ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ اللہ کے اس گھر پر حملہ کرنے سے باز نہ آئیں گے حتیٰ کہ ایک لشکر لڑنے کے لیے آئے گا، جب وہ لوگ مقام بیداء یا بیداء کی سر زمین میں پہنچیں گے، تو اول سے لے کر اخیر تک تمام زمین میں دھنسا دیئے جائیں گے، اور ان کے درمیان والے بھی نہیں بچیں گے“۔ میں نے عرض کیا: اگر ان میں سے کوئی ایسا بھی ہو جسے زبردستی اس لشکر میں شامل کیا گیا ہو؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انہیں اپنی اپنی نیت کے موافق اٹھائے گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الفتن 31 (2184)، (تحفة الأشراف: 15902)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/336، 337) (صحیح)» (سند میں مسلم بن صفوان مجہول راوی ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کا ذکر فرمایا جو زمین میں دھنسا دیا جائے گا تو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ”اللہ کے رسول! شاید ان میں کوئی ایسا بھی ہو جسے زبردستی لایا گیا ہو“؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اپنی اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الفتن 10 (2171)، (تحفة الأشراف: 18216)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/289) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا يونس بن محمد , حدثنا حماد بن سلمة , عن علي بن زيد , عن اوس بن خالد , عن ابي هريرة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" تخرج الدابة ومعها خاتم سليمان بن داود , وعصا موسى بن عمران عليهما السلام , فتجلو وجه المؤمن بالعصا , وتخطم انف الكافر بالخاتم , حتى ان اهل الحواء ليجتمعون , فيقول: هذا يا مؤمن , ويقول: هذا يا كافر". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ , عَنْ أَوْسِ بْنِ خَالِدٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" تَخْرُجُ الدَّابَّةُ وَمَعَهَا خَاتَمُ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ , وَعَصَا مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ عَلَيْهِمَا السَّلَام , فَتَجْلُو وَجْهَ الْمُؤْمِنِ بِالْعَصَا , وَتَخْطِمُ أَنْفَ الْكَافِرِ بِالْخَاتِمِ , حَتَّى أَنَّ أَهْلَ الْحِوَاءِ لَيَجْتَمِعُونَ , فَيَقُولُ: هَذَا يَا مُؤْمِنُ , وَيَقُولُ: هَذَا يَا كَافِرُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زمین سے «دابة» ظاہر ہو گا، اس کے ساتھ سلیمان بن داود علیہما السلام کی انگوٹھی اور موسیٰ بن عمران علیہ السلام کا عصا ہو گا، اس عصا (چھڑی) سے وہ مومن کا چہرہ روشن کر دے گا، اور انگوٹھی سے کافر کی ناک پر نشان لگائے گا، حتیٰ کہ جب ایک محلہ کے لوگ جمع ہوں گے تو یہ کہے گا: اے مومن! اور وہ کہے گا: اے کافر!“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن 28 (3187)، (تحفة الأشراف: 12202)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/2945، 491، 496) (ضعیف)» (سند میں علی بن زید ضعیف اور اوس بن خالد مجہول راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎: یعنی مومن اور کافر نشان کی وجہ سے معلوم ہو جائیں گے تو ہر ایک شخص مومن کو ایمان کا نشان دیکھ کر مومن کے لقب سے پکارے گا اور کافر کو کفر کا نشان دیکھ کر کافر کہہ کر پکارے گا، غرض اس وقت ایمان اور کفر چھپا نہ رہے گا۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (3187) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 522
(مرفوع) قال ابو الحسن القطان , حدثناه إبراهيم بن يحيى , حدثنا موسى بن إسماعيل , حدثنا حماد بن سلمة , فذكر نحوه , وقال فيه مرة: فيقول: هذا يا مؤمن , وهذا يا كافر. (مرفوع) قَالَ أَبُو الْحَسَنِ الْقَطَّانُ , حَدَّثَنَاهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَحْيى , حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , فَذَكَرَ نَحْوَهُ , وَقَالَ فِيهِ مَرَّةً: فَيَقُولُ: هَذَا يَا مُؤْمِنُ , وَهَذَا يَا كَافِرُ.
(امام ابن ماجہ کے شاگرد) ابوالحسن قطان نے (اپنی عالی سند سے بھی) اس سے ملتی جلتی حدیث بیان کی ہے۔ اور اس میں ایک مرتبہ فرمایا: تو یہ کہے گا: اے مومن! اور یہ (کہے گا) اے کافر!
(مرفوع) حدثنا ابو غسان محمد بن عمرو زنيج , حدثنا ابو تميلة , حدثنا خالد بن عبيد , حدثنا عبد الله بن بريدة , عن ابيه , قال: ذهب بي رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى موضع بالبادية قريب من مكة , فإذا ارض يابسة حولها رمل , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تخرج الدابة من هذا الموضع , فإذا فتر في شبر" , قال ابن بريدة: فحججت بعد ذلك بسنين فارانا عصا له , فإذا هو بعصاي هذه كذا وكذا. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو زُنَيْجٌ , حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ , حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عُبَيْدٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: ذَهَبَ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَوْضِعٍ بِالْبَادِيَةِ قَرِيبٍ مِنْ مَكَّةَ , فَإِذَا أَرْضٌ يَابِسَةٌ حَوْلَهَا رَمْلٌ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَخْرُجُ الدَّابَّةُ مِنْ هَذَا الْمَوْضِعِ , فَإِذَا فِتْرٌ فِي شِبْرٍ" , قَالَ ابْنُ بُرَيْدَةَ: فَحَجَجْتُ بَعْدَ ذَلِكَ بِسِنِينَ فَأَرَانَا عَصًا لَهُ , فَإِذَا هُوَ بِعَصَايَ هَذِهِ كَذَا وَكَذَا.
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مکہ کے قریب ایک جگہ صحراء میں لے گئے، تو وہ ایک خشک زمین تھی جس کے اردگرد ریت تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جانور ( «دابۃ الارض») یہاں سے نکلے گا، میں نے وہ جگہ دیکھی، وہ ایک بالشت میں سے انگشت شہادت اور انگوٹھے کے درمیان کی دوری کے برابر تھی“۔ ابن بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کئی سال کے بعد حج کیا تو بریدہ رضی اللہ عنہ (یعنی میرے والد) نے ہمیں «دابۃ الارض» کا عصا دکھایا جو میرے عصا کے بقدر لمبا اور موٹا تھا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1974، ومصباح الزجاجة: 1438)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/357) (ضعیف جدّاً)» (سند میں خالد بن عبید متروک راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا خالد بن عبيد: ”متروك الحديث مع إمامته“ (تقريب: 1654) ومن أجله ضعفه البوصيري انوار الصحيفه، صفحه نمبر 522
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”اس وقت تک قیامت قائم نہ ہو گی جب تک سورج پچھم سے نہ نکلے گا، جب سورج کو پچھم سے نکلتے دیکھیں گے تو روئے زمین کے سب لوگ ایمان لے آئیں گے، لیکن یہ ایسا وقت ہو گا کہ اس وقت جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتے تھے، ان کا ایمان لانا کچھ فائدہ نہ دے گا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: کیونکہ اللہ کی قدرت کی کھلی کھلی نشانی ظاہر ہو جائے گی اور ایسی حالت میں تو سب مومن ہو جاتے ہیں، جیسے قیامت میں جنت، جہنم اور حشر کو دیکھ کر سب ایمان لائیں گے، ایمان جو قبول ہے وہ یہی ہے کہ غیب پر ایمان لائے، بہر حال پچھم سے جب تک سورج نہ نکلے اس وقت تک توبہ کا دروازہ کھلا ہے، پھر بند ہو جائے گا۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کی پہلی نشانی سورج کا پچھم سے نکلنا، اور چاشت کے وقت لوگوں پر «دابہ»(چوپایہ) کا ظاہر ہونا ہے“۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان دونوں میں سے جو بھی پہلے نکلے، تو دوسرا اس سے قریب ہو گا، میرا یہی خیال ہے کہ پہلے سورج پچھم سے نکلے گا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی ان نشانیوں میں جو قانون قدرت کے خلاف ہیں کیونکہ پہلی نشانی مہدی علیہ السلام کا ظہور ہے، پھر عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اتر کر زمین پر آنا، پھر دجال کا نکلنا، پھر یاجوج ماجوج کا نکلنا، اور دابۃ الارض میں اختلاف ہے کہ سورج کے نکلنے سے پہلے نکلے گا یا بعد میں نکلے گا، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا یہی خیال تھا کہ وہ سورج نکلنے کے بعد نکلے گا، جب کہ اوروں نے کہا کہ اس سے پہلے نکلے گا، بہرحال آسمانی نشانیوں میں سورج کا نکلنا آخری نشانی ہے، اور ارضی نشانیوں میں دابۃ الارض کا نکلنا پہلی، اور بعض نے کہا کہ پہلی قیامت کی نشانی دجال کا نکلنا ہے، پھر عیسیٰ علیہ السلام کا اترنا، پھر یاجوج اور ماجوج کا نکلنا، پھر دابۃ الارض کا، پھر سورج کا پچھم سے نکلنا، کیونکہ سورج نکلنے پر ایمان کا دروازہ بند ہو جائے گا، اور عیسیٰ علیہ السلام کے عہد میں بہت سے کافر دین اسلام کو قبول کریں گے یہاں تک کہ ساری دنیا میں ایک ہی دین ہو جائے گا۔ «والحمد لله الذي بنعمته تتم الصالحات» ۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا عبيد الله بن موسى , عن إسرائيل , عن عاصم , عن زر , عن صفوان بن عسال , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن من قبل مغرب الشمس بابا مفتوحا , عرضه سبعون سنة , فلا يزال ذلك الباب مفتوحا للتوبة , حتى تطلع الشمس من نحوه , فإذا طلعت من نحوه لم ينفع نفسا إيمانها , لم تكن آمنت من قبل او كسبت في إيمانها خيرا". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى , عَنْ إِسْرَائِيلَ , عَنْ عَاصِمٍ , عَنْ زِرٍّ , عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنْ قِبَلِ مَغْرِبِ الشَّمْسِ بَابًا مَفْتُوحًا , عَرْضُهُ سَبْعُونَ سَنَةً , فَلَا يَزَالُ ذَلِكَ الْبَابُ مَفْتُوحًا لِلتَّوْبَةِ , حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ نَحْوِهِ , فَإِذَا طَلَعَتْ مِنْ نَحْوِهِ لَمْ يَنْفَعْ نَفْسًا إِيمَانُهَا , لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا".
صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مغرب (یعنی سورج کے ڈوبنے کی سمت) میں ایک کھلا دروازہ ہے، اس کی چوڑائی ستر سال کی مسافت ہے، یہ دروازہ توبہ کے لیے ہمیشہ کھلا رہے گا، جب تک سورج ادھر سے نہ نکلے، اور جب سورج ادھر سے نکلے گا تو اس وقت کسی شخص کا جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہو یا ایمان لا کر کوئی نیکی نہ کما لی ہو، اس کا ایمان لانا کسی کام نہ آئے گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الدعوات 99 (3535، 3536)، (تحفة الأشراف: 4952)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/239، 240، 241) (حسن)»
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دجال بائیں آنکھ کا کانا، اور بہت بالوں والا ہو گا، اس کے ساتھ جنت اور جہنم ہو گی، لیکن اس کی جہنم جنت اور اس کی جنت جہنم ہو گی“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الفتن 20 (2934)، (تحفة الأشراف: 3343)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/383، 397) (صحیح)»
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ حدیث بیان کی: ”دجال مشرق (پورب) کے ایک ملک سے ظاہر ہو گا، جس کو «خراسان» کہا جاتا ہے، اور اس کے ساتھ ایسے لوگ ہوں گے جن کے چہرے گویا تہ بہ تہ ڈھال ہیں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الفتن 57 (2237)، (تحفة الأشراف: 6614)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/4، 7) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ ان کے چہرے گول، چپٹے اور گوشت سے پر ہوں گے۔