معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کی موت اس گواہی پر ہو کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور یہ گواہی سچے دل سے ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11331، ومصباح الزجاجة: 1325)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/229) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱ ؎: وعدوں سے متعلق بہت ساری احادیث آئی ہیں: ۱- بعض ایسی احادیث ہیں جس میں کسی نیکی کے کرنے پر جنت کی بشارت ہے۔ ۲- اور بعض میں کسی کام کے کرنے پر جنت کے حرام ہونے کی وعید اور دھمکی ہے۔ اور وعید سے متعلق بھی متعدد احادیث آئی ہیں: ۱- بعض احادیث میں بعض کبیرہ گناہوں پر کفر کا اطلاق ہوا ہے۔ ۲- بعض کبائر کے مرتکب سے ایمان کی نفی آئی ہے۔ ۳- بعض احادیث میں ان کبائر کے مرتکب سے نبی اکرم ﷺ نے اپنی براءت کا اظہار فرمایا ہے۔ ۴- بعض احادیث میں بعض کبائر کے مرتکب کے بارے میں ہے کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ ۵- بعض میں بعض کبیرہ گناہ کے ارتکاب پر جہنم کی دھمکی ہے۔ ۶- بعض احادیث میں بعض کبائر کے مرتکب کو لعنت سنائی گئی ہے، یعنی رحمت سے دوری کی دھمکی۔ وعید کی یہ ساری احادیث ایسے مسلمان کے بارے میں ہیں، جس کے پاس اصل ایمان و توحید کی دولت موجود ہے، لیکن اس سے بعض کبیرہ گناہ سرزد ہوئے ہیں، اور وعدوں سے متعلق ساری احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ شرک کے علاوہ دوسرے کبیرہ گناہوں کا مرتکب مسلمان جنت میں داخل ہو گا، اور جہنم سے نجات پائے گا، اس لئے وہ «لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ» کی شہادت دینے والا ہے، اور فی الجملہ مسلمان ہے۔ اور وعید کی احادیث میں گناہ کبیرہ کے ارتکاب کرنے والے کو جہنم کے عذاب اور جنت سے محرومی کی دھمکی سنائی گئی ہے، اور بعض میں اس سے ایمان کی نفی ہے، بعض میں رسول اکرم ﷺ نے اس سے اپنی براءت کا اعلان فرمایا ہے، بلکہ بعض میں اس پر کفر کا اطلاق ہوا ہے۔ وعدہ اور وعید سے متعلق مسئلہ کو اہل علم نے عقیدے کا اہم ترین مسئلہ قرار دیا ہے، اس لئے کہ ابتداء ہی میں ان احادیث کے سمجھنے میں اور اس سے مستفاد مسائل عقیدہ میں امت اسلامیہ اختلافات کا شکار ہوئی۔ اہل علم کا اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ نصوص متواترہ کا مفاد ہے کہ امت مسلمہ کے بعض افراد اپنے کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کی سزا میں داخل جہنم ہوں گے، پھر سزا بھگتنے کے بعد اصل توحید و ایمان کی برکت سے وہاں سے نکل کر داخل جنت ہوں گے، جیسا کہ شفاعت کی احادیث میں واضح طور پر موجود ہے۔ علماء کا اس مسئلہ میں ایک مسلک یہ ہے کہ وعدوں سے متعلق احادیث کا ظاہری معنی ہی مراد ہے، اور کلمہ توحید و رسالت کے شروط اور تقاضوں کے پورے ہونے اور اس راہ کے موانع (رکاوٹوں) کے دور ہونے کے بعد ان وعدوں کا متحقق ہونا ضروری ولابدی ہے، اس لئے ان نصوص کو اسی طرح بیان کیا جائے گا، مثلاً حدیث میں ہے کہ جس شخص نے «لا الہ إلا اللہ» کہا وہ جنت میں داخل ہوا، اور جہنم کو اللہ نے اس پر حرام کر دیا، یا جس نے ایسا کیا جنت میں داخل ہوا وغیرہ وغیرہ، تو جنت کا یہ دخول اس صورت میں ہو گا جب کلمہ توحید کی شرائط اور تقاضے پورے کیے ہوں گے، اور دخول جنت کی راہ کے موانع (رکاوٹیں) دور کی ہوں گی، ان احادیث میں صرف یہ ہے کہ یہ جنت میں جانے یا جہنم سے نجات کا سبب ہیں، اور سبب کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ اس کے ہونے سے مسبب (نتیجہ) کا برآمد ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ وعدہ کے پورا ہونے کے لئے شروط و قیود کا پایا جانا، اور موانع (رکاوٹوں) کا دور ہونا ضروری ہے۔ لیکن ان احادیث کو کسی خاص آدمی پر چسپاں کر کے اس کو جنت یا جہنم کا مستحق قرار دینا اس لئے صحیح نہیں ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ اس مخصوص بندے نے کیا اس کلمہ کی شرائط اور تقاضے پورے کیے ہیں؟ جس سے وہ جنت کامستحق ہے، اور دخول جنت سے مانع چیزوں کو دور کر دیا ہے یا نہیں؟۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا یہی مسلک ہے، امام بخاری نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کی حدیث: «ما من عبد قال: لا إله إلا الله، ثم مات على ذلك، إلا دخل الجنة» کے بارے میں فرمایا: «هذا عند الموت أو قبله، إذا تاب، وندم وقال: لا إله إلا الله غفر له» یہ موت کے وقت یا موت سے پہلے جب بندہ نے توبہ کی، نادم ہوا، اور «لا إله إلا الله» کہا، تو اس کو بخش دیا جائے گا چنانچہ توبہ و ندامت، اور کلمہ «لا إله إلا الله» پر موت سے جنت میں داخلہ کی شروط اور شہادت میں قدح کرنے والی رکاوٹوں کی نفی ہو گئی، اور بندہ جنت میں چلا گیا۔ علامہ سلیمان بن عبداللہ تیسیرالعزیز الحمید (۷۲) میں فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اس کلمہ توحید کو اس کے معنی کی معرفت و سمجھ کے ساتھ کہا، اور ظاہر و باطن میں اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کیا تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ خلاصہ یہ کہ یہ احادیث مطلق ہیں، دوسری احادیث میں ان کی قیود و شروط آئی ہیں، اس لئے قید و شرط پر ان مطلق احادیث کو پیش کرنا ضروری ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ”میرے دونوں جوتوں کو لے کر جاؤ، اور اس باغ کے پرے جو «لا الہ إلا اللہ» کہنے، اور اس پر دل سے یقین رکھنے والا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو“۔ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کئے بغیر مر گیا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ جس نے خلوص دل سے «لا إلہ الا اللہ» کی گواہی دی، یا یقین قلب کے ساتھ گواہی دی وہ جہنم میں نہیں جائے گا، یا جنت میں جائے گا، نیز فرمایا: ”وہ جنت میں داخل ہو گا، اور اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی“۔ امام ابن رجب فرماتے ہیں: اس کی وضاحت یہ ہے کہ بندہ کا «لا إله إلا الله» کہنا اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ غیر اللہ کے معبود ہونے کی نفی کرے، اور «إلــه» ایسی قابل اطاعت (مطاع) ذات ہے کہ اس کی اہمیت کے سامنے، اس کی جلالت شان کے آگے، اس سے محبت کرکے، اس سے ڈر کر، اس سے امید کر کے، اس پر توکل کر کے، اس سے سوال کر کے، اور اس کو پکار کر اس کی نافرمانی نہیں کی جا سکتی، یہ ساری چیزیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں، تو جس نے ان الٰہی خصوصیات و امتیازات میں سے کسی چیز میں بھی کسی مخلوق کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا اس کے «لا إله إلا الله» کے کہنے کے اخلاص میں یہ قدح وطعن کی بات ہوئی، اور اس کی توحید میں نقص آیا، اور اس میں اسی مقدار میں مخلوق کی عبودیت متحقق ہوئی، اور یہ سب شرک کی شاخیں ہیں۔ خلاصہ یہ کہ وعدہ سے متعلق احادیث کو اس کے ظاہر پر رکھا جائے، اور اس کو ویسے ہی بیان کیا جائے، اور اس کو کسی مخصوص آدمی پر منطبق (چسپاں) نہیں کیا جائے گا، اور اس وعدے یعنی دخول جنت کے وجود کے تحقق کے لئے ایسی شروط وقیود ہیں جن کا وجود ضروری ہے، اور اس کی تنفیذ کی راہ میں جو موانع اور رکاوٹیں حائل ہوں ان کا دور ہونا ضروری ہے۔ بعض علماء نے ان احادیث کو اس کے عام اور ظاہری معنی میں نہیں لیا ہے بلکہ وہ اس کی مختلف تاویلات کرتے ہیں، مثلاً کلمہ گو مسلمان ( «لا إله إلا الله» کے قائل) پر جہنم کے حرام ہونے کا مطلب ان کے نزدیک اس کا ہمیشہ ہمیش اور ابد الآباد تک جہنم میں نہ رہنا ہے، بلکہ اس میں داخل ہونے کے بعد وہ اس سے باہر نکلے گا، یا یہ مراد لیتے ہیں کہ وہ کفار و منافقین کے جہنم کے ٹھکانوں میں داخل نہ کیا جائے گا، جب کہ بہت سے گنہگار موحد (مسلمان) جہنم کے اوپری طبقہ میں اپنے گناہوں کی پاداش میں داخل ہوں گے، اور اہل شفاعت کی شفاعت اور ارحم الراحمین کی رحمت سے وہ اس سے باہر نکل کر جنت میں جائیں گے، امام ابن قتیبہ اور قاضی عیاض انہی مذکورہ معانی کے اعتبار سے «لا إله إلا الله» کے قائلین کے جنت میں داخل ہونے کے استحقاق کی احادیث کے معنی و مراد کے بارے میں کہتے ہیں کہ آخری انجام و عاقبت کے اعتبار سے عذاب پانے کے بعد وہ جنت میں جائیں گے۔ بعض اہل علم کے نزدیک وعدہ سے متعلق احادیث ابتدائے اسلام یعنی فرائض اور اوامر و نواہی سے پہلے کی ہیں، ان کے بعد یہ منسوخ ہو گئی ہیں، اور و اجبات و فرائض ناسخ اور باقی ہیں۔ (الفریوائی)
ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «لا إله إلا الله» سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں، اور یہ کلمہ کوئی گناہ باقی نہیں چھوڑتا“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18013، ومصباح الزجاجة: 1326) (ضعیف)» (زکریا بن منظور ضعیف راوی ہیں ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی جب کافر «لا إله إلا الله» کہہ کر مسلمان ہو جائے تو اس سے زمانہ کفر کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف زكريا بن منظور: ضعيف وضعفه الجمھور (مجمع الزوائد 146/10) و محمد بن عقبة بن أبي مالك: مستور (تقريب: 2026،6142) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 512
(مرفوع) حدثنا ابو بكر , حدثنا زيد بن الحباب , عن مالك بن انس , اخبرني سمي مولى ابي بكر , عن ابي صالح , عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قال في يوم مائة مرة: لا إله إلا الله وحده لا شريك له , له الملك وله الحمد , وهو على كل شيء قدير , كان له عدل عشر رقاب , وكتبت له مائة حسنة , ومحي عنه مائة سيئة , وكن له حرزا من الشيطان سائر يومه إلى الليل , ولم يات احد بافضل مما اتى به , إلا من قال اكثر". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ , حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ , عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ , أَخْبَرَنِي سُمَيٌّ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَالَ فِي يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ , لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ , وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ , كَانَ لَهُ عَدْلُ عَشْرِ رِقَابٍ , وَكُتِبَتْ لَهُ مِائَةُ حَسَنَةٍ , وَمُحِيَ عَنْهُ مِائَةُ سَيِّئَةٍ , وَكُنَّ لَهُ حِرْزًا مِنَ الشَّيْطَانِ سَائِرَ يَوْمِهِ إِلَى اللَّيْلِ , وَلَمْ يَأْتِ أَحَدٌ بِأَفْضَلَ مِمَّا أَتَى بِهِ , إِلَّا مَنْ قَالَ أَكْثَرَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ایک دن میں سو بار «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير» یعنی اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ تنہا ہے، اس کا کوئی ساجھی و شریک نہیں، اس کے لیے بادشاہت اور تمام تعریفیں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، کہا تو اس کے لیے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ہے، اور اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں، اور اس کی سو برائیاں مٹائی جاتی ہیں، اور وہ پورے دن رات تک شیطان سے بچا رہتا ہے، اور کسی کا عمل اس کے عمل سے افضل نہ ہو گا مگر جو کوئی اسی کلمہ کو سو بار سے زیادہ کہے“۱؎۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص نماز صبح (فجر) کے بعد «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد بيده الخير وهو على كل شيء قدير» کہے تو اسے اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4238) (ضعیف)» (سند میں عطیہ العوفی اور محمد بن عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، «عشرمرات» کے لفظ سے اس طرح کی دعا ثابت ہے، کمافی صحیح الترغیب و الترھیب: 472 - 475)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عطية:ضعيف مدلس وتلميذه محمد بن أبي ليلي ضعيف مشهور انوار الصحيفه، صفحه نمبر 512
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”سب سے بہترین ذکر «لا إله إلا الله» اور سب سے بہترین دعا «الحمد لله» ہے“۱؎۔
(قدسي) حدثنا إبراهيم بن المنذر الحزامي , حدثنا صدقة بن بشير مولى العمريين , قال: سمعت قدامة بن إبراهيم الجمحي يحدث , انه كان يختلف إلى عبد الله بن عمر بن الخطاب , وهو غلام وعليه ثوبان معصفران , قال: فحدثنا عبد الله بن عمر , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , حدثهم:" ان عبدا من عباد الله , قال: يا رب , لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك , ولعظيم سلطانك , فعضلت بالملكين , فلم يدريا كيف يكتبانها , فصعدا إلى السماء , وقالا: يا ربنا , إن عبدك قد قال مقالة , لا ندري كيف نكتبها , قال الله عز وجل: وهو اعلم بما قال عبده , ماذا قال: عبدي؟ قالا: يا رب , إنه قال: يا رب , لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك , وعظيم سلطانك , فقال الله عز وجل لهما: اكتباها كما قال عبدي , حتى يلقاني , فاجزيه بها". (قدسي) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ , حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ بَشِيرٍ مَوْلَى الْعُمَرِيِّينَ , قَالَ: سَمِعْتُ قُدَامَةَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ الْجُمَحِيَّ يُحَدِّثُ , أَنَّهُ كَانَ يَخْتَلِفُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ , وَهُوَ غُلَامٌ وَعَلَيْهِ ثَوْبَانِ مُعَصْفَرَانِ , قَالَ: فَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , حَدَّثَهُمْ:" أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِ اللَّهِ , قَالَ: يَا رَبِّ , لَكَ الْحَمْدُ كَمَا يَنْبَغِي لِجَلَالِ وَجْهِكَ , وَلِعَظِيمِ سُلْطَانِكَ , فَعَضَّلَتْ بِالْمَلَكَيْنِ , فَلَمْ يَدْرِيَا كَيْفَ يَكْتُبَانِهَا , فَصَعِدَا إِلَى السَّمَاءِ , وَقَالَا: يَا رَبَّنَا , إِنَّ عَبْدَكَ قَدْ قَالَ مَقَالَةً , لَا نَدْرِي كَيْفَ نَكْتُبُهَا , قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَا قَالَ عَبْدُهُ , مَاذَا قَالَ: عَبْدِي؟ قَالَا: يَا رَبِّ , إِنَّهُ قَالَ: يَا رَبِّ , لَكَ الْحَمْدُ كَمَا يَنْبَغِي لِجَلَالِ وَجْهِكَ , وَعَظِيمِ سُلْطَانِكَ , فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُمَا: اكْتُبَاهَا كَمَا قَالَ عَبْدِي , حَتَّى يَلْقَانِي , فَأَجْزِيَهُ بِهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بیان کیا کہ اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے نے یوں کہا: «يا رب لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك ولعظيم سلطانك»”اے میرے رب! میں تیری ایسی تعریف کرتا ہوں جو تیری ذات کے جلال اور تیری سلطنت کی عظمت کے لائق ہے“، تو یہ کلمہ ان دونوں فرشتوں (یعنی کراما ً کاتبین) پر مشکل ہوا، اور وہ نہیں سمجھ سکے کہ اس کلمے کو کس طرح لکھیں، آخر وہ دونوں آسمان کی طرف چڑھے اور عرض کیا: اے ہمارے رب! تیرے بندے نے ایک ایسا کلمہ کہا ہے جسے ہم نہیں جانتے کیسے لکھیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے کیا کہا؟ حالانکہ اس کے بندے نے جو کہا اسے وہ خوب جانتا ہے، ان فرشتوں نے عرض کیا: تیرے بندے نے یہ کلمہ کہا ہے «يا رب لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك ولعظيم سلطانك» تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس کلمہ کو (ان ہی لفظوں کے ساتھ نامہ اعمال میں) اسی طرح لکھ دو جس طرح میرے بندے نے کہا: یہاں تک کہ جب میرا بندہ مجھ سے ملے گا تو میں اس وقت اس کو اس کا بدلہ دوں گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7377، ومصباح الزجاجة: 1327) (ضعیف)» (صدقہ اور قدامہ دونوں ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن قال ابي رحمه الله: ’’صدقة بن بشير وثقه ابن ماكولا (الإكمال 1/ 291)‘‘ قلت يعني معاذ: وقدامه بن ابراهيم الجمحي: وثقه ابن حبان في الثقات والهيثمي في المجمع الزوائد وقال الذهبي في تاريخه: صويلح، وصحح حديثه ابو موسي الاصبهاني في اللطائف وقال البوصيري في حديثه: ’’’هذا إسناد صحيح علي شرط ابن حبان‘‘ (اتحاف الخيرة المھرة: 3000)
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد , حدثنا يحيى بن آدم , حدثنا إسرائيل , عن ابي إسحاق , عن عبد الجبار بن وائل , عن ابيه , قال: صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم , فقال رجل: الحمد لله حمدا كثيرا , طيبا مباركا فيه , فلما صلى النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" من ذا الذي قال هذا؟" , قال الرجل: انا , وما اردت إلا الخير , فقال: لقد فتحت لها ابواب السماء , فما نهنهها شيء دون العرش". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ , حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ , عَنْ أَبِي إِسْحَاق , عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ رَجُلٌ: الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا , طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ , فَلَمَّا صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" مَنْ ذَا الَّذِي قَالَ هَذَا؟" , قَالَ الرَّجُلُ: أَنَا , وَمَا أَرَدْتُ إِلَّا الْخَيْرَ , فَقَالَ: لَقَدْ فُتِحَتْ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ , فَمَا نَهْنَهَهَا شَيْءٌ دُونَ الْعَرْشِ".
وائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، ایک شخص نے ( «سمع الله لمن حمده» کے بعد) «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه» کہا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کلمہ کس نے کہا؟ اس شخص نے عرض کیا: میں نے یہ کلمہ کہا اور اس سے میری نیت خیر کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کلمہ کے لیے آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے، اور اس کلمے کو عرش تک پہنچنے سے کوئی چیز نہیں روک سکی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11765، ومصباح الزجاجة: 1328)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/316، 318، 319) (ضعیف)» (ابو سحاق سبیعی مدلس و مختلط راوی ہیں، او ر روایت عنعنہ سے کی ہے، اور عبد الجبار بن وائل ثقہ راوی ہیں، لیکن اپنے والد سے ان کی روایت مرسل ہے، یہ حدیث ابن عمر اور انس رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے، لیکن «فما نهنهها شيء دون العرش» ثابت نہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف لكن صح نحوه من حديث ابن عمر وأنس دون قوله فما نهنها ... م
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي (933) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 512
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی اچھی بات دیکھتے تو فرماتے: ” «الحمد لله الذي بنعمته تتم الصالحات» تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس کی مہربانی سے تمام نیک کام پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں“، اور جب کوئی ناپسندیدہ بات دیکھتے تو فرماتے: ” «الحمد لله على كل حال» ہر حال میں اللہ کا شکر ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17864، ومصباح الزجاجة: 1329) (حسن)» (تراجع الألبانی: رقم: 96) (سند میں الو لید بن مسلم ثقہ لیکن کثیر التدلیس والتسویہ راوی ہیں، لیکن ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اگلی حدیث سے یہ حسن ہے، بوصیری نے اسناد کی تصحیح کی ہے)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الوليد بن مسلم لم يصرح بالسماع المسلسل وللحديث شاهد ضعيف في حلية الأولياء (157/3) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 512
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے: ” «الحمد لله على كل حال رب أعوذ بك من حال أهل النار» ہر حال میں اللہ کا شکر ہے میرے رب! میں جہنمیوں کے حال سے تیری پناہ چاہتا ہوں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14357، ومصباح الزجاجة: 1330) (ضعیف)» (موسیٰ بن عبیدہ ضعیف ہیں، اور محمد بن ثابت مجہول)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف موسي بن عبيدة: ضعيف مشهور انوار الصحيفه، صفحه نمبر 512
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال , حدثنا ابو عاصم , عن شبيب بن بشر , عن انس , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما انعم الله على عبد نعمة , فقال: الحمد لله , إلا كان الذي اعطاه , افضل مما اخذ". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ , حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ , عَنْ شَبِيبِ بْنِ بِشْرٍ , عَنْ أَنَسٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَى عَبْدٍ نِعْمَةً , فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ , إِلَّا كَانَ الَّذِي أَعْطَاهُ , أَفْضَلَ مِمَّا أَخَذَ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر کوئی نعمت نازل فرماتا ہے، اور وہ «الحمدللہ» کہتا ہے تو اس نے جو دیا وہ اس چیز سے افضل ہے جو اس نے لیا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اللہ تعالی کے نزدیک اس کا «الحمد للہ» کہنا یہ اس نعمت سے افضل ہے جو اللہ تعالی نے اس کو دی، تو گویا بندے نے نعمت لی، اور اس سے افضل شئے اللہ تعالیٰ کی نزدیک اس کی عنایت ہے ورنہ اس کی نعمت کے سامنے ہمیں زبان سے ایک لفظ نکالنے کی کیا حقیقت ہے، اگر ہم لاکھوں برس تک «الحمد للہ» کہا کریں تو بھی اس کی نعمتوں کا شکر ادا نہ ہو سکے گا۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف شبيب بن بشر ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 513