ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کا ذکر فرمایا جو زمین میں دھنسا دیا جائے گا تو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ”اللہ کے رسول! شاید ان میں کوئی ایسا بھی ہو جسے زبردستی لایا گیا ہو“؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اپنی اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الفتن 10 (2171)، (تحفة الأشراف: 18216)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/289) (صحیح)»
يعوذ عائذ بالبيت فيبعث إليه بعث فإذا كانوا ببيداء من الأرض خسف بهم فقلت يا رسول الله فكيف بمن كان كارها قال يخسف به معهم ولكنه يبعث يوم القيامة على نيته
يكون اختلاف عند موت خليفة فيخرج رجل من أهل المدينة هاربا إلى مكة فيأتيه ناس من أهل مكة فيخرجونه وهو كاره فيبايعونه بين الركن والمقام ويبعث إليه بعث من أهل الشام فيخسف بهم بالبيداء بين مكة والمدينة فإذا رأى الناس ذلك أتاه أبدال الشام وعصائب أهل العراق فيبا
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4065
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) بڑے جرم کے ارتکاب پر اللہ کا عذاب بعض اوقات مجرموں کو دنیا ہی میں پکڑ لیتا ہے۔
(2) مجرموں کے ساتھ چلنے والے بھی عذاب کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔
(3) قیامت کو سزا صرف مجرموں کو ملے گی، خواہ وہ جرم کا ارتکاب کرنےوالے افراد ہوں یا ان سے کسی نہ کسی انداز سے تعاون کرنے والے یا ان کے جرم کو معمولی سمجھ کر روکنے کی کوشش نہ کرنے والے یا ان کے جرم سے نفرت نہ رکھنے والے ہوں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4065
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4289
´باب:۔۔۔۔` ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دھنسائے جانے والے لشکر کا واقعہ روایت کرتی ہیں اس میں ہے: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس شخص کا کیا حال ہو گا جو نہ چاہتے ہوئے زبردستی لایا گیا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ بھی ان کے ساتھ دھنسا دیا جائے گا البتہ قیامت کے دن وہ اپنی نیت پر اٹھایا جائے گا۔“[سنن ابي داود/كتاب المهدى /حدیث: 4289]
فوائد ومسائل: 1) اللہ تعالی کا عذاب جب عمومی انداز میں آتا ہے تو سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، البتہ انبیاء اور رسل ؑ اور ان کے متبعین کا معاملہ بطور معجزہ اس عموم سے مستثنیٰ ہے۔
2) اضطراروا کراہ یعنی انسان کو کسی ناپسندیدہ عمل پر انتہائی مجبور کردیا جانا۔ ۔ ۔ ۔ شریعت میں ایک معتبر عذر ہے، جس کا فائدہ اگر دنیا میں حاصل نہ ہو سکے تو ان شاءاللہ قیامت کو ضرور ملے گا۔
3) اور اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4289
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2171
´باب:۔۔۔` ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کا ذکر کیا جو زمین میں دھنسا دیا جائے گا، تو ام سلمہ نے عرض کیا: ہو سکتا ہے اس میں کچھ مجبور لوگ بھی ہوں، آپ نے فرمایا: ”وہ اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2171]
اردو حاشہ: وضاحت:
1؎: یعنی دنیاوی عذاب میں تومجبور اوربے بس لوگ بھی مبتلا ہوجائیں گے مگر آخرت میں وہ اپنے اعمال کے موافق اٹھائے جائیں گے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2171