غلبہ عطا کیا، تو آج ان میں اجتماعیت ہے، ان کا معبود ایک ہے، ان کا دین ایک ہے، پھر اس نے پوچھا: زغر (شام میں ایک گاؤں) کے چشمے کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، لوگ اس سے اپنے کھیتوں کو پانی دیتے ہیں، اور پینے کے لیے بھی اس میں سے پانی لیتے ہیں، پھر اس نے پوچھا: (عمان اور بیسان (ملک شام کے دو شہر کے درمیان) کھجور کے درختوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ہر سال وہ اپنا پھل کھلا رہے ہیں، اس نے پوچھا: طبریہ کے نالے کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: اس کے دونوں کناروں پر پانی خوب زور و شور سے بہ رہا ہے، یہ سن کر اس شخص نے تین آہیں بھریں) پھر کہا: اگر میں اس قید سے چھوٹا تو میں اپنے پاؤں سے چل کر زمین کے چپہ چپہ کا گشت لگاؤں گا، کوئی گوشہ مجھ سے باقی نہ رہے گا سوائے طیبہ (مدینہ) کے، وہاں میرے جانے کی کوئی سبیل نہ ہو گی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ سن کر مجھے بےحد خوشی ہوئی، طیبہ یہی شہر (مدینہ) ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مدینہ کے ہر تنگ و کشادہ اور نیچے اونچے راستوں پر ننگی تلوار لیے ایک فرشتہ متعین ہے جو قیامت تک پہرہ دیتا رہے گا“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الملاحم 15 (4326، 4327)، سنن الترمذی/الفتن 66 (2253)، (تحفة الأشراف: 18024)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/373، 374، 411، 412، 415، 416، 418) (صحیح)» (سند میں مجالد بن سعید ضعیف راوی ہیں، لیکن متن حدیث صحیح ہے، صرف وہ جملے ضعیف ہیں، جو اس طرح گھیر دئے گئے ہیں، صحیح مسلم کتاب الفتن 24؍ 2942 میں یہ حدیث ہلالین میں محصور جملوں کے علاوہ آئی ہے، جیسا کہ اوپر گزرا۔
وضاحت: ۱؎: اور دجال کو وہاں آنے سے روکے گا، دوسری روایت میں ہے کہ دجال احد پہاڑ تک آئے گا، پھر ملائکہ اس کا رخ پھیر دیں گے، صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ زنجیر میں جکڑے اس شخص نے کہا: مجھ سے امیوں (یعنی ان پڑھوں) کے نبی کا حال بیان کرو، ہم نے کہا: وہ مکہ سے نکل کر مدینہ گئے ہیں، اس نے کہا:کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے؟ ہم نے کہا: ہاں، لڑے، اس نے کہا: پھر نبی نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ ہم نے اسے بتلایا کہ وہ اپنے گرد و پیش عربوں پر غالب آ گئے ہیں اور انہوں نے اس رسول (ﷺ) کی اطاعت اختیار کر لی ہے، اس نے پوچھا کیا یہ بات ہو چکی ہے؟ ہم نے کہا: ہاں، یہ بات ہو چکی، اس نے کہا: سن لو! یہ بات ان کے حق میں بہتر ہے کہ وہ اس کے رسول کے تابعدار ہوں، البتہ میں تم سے اپنا حال بیان کرتا ہوں کہ میں مسیح دجال ہوں، اور وہ زمانہ قریب ہے کہ جب مجھے خروج کی اجازت (اللہ کی طرف سے) دے دی جائے گی، البتہ اس میں یہ ہے کہ مکہ اور طیبہ (مدینہ) کو چھوڑ کر میں کوئی ایسی بستی نہیں چھوڑوں گا جہاں میں نہ جاؤں، وہ دونوں مجھ پر حرام ہیں، جب میں ان دونوں میں کہیں سے جانا چاہوں گا تو ایک فرشتہ ننگی تلوار لے کر مجھے اس سے روکے گا، اور وہاں ہر راستے پر چوکیدار فرشتے ہیں، یہ فرما کر آپ ﷺ نے اپنی چھڑی منبر پر ماری، اور فرمایا: طیبہ یہی ہے، یعنی مدینہ اور میں نے تم سے دجال کا حال نہیں بیان کیا تھا کہ وہ مدینہ میں نہ آئے گا؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، آپ ﷺ نے بیان کیا تھا پھر آپ نے فرمایا: شام کے سمندر میں ہے، یا یمن کے سمندر میں، نہیں، بلکہ مشرق کی طرف اور ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن: باب: قصۃ الجساسۃ)
قال الشيخ الألباني: ضعيف السند صحيح المتن دون الجمل التالية منعني القيلولة من الفرح وقرة العين فأحببت أن أنشر عليكم فرح نبيكم , ما أنا بمخبرتكم شيئا ولا سائلتكم , يظهر الحزن شديد التشكي , بين عمان , فزفر ثلاث زفرات , إلى هذا ينتهي فرحي
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (4327) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 522
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار , حدثنا يحيى بن حمزة , حدثنا عبد الرحمن بن يزيد بن جابر , حدثني عبد الرحمن بن جبير بن نفير , حدثني ابي , انه سمع النواس بن سمعان الكلابي , يقول: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم الدجال الغداة , فخفض فيه ورفع , حتى ظننا انه في طائفة النخل , فلما رحنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم عرف ذلك فينا , فقال:" ما شانكم؟" , فقلنا: يا رسول الله , ذكرت الدجال الغداة , فخفضت فيه ثم رفعت , حتى ظننا انه في طائفة النخل , قال:" غير الدجال اخوفني عليكم , إن يخرج وانا فيكم فانا حجيجه دونكم , وإن يخرج ولست فيكم فامرؤ حجيج نفسه , والله خليفتي على كل مسلم , إنه شاب قطط , عينه قائمة , كاني اشبهه بعبد العزى بن قطن , فمن رآه منكم فليقرا عليه فواتح سورة الكهف , إنه يخرج من خلة بين الشام , والعراق , فعاث يمينا , وعاث شمالا , يا عباد الله , اثبتوا" , قلنا: يا رسول الله , وما لبثه في الارض؟ قال:" اربعون يوما , يوم كسنة , ويوم كشهر , ويوم كجمعة , وسائر ايامه كايامكم" , قلنا: يا رسول الله , فذلك اليوم الذي كسنة تكفينا فيه صلاة يوم؟ قال:" فاقدروا له قدرا" , قال: قلنا: فما إسراعه في الارض؟ قال:" كالغيث اشتد به الريح" , قال:" فياتي القوم فيدعوهم فيستجيبون له , ويؤمنون به , فيامر السماء ان تمطر فتمطر , ويامر الارض ان تنبت فتنبت , وتروح عليهم سارحتهم اطول ما كانت ذرى , واسبغه ضروعا , وامده خواصر , ثم ياتي القوم فيدعوهم فيردون عليه قوله , فينصرف عنهم , فيصبحون ممحلين ما بايديهم شيء , ثم يمر بالخربة , فيقول لها: اخرجي كنوزك , فينطلق , فتتبعه كنوزها كيعاسيب النحل , ثم يدعو رجلا ممتلئا شبابا , فيضربه بالسيف ضربة فيقطعه جزلتين رمية الغرض , ثم يدعوه فيقبل يتهلل وجهه يضحك , فبينما هم كذلك إذ بعث الله عيسى ابن مريم , فينزل عند المنارة البيضاء شرقي دمشق بين مهرودتين , واضعا كفيه على اجنحة ملكين , إذا طاطا راسه قطر , وإذا رفعه ينحدر منه جمان كاللؤلؤ , ولا يحل لكافر ان يجد ريح نفسه , إلا مات ونفسه ينتهي حيث ينتهي طرفه , فينطلق حتى يدركه عند باب لد فيقتله , ثم ياتي نبي الله عيسى قوما قد عصمهم الله , فيمسح وجوههم , ويحدثهم بدرجاتهم في الجنة , فبينما هم كذلك , إذ اوحى الله إليه: يا عيسى , إني قد اخرجت عبادا لي لا يدان لاحد بقتالهم , واحرز عبادي إلى الطور , ويبعث الله ياجوج وماجوج , وهم كما قال الله: من كل حدب ينسلون سورة الانبياء آية 96 , فيمر اوائلهم على بحيرة الطبرية , فيشربون ما فيها , ثم يمر آخرهم , فيقولون: لقد كان في هذا ماء مرة , ويحضر نبي الله واصحابه حتى يكون راس الثور لاحدهم خيرا من مائة دينار لاحدكم اليوم , فيرغب نبي الله عيسى واصحابه إلى الله , فيرسل الله عليهم النغف في رقابهم , فيصبحون فرسى كموت نفس واحدة , ويهبط نبي الله عيسى واصحابه , فلا يجدون موضع شبر إلا قد ملاه زهمهم , ونتنهم , ودماؤهم , فيرغبون إلى الله , فيرسل عليهم طيرا كاعناق البخت , فتحملهم فتطرحهم حيث شاء الله , ثم يرسل الله عليهم مطرا لا يكن منه بيت مدر , ولا وبر فيغسله , حتى يتركه كالزلقة , ثم يقال للارض انبتي ثمرتك , وردي بركتك , فيومئذ تاكل العصابة من الرمانة فتشبعهم , ويستظلون بقحفها , ويبارك الله في الرسل , حتى إن اللقحة من الإبل تكفي الفئام من الناس , واللقحة من البقر تكفي القبيلة , واللقحة من الغنم تكفي الفخذ , فبينما هم كذلك إذ بعث الله عليهم ريحا طيبة , فتاخذ تحت آباطهم فتقبض روح كل مسلم , ويبقى سائر الناس يتهارجون كما تتهارج الحمر , , فعليهم تقوم الساعة". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ , حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ , حَدَّثَنِي أَبِي , أَنَّهُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْكِلَابِيَّ , يَقُولُ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ الْغَدَاةَ , فَخَفَضَ فِيهِ وَرَفَعَ , حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ , فَلَمَّا رُحْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَفَ ذَلِكَ فِينَا , فَقَالَ:" مَا شَأْنُكُمْ؟" , فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ الْغَدَاةَ , فَخَفَضْتَ فِيهِ ثُمَّ رَفَعْتَ , حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ , قَالَ:" غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْكُمْ , إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ , وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ , وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ , إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ , عَيْنُهُ قَائِمَةٌ , كَأَنِّي أُشَبِّهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ , فَمَنْ رَآهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ , إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ خَلَّةٍ بَيْنَ الشَّامِ , وَالْعِرَاقِ , فَعَاثَ يَمِينًا , وَعَاثَ شِمَالًا , يَا عِبَادَ اللَّهِ , اثْبُتُوا" , قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَمَا لُبْثُهُ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ:" أَرْبَعُونَ يَوْمًا , يَوْمٌ كَسَنَةٍ , وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ , وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ , وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ" , قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَسَنَةٍ تَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ؟ قَالَ:" فَاقْدُرُوا لَهُ قَدْرًا" , قَالَ: قُلْنَا: فَمَا إِسْرَاعُهُ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ:" كَالْغَيْثِ اشْتَدَّ بِهِ الرِّيحُ" , قَالَ:" فَيَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ , وَيُؤْمِنُونَ بِهِ , فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ , وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ , وَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ أَطْوَلَ مَا كَانَتْ ذُرًى , وَأَسْبَغَهُ ضُرُوعًا , وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ , ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ , فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ , فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ مَا بِأَيْدِيهِمْ شَيْءٌ , ثُمَّ يَمُرَّ بِالْخَرِبَةِ , فَيَقُولُ لَهَا: أَخْرِجِي كُنُوزَكِ , فَيَنْطَلِقُ , فَتَتْبَعُهُ كُنُوزُهَا كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ , ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا مُمْتَلِئًا شَبَابًا , فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ ضَرْبَةً فَيَقْطَعُهُ جِزْلَتَيْنِ رَمْيَةَ الْغَرَضِ , ثُمَّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ يَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ يَضْحَكُ , فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ , فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ , وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ , إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ , وَإِذَا رَفَعَهُ يَنْحَدِرُ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ , وَلَا يَحِلُّ لِكَافِرٍ أَنْ يَجِدُ رِيحَ نَفَسِهِ , إِلَّا مَاتَ وَنَفَسُهُ يَنْتَهِي حَيْثُ يَنْتَهِي طَرَفُهُ , فَيَنْطَلِقُ حَتَّى يُدْرِكَهُ عِنْدَ بَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلُهُ , ثُمَّ يَأْتِي نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى قَوْمًا قَدْ عَصَمَهُمُ اللَّهُ , فَيَمْسَحُ وُجُوهَهُمْ , وَيُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ , فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ , إِذْ أَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ: يَا عِيسَى , إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ , وَأَحْرِزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ , وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ , وَهُمْ كَمَا قَالَ اللَّهُ: مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ سورة الأنبياء آية 96 , فَيَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَى بُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ , فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهَا , ثُمَّ يَمُرُّ آخِرُهُمْ , فَيَقُولُونَ: لَقَدْ كَانَ فِي هَذَا مَاءٌ مَرَّةً , وَيَحْضُرُ نَبِيُّ اللَّهِ وَأَصْحَابُهُ حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمُ الْيَوْمَ , فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللَّهِ , فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمُ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ , فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ , وَيَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ , فَلَا يَجِدُونَ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا قَدْ مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ , وَنَتْنُهُمْ , وَدِمَاؤُهُمْ , فَيَرْغَبُونَ إِلَى اللَّهِ , فَيُرْسِلُ عَلَيْهِمْ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ , فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَاءَ اللَّهُ , ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مَطَرًا لَا يُكِنُّ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ , وَلَا وَبَرٍ فَيَغْسِلُهُ , حَتَّى يَتْرُكَهُ كَالزَّلَقَةِ , ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ أَنْبِتِي ثَمَرَتَكِ , وَرُدِّي بَرَكَتَكِ , فَيَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنَ الرِّمَّانَةِ فَتُشْبِعُهُمْ , وَيَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا , وَيُبَارِكُ اللَّهُ فِي الرِّسْلِ , حَتَّى إِنَّ اللِّقْحَةَ مِنَ الْإِبِلِ تَكْفِي الْفِئَامَ مِنَ النَّاسِ , وَاللِّقْحَةَ مِنَ الْبَقَرِ تَكْفِي الْقَبِيلَةَ , وَاللِّقْحَةَ مِنَ الْغَنَمِ تَكْفِي الْفَخِذَ , فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ رِيحًا طَيِّبَةً , فَتَأْخُذُ تَحْتَ آبَاطِهِمْ فَتَقْبِضُ رُوحَ كُلَّ مُسْلِمٍ , وَيَبْقَى سَائِرُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ كَمَا تَتَهَارَجُ الْحُمُرُ , , فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ".
نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(ایک دن) صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کیا تو اس میں آپ نے کبھی بہت دھیما لہجہ استعمال کیا اور کبھی روز سے کہا، آپ کے اس بیان سے ہم یہ محسوس کرنے لگے کہ جیسے وہ انہی کھجوروں میں چھپا ہوا ہے، پھر جب ہم شام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ہمارے چہروں پر خوف کے آثار کو دیکھ کر فرمایا: ”تم لوگوں کا کیا حال ہے“؟ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے جو صبح کے وقت دجال کا ذکر فرمایا تھا اور جس میں آپ نے پہلے دھیما پھر تیز لہجہ استعمال کیا تو اس سے ہمیں یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ وہ انہی کھجوروں کے درختوں میں چھپا ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تم لوگوں پر دجال کے علاوہ اوروں کا زیادہ ڈر ہے، اگر دجال میری زندگی میں ظاہر ہوا تو میں تم سب کی جانب سے اس کا مقابلہ کروں گا، اور اگر میرے بعد ظاہر ہوا تو ہر انسان اس کا مقابلہ خود کرے گا، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ ہے (یعنی ہر مسلمان کا میرے بعد ذمہ دار ہے) دیکھو دجال جوان ہو گا، اس کے بال بہت گھنگریالے ہوں گے، اس کی ایک آنکھ اٹھی ہوئی اونچی ہو گی گویا کہ میں اسے عبدالعزی بن قطن کے مشابہ سمجھتا ہوں، لہٰذا تم میں سے جو کوئی اسے دیکھے اسے چاہیئے کہ اس پر سورۃ الکہف کی ابتدائی آیات پڑھے، دیکھو! دجال کا ظہور عراق اور شام کے درمیانی راستے سے ہو گا، وہ روئے زمین پر دائیں بائیں فساد پھیلاتا پھرے گا، اللہ کے بندو! ایمان پر ثابت قدم رہنا“۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کتنے دنوں تک زمین پر رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چالیس دن تک، ایک دن ایک سال کے برابر، دوسرا دن ایک مہینہ کے اور تیسرا دن ایک ہفتہ کے برابر ہو گا، اور باقی دن تمہارے عام دنوں کی طرح ہوں گے“۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا اس دن میں جو ایک سال کا ہو گا ہمارے لیے ایک دن کی نماز کافی ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(نہیں بلکہ) تم اسی ایک دن کا اندازہ کر کے نماز پڑھ لینا“۔ ہم نے عرض کیا: زمین میں اس کے چلنے کی رفتار آخر کتنی تیز ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بادل کی طرح جس کے پیچھے ہوا ہو، وہ ایک قوم کے پاس آ کر انہیں اپنی الوہیت کی طرف بلائے گا، تو وہ قبول کر لیں گے، اور اس پر ایمان لے آئیں گے، پھر وہ آسمان کو بارش کا حکم دے گا، تو وہ برسے گا، پھر زمین کو سبزہ اگانے کا حکم دے گا تو زمین سبزہ اگائے گی، اور جب اس قوم کے جانور شام کو چر کر واپس آیا کریں گے تو ان کے کوہان پہلے سے اونچے، تھن زیادہ دودھ والے، اور کوکھیں بھری ہوں گی، پہلو بھرے بھرے ہوں گے، پھر وہ ایک دوسری قوم کے پاس جائے گا، اور ان کو اپنی طرف دعوت دے گا، تو وہ اس کی بات نہ مانیں گے، آخر یہ دجال وہاں سے واپس ہو گا، تو صبح کو وہ قوم قحط میں مبتلا ہو گی، اور ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہے گا، پھر دجال ایک ویران جگہ سے گزرے گا، اور اس سے کہے گا: تو اپنے خزانے نکال، وہاں کے خزانے نکل کر اس طرح اس کے ساتھ ہو جائیں گے جیسے شہد کی مکھیاں «یعسوب»(مکھیوں کے بادشاہ) کے پیچھے چلتی ہیں، پھر وہ ایک ہٹے کٹے نوجوان کو بلائے گا، اور تلوار کے ذریعہ اسے ایک ہی وار میں قتل کر کے اس کے دو ٹکڑے کر دے گا، ان دونوں ٹکڑوں میں اتنی دوری کر دے گا جتنی دوری پر تیر جاتا ہے، پھر اس کو بلائے گا تو وہ شخص زندہ ہو کر روشن چہرہ لیے ہنستا ہوا چلا آئے گا، الغرض دجال اور دنیا والے اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم علیہ الصلاۃ والسلام کو بھیجے گا، وہ دمشق کے سفید مشرقی مینار کے پاس دو زرد ہلکے کپڑے پہنے ہوئے اتریں گے، جو زعفران اور ورس سے رنگے ہوئے ہوں گے، اور اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے ہوں گے، جب وہ اپنا سر جھکائیں گے تو سر سے پانی کے قطرے ٹپکیں گے، اور جب سر اٹھائیں گے تو اس سے پانی کے قطرے موتی کی طرح گریں گے، ان کی سانس میں یہ اثر ہو گا کہ جس کافر کو لگ جائے گی وہ مر جائے گا، اور ان کی سانس وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر کام کرے گی۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام چلیں گے یہاں تک کہ اس (دجال) کو باب لد کے پاس پکڑ لیں گے، وہاں اسے قتل کریں گے، پھر دجال کے قتل کے بعد اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں کے پاس آئیں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے دجال کے شر سے بچا رکھا ہو گا، ان کے چہرے پر ہاتھ پھیر کر انہیں تسلی دیں گے، اور ان سے جنت میں ان کے درجات بیان کریں گے، یہ لوگ ابھی اسی کیفیت میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف وحی نازل کرے گا: اے عیسیٰ! میں نے اپنے کچھ ایسے بندے پیدا کئے ہیں جن سے لڑنے کی طاقت کسی میں نہیں، تو میرے بندوں کو طور پہاڑ پر لے جا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کو بھیجے گا، اور وہ لوگ ویسے ہی ہوں گے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «من كل حدب ينسلون»”یہ لوگ ہر ٹیلے پر سے چڑھ دوڑیں گے“(سورة الأنبياء: 96) ان میں کے آگے والے طبریہ کے چشمے پر گزریں گے، تو اس کا سارا پانی پی لیں گے، پھر جب ان کے پچھلے لوگ گزریں گے تو وہ کہیں گے: کسی زمانہ میں اس تالاب کے اندر پانی تھا، اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی طور پہاڑ پر حاضر رہیں گے ۱؎، ان مسلمانوں کے لیے اس وقت بیل کا سر تمہارے آج کے سو دینار سے بہتر ہو گا، پھر اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے، چنانچہ اللہ یاجوج و ماجوج کی گردن میں ایک ایسا پھوڑا نکالے گا، جس میں کیڑے ہوں گے، اس کی وجہ سے (دوسرے دن) صبح کو سب ایسے مرے ہوئے ہوں گے جیسے ایک آدمی مرتا ہے، اور اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی طور پہاڑ سے نیچے اتریں گے اور ایک بالشت کے برابر جگہ نہ پائیں گے، جو ان کی بدبو، خون اور پیپ سے خالی ہو، عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹ کی گردن کی مانند پرندے بھیجے گا جو ان کی لاشوں کو اٹھا کر جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہو گا وہاں پھینک دیں گے، پھر اللہ تعالیٰ (سخت) بارش نازل کرے گا جس سے کوئی پختہ یا غیر پختہ مکان چھوٹنے نہیں پائے گا، یہ بارش ان سب کو دھو ڈالے گی، اور زمین کو آئینہ کی طرح بالکل صاف کر دے گی، پھر زمین سے کہا جائے گا کہ تو اپنے پھل اگا، اور اپنی برکت ظاہر کر، تو اس وقت ایک انار کو ایک جماعت کھا کر آسودہ ہو گی، اور اس انار کے چھلکوں سے سایہ حاصل کریں گے اور دودھ میں اللہ تعالیٰ اتنی برکت دے گا کہ ایک اونٹنی کا دودھ کئی جماعتوں کو کافی ہو گا، اور ایک دودھ دینے والی گائے ایک قبیلہ کے لوگوں کو کافی ہو گی، اور ایک دودھ دینے والی بکری ایک چھوٹے قبیلے کو کافی ہو گی، لوگ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا وہ ان کی بغلوں کے تلے اثر کرے گی اور ہر مسلمان کی روح قبض کرے گی، اور ایسے لوگ باقی رہ جائیں گے جو جھگڑالو ہوں گے، اور گدھوں کی طرح لڑتے جھگڑتے یا اعلانیہ جماع کرتے رہیں گے، تو انہی (شریر) لوگوں پر قیامت قائم ہو گی“۔
وضاحت: ۱؎: اردن پہاڑ جہاں سے عیسیٰ علیہ السلام غائب ہو کر آسمان پر چڑھ گئے تھے، اور دوسرا شخص آپ کی صورت بن کر گیا تو یہودیوں نے اس کو سولی پر چڑھا دیا، یہ مضمون اگرچہ انجیل کے چار مشہور نسخوں میں ہے، لیکن نصاریٰ نے ان میں تحریف کی ہے اور برنباس کی انجیل میں مضمون اسی طرح موجود ہے جیسے قرآن شریف میں ہے، اور اس میں رسول اکرم ﷺ کے پیدا ہونے کی بشارت بھی صاف طور سے موجود ہے، اور آپ کا نام مبارک بھی ہے کہ جب اللہ کے رسول محمد ﷺ آئیں گے تو میرے اوپر سے یہ اتہام رفع ہو گا کہ میں سولی دیا گیا، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں ایک سفید منارہ ۷۴۱ میں وہاں پایا گیا اور یہ آپ کی نبوت کی ایک بڑی نشانی ہے، اور رسول اکرم ﷺ نے ایسی بہت ساری باتوں کی پیش گوئی کی ہے جو آپ کے عہد میں نہ تھیں من جملہ ان میں سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن جمع کیا کہ میرے ساتھ وہ لوگ بہت محبت کریں گے جو میرے بعد میرے اوپر ایمان لائیں گے، اور جو کچھ ورق (یعنی مصحف) میں ہو گا اس پر عمل کریں گے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پہلے میں نے ورق کو نہیں سمجھا تھا، جب عثمان رضی اللہ عنہ نے مصحف لکھوائے تو میں نے ورق کا معنی سمجھا، عثمان رضی اللہ عنہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کے بیان کرنے پر دس ہزار درہم دیئے، اور بعض حدیثوں میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام بیت المقدس میں اتریں گے اور بعض میں ہے کہ مسلمانوں کے لشکر میں لیکن بیت المقدس کی روایت بہت مشہور ہے، اور اردن اس سارے محلہ کا نام ہے جہاں پر بیت المقدس ہے، اور اگر وہاں اب سفید مینار نہیں ہے تو آئندہ بن جائے گا اور جس نے صحیح حدیث کا انکار کیا وہ جاہل اور گمراہ ہے۔
نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہے کہ مسلمان یاجوج و ماجوج کے تیر، کمان، اور ڈھال کو سات سال تک جلائیں گے“۔
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد , حدثنا عبد الرحمن المحاربي , عن إسماعيل بن رافع ابي رافع , عن ابي زرعة السيباني يحيى بن ابي عمرو , عن عمرو بن عبد الله , عن ابي امامة الباهلي , قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم , فكان اكثر خطبته حديثا حدثناه عن الدجال وحذرناه , فكان من قوله ان قال:" إنه لم تكن فتنة في الارض منذ ذرا الله ذرية آدم اعظم من فتنة الدجال , وإن الله لم يبعث نبيا إلا حذر امته الدجال , وانا آخر الانبياء , وانتم آخر الامم , وهو خارج فيكم لا محالة , وإن يخرج وانا بين ظهرانيكم , فانا حجيج لكل مسلم , وإن يخرج من بعدي , فكل امرئ حجيج نفسه , والله خليفتي على كل مسلم , وإنه يخرج من خلة بين الشام والعراق , فيعيث يمينا , ويعيث شمالا , يا عباد الله , ايها الناس فاثبتوا , فإني ساصفه لكم صفة لم يصفها إياه نبي قبلي , إنه يبدا , فيقول: انا نبي ولا نبي بعدي , ثم يثني , فيقول: انا ربكم , ولا ترون ربكم حتى تموتوا , وإنه اعور , وإن ربكم ليس باعور , وإنه مكتوب بين عينيه كافر , يقرؤه كل مؤمن كاتب او غير كاتب , وإن من فتنته ان معه جنة ونارا , فناره جنة وجنته نار , فمن ابتلي بناره فليستغث بالله وليقرا فواتح الكهف , فتكون عليه بردا وسلاما , كما كانت النار على إبراهيم , وإن من فتنته ان يقول , لاعرابي: ارايت إن بعثت لك اباك وامك , اتشهد اني ربك؟ فيقول: نعم , فيتمثل له شيطانان في صورة ابيه وامه , فيقولان: يا بني اتبعه فإنه ربك , وإن من فتنته ان يسلط على نفس واحدة , فيقتلها وينشرها بالمنشار , حتى يلقى شقتين , ثم يقول: انظروا إلى عبدي هذا , فإني ابعثه الآن , ثم يزعم ان له ربا غيري , فيبعثه الله , ويقول له الخبيث من ربك: فيقول: ربي الله , وانت عدو الله , انت الدجال , والله ما كنت بعد اشد بصيرة بك مني اليوم" , قال ابو الحسن الطنافسي : فحدثنا المحاربي , حدثنا عبيد الله بن الوليد الوصافي , عن عطية , عن ابي سعيد , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ذلك الرجل ارفع امتي درجة في الجنة" , قال: قال ابو سعيد: والله ما كنا نرى ذلك الرجل إلا عمر بن الخطاب حتى مضى لسبيله , قال المحاربي: ثم رجعنا إلى حديث ابي رافع , قال:" وإن من فتنته ان يامر السماء ان تمطر فتمطر , ويامر الارض ان تنبت فتنبت , وإن من فتنته ان يمر بالحي فيكذبونه , فلا تبقى لهم سائمة إلا هلكت , وإن من فتنته ان يمر بالحي فيصدقونه , فيامر السماء ان تمطر فتمطر , ويامر الارض ان تنبت فتنبت , حتى تروح مواشيهم من يومهم ذلك اسمن ما كانت , واعظمه وامده خواصر , وادره ضروعا , وإنه لا يبقى شيء من الارض إلا وطئه , وظهر عليه إلا مكة والمدينة , لا ياتيهما من نقب من نقابهما , إلا لقيته الملائكة بالسيوف صلتة , حتى ينزل عند الظريب الاحمر عند منقطع السبخة , فترجف المدينة باهلها ثلاث رجفات , فلا يبقى منافق ولا منافقة إلا خرج إليه , فتنفي الخبث منها كما ينفي الكير خبث الحديد , ويدعى ذلك اليوم يوم الخلاص" , فقالت ام شريك بنت ابي العكر: يا رسول الله , فاين العرب يومئذ؟ قال:" هم يومئذ قليل , وجلهم ببيت المقدس , وإمامهم رجل صالح , فبينما إمامهم قد تقدم يصلي بهم الصبح , إذ نزل عليهم عيسى ابن مريم الصبح , فرجع ذلك الإمام ينكص , يمشي القهقرى ليتقدم عيسى يصلي بالناس , فيضع عيسى يده بين كتفيه , ثم يقول له: تقدم فصل , فإنها لك اقيمت , فيصلي بهم إمامهم , فإذا انصرف , قال عيسى عليه السلام: افتحوا الباب , فيفتح ووراءه الدجال معه سبعون الف يهودي , كلهم ذو سيف محلى وساج , فإذا نظر إليه الدجال ذاب كما يذوب الملح في الماء , وينطلق هاربا , ويقول عيسى عليه السلام: إن لي فيك ضربة لن تسبقني بها , فيدركه عند باب اللد الشرقي فيقتله , فيهزم الله اليهود , فلا يبقى شيء مما خلق الله يتوارى به يهودي إلا انطق الله ذلك الشيء , لا حجر , ولا شجر , ولا حائط , ولا دابة إلا الغرقدة , فإنها من شجرهم لا تنطق , إلا قال: يا عبد الله المسلم , هذا يهودي , فتعال اقتله" , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وإن ايامه اربعون سنة , السنة كنصف السنة , والسنة كالشهر , والشهر كالجمعة , وآخر ايامه كالشررة , يصبح احدكم على باب المدينة فلا يبلغ بابها الآخر حتى يمسي" , فقيل له: يا رسول الله , كيف نصلي في تلك الايام القصار؟ قال:" تقدرون فيها الصلاة كما تقدرونها في هذه الايام الطوال , ثم صلوا" , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فيكون عيسى ابن مريم عليه السلام في امتي حكما عدلا , وإماما مقسطا , يدق الصليب , ويذبح الخنزير , ويضع الجزية , ويترك الصدقة , فلا يسعى على شاة ولا بعير , وترفع الشحناء والتباغض , وتنزع حمة كل ذات حمة , حتى يدخل الوليد يده في الحية فلا تضره , وتفر الوليدة الاسد فلا يضرها , ويكون الذئب في الغنم كانه كلبها , وتملا الارض من السلم كما يملا الإناء من الماء , وتكون الكلمة واحدة فلا يعبد إلا الله , وتضع الحرب اوزارها , وتسلب قريش ملكها , وتكون الارض كفاثور الفضة , تنبت نباتها بعهد آدم , حتى يجتمع النفر على القطف من العنب فيشبعهم , ويجتمع النفر على الرمانة فتشبعهم , ويكون الثور بكذا وكذا من المال , وتكون الفرس بالدريهمات" , قالوا: يا رسول الله , وما يرخص الفرس؟ قال:" لا تركب لحرب ابدا" , قيل له: فما يغلي الثور؟ قال:" تحرث الارض كلها , وإن قبل خروج الدجال ثلاث سنوات شداد , يصيب الناس فيها جوع شديد , يامر الله السماء في السنة الاولى ان تحبس ثلث مطرها , ويامر الارض فتحبس ثلث نباتها , ثم يامر السماء في الثانية فتحبس ثلثي مطرها , ويامر الارض فتحبس ثلثي نباتها , ثم يامر الله السماء في السنة الثالثة فتحبس مطرها كله , فلا تقطر قطرة , ويامر الارض فتحبس نباتها كله , فلا تنبت خضراء , فلا تبقى ذات ظلف إلا هلكت إلا ما شاء الله , قيل: فما يعيش الناس في ذلك الزمان؟ قال:" التهليل والتكبير , والتسبيح والتحميد , ويجرى ذلك عليهم مجرى الطعام" , قال ابو عبد الله: سمعت ابا الحسن الطنافسي , يقول: سمعت عبد الرحمن المحاربي , يقول: ينبغي ان يدفع هذا الحديث إلى المؤدب , حتى يعلمه الصبيان في الكتاب. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِيُّ , عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ رَافِعٍ أَبِي رَافِعٍ , عَنْ أَبِي زُرْعَةَ السَّيْبَانِيِّ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو , عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ , قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَكَانَ أَكْثَرُ خُطْبَتِهِ حَدِيثًا حَدَّثَنَاهُ عَنْ الدَّجَّالِ وَحَذَّرَنَاهُ , فَكَانَ مِنْ قَوْلِهِ أَنْ قَالَ:" إِنَّهُ لَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ مُنْذُ ذَرَأَ اللَّهُ ذُرِّيَّةَ آدَمَ أَعْظَمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ , وَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا إِلَّا حَذَّرَ أُمَّتَهُ الدَّجَّالَ , وَأَنَا آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ , وَأَنْتُمْ آخِرُ الْأُمَمِ , وَهُوَ خَارِجٌ فِيكُمْ لَا مَحَالَةَ , وَإِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْكُمْ , فَأَنَا حَجِيجٌ لِكُلِّ مُسْلِمٍ , وَإِنْ يَخْرُجْ مِنْ بَعْدِي , فَكُلُّ امْرِئٍ حَجِيجُ نَفْسِهِ , وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ , وَإِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ خَلَّةٍ بَيْنَ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ , فَيَعِيثُ يَمِينًا , وَيَعِيثُ شِمَالًا , يَا عِبَادَ اللَّهِ , أَيُّها النَّاسُ فَاثْبُتُوا , فَإِنِّي سَأَصِفُهُ لَكُمْ صِفَةً لَمْ يَصِفْهَا إِيَّاهُ نَبِيٌّ قَبْلِي , إِنَّهُ يَبْدَأُ , فَيَقُولُ: أَنَا نَبِيٌّ وَلَا نَبِيَّ بَعْدِي , ثُمَّ يُثَنِّي , فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ , وَلَا تَرَوْنَ رَبَّكُمْ حَتَّى تَمُوتُوا , وَإِنَّهُ أَعْوَرُ , وَإِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ , وَإِنَّهُ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ , يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ كَاتِبٍ أَوْ غَيْرِ كَاتِبٍ , وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنَّ مَعَهُ جَنَّةً وَنَارًا , فَنَارُهُ جَنَّةٌ وَجَنَّتُهُ نَارٌ , فَمَنِ ابْتُلِيَ بِنَارِهِ فَلْيَسْتَغِثْ بِاللَّهِ وَلْيَقْرَأْ فَوَاتِحَ الْكَهْفِ , فَتَكُونَ عَلَيْهِ بَرْدًا وَسَلَامًا , كَمَا كَانَتِ النَّارُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ , وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يَقُولَ , لِأَعْرَابِيٍّ: أَرَأَيْتَ إِنْ بَعَثْتُ لَكَ أَبَاكَ وَأُمَّكَ , أَتَشْهَدُ أَنِّي رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ , فَيَتَمَثَّلُ لَهُ شَيْطَانَانِ فِي صُورَةِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ , فَيَقُولَانِ: يَا بُنَيَّ اتَّبِعْهُ فَإِنَّهُ رَبُّكَ , وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يُسَلَّطَ عَلَى نَفْسٍ وَاحِدَةٍ , فَيَقْتُلَهَا وَيَنْشُرَهَا بِالْمِنْشَارِ , حَتَّى يُلْقَى شِقَّتَيْنِ , ثُمَّ يَقُولَ: انْظُرُوا إِلَى عَبْدِي هَذَا , فَإِنِّي أَبْعَثُهُ الْآنَ , ثُمَّ يَزْعُمُ أَنَّ لَهُ رَبًّا غَيْرِي , فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ , وَيَقُولُ لَهُ الْخَبِيثُ مَنْ رَبُّكَ: فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللَّهُ , وَأَنْتَ عَدُوُّ اللَّهِ , أَنْتَ الدَّجَّالُ , وَاللَّهِ مَا كُنْتُ بَعْدُ أَشَدَّ بَصِيرَةً بِكَ مِنِّي الْيَوْمَ" , قَالَ أَبُو الْحَسَنِ الطَّنَافِسِيُّ : فَحَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ , حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ الْوَصَّافِيُّ , عَنْ عَطِيَّةَ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ذَلِكَ الرَّجُلُ أَرْفَعُ أُمَّتِي دَرَجَةً فِي الْجَنَّةِ" , قَالَ: قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: وَاللَّهِ مَا كُنَّا نُرَى ذَلِكَ الرَّجُلَ إِلَّا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ , قَالَ الْمُحَارِبِيُّ: ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَى حَدِيثِ أَبِي رَافِعٍ , قَالَ:" وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يَأْمُرَ السَّمَاءَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ , وَيَأْمُرَ الْأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ , وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يَمُرَّ بِالْحَيِّ فَيُكَذِّبُونَهُ , فَلَا تَبْقَى لَهُمْ سَائِمَةٌ إِلَّا هَلَكَتْ , وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يَمُرَّ بِالْحَيِّ فَيُصَدِّقُونَهُ , فَيَأْمُرَ السَّمَاءَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ , وَيَأْمُرَ الْأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ , حَتَّى تَرُوحَ مَوَاشِيهِمْ مِنْ يَوْمِهِمْ ذَلِكَ أَسْمَنَ مَا كَانَتْ , وَأَعْظَمَهُ وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ , وَأَدَرَّهُ ضُرُوعًا , وَإِنَّهُ لَا يَبْقَى شَيْءٌ مِنَ الْأَرْضِ إِلَّا وَطِئَهُ , وَظَهَرَ عَلَيْهِ إِلَّا مَكَّةَ وَالْمَدِينَةَ , لَا يَأْتِيهِمَا مِنْ نَقْبٍ مِنْ نِقَابِهِمَا , إِلَّا لَقِيَتْهُ الْمَلَائِكَةُ بِالسُّيُوفِ صَلْتَةً , حَتَّى يَنْزِلَ عِنْدَ الظُّرَيْبِ الْأَحْمَرِ عِنْدَ مُنْقَطَعِ السَّبَخَةِ , فَتَرْجُفُ الْمَدِينَةُ بِأَهْلِهَا ثَلَاثَ رَجَفَاتٍ , فَلَا يَبْقَى مُنَافِقٌ وَلَا مُنَافِقَةٌ إِلَّا خَرَجَ إِلَيْهِ , فَتَنْفِي الْخَبَثَ مِنْهَا كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ , وَيُدْعَى ذَلِكَ الْيَوْمُ يَوْمَ الْخَلَاصِ" , فَقَالَتْ أُمُّ شَرِيكٍ بِنْتُ أَبِي الْعَكَرِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَأَيْنَ الْعَرَبُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ:" هُمْ يَوْمَئِذٍ قَلِيلٌ , وَجُلُّهُمْ بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ , وَإِمَامُهُمْ رَجُلٌ صَالِحٌ , فَبَيْنَمَا إِمَامُهُمْ قَدْ تَقَدَّمَ يُصَلِّي بِهِمُ الصُّبْحَ , إِذْ نَزَلَ عَلَيْهِمْ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ الصُّبْحَ , فَرَجَعَ ذَلِكَ الْإِمَامُ يَنْكُصُ , يَمْشِي الْقَهْقَرَى لِيَتَقَدَّمَ عِيسَى يُصَلِّي بِالنَّاسِ , فَيَضَعُ عِيسَى يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ , ثُمَّ يَقُولُ لَهُ: تَقَدَّمْ فَصَلِّ , فَإِنَّهَا لَكَ أُقِيمَتْ , فَيُصَلِّي بِهِمْ إِمَامُهُمْ , فَإِذَا انْصَرَفَ , قَالَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَام: افْتَحُوا الْبَابَ , فَيُفْتَحُ وَوَرَاءَهُ الدَّجَّالُ مَعَهُ سَبْعُونَ أَلْفَ يَهُودِيٍّ , كُلُّهُمْ ذُو سَيْفٍ مُحَلًّى وَسَاجٍ , فَإِذَا نَظَرَ إِلَيْهِ الدَّجَّالُ ذَابَ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ , وَيَنْطَلِقُ هَارِبًا , وَيَقُولُ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَام: إِنَّ لِي فِيكَ ضَرْبَةً لَنْ تَسْبِقَنِي بِهَا , فَيُدْرِكُهُ عِنْدَ بَابِ اللُّدِّ الشَّرْقِيِّ فَيَقْتُلُهُ , فَيَهْزِمُ اللَّهُ الْيَهُودَ , فَلَا يَبْقَى شَيْءٌ مِمَّا خَلَقَ اللَّهُ يَتَوَارَى بِهِ يَهُودِيٌّ إِلَّا أَنْطَقَ اللَّهُ ذَلِكَ الشَّيْءَ , لَا حَجَرَ , وَلَا شَجَرَ , وَلَا حَائِطَ , وَلَا دَابَّةَ إِلَّا الْغَرْقَدَةَ , فَإِنَّهَا مِنْ شَجَرِهِمْ لَا تَنْطِقُ , إِلَّا قَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ الْمُسْلِمَ , هَذَا يَهُودِيٌّ , فَتَعَالَ اقْتُلْهُ" , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَإِنَّ أَيَّامَهُ أَرْبَعُونَ سَنَةً , السَّنَةُ كَنِصْفِ السَّنَةِ , وَالسَّنَةُ كَالشَّهْرِ , وَالشَّهْرُ كَالْجُمُعَةِ , وَآخِرُ أَيَّامِهِ كَالشَّرَرَةِ , يُصْبِحُ أَحَدُكُمْ عَلَى بَابِ الْمَدِينَةِ فَلَا يَبْلُغُ بَابَهَا الْآخَرَ حَتَّى يُمْسِيَ" , فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , كَيْفَ نُصَلِّي فِي تِلْكَ الْأَيَّامِ الْقِصَارِ؟ قَالَ:" تَقْدُرُونَ فِيهَا الصَّلَاةَ كَمَا تَقْدُرُونَهَا فِي هَذِهِ الْأَيَّامِ الطِّوَالِ , ثُمَّ صَلُّوا" , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَيَكُونُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام فِي أُمَّتِي حَكَمًا عَدْلًا , وَإِمَامًا مُقْسِطًا , يَدُقُّ الصَّلِيبَ , وَيَذْبَحُ الْخِنْزِيرَ , وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ , وَيَتْرُكُ الصَّدَقَةَ , فَلَا يُسْعَى عَلَى شَاةٍ وَلَا بَعِيرٍ , وَتُرْفَعُ الشَّحْنَاءُ وَالتَّبَاغُضُ , وَتُنْزَعُ حُمَةُ كُلِّ ذَاتِ حُمَةٍ , حَتَّى يُدْخِلَ الْوَلِيدُ يَدَهُ فِي الْحَيَّةِ فَلَا تَضُرَّهُ , وَتُفِرَّ الْوَلِيدَةُ الْأَسَدَ فَلَا يَضُرُّهَا , وَيَكُونَ الذِّئْبُ فِي الْغَنَمِ كَأَنَّهُ كَلْبُهَا , وَتُمْلَأُ الْأَرْضُ مِنَ السِّلْمِ كَمَا يُمْلَأُ الْإِنَاءُ مِنَ الْمَاءِ , وَتَكُونُ الْكَلِمَةُ وَاحِدَةً فَلَا يُعْبَدُ إِلَّا اللَّهُ , وَتَضَعُ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا , وَتُسْلَبُ قُرَيْشٌ مُلْكَهَا , وَتَكُونُ الْأَرْضُ كَفَاثُورِ الْفِضَّةِ , تُنْبِتُ نَبَاتَهَا بِعَهْدِ آدَمَ , حَتَّى يَجْتَمِعَ النَّفَرُ عَلَى الْقِطْفِ مِنَ الْعِنَبِ فَيُشْبِعَهُمْ , وَيَجْتَمِعَ النَّفَرُ عَلَى الرُّمَّانَةِ فَتُشْبِعَهُمْ , وَيَكُونَ الثَّوْرُ بِكَذَا وَكَذَا مِنَ الْمَالِ , وَتَكُونَ الْفَرَسُ بِالدُّرَيْهِمَاتِ" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَمَا يُرْخِصُ الْفَرَسَ؟ قَالَ:" لَا تُرْكَبُ لِحَرْبٍ أَبَدًا" , قِيلَ لَهُ: فَمَا يُغْلِي الثَّوْرَ؟ قَالَ:" تُحْرَثُ الْأَرْضُ كُلُّهَا , وَإِنَّ قَبْلَ خُرُوجِ الدَّجَّالِ ثَلَاثَ سَنَوَاتٍ شِدَادٍ , يُصِيبُ النَّاسَ فِيهَا جُوعٌ شَدِيدٌ , يَأْمُرُ اللَّهُ السَّمَاءَ فِي السَّنَةِ الْأُولَى أَنْ تَحْبِسَ ثُلُثَ مَطَرِهَا , وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ فَتَحْبِسُ ثُلُثَ نَبَاتِهَا , ثُمَّ يَأْمُرُ السَّمَاءَ فِي الثَّانِيَةِ فَتَحْبِسُ ثُلُثَيْ مَطَرِهَا , وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ فَتَحْبِسُ ثُلُثَيْ نَبَاتِهَا , ثُمَّ يَأْمُرُ اللَّهُ السَّمَاءَ فِي السَّنَةِ الثَّالِثَةِ فَتَحْبِسُ مَطَرَهَا كُلَّهُ , فَلَا تُقْطِرُ قَطْرَةً , وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ فَتَحْبِسُ نَبَاتَهَا كُلَّهُ , فَلَا تُنْبِتُ خَضْرَاءَ , فَلَا تَبْقَى ذَاتُ ظِلْفٍ إِلَّا هَلَكَتْ إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ , قِيلَ: فَمَا يُعِيشُ النَّاسُ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ؟ قَالَ:" التَّهْلِيلُ وَالتَّكْبِيرُ , وَالتَّسْبِيحُ وَالتَّحْمِيدُ , وَيُجْرَى ذَلِكَ عَلَيْهِمْ مُجْرَى الطَّعَامِ" , قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: سَمِعْت أَبَا الْحَسَنِ الطَّنَافِسِيَّ , يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِيَّ , يَقُولُ: يَنْبَغِي أَنْ يُدْفَعَ هَذَا الْحَدِيثُ إِلَى الْمُؤَدِّبِ , حَتَّى يُعَلِّمَهُ الصِّبْيَانَ فِي الْكُتَّابِ.
ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا، آپ کے خطبے کا اکثر حصہ دجال والی وہ حدیث تھی جو آپ نے ہم سے بیان کی، اور ہم کو اس سے ڈرایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا اس میں یہ بات بھی تھی کہ ”جب سے اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو پیدا کیا ہے اس وقت سے دجال کے فتنے سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس نے اپنی امت کو (فتنہ) دجال سے نہ ڈرایا ہو، میں چونکہ تمام انبیاء علیہم السلام کے اخیر میں ہوں، اور تم بھی آخری امت ہو اس لیے دجال یقینی طور پر تم ہی لوگوں میں ظاہر ہو گا، اگر وہ میری زندگی میں ظاہر ہو گیا تو میں ہر مسلمان کی جانب سے اس کا مقابلہ کروں گا، اور اگر وہ میرے بعد ظاہر ہوا تو ہر شخص خود اپنا بچاؤ کرے گا، اور اللہ تعالیٰ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ ہے، (یعنی اللہ میرے بعد ہر مسلمان کا محافظ ہو گا)، سنو! دجال شام و عراق کے درمیانی راستے سے نکلے گا اور اپنے دائیں بائیں ہر طرف فساد پھیلائے گا، اے اللہ کے بندو! (اس وقت) ایمان پر ثابت قدم رہنا، میں تمہیں اس کی ایک ایسی صفت بتاتا ہوں جو مجھ سے پہلے کسی نبی نے نہیں بتائی، پہلے تو وہ نبوت کا دعویٰ کرے گا، اور کہے گا: ”میں نبی ہوں“، حالانکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے، پھر دوسری بار کہے گا کہ ”میں تمہارا رب ہوں“، حالانکہ تم اپنے رب کو مرنے سے پہلے نہیں دیکھ سکتے، وہ کانا ہو گا، اور تمہارا رب کانا نہیں ہے، وہ ہر عیب سے پاک ہے، اور دجال کی پیشانی پر لفظ ”کافر“ لکھا ہو گا، جسے ہر مومن خواہ پڑھا لکھا ہو یا جاہل پڑھ لے گا۔ اور اس کا ایک فتنہ یہ ہو گا کہ اس کے ساتھ جنت اور جہنم ہو گی، لیکن حقیقت میں اس کی جہنم جنت ہو گی، اور جنت جہنم ہو گی، تو جو اس کی جہنم میں ڈالا جائے، اسے چاہیئے کہ وہ اللہ سے فریاد کرے، اور سورۃ الکہف کی ابتدائی آیات پڑھے تو وہ جہنم اس پر ایسی ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جائے گی جیسے ابراہیم علیہ السلام پر آگ ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ اور اس دجال کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ ایک گنوار دیہاتی سے کہے گا: اگر میں تیرے والدین کو زندہ کر دوں تو کیا تو مجھے رب تسلیم کرے گا؟ وہ کہے گا: ہاں، پھر دو شیطان اس کے باپ اور اس کی ماں کی شکل میں آئیں گے اور اس سے کہیں گے: اے میرے بیٹے! تو اس کی اطاعت کر، یہ تیرا رب ہے۔ ایک فتنہ اس کا یہ ہو گا کہ وہ ایک شخص پر مسلط کر دیا جائے گا، پھر اسے قتل کر دے گا، اور اسے آرے سے چیر دے گا یہاں تک کہ اس کے دو ٹکڑے کر کے ڈال دے گا، پھر کہے گا: تم میرے اس بندے کو دیکھو، میں اس بندے کو اب زندہ کرتا ہوں، پھر وہ کہے گا: میرے علاوہ اس کا کوئی اور رب ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے زندہ کرے گا، اور دجال خبیث اس سے پوچھے گا کہ تیرا رب کون ہے؟ تو وہ کہے گا: میرا رب تو اللہ ہے، اور تو اللہ کا دشمن دجال ہے، اللہ کی قسم! اب تو مجھے تیرے دجال ہونے کا مزید یقین ہو گیا“۔ ابوالحسن طنافسی کہتے ہیں کہ ہم سے محاربی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے عبیداللہ بن ولید وصافی نے بیان کیا، انہوں نے عطیہ سے روایت کی، عطیہ نے ابو سعید خدری سے، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سے اس شخص کا درجہ جنت میں بہت اونچا ہو گا“۔ ابو سعید خدری کہتے ہیں: اللہ کی قسم! ہمارا خیال تھا کہ یہ شخص سوائے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے کوئی نہیں ہو سکتا، یہاں تک کہ وہ اپنی راہ گزر گئے۔ محاربی کہتے ہیں کہ اب ہم پھر ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جو ابورافع نے روایت کی ہے بیان کرتے ہیں کہ ”دجال کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ آسمان کو پانی برسانے اور زمین کو غلہ اگانے کا حکم دے گا، چنانچہ بارش نازل ہو گی، اور غلہ اگے گا، اور اس کا فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ ایک قبیلے کے پاس گزرے گا، وہ لوگ اس کو جھوٹا کہیں گے، تو ان کا کوئی چوپایہ باقی نہ رہے گا، بلکہ سب ہلاک ہو جائیں گے۔ اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ ایک قبیلے کے پاس گزرے گا، وہ لوگ اس کی تصدیق کریں گے، پھر وہ آسمان کو حکم دے گا تو وہ برسے گا، اور زمین کو غلہ و اناج اگانے کا حکم دے گا تو وہ غلہ اگائے گی، یہاں تک کہ اس دن شام کو چرنے والے ان کے جانور پہلے سے خوب موٹے بھاری ہو کر لوٹیں گے، کوکھیں بھری ہوئی، اور تھن دودھ سے لبریز ہوں گے، مکہ اور مدینہ کو چھوڑ کر زمین کا کوئی خطہٰ ایسا نہ ہو گا جہاں دجال نہ جائے، اور اس پر غالب نہ آئے، مکہ اور مدینہ کا کوئی دروازہ ایسا نہ ہو گا جہاں فرشتے ننگی تلواروں کے ساتھ اس سے نہ ملیں، یہاں تک کہ دجال ایک چھوٹی سرخ پہاڑی کے پاس اترے گا، جہاں کھاری زمین ختم ہوئی ہے، اس وقت مدینہ میں تین مرتبہ زلزلہ آئے گا، جس کی وجہ سے مدینہ میں جتنے مرد اور عورتیں منافق ہوں گے وہ اس کے پاس چلے جائیں گے اور مدینہ میل کو ایسے نکال پھینکے گا جیسے بھٹی لوہے کی میل کو دور کر دیتی ہے، اور اس دن کا نام یوم الخلاص (چھٹکارے کا دن، یوم نجات) ہو گا“۔ ام شریک بنت ابی العسکر نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول! اس دن عرب کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس روز عرب بہت کم ہوں گے اور ان میں سے اکثر بیت المقدس میں ایک صالح امام کے ماتحت ہوں گے، ایک روز ان کا امام آگے بڑھ کر لوگوں کو صبح کی نماز پڑھانے کے لیے کھڑا ہو گا، کہ اتنے میں عیسیٰ بن مریم علیہما السلام صبح کے وقت نازل ہوں گے، تو یہ امام ان کو دیکھ کر الٹے پاؤں پیچھے ہٹ آنا چاہے گا تاکہ عیسیٰ علیہ السلام آگے بڑھ کر لوگوں کو نماز پڑھا سکیں، لیکن عیسیٰ علیہ السلام اپنا ہاتھ اس کے دونوں مونڈھوں کے درمیان رکھ کر فرمائیں گے کہ تم ہی آگے بڑھ کر نماز پڑھاؤ اس لیے کہ تمہارے ہی لیے تکبیر کہی گئی ہے، خیر وہ امام لوگوں کو نماز پڑھائے گا، جب وہ نماز سے فارغ ہو گا تو عیسیٰ علیہ السلام (قلعہ والوں سے) فرمائیں گے کہ دروازہ کھولو، تو دروازہ کھول دیا جائے گا، اس (دروازے) کے پیچھے دجال ہو گا، اس کے ساتھ ستر ہزار یہودی ہوں گے، ہر یہودی کے پاس سونا چاندی سے مرصع و مزین تلوار اور سبز چادر ہو گی، جب یہ دجال عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھے گا، تو اس طرح گھلے گا جس طرح پانی میں نمک گھل جاتا ہے، اور وہ انہیں دیکھ کر بھاگ کھڑا ہو گا، عیسیٰ علیہ السلام اس سے کہیں گے: تجھے میرے ہاتھ سے ایک ضرب کھانی ہے تو اس سے بچ نہ سکے گا، آخر کار وہ اسے لد کے مشرقی دروازے کے پاس پکڑ لیں گے، اور اسے قتل کر دیں گے، پھر اللہ تعالیٰ یہودیوں کو شکست دے گا، اور یہودی اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے جس چیز کی بھی آڑ میں چھپے گا، خواہ وہ درخت ہو یا پتھر، دیوار ہو یا جانور، اس چیز کو اللہ تعالیٰ بولنے کی طاقت دے گا، اور ہر چیز کہے گی: اے اللہ کے مسلمان بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، اسے آ کر قتل کر دے، سوائے ایک درخت کے جس کو غرقد کہتے ہیں، یہ یہودیوں کے درختوں میں سے ایک درخت ہے یہ نہیں بولے گا“۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دجال چالیس سال تک رہے گا، جن میں سے ایک سال چھ مہینہ کے برابر ہو گا، اور ایک سال ایک مہینہ کے برابر ہو گا، اور ایک مہینہ جمعہ (ایک ہفتہ) کے برابر اور دجال کے باقی دن ایسے گزر جائیں گے جیسے چنگاری اڑ جاتی ہے، اگر تم میں سے کوئی مدینہ کے ایک دروازے پر صبح کے وقت ہو گا، تو اسے دوسرے دروازے پر پہنچتے پہنچتے شام ہو جائے گی“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اتنے چھوٹے دنوں میں ہم نماز کس طرح پڑھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس طرح تم ان بڑے دنوں میں اندازہ کر کے پڑھتے ہو اسی طرح ان (چھوٹے) دنوں میں بھی اندازہ کر کے پڑھ لینا“۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عیسیٰ علیہ السلام میری امت میں ایک عادل حاکم اور منصف امام ہوں گے، صلیب کو توڑیں گے، سور کو قتل کریں گے، جزیہ اٹھا دیں گے، اور صدقہ و زکاۃ لینا چھوڑ دیں گے، تو یہ بکریوں اور گھوڑوں پر وصول نہیں کیا جائے گا، لوگوں کے دلوں سے کینہ اور بغض اٹھ جائے گا، اور ہر قسم کے زہریلے جانور کا زہر جاتا رہے گا، حتیٰ کہ اگر بچہ سانپ کے منہ میں ہاتھ ڈالے گا تو وہ اسے نقصان نہ پہنچائے گا، اور بچی شیر کو بھگائے گی تو وہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا، بھیڑیا بکریوں میں اس طرح رہے گا جس طرح محافظ کتا بکریوں میں رہتا ہے، زمین صلح اور انصاف سے ایسے بھر جائے گی جیسے برتن پانی سے بھر جاتا ہے، اور (سب لوگوں کا) کلمہ ایک ہو جائے گا، اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے گی، لڑائی اپنے سامان رکھ دے گی (یعنی دنیا سے لڑائی اٹھ جائے گی) قریش کی سلطنت جاتی رہے گی، اور زمین چاندی کی طشتری کی طرح ہو گی، اپنے پھل اور ہریالی ایسے اگائے گی جس طرح آدم کے عہد میں اگایا کرتی تھی، یہاں تک کہ انگور کے ایک خوشے پر ایک جماعت جمع ہو جائے گی تو سب آسودہ ہو جائیں گے، اور ایک انار پر ایک جماعت جمع ہو جائے گی تو سب آسودہ ہو جائیں گے، اور بیل اتنے اتنے داموں میں ہوں گے، اور گھوڑے چند درہموں میں ملیں گے“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گھوڑے کیوں سستے ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لڑائی کے لیے گھوڑوں پر سواری نہیں ہو گی“، پھر آپ سے عرض کیا گیا: بیل کیوں مہنگا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ساری زمین میں کھیتی ہو گی اور دجال کے ظہور سے پہلے تین سال تک سخت قحط ہو گا، ان تینوں سالوں میں لوگ بھوک سے سخت تکلیف اٹھائیں گے، پہلے سال اللہ تعالیٰ آسمان کو تہائی بارش روکنے اور زمین کو تہائی پیداوار روکنے کا حکم دے گا، پھر دوسرے سال آسمان کو دو تہائی بارش روکنے اور زمین کو دو تہائی پیداوار روکنے کا حکم دے گا، اور تیسرے سال اللہ تعالیٰ آسمان کو یہ حکم دے گا کہ بارش بالکل روک لے پس ایک قطرہ بھی بارش نہ ہو گی، اور زمین کو یہ حکم دے گا کہ وہ اپنے سارے پودے روک لے تو وہ اپنی تمام پیداوار روک لے گی، نہ کوئی گھاس اگے گی، نہ کوئی سبزی، بالآخر کھر والے جانور (گائے بکری وغیرہ چوپائے) سب ہلاک ہو جائیں گے، کوئی باقی نہ بچے گا مگر جسے اللہ بچا لے“، عرض کیا گیا: پھر اس وقت لوگ کس طرح زندہ رہیں گے؟ آپ نے فرمایا: تہلیل ( «لا إله إلا الله») تکبیر ( «الله أكبر») تسبیح ( «سبحان الله») اور تحمید ( «الحمد لله») کا کہنا، ان کے لیے غذا کا کام دے گا۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں: میں نے ابوالحسن طنافسی سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے عبدالرحمٰن محاربی سے سنا وہ کہتے تھے: یہ حدیث تو اس لائق ہے کہ مکتب کے استادوں کو دے دی جائے تاکہ وہ مکتب میں بچوں کو یہ حدیث پڑھائیں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الملاحم 14 (4322)، (تحفة الأشراف: 4896) (ضعیف)» (سند میں اسماعیل بن رافع ضعیف راوی ہیں، اور عبد الرحمن محاربی مدلس، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، بعض ٹکڑے صحیح مسلم میں ہیں)
وضاحت: ۱؎: یہ اس حدیث کے مخالف نہیں ہے کہ دجال چالیس دن رہے گا کیونکہ وہ لمبے چالیس دنوں کا ذکر ہے اور یہ چالیس برس اس کے سوا ہیں جن میں دن معمولی مقدار سے چھوٹے ہوں گے اور بعضوں نے کہا کہ دجال کے زمانہ میں کبھی دن چھوٹا ہوگا کبھی بڑا۔ ۲؎: کیونکہ اس میں دجال کا پورا حال مذکور ہے، اور بچوں کو اس کا یاد رکھنا ضروری ہے تاکہ دجال کی اچھی طرح پہچان رکھیں اور اس کے فتنے میں گرفتار نہ ہوں، اللہ تعالی ہر مسلمان کو دجال کے فتنے سے بچائے، رسول اکرم ﷺ ہر نماز میں دجال کے فتنے سے پناہ مانگتے تھے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف إسماعيل بن رافع: ضعيف والمحاربي عنعن وحديث أبي سعيد أيضًا ضعيف فيه عطية العوفي و عبيد اللّٰه بن الوليد الوصافي: ضعيفان والحديث في سنن أبي داود (4322) ولكنه مختصر جدًا وسنده حسن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 522
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک عیسیٰ بن مریم عادل حاکم اور منصف امام بن کر نازل نہ ہوں، وہ آ کر صلیب کو توڑیں گے، سور کو قتل کریں گے، اور جزیہ کو معاف کر دیں گے، اور مال اس قدر زیادہ ہو گا کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہ ہو گا“۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب , حدثنا يونس بن بكير , عن محمد بن إسحاق , حدثني عاصم بن عمر بن قتادة , عن محمود بن لبيد , عن ابي سعيد الخدري , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" تفتح ياجوج وماجوج فيخرجون كما قال الله تعالى: وهم من كل حدب ينسلون سورة الانبياء آية 96 فيعمون الارض , وينحاز منهم المسلمون , حتى تصير بقية المسلمين في مدائنهم وحصونهم , ويضمون إليهم مواشيهم , حتى انهم ليمرون بالنهر فيشربونه , حتى ما يذرون فيه شيئا , فيمر آخرهم على اثرهم , فيقول قائلهم: لقد كان بهذا المكان مرة ماء , ويظهرون على الارض , فيقول قائلهم: هؤلاء اهل الارض قد فرغنا منهم , ولننازلن اهل السماء حتى إن احدهم ليهز حربته إلى السماء فترجع مخضبة بالدم , فيقولون: قد قتلنا اهل السماء , فبينما هم كذلك , إذ بعث الله دواب كنغف الجراد , فتاخذ باعناقهم فيموتون موت الجراد , يركب بعضهم بعضا , فيصبح المسلمون لا يسمعون لهم حسا , فيقولون: من رجل يشري نفسه وينظر ما فعلوا , فينزل منهم رجل قد وطن نفسه على ان يقتلوه , فيجدهم موتى فيناديهم الا ابشروا فقد هلك عدوكم , فيخرج الناس , ويخلون سبيل مواشيهم فما يكون لهم رعي إلا لحومهم , فتشكر عليها كاحسن ما شكرت من نبات اصابته قط". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ , حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق , حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ , عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" تُفْتَحُ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ فَيَخْرُجُونَ كَمَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ سورة الأنبياء آية 96 فَيَعُمُّونَ الْأَرْضَ , وَيَنْحَازُ مِنْهُمُ الْمُسْلِمُونَ , حَتَّى تَصِيرَ بَقِيَّةُ الْمُسْلِمِينَ فِي مَدَائِنِهِمْ وَحُصُونِهِمْ , وَيَضُمُّونَ إِلَيْهِمْ مَوَاشِيَهُمْ , حَتَّى أَنَّهُمْ لَيَمُرُّونَ بِالنَّهَرِ فَيَشْرَبُونَهُ , حَتَّى مَا يَذَرُونَ فِيهِ شَيْئًا , فَيَمُرُّ آخِرُهُمْ عَلَى أَثَرِهِمْ , فَيَقُولُ قَائِلُهُمْ: لَقَدْ كَانَ بِهَذَا الْمَكَانِ مَرَّةً مَاءٌ , وَيَظْهَرُونَ عَلَى الْأَرْضِ , فَيَقُولُ قَائِلُهُمْ: هَؤُلَاءِ أَهْلُ الْأَرْضِ قَدْ فَرَغْنَا مِنْهُمْ , وَلَنُنَازِلَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ حَتَّى إِنَّ أَحَدَهُمْ لَيَهُزُّ حَرْبَتَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَتَرْجِعُ مُخَضَّبَةً بِالدَّمِ , فَيَقُولُونَ: قَدْ قَتَلْنَا أَهْلَ السَّمَاءِ , فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ , إِذْ بَعَثَ اللَّهُ دَوَابَّ كَنَغَفِ الْجَرَادِ , فَتَأْخُذُ بِأَعْنَاقِهِمْ فَيَمُوتُونَ مَوْتَ الْجَرَادِ , يَرْكَبُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا , فَيُصْبِحُ الْمُسْلِمُونَ لَا يَسْمَعُونَ لَهُمْ حِسًّا , فَيَقُولُونَ: مَنْ رَجُلٌ يَشْرِي نَفْسَهُ وَيَنْظُرُ مَا فَعَلُوا , فَيَنْزِلُ مِنْهُمْ رَجُلٌ قَدْ وَطَّنَ نَفْسَهُ عَلَى أَنْ يَقْتُلُوهُ , فَيَجِدُهُمْ مَوْتَى فَيُنَادِيهِمْ أَلَا أَبْشِرُوا فَقَدْ هَلَكَ عَدُوُّكُمْ , فَيَخْرُجُ النَّاسُ , وَيَخْلُونَ سَبِيلَ مَوَاشِيهِمْ فَمَا يَكُونُ لَهُمْ رَعْيٌ إِلَّا لُحُومُهُمْ , فَتَشْكَرُ عَلَيْهَا كَأَحْسَنِ مَا شَكِرَتْ مِنْ نَبَاتٍ أَصَابَتْهُ قَطُّ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یاجوج و ماجوج کھول دئیے جائیں گے، پھر وہ باہر آئیں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وهم من كل حدب ينسلون»”یہ لوگ ہر اونچی زمین سے دوڑتے آئیں گے“(سورة الأنبياء: 96) پھر ساری زمین میں پھیل جائیں گے، اور مسلمان ان سے علاحدہ رہیں گے، یہاں تک کہ جو مسلمان باقی رہیں گے وہ اپنے شہروں اور قلعوں میں اپنے مویشیوں کو لے کر پناہ گزیں ہو جائیں گے، یہاں تک کہ یاجوج و ماجوج نہر سے گزریں گے، اس کا سارا پانی پی کر ختم کر دیں گے، اس میں کچھ بھی نہ چھوڑیں گے، جب ان کے پیچھے آنے والوں کا وہاں پر گزر ہو گا تو ان میں کا کوئی یہ کہے گا کہ کسی زمانہ میں یہاں پانی تھا، اور وہ زمین پر غالب آ جائیں گے، تو ان میں سے کوئی یہ کہے گا: ان اہل زمین سے تو ہم فارغ ہو گئے، اب ہم آسمان والوں سے لڑیں گے، یہاں تک کہ ان میں سے ایک اپنا نیزہ آسمان کی طرف پھینکے گا، وہ خون میں رنگا ہوا لوٹ کر گرے گا، پس وہ کہیں گے: ہم نے آسمان والوں کو بھی قتل کر دیا، خیر یہ لوگ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ چند جانور بھیجے گا، جو ٹڈی کے کیڑوں کی طرح ہوں گے، جو ان کی گردنوں میں گھس جائیں گے، یہ سب کے سب ٹڈیوں کی طرح مر جائیں گے، ان میں سے ایک پر ایک پڑا ہو گا، اور جب مسلمان اس دن صبح کو اٹھیں گے، اور ان کی آہٹ نہیں سنیں گے تو کہیں گے: کوئی ایسا ہے جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کے انہیں دیکھ کر آئے کہ یاجوج ماجوج کیا ہوئے؟ چنانچہ مسلمانوں میں سے ایک شخص (قلعہ سے) ان کا حال جاننے کے لیے نیچے اترے گا، اور دل میں خیال کرے گا کہ وہ مجھ کو ضرور مار ڈالیں گے، خیر وہ انہیں مردہ پائے گا، تو مسلمانوں کو پکار کر کہے گا: سنو! خوش ہو جاؤ! تمہارا دشمن ہلاک ہو گیا، یہ سن کر لوگ نکلیں گے اور اپنے جانور چرنے کے لیے آزاد چھوڑیں گے، اور ان کے گوشت کے سوا کوئی چیز انہیں کھانے کے لیے نہ ملے گی، اس وجہ سے ان کا گوشت کھا کھا کر خوب موٹے تازے ہوں گے، جس طرح کبھی گھاس کھا کر موٹے ہوئے تھے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4299، ومصباح الزجاجة: 1439)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/77) (حسن صحیح)»
(مرفوع) حدثنا ازهر بن مروان , حدثنا عبد الاعلى , حدثنا سعيد , عن قتادة , قال: حدثنا ابو رافع , عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن ياجوج وماجوج يحفرون كل يوم , حتى إذا كادوا يرون شعاع الشمس , قال الذي عليهم: ارجعوا فسنحفره غدا , فيعيده الله اشد ما كان حتى إذا بلغت مدتهم , واراد الله ان يبعثهم على الناس , حفروا حتى إذا كادوا يرون شعاع الشمس , قال الذي عليهم: ارجعوا فستحفرونه غدا إن شاء الله تعالى , واستثنوا فيعودون إليه وهو كهيئته حين تركوه , فيحفرونه ويخرجون على الناس , فينشفون الماء ويتحصن الناس منهم في حصونهم , فيرمون بسهامهم إلى السماء , فترجع عليها الدم الذي اجفظ , فيقولون: قهرنا اهل الارض , وعلونا اهل السماء , فيبعث الله نغفا في اقفائهم فيقتلهم بها" , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" والذي نفسي بيده , إن دواب الارض لتسمن وتشكر شكرا من لحومهم". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى , حَدَّثَنَا سَعِيدٌ , عَنْ قَتَادَةَ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو رَافِعٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ يَحْفِرُونَ كُلَّ يَوْمٍ , حَتَّى إِذَا كَادُوا يَرَوْنَ شُعَاعَ الشَّمْسِ , قَالَ الَّذِي عَلَيْهِمْ: ارْجِعُوا فَسَنَحْفِرُهُ غَدًا , فَيُعِيدُهُ اللَّهُ أَشَدَّ مَا كَانَ حَتَّى إِذَا بَلَغَتْ مُدَّتُهُمْ , وَأَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَهُمْ عَلَى النَّاسِ , حَفَرُوا حَتَّى إِذَا كَادُوا يَرَوْنَ شُعَاعَ الشَّمْسِ , قَالَ الَّذِي عَلَيْهِمْ: ارْجِعُوا فَسَتَحْفِرُونَهُ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى , وَاسْتَثْنَوْا فَيَعُودُونَ إِلَيْهِ وَهُوَ كَهَيْئَتِهِ حِينَ تَرَكُوهُ , فَيَحْفِرُونَهُ وَيَخْرُجُونَ عَلَى النَّاسِ , فَيُنْشِفُونَ الْمَاءَ وَيَتَحَصَّنُ النَّاسُ مِنْهُمْ فِي حُصُونِهِمْ , فَيَرْمُونَ بِسِهَامِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ , فَتَرْجِعُ عَلَيْهَا الدَّمُ الَّذِي اجْفَظَّ , فَيَقُولُونَ: قَهَرْنَا أَهْلَ الْأَرْضِ , وَعَلَوْنَا أَهْلَ السَّمَاءِ , فَيَبْعَثُ اللَّهُ نَغَفًا فِي أَقْفَائِهِمْ فَيَقْتُلُهُمْ بِهَا" , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , إِنَّ دَوَابَّ الْأَرْضِ لَتَسْمَنُ وَتَشْكَرُ شَكَرًا مِنْ لُحُومِهِمْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یاجوج و ماجوج ہر روز (اپنی دیوار) کھودتے ہیں یہاں تک کہ جب قریب ہوتا ہے کہ سورج کی روشنی ان کو دکھائی دے تو جو شخص ان کا سردار ہوتا ہے وہ کہتا ہے: اب لوٹ چلو (باقی) کل کھودیں گے، پھر اللہ تعالیٰ اسے ویسی ہی مضبوط کر دیتا ہے جیسی وہ پہلے تھی، یہاں تک کہ جب ان کی مدت پوری ہو جائے گی، اور اللہ تعالیٰ کو ان کا خروج منظور ہو گا، تو وہ (عادت کے مطابق) دیوار کھودیں گے جب کھودتے کھودتے قریب ہو گا کہ سورج کی روشنی دیکھیں تو اس وقت ان کا سردار کہے گا کہ اب لوٹ چلو، ان شاءاللہ کل کھودیں گے، اور ان شاءاللہ کا لفظ کہیں گے، چنانچہ (اس دن) وہ لوٹ جائیں گے، اور دیوار اسی حال پر رہے گی، جیسے وہ چھوڑ گئے تھے، پھر وہ صبح آ کر اسے کھودیں گے اور اسے کھود کر باہر نکلیں گے، اور سارا پانی پی کر ختم کر دیں گے، اور لوگ (اس وقت) بھاگ کر اپنے قلعوں میں محصور ہو جائیں گے، یہ لوگ (زمین پر پھیل کر) آسمان کی جانب اپنے تیر ماریں گے، تو ان کے تیر خون میں لت پت ان کے پاس لوٹیں گے، وہ کہیں گے کہ ہم نے زمین والوں کو تو مغلوب کیا، اور آسمان والوں پر بھی غالب ہوئے، پھر اللہ تعالیٰ ان کی گدیوں (گردنوں) میں کیڑے پیدا فرمائے گا جو انہیں مار ڈالیں گے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! زمین کے جانور ان کا گوشت اور چربی کھا کر خوب موٹے ہوں گے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/التفسیر 19 (3153)، (تحفة الأشراف: 14670)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/510، 511) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حالانکہ گائے بیل بکری اونٹ وغیرہ چوپائے گوشت نہیں کھاتے مگر چارہ نہ ہونے کی وجہ سے یاجوج کا گوشت کھائیں گے اور کھا کر خوب موٹے ہو جائیں گے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یاجوج قیامت تک اس سد (باندھ) سے رکے رہیں گے، جب ان کے چھوٹنے کا وقت آئے گا تو سد (باندھ) ٹوٹ جائے گا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ یاجوج و ماجوج محض صحرائی اور وحشی ہوں گے جب تو تیر و کمان ان کا ہتھیار ہو گا، اور جہالت کی وجہ سے آسمان پر تیر ماریں گے وہ یہ نہیں جانیں گے کہ آسمان زمین سے اتنی دور ہے کہ برسوں تک بھی اگر تیر ان کا چلا جائے تو وہاں تک مشکل سے پہنچے گا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (3153) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 522
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , حدثنا يزيد بن هارون , حدثنا العوام بن حوشب , حدثني جبلة بن سحيم , عن مؤثر بن عفازة , عن عبد الله بن مسعود , قال:" لما كان ليلة اسري برسول الله صلى الله عليه وسلم , لقي إبراهيم , وموسى , وعيسى فتذاكروا الساعة , فبدءوا بإبراهيم فسالوه عنها , فلم يكن عنده منها علم , ثم سالوا موسى , فلم يكن عنده منها علم , فرد الحديث إلى عيسى ابن مريم , فقال: قد عهد إلي فيما دون وجبتها , فاما وجبتها فلا يعلمها إلا الله , فذكر خروج الدجال , قال: فانزل فاقتله , فيرجع الناس إلى بلادهم فيستقبلهم ياجوج وماجوج , وهم من كل حدب ينسلون , فلا يمرون بماء إلا شربوه , ولا بشيء إلا افسدوه , فيجارون إلى الله , فادعو الله ان يميتهم فتنتن الارض من ريحهم , فيجارون إلى الله , فادعو الله , فيرسل السماء بالماء فيحملهم فيلقيهم في البحر , ثم تنسف الجبال , وتمد الارض مد الاديم , فعهد إلي متى كان ذلك كانت الساعة من الناس , كالحامل التي لا يدري اهلها متى تفجؤهم بولادتها" , قال العوام: ووجد تصديق ذلك في كتاب الله تعالى حتى إذا فتحت ياجوج وماجوج سورة الانبياء آية 96، وهم من كل حدب ينسلون. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارِ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , حَدَّثَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ , حَدَّثَنِي جَبَلَةُ بْنُ سُحَيْمٍ , عَنْ مُؤْثِرِ بْنِ عَفَازَةَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ , قَالَ:" لَمَّا كَانَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , لَقِيَ إِبْرَاهِيمَ , وَمُوسَى , وَعِيسَى فَتَذَاكَرُوا السَّاعَةَ , فَبَدَءُوا بِإِبْرَاهِيمَ فَسَأَلُوهُ عَنْهَا , فَلَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ مِنْهَا عِلْمٌ , ثُمَّ سَأَلُوا مُوسَى , فَلَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ مِنْهَا عِلْمٌ , فَرُدَّ الْحَدِيثُ إِلَى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ , فَقَالَ: قَدْ عُهِدَ إِلَيَّ فِيمَا دُونَ وَجْبَتِهَا , فَأَمَّا وَجْبَتُهَا فَلَا يَعْلَمُهَا إِلَّا اللَّهُ , فَذَكَرَ خُرُوجَ الدَّجَّالِ , قَالَ: فَأَنْزِلُ فَأَقْتُلُهُ , فَيَرْجِعُ النَّاسُ إِلَى بِلَادِهِمْ فَيَسْتَقْبِلُهُمْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ , وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ , فَلَا يَمُرُّونَ بِمَاءٍ إِلَّا شَرِبُوهُ , وَلَا بِشَيْءٍ إِلَّا أَفْسَدُوهُ , فَيَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ , فَأَدْعُو اللَّهَ أَنْ يُمِيتَهُمْ فَتَنْتُنُ الْأَرْضُ مِنْ رِيحِهِمْ , فَيَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ , فَأَدْعُو اللَّهَ , فَيُرْسِلُ السَّمَاءَ بِالْمَاءِ فَيَحْمِلُهُمْ فَيُلْقِيهِمْ فِي الْبَحْرِ , ثُمَّ تُنْسَفُ الْجِبَالُ , وَتُمَدُّ الْأَرْضُ مَدَّ الْأَدِيمِ , فَعُهِدَ إِلَيَّ مَتَى كَانَ ذَلِكَ كَانَتِ السَّاعَةُ مِنَ النَّاسِ , كَالْحَامِلِ الَّتِي لَا يَدْرِي أَهْلُهَا مَتَى تَفْجَؤُهُمْ بِوِلَادَتِهَا" , قَالَ الْعَوَّامُ: وَوُجِدَ تَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ سورة الأنبياء آية 96، وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسراء (معراج) کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے ملاقات کی، تو سب نے آپس میں قیامت کا ذکر کیا، پھر سب نے پہلے ابراہیم علیہ السلام سے قیامت کے متعلق پوچھا، لیکن انہیں قیامت کے متعلق کچھ علم نہ تھا، پھر سب نے موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا، تو انہیں بھی قیامت کے متعلق کچھ علم نہ تھا، پھر سب نے عیسیٰ بن مریم علیہما السلام سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: قیامت کے آ دھمکنے سے کچھ پہلے (دنیا میں جانے کا) مجھ سے وعدہ لیا گیا ہے، لیکن قیامت کے آنے کا صحیح علم صرف اللہ ہی کو ہے (کہ وہ کب قائم ہو گی)، پھر عیسیٰ علیہ السلام نے دجال کے ظہور کا تذکرہ کیا، اور فرمایا: میں (زمین پر) اتر کر اسے قتل کروں گا، پھر لوگ اپنے اپنے شہروں (ملکوں) کو لوٹ جائیں گے، اتنے میں یاجوج و ماجوج ان کے سامنے آئیں گے، اور ہر بلندی سے وہ چڑھ دوڑیں گے، وہ جس پانی سے گزریں گے اسے پی جائیں گے، اور جس چیز کے پاس سے گزریں گے، اسے تباہ و برباد کر دیں گے، پھر لوگ اللہ سے دعا کرنے کی درخواست کریں گے، میں اللہ سے دعا کروں گا کہ انہیں مار ڈالے (چنانچہ وہ سب مر جائیں گے) ان کی لاشوں کی بو سے تمام زمین بدبودار ہو جائے گی، لوگ پھر مجھ سے دعا کے لیے کہیں گے تو میں پھر اللہ سے دعا کروں گا، تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش نازل فرمائے گا جو ان کی لاشیں اٹھا کر سمندر میں بہا لے جائے گی، اس کے بعد پہاڑ ریزہ ریزہ کر دئیے جائیں گے، اور زمین چمڑے کی طرح کھینچ کر دراز کر دی جائے گی، پھر مجھے بتایا گیا ہے کہ جب یہ باتیں ظاہر ہوں تو قیامت لوگوں سے ایسی قریب ہو گی جس طرح حاملہ عورت کے حمل کا زمانہ پورا ہو گیا ہو، اور وہ اس انتظار میں ہو کہ کب ولادت کا وقت آئے گا، اور اس کا صحیح وقت کسی کو معلوم نہ ہو۔ عوام (عوام بن حوشب) کہتے ہیں کہ اس واقعہ کی تصدیق اللہ کی کتاب میں موجود ہے: «حتى إذا فتحت يأجوج ومأجوج وهم من كل حدب ينسلون»”یہاں تک کہ جب یاجوج و ماجوج کھول دئیے جائیں گے، تو پھر وہ ہر ایک ٹیلے پر سے چڑھ دوڑیں گے“(سورة الأنبياء: 96)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9590، ومصباح الزجاجة: 1440)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/375) (ضعیف)» (مؤثر بن عفازہ مقبول عند المتابعہ ہیں، متابعت کی نہ ہونے وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن بعض ٹکڑے صحیح مسلم میں ہیں)
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة , حدثنا معاوية بن هشام , حدثنا علي بن صالح , عن يزيد بن ابي زياد , عن إبراهيم , عن علقمة , عن عبد الله , قال: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم , إذ اقبل فتية من بني هاشم , فلما رآهم النبي صلى الله عليه وسلم اغرورقت عيناه وتغير لونه , قال: فقلت: ما نزال نرى في وجهك شيئا نكرهه , فقال:" إنا اهل بيت , اختار الله لنا الآخرة على الدنيا , وإن اهل بيتي سيلقون بعدي بلاء وتشريدا وتطريدا , حتى ياتي قوم من قبل المشرق معهم رايات سود , فيسالون الخير فلا يعطونه , فيقاتلون فينصرون , فيعطون ما سالوا , فلا يقبلونه حتى يدفعوها إلى رجل من اهل بيتي فيملؤها قسطا كما ملئوها جورا , فمن ادرك ذلك منكم فلياتهم ولو حبوا على الثلج". (مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ , حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ عَلْقَمَةَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , إِذْ أَقْبَلَ فِتْيَةٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ , فَلَمَّا رَآهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ وَتَغَيَّرَ لَوْنُهُ , قَالَ: فَقُلْتُ: مَا نَزَالُ نَرَى فِي وَجْهِكَ شَيْئًا نَكْرَهُهُ , فَقَالَ:" إِنَّا أَهْلُ بَيْتٍ , اخْتَارَ اللَّهُ لَنَا الْآخِرَةَ عَلَى الدُّنْيَا , وَإِنَّ أَهْلَ بَيْتِي سَيَلْقَوْنَ بَعْدِي بَلَاءً وَتَشْرِيدًا وَتَطْرِيدًا , حَتَّى يَأْتِيَ قَوْمٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَعَهُمْ رَايَاتٌ سُودٌ , فَيَسْأَلُونَ الْخَيْرَ فَلَا يُعْطَوْنَهُ , فَيُقَاتِلُونَ فَيُنْصَرُونَ , فَيُعْطَوْنَ مَا سَأَلُوا , فَلَا يَقْبَلُونَهُ حَتَّى يَدْفَعُوهَا إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي فَيَمْلَؤُهَا قِسْطًا كَمَا مَلَئُوهَا جَوْرًا , فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَلْيَأْتِهِمْ وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الثَّلْجِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں بنی ہاشم کے چند نوجوان آئے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا، تو آپ کی آنکھیں بھر آئیں، اور آپ کا رنگ بدل گیا، میں نے عرض کیا: ہم آپ کے چہرے میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور دیکھتے ہیں جسے ہم اچھا نہیں سمجھتے (یعنی آپ کے رنج سے ہمیشہ صدمہ ہوتا ہے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم اس گھرانے والے ہیں جن کے لیے اللہ نے دنیا کے مقابلے آخرت پسند کی ہے، میرے بعد بہت جلد ہی میرے اہل بیت مصیبت، سختی، اخراج اور جلا وطنی میں مبتلا ہوں گے، یہاں تک کہ مشرق کی طرف سے کچھ لوگ آئیں گے، جن کے ساتھ سیاہ جھنڈے ہوں گے، وہ خیر (خزانہ) طلب کریں گے، لوگ انہیں نہ دیں گے تو وہ لوگوں سے جنگ کریں گے، اور (اللہ کی طرف سے) ان کی مدد ہو گی، پھر وہ جو مانگتے تھے وہ انہیں دیا جائے گا، (یعنی لوگ ان کی حکومت پر راضی ہو جائیں گے اور خزانہ سونپ دیں گے)، یہ لوگ اس وقت اپنے لیے حکومت قبول نہ کریں گے یہاں تک کہ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو یہ خزانہ اور حکومت سونپ دیں گے، وہ شخص زمین کو اس طرح عدل سے بھر دے گا جس طرح لوگوں نے اسے ظلم سے بھر دیا تھا، لہٰذا تم میں سے جو شخص اس زمانہ کو پائے وہ ان لوگوں کے ساتھ (لشکر میں) شریک ہو، اگرچہ اسے گھٹنوں کے بل برف پر کیوں نہ چلنا پڑے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9462، ومصباح الزجاجة: 1441) (ضعیف)» (سند میں یزید بن أبی زیاد ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف يزيد بن أبي زياد:ضعيف ولم تثبت متابعة الحكم له،في السند إليه عبد اللّٰه بن داهر: رافضي خبيث متهم (انظر ميزان الإعتدال 416/2) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 522