Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الفتن
کتاب: فتنوں سے متعلق احکام و مسائل
33. بَابُ : فِتْنَةِ الدَّجَّالِ وَخُرُوجِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَخُرُوجِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ
باب: فتنہ دجال، عیسیٰ بن مریم اور یاجوج و ماجوج کے ظہور کا بیان۔
حدیث نمبر: 4075
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ , حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ , حَدَّثَنِي أَبِي , أَنَّهُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْكِلَابِيَّ , يَقُولُ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ الْغَدَاةَ , فَخَفَضَ فِيهِ وَرَفَعَ , حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ , فَلَمَّا رُحْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَفَ ذَلِكَ فِينَا , فَقَالَ:" مَا شَأْنُكُمْ؟" , فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ الْغَدَاةَ , فَخَفَضْتَ فِيهِ ثُمَّ رَفَعْتَ , حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ , قَالَ:" غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْكُمْ , إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ , وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ , وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ , إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ , عَيْنُهُ قَائِمَةٌ , كَأَنِّي أُشَبِّهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ , فَمَنْ رَآهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ , إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ خَلَّةٍ بَيْنَ الشَّامِ , وَالْعِرَاقِ , فَعَاثَ يَمِينًا , وَعَاثَ شِمَالًا , يَا عِبَادَ اللَّهِ , اثْبُتُوا" , قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَمَا لُبْثُهُ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ:" أَرْبَعُونَ يَوْمًا , يَوْمٌ كَسَنَةٍ , وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ , وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ , وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ" , قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَسَنَةٍ تَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ؟ قَالَ:" فَاقْدُرُوا لَهُ قَدْرًا" , قَالَ: قُلْنَا: فَمَا إِسْرَاعُهُ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ:" كَالْغَيْثِ اشْتَدَّ بِهِ الرِّيحُ" , قَالَ:" فَيَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ , وَيُؤْمِنُونَ بِهِ , فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ , وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ , وَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ أَطْوَلَ مَا كَانَتْ ذُرًى , وَأَسْبَغَهُ ضُرُوعًا , وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ , ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ , فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ , فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ مَا بِأَيْدِيهِمْ شَيْءٌ , ثُمَّ يَمُرَّ بِالْخَرِبَةِ , فَيَقُولُ لَهَا: أَخْرِجِي كُنُوزَكِ , فَيَنْطَلِقُ , فَتَتْبَعُهُ كُنُوزُهَا كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ , ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا مُمْتَلِئًا شَبَابًا , فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ ضَرْبَةً فَيَقْطَعُهُ جِزْلَتَيْنِ رَمْيَةَ الْغَرَضِ , ثُمَّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ يَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ يَضْحَكُ , فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ , فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ , وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ , إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ , وَإِذَا رَفَعَهُ يَنْحَدِرُ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ , وَلَا يَحِلُّ لِكَافِرٍ أَنْ يَجِدُ رِيحَ نَفَسِهِ , إِلَّا مَاتَ وَنَفَسُهُ يَنْتَهِي حَيْثُ يَنْتَهِي طَرَفُهُ , فَيَنْطَلِقُ حَتَّى يُدْرِكَهُ عِنْدَ بَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلُهُ , ثُمَّ يَأْتِي نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى قَوْمًا قَدْ عَصَمَهُمُ اللَّهُ , فَيَمْسَحُ وُجُوهَهُمْ , وَيُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ , فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ , إِذْ أَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ: يَا عِيسَى , إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ , وَأَحْرِزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ , وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ , وَهُمْ كَمَا قَالَ اللَّهُ: مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ سورة الأنبياء آية 96 , فَيَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَى بُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ , فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهَا , ثُمَّ يَمُرُّ آخِرُهُمْ , فَيَقُولُونَ: لَقَدْ كَانَ فِي هَذَا مَاءٌ مَرَّةً , وَيَحْضُرُ نَبِيُّ اللَّهِ وَأَصْحَابُهُ حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمُ الْيَوْمَ , فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللَّهِ , فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمُ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ , فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ , وَيَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ , فَلَا يَجِدُونَ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا قَدْ مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ , وَنَتْنُهُمْ , وَدِمَاؤُهُمْ , فَيَرْغَبُونَ إِلَى اللَّهِ , فَيُرْسِلُ عَلَيْهِمْ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ , فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَاءَ اللَّهُ , ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مَطَرًا لَا يُكِنُّ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ , وَلَا وَبَرٍ فَيَغْسِلُهُ , حَتَّى يَتْرُكَهُ كَالزَّلَقَةِ , ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ أَنْبِتِي ثَمَرَتَكِ , وَرُدِّي بَرَكَتَكِ , فَيَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنَ الرِّمَّانَةِ فَتُشْبِعُهُمْ , وَيَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا , وَيُبَارِكُ اللَّهُ فِي الرِّسْلِ , حَتَّى إِنَّ اللِّقْحَةَ مِنَ الْإِبِلِ تَكْفِي الْفِئَامَ مِنَ النَّاسِ , وَاللِّقْحَةَ مِنَ الْبَقَرِ تَكْفِي الْقَبِيلَةَ , وَاللِّقْحَةَ مِنَ الْغَنَمِ تَكْفِي الْفَخِذَ , فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ رِيحًا طَيِّبَةً , فَتَأْخُذُ تَحْتَ آبَاطِهِمْ فَتَقْبِضُ رُوحَ كُلَّ مُسْلِمٍ , وَيَبْقَى سَائِرُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ كَمَا تَتَهَارَجُ الْحُمُرُ , , فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ".
نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کیا تو اس میں آپ نے کبھی بہت دھیما لہجہ استعمال کیا اور کبھی روز سے کہا، آپ کے اس بیان سے ہم یہ محسوس کرنے لگے کہ جیسے وہ انہی کھجوروں میں چھپا ہوا ہے، پھر جب ہم شام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ہمارے چہروں پر خوف کے آثار کو دیکھ کر فرمایا: تم لوگوں کا کیا حال ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے جو صبح کے وقت دجال کا ذکر فرمایا تھا اور جس میں آپ نے پہلے دھیما پھر تیز لہجہ استعمال کیا تو اس سے ہمیں یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ وہ انہی کھجوروں کے درختوں میں چھپا ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم لوگوں پر دجال کے علاوہ اوروں کا زیادہ ڈر ہے، اگر دجال میری زندگی میں ظاہر ہوا تو میں تم سب کی جانب سے اس کا مقابلہ کروں گا، اور اگر میرے بعد ظاہر ہوا تو ہر انسان اس کا مقابلہ خود کرے گا، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ ہے (یعنی ہر مسلمان کا میرے بعد ذمہ دار ہے) دیکھو دجال جوان ہو گا، اس کے بال بہت گھنگریالے ہوں گے، اس کی ایک آنکھ اٹھی ہوئی اونچی ہو گی گویا کہ میں اسے عبدالعزی بن قطن کے مشابہ سمجھتا ہوں، لہٰذا تم میں سے جو کوئی اسے دیکھے اسے چاہیئے کہ اس پر سورۃ الکہف کی ابتدائی آیات پڑھے، دیکھو! دجال کا ظہور عراق اور شام کے درمیانی راستے سے ہو گا، وہ روئے زمین پر دائیں بائیں فساد پھیلاتا پھرے گا، اللہ کے بندو! ایمان پر ثابت قدم رہنا۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کتنے دنوں تک زمین پر رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چالیس دن تک، ایک دن ایک سال کے برابر، دوسرا دن ایک مہینہ کے اور تیسرا دن ایک ہفتہ کے برابر ہو گا، اور باقی دن تمہارے عام دنوں کی طرح ہوں گے۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا اس دن میں جو ایک سال کا ہو گا ہمارے لیے ایک دن کی نماز کافی ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نہیں بلکہ) تم اسی ایک دن کا اندازہ کر کے نماز پڑھ لینا۔ ہم نے عرض کیا: زمین میں اس کے چلنے کی رفتار آخر کتنی تیز ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بادل کی طرح جس کے پیچھے ہوا ہو، وہ ایک قوم کے پاس آ کر انہیں اپنی الوہیت کی طرف بلائے گا، تو وہ قبول کر لیں گے، اور اس پر ایمان لے آئیں گے، پھر وہ آسمان کو بارش کا حکم دے گا، تو وہ برسے گا، پھر زمین کو سبزہ اگانے کا حکم دے گا تو زمین سبزہ اگائے گی، اور جب اس قوم کے جانور شام کو چر کر واپس آیا کریں گے تو ان کے کوہان پہلے سے اونچے، تھن زیادہ دودھ والے، اور کوکھیں بھری ہوں گی، پہلو بھرے بھرے ہوں گے، پھر وہ ایک دوسری قوم کے پاس جائے گا، اور ان کو اپنی طرف دعوت دے گا، تو وہ اس کی بات نہ مانیں گے، آخر یہ دجال وہاں سے واپس ہو گا، تو صبح کو وہ قوم قحط میں مبتلا ہو گی، اور ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہے گا، پھر دجال ایک ویران جگہ سے گزرے گا، اور اس سے کہے گا: تو اپنے خزانے نکال، وہاں کے خزانے نکل کر اس طرح اس کے ساتھ ہو جائیں گے جیسے شہد کی مکھیاں «یعسوب» (مکھیوں کے بادشاہ) کے پیچھے چلتی ہیں، پھر وہ ایک ہٹے کٹے نوجوان کو بلائے گا، اور تلوار کے ذریعہ اسے ایک ہی وار میں قتل کر کے اس کے دو ٹکڑے کر دے گا، ان دونوں ٹکڑوں میں اتنی دوری کر دے گا جتنی دوری پر تیر جاتا ہے، پھر اس کو بلائے گا تو وہ شخص زندہ ہو کر روشن چہرہ لیے ہنستا ہوا چلا آئے گا، الغرض دجال اور دنیا والے اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم علیہ الصلاۃ والسلام کو بھیجے گا، وہ دمشق کے سفید مشرقی مینار کے پاس دو زرد ہلکے کپڑے پہنے ہوئے اتریں گے، جو زعفران اور ورس سے رنگے ہوئے ہوں گے، اور اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے ہوں گے، جب وہ اپنا سر جھکائیں گے تو سر سے پانی کے قطرے ٹپکیں گے، اور جب سر اٹھائیں گے تو اس سے پانی کے قطرے موتی کی طرح گریں گے، ان کی سانس میں یہ اثر ہو گا کہ جس کافر کو لگ جائے گی وہ مر جائے گا، اور ان کی سانس وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر کام کرے گی۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام چلیں گے یہاں تک کہ اس (دجال) کو باب لد کے پاس پکڑ لیں گے، وہاں اسے قتل کریں گے، پھر دجال کے قتل کے بعد اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں کے پاس آئیں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے دجال کے شر سے بچا رکھا ہو گا، ان کے چہرے پر ہاتھ پھیر کر انہیں تسلی دیں گے، اور ان سے جنت میں ان کے درجات بیان کریں گے، یہ لوگ ابھی اسی کیفیت میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف وحی نازل کرے گا: اے عیسیٰ! میں نے اپنے کچھ ایسے بندے پیدا کئے ہیں جن سے لڑنے کی طاقت کسی میں نہیں، تو میرے بندوں کو طور پہاڑ پر لے جا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کو بھیجے گا، اور وہ لوگ ویسے ہی ہوں گے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «من كل حدب ينسلون» یہ لوگ ہر ٹیلے پر سے چڑھ دوڑیں گے (سورة الأنبياء: 96) ان میں کے آگے والے طبریہ کے چشمے پر گزریں گے، تو اس کا سارا پانی پی لیں گے، پھر جب ان کے پچھلے لوگ گزریں گے تو وہ کہیں گے: کسی زمانہ میں اس تالاب کے اندر پانی تھا، اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی طور پہاڑ پر حاضر رہیں گے ۱؎، ان مسلمانوں کے لیے اس وقت بیل کا سر تمہارے آج کے سو دینار سے بہتر ہو گا، پھر اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے، چنانچہ اللہ یاجوج و ماجوج کی گردن میں ایک ایسا پھوڑا نکالے گا، جس میں کیڑے ہوں گے، اس کی وجہ سے (دوسرے دن) صبح کو سب ایسے مرے ہوئے ہوں گے جیسے ایک آدمی مرتا ہے، اور اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی طور پہاڑ سے نیچے اتریں گے اور ایک بالشت کے برابر جگہ نہ پائیں گے، جو ان کی بدبو، خون اور پیپ سے خالی ہو، عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹ کی گردن کی مانند پرندے بھیجے گا جو ان کی لاشوں کو اٹھا کر جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہو گا وہاں پھینک دیں گے، پھر اللہ تعالیٰ (سخت) بارش نازل کرے گا جس سے کوئی پختہ یا غیر پختہ مکان چھوٹنے نہیں پائے گا، یہ بارش ان سب کو دھو ڈالے گی، اور زمین کو آئینہ کی طرح بالکل صاف کر دے گی، پھر زمین سے کہا جائے گا کہ تو اپنے پھل اگا، اور اپنی برکت ظاہر کر، تو اس وقت ایک انار کو ایک جماعت کھا کر آسودہ ہو گی، اور اس انار کے چھلکوں سے سایہ حاصل کریں گے اور دودھ میں اللہ تعالیٰ اتنی برکت دے گا کہ ایک اونٹنی کا دودھ کئی جماعتوں کو کافی ہو گا، اور ایک دودھ دینے والی گائے ایک قبیلہ کے لوگوں کو کافی ہو گی، اور ایک دودھ دینے والی بکری ایک چھوٹے قبیلے کو کافی ہو گی، لوگ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا وہ ان کی بغلوں کے تلے اثر کرے گی اور ہر مسلمان کی روح قبض کرے گی، اور ایسے لوگ باقی رہ جائیں گے جو جھگڑالو ہوں گے، اور گدھوں کی طرح لڑتے جھگڑتے یا اعلانیہ جماع کرتے رہیں گے، تو انہی (شریر) لوگوں پر قیامت قائم ہو گی۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الفتن 20 (2137)، سنن ابی داود/الملاحم 14 (4321)، سنن الترمذی/الفتن 59 (2240)، (تحفة الأشراف: 11711)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/181، 182) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اردن پہاڑ جہاں سے عیسیٰ علیہ السلام غائب ہو کر آسمان پر چڑھ گئے تھے، اور دوسرا شخص آپ کی صورت بن کر گیا تو یہودیوں نے اس کو سولی پر چڑھا دیا، یہ مضمون اگرچہ انجیل کے چار مشہور نسخوں میں ہے، لیکن نصاریٰ نے ان میں تحریف کی ہے اور برنباس کی انجیل میں مضمون اسی طرح موجود ہے جیسے قرآن شریف میں ہے، اور اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا ہونے کی بشارت بھی صاف طور سے موجود ہے، اور آپ کا نام مبارک بھی ہے کہ جب اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم آئیں گے تو میرے اوپر سے یہ اتہام رفع ہو گا کہ میں سولی دیا گیا، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں ایک سفید منارہ ۷۴۱ میں وہاں پایا گیا اور یہ آپ کی نبوت کی ایک بڑی نشانی ہے، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بہت ساری باتوں کی پیش گوئی کی ہے جو آپ کے عہد میں نہ تھیں من جملہ ان میں سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن جمع کیا کہ میرے ساتھ وہ لوگ بہت محبت کریں گے جو میرے بعد میرے اوپر ایمان لائیں گے، اور جو کچھ ورق (یعنی مصحف) میں ہو گا اس پر عمل کریں گے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پہلے میں نے ورق کو نہیں سمجھا تھا، جب عثمان رضی اللہ عنہ نے مصحف لکھوائے تو میں نے ورق کا معنی سمجھا، عثمان رضی اللہ عنہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کے بیان کرنے پر دس ہزار درہم دیئے، اور بعض حدیثوں میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام بیت المقدس میں اتریں گے اور بعض میں ہے کہ مسلمانوں کے لشکر میں لیکن بیت المقدس کی روایت بہت مشہور ہے، اور اردن اس سارے محلہ کا نام ہے جہاں پر بیت المقدس ہے، اور اگر وہاں اب سفید مینار نہیں ہے تو آئندہ بن جائے گا اور جس نے صحیح حدیث کا انکار کیا وہ جاہل اور گمراہ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 4075 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4075  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سورہ کہف کے پہلے رکوع کی تلاوت دجال کے فتنے سے حفاظت کا باعث ہے۔

(2)
علماء کو چاہیے کہ علامات قیامت کی صحیح احادیث عوام کو سنائیں خاص طور پر دجال کے بارے میں انھیں باخبر کریں تاکہ وہ فتنے سے بچ سکیں۔

(3)
دجال کے حکم پر بارش کا برسنا یا قحط پڑجانا اسی طرح ایک آزمائش ہے جس طرح اس کی جنت اور جہنم یا اس کا مردے کو زندہ کرنا۔

(4)
دجال کے ظہور کے زمانے میں دن رات کا موجودہ نظام محدود مدت کے لیے معطل ہوجائے گا۔

(5)
ایک سال کے برابر لمبے دن میں، وقت کا اندازہ کر کے، پورے سال کی نمازیں ادا کرنے کا حکم ہے۔
اس میں اشارہ ہے کہ اس وقت انسانوں کے پاس ایسے ذرائع ہوں گے جن سے وہ وقت کا صحیح اندازہ کرسکیں گے اس میں گھڑی کی ایجاد کی پیش گوئی ہے۔

(6)
اس حدیث سے قطب شمالی اور قطب جنوبی کے ان علاقوں کے بارے میں بھی جہاں سال کے بعض حصوں میں دن رات کا معروف نظام نہیں رہتا۔
ایسے علاقوں میں نماز اور روزے کا اندازہ گھڑی دیکھ کر کیا جائے۔
اگر کوئی شخص خلا میں جائے تو وہاں بھی اسی اصول کو مد نظر رکھے۔

(7)
حضرت عیسی ٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں۔
اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔
اور یہ بھی متفق علیہ مسئلہ ہے کہ وہ دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے۔
اس سے صرف مرزا غلام قادیانی اور اس کے پیروکا ر اختلاف رکھتے ہیں۔

(8)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے بہت سے معاملات معجزانہ کیفیت رکھتے ہیں۔
ان میں سے یہ بھی ہے کہ پہلے کافروں نے انھیں شہید کرنے کی کوشش کی تھی اب کافروں کا ان کی حد نظر میں زندہ رہنا ممکن نہ ہوگا۔

(9)
لد ایک شہر ہے جو فلسطین (موجودہ یہودی ریاست اسرائیل)
میں واقع ہے۔
وہاں ہوائی اڈہ بھی ہے۔
ممکن ہے کہ شہر کے دروازے سے مراد اس کا ہوائی اڈہ ہو جہاں دجال فرار ہونے کی کوشش میں حضرت عیسی ٰ علیہ السلام کے قابو میں آجائے۔

(10)
دجال بھی مسیح کہلاتا ہے مگر وہ جھوٹا مسیح ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام سچے مسیح ہیں جن کے ہاتھ سے وہ جہنم میں رسید ہوگا۔

(11)
یاجوج ماجوج جسمانی لحاظ سے قوی ہیکل ہونگےاور تعداد میں بھی بہت زیادہ ہونگےاس لیے عام انسان ان کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔

(12)
یاجوج ماجوج اس وقت کہاں ہیں؟ یہ معلوم نہیں تاہم وہ یقیناًموجود ہیں اس میں شک نہیں۔

(13)
اہل چین یا اہل روس یا اس کے علاوہ کسی ملک کے باسی لوگوں کو یاجوج ماجوج قراردینا درست نہیں۔

(14)
یاجوج ماجوج اچانک ختم ہوجائینگے۔

(15)
یاجوج ماجوج کی ہلاکت کے بعد نباتات اور حیوانات کی پیداوار میں بہت زیادہ برکت ہوگی۔

(16)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات مدینہ منورہ میں ہوگی۔

(17)
ان کے بعد ان کے خلفاء ہونگے مسلمانوں کی تعداد کم ہوتی جائے گی آخر ایک خاص ہوا سے بچے کھچے مسلمان فوت ہوجائیں گے۔

(18)
قیامت کے ابتدائی مراحل مثلاً:
صور پھونکے جانے پر سب کا مرجانا وغیرہ بہت شدید مراحل ہیں۔
اللہ تعالی مسلمانوں کو ان سے محفوظ رکھے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4075   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2240  
´دجال کے فتنے کا بیان۔`
نواس بن سمعان کلابی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صبح دجال کا ذکر کیا، تو آپ نے (اس کی حقارت اور اس کے فتنے کی سنگینی بیان کرتے ہوئے دوران گفتگو) آواز کو بلند اور پست کیا ۱؎ حتیٰ کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ (مدینہ کی) کھجوروں کے جھنڈ میں ہے، پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے واپس آ گئے، (جب بعد میں) پھر آپ کے پاس گئے تو آپ نے ہم پر دجال کے خوف کا اثر جان لیا اور فرمایا: کیا معاملہ ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے صبح دجال کا ذکر کرتے ہوئے (اس کی حقارت اور سنگینی بیان کرتے ہوئے) اپنی آواز کو بلند اور پ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2240]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
فخض فيه ورفع کے معنی ومطلب کے بارے میں دوقول ہیں:
ایک (خفض)،
(حقر)کے معنی میں یعنی اللہ تعالیٰ کے یہاں وہ ذلیل وحقیر ہے،
حتی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو دنیا میں کانا پیداکیا،
نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ دجال اللہ رب العزت کے یہاں اس سے زیادہ ذلیل ہے یعنی وہ اس ایک آدمی کے علاوہ کسی اور کو قتل کرنے پر قدرت نہیں رکھے گا،
بلکہ ایسا کرنے سے عاجز ہوگا،
اس کا معاملہ کمزور پڑ جائے گا،
اور اس کے بعد اس کا اور اس کے اتباع ومویدین کا قتل ہو جائے گا،
اور (رفع) کے معنی اس کے شراور فتنے کی وسعت ہے اور یہ کہ اس کے پاس جوخرق عادت چیزیں ہوں گی وہ لوگو ں کے لیے ایک بڑا فتنہ ہوں گی،
یہی وجہ ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کو اس کے فتنے سے ڈرایا،
دوسرا معنی اس جملے کا یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اس کا تذکرہ اتنا زیادہ کیا کہ لمبی گفتگو کے بعد آپﷺ کی آواز کم ہوگئی تاکہ دورانِ گفتگو آپﷺ آرام فرما لیں پھرسب کو اس فتنے سے آگاہ کرنے کے لیے آپ کی آواز بلند ہو گئی۔

2؎:
یعنی میری زندگی کے بعد فتنہ دجال کے وقت میری امت کا نگراں اللہ رب العالمین ہے۔

3؎:
لُد:
بیت المقدس کے قریب ایک شہرہے،
النہایة فی غریب الحدیث میں ہے کہ لُد ملک شام میں ایک جگہ ہے،
یہ بھی کہا گیا ہے کہ فلسطین میں ایک جگہ ہے،
(یہ آج کل اسرائیل کا ایک فوجی اڈہ ہے) 4 ؎:
اُن کے اسلحہ کی مقدار اس قدر زیادہ ہو گی،
یا مسلمانوں کی تعداد اُس وقت اس قدرکم ہو گی۔

5؎:
اس حدیث میں علامات قیامت،
خروج دجال،
نزول عیسیٰ بن مریم،
یاجوج وماجوج کا ظہور اور ان کے مابین ہونے والے اہم واقعات کا تذکرہ ہے،
دجال کی فتنہ انگیزیوں،
یاجوج وماجوج کے ذریعہ پیدا ہونے والے مصائب اور عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں اور ان کی دعاؤں سے ان کے خاتمے کا بیان ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2240   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7373  
0 [صحيح مسلم، حديث نمبر:7373]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
فخفض فيه ورافع:
اس کے بارے میں طویل گفتگو فرماتے ہوئے،
آواز کو کبھی پست کیا اور کبھی بلند کیا،
یا کبھی اس کے مقام ومرتبہ کی تحقیر کی کہ وہ کانا ہے،
اللہ کے نزدیک وہ بہت حقیر ہے،
وہ صرف ایک آدمی کو قتل کرسکے گا،
بعد میں قتل ہوگا،
اس کے ساتھی شکست کھا کر قتل ہوجائیں گے اور کبھی اس کے فتنہ اور آزمائش کو بڑا بیان کیااور اس سے خرق عادت کام سرزد ہوں گے،
اس لیے ہر نبی نے اس کے خطرہ سے ڈرایا ہے۔
(2)
غيرالدجال اخوفني عليكم یعنی دجال کے سوا فتنے مجھے زیادہ خوفناک محسوس ہوتے ہیں،
جیسے باہمی خانہ جنگی،
دنیا کی حرص وآز،
گمراہ کرنے والے ضلالت پیشہ رہنما۔
(3)
انا حجيجه:
میں اس کے ساتھ دلیل وحجت سے بات کروں گا،
یہ بات آپ نے محض علی سبیل الفرض کہی تھی،
کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے شاید وہ نموداور ہوچکا ہے،
وگرنہ یہ تو طے ہے،
اس کا ظہور آخری زمانہ میں ہوگا،
جیسا کہ آگے آرہا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسے قتل کریں گے۔
(4)
كاني لمشبهه:
چونکہ دجال جیسی قبیح اور بدشکل،
کسی کی شکل نہیں ہے،
اس لیے آپ نے كاني،
گویا کا لفظ استعمال کیا۔
(5)
فليقرا عليه فواتح سورة الكهف:
اس کے فتنہ سے بچنے کے لیے سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے،
دجال کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لیے ابتدائی تین آیات کا پڑھنا کافی ہے،
اگریہ یا،
دس آیات کرنی چاہییں،
کیونکہ بعد والی آیات میں انسان کی آزمائش وابتلا کا تذکرہ ہے اور زمینی اشیاء کی دلکشی اور رعنائی کا امتحان مقصد کے لیے بیان ہے،
(6)
خلة:
سنگریزوں والاراستہ،
راستہ۔
(7)
عاث:
ماضی کا صیغہ ہے،
کیونکہ اس کے فساد کا وقوع یقینی ہے کہ وہ بہت جلد فساد پھیلائے گا۔
(8)
اقدرواله قدره:
دن کا اندازہ لگاؤ،
جتنی دیر کے بعد ان دنوں نماز پڑھتے ہو،
اتنی دیر کے بعد نمازیں پڑھتے رہنا،
کیونکہ اللہ خرق عادت کے طور پر،
ابتدائی تین دن،
سال،
مہینہ اور ہفتہ کے برابر کردےگا،
سورج یا زمین کی رفتار انتہائی سست کردےگا،
یا وہ ایسے علاقے سے نمودار ہوگا،
جہاں دن رات کا باربار آنا کم ہوتے ہیں۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
جن علاقوں میں دن رات عام طریقہ کے مطابق نہیں ہیں،
وہ نماز اور روزہ کے لیے اندازہ کرلیں گے اور جن علاقوں میں دن اور رات چھ چھ ماہ کے ہیں،
وہاں دن،
رات میں صرف پانچ نمازیں کافی نہیں ہوں گی،
بلکہ چوبیس گھنٹوں میں،
پانچ نمازیں پڑھنی ہوں گی اور اس کے مطابق روزہ رکھنا ہوگا،
اس کے لیے اپنی قریبی علاقہ کے دن،
رات کو سامنے رکھا جائے گا۔
(9)
كالغيث استدبرته الريح:
اس بادلوں کی طرح جس کو ہوا اڑاتی ہے،
یعنی وہ مسافت بہت جلد طے کرے گا،
لوگوں کے امتحان اور آزمائش کے لیے اس سے خارق عادت بہت سے کام سرزد ہوں گے اور یہ سب کچھ اللہ کی مشیت اور ارادہ سے ہوگا۔
(10)
فيصبحون ممحلين:
وہ قحط کا شکار ہوجائیں گے۔
(11)
يعاسيب،
يعسوب کی جمع ہے،
شہد کی مکھیوں کے سردار،
جس کے پیچھے وہ اڑتی ہیں۔
(12)
جزلة،
ٹکڑا،
(13)
رمية الغرض:
تیر کے نشانہ کا فاصلہ،
دونوں ٹکڑوں کے درمیان کافی فاصلہ ہوگا۔
(14)
ينزل عند المنارة البيضاء شرقي دمشق:
وہ دمشق کے مشرق میں سفید منارہ کے پاس اتریں گے،
(15)
بين مهرودتين:
دوزرد چادروں میں،
یعنی ان کا جوڑا انتہائی خوبصورت ہوگا،
(16)
جمان:
چاندی کے دانے یامنکے،
بقول حافظ ابن کثیر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھایا گیا ہے تو ان کے سر سے پانی کے قطرے گررہے تھے،
اس حالت میں وہ اتریں گے،
جو اس بات کی علامت ہوگی کہ آپ زندہ رہے ہیں،
(17)
فلا يحل لكافر ان يجدريح نفسه الامات،
جس کافر تک عیسی علیہ السلام کے سانس کی مہک پہنچے گی،
وہ موت سے بچ نہیں سکے گا،
اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ فوراً مرجائے گا،
بلکہ مقصد یہ ہے کہ اب وہ زندہ نہیں رہ سکے گا اور دجال کو خصوصی طور پر،
آپ قتل کریں گے،
تاکہ لوگوں کو اس کا خون اپنے بھالے پر دکھائیں،
وگرنہ وہ بھی آپ کے سانس کی بو سے ہلاک ہوجاتا،
اس لیے کسی تاویل کی ضرورت نہیں ہے۔
(18)
لد:
آج کل اسرائیل کا ہوائی اڈہ ہے اور یہ شہر فلسطین کے علاقہ میں،
بیت المقدس کے قریب واقع ہے۔
(19)
يمسح عن وجوههم:
عزت وتکریم کے لیے،
سفر کی وجہ سے ان کے چہروں پر جو گردوغبار ہوگی،
اس کو صاف کریں گے،
یا دجال کے قتل کی خبردےکر،
تبرک وبرکت کے لیے،
غم وحزن اور خوف دور کرنے کے لیے ہاتھ پھیریں گے۔
(20)
عبادالي:
اپنے تکوینی اور تقدیری حکم کو پورا کرنے کے لیے اپنے بندے نکالے ہیں کہ لايدان لاحد بقتالهم،
ان سے جنگ کے لیے کسی کے دوہاتھ یعنی قوت وطاقت نہیں ہے اور جب عباد سے مراد نیک بندے ہو تو ان کی اللہ کی طرف بلاصلہ وواسطہ اضافت کی جاتی ہے،
جیسےعباد الرحمن،
عبده،
عبدالله،
اگر تکوینی حکومت کے پابند مراد ہوں،
جو کافروسرکش ہوتے ہیں تو پھراضافہ کےلیےلام کاواسطہ لایاجاتاہے،
جیسےفرمایا،
بعثناعليكم عبادالنااور اس حدیث میں عبادالي،
اور عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کے لیے ہے۔
(21)
حرزعبادي:
میرےبندوں کومحفوظ کرو،
پناہ دوں،
(طورپرلےجاکر) (22)
حدب:
ٹیلہ،
بلندجگہ،
(23)
ينسلون،
دوڑ رہے ہوں گے،
(24)
بحيره طبرية،
اردن کےعلاقہ میں ہے۔
(25)
كجريةطبرية،
شہرہے جس کے قریب بحیرہ واقع ہے اورامام طبرانی،
اس شہر کی طرف منسوب ہیں۔
(26)
كان بهذه مرة ماء:
علامات ونشانات دیکھ کر کہیں گے،
کبھی یہاں پانی رہاہے۔
جبل طورپر عیسیٰ علیہ السلام اور ان ساتھ محصور ہوجائیں گے تو غذائی قلت کی بنا پر،
گائے یا بیل کا سرجو عام گوشت سے سستا ہوتا ہے،
اس کی قیمت بھی سو(100)
دینار تک پہنچ جائےگی۔
(27)
نغف:
وہ کیڑاجواونٹوں اور بکریوں کے ناکوں(نتھنوں)
میں پیدا ہوتاہے۔
(28)
فرسي:
فريس کی جمع ہے،
ہلاک ہونے والے،
بیک وقت سب سے غضب الٰہی کا شکار(فریسہ)
ہوجائیں گے۔
(29)
زهم:
چکناہٹ،
بدبو کے معنی میں بھی آجاتا ہے،
(30)
لايكن منه:
اس بارش سے کوئی اوٹ یا چھت کسی کو بچا نہیں سکے گی،
بارش ہرجگہ،
چھت ٹپک کربھی پہنچ جائے گی،
(31)
زلفةشيتة:
ڈیم۔
(32)
فئام:
گروہ،
جماعت،
قبیلہ کےنیچےبطن (خاندان)
اوراس کے نیچے،
(33)
فخذ،
کنبہ ایک آدمی کا اہل وعیال۔
(34)
تهارج:
اختلاط،
میل ملاپ،
مراد جنسی تعلقات ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7373