(مرفوع) حدثنا ابو بكر , حدثنا زيد بن الحباب , عن مالك بن انس , اخبرني سمي مولى ابي بكر , عن ابي صالح , عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قال في يوم مائة مرة: لا إله إلا الله وحده لا شريك له , له الملك وله الحمد , وهو على كل شيء قدير , كان له عدل عشر رقاب , وكتبت له مائة حسنة , ومحي عنه مائة سيئة , وكن له حرزا من الشيطان سائر يومه إلى الليل , ولم يات احد بافضل مما اتى به , إلا من قال اكثر". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ , حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ , عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ , أَخْبَرَنِي سُمَيٌّ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَالَ فِي يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ , لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ , وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ , كَانَ لَهُ عَدْلُ عَشْرِ رِقَابٍ , وَكُتِبَتْ لَهُ مِائَةُ حَسَنَةٍ , وَمُحِيَ عَنْهُ مِائَةُ سَيِّئَةٍ , وَكُنَّ لَهُ حِرْزًا مِنَ الشَّيْطَانِ سَائِرَ يَوْمِهِ إِلَى اللَّيْلِ , وَلَمْ يَأْتِ أَحَدٌ بِأَفْضَلَ مِمَّا أَتَى بِهِ , إِلَّا مَنْ قَالَ أَكْثَرَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ایک دن میں سو بار «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير» یعنی اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ تنہا ہے، اس کا کوئی ساجھی و شریک نہیں، اس کے لیے بادشاہت اور تمام تعریفیں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، کہا تو اس کے لیے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ہے، اور اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں، اور اس کی سو برائیاں مٹائی جاتی ہیں، اور وہ پورے دن رات تک شیطان سے بچا رہتا ہے، اور کسی کا عمل اس کے عمل سے افضل نہ ہو گا مگر جو کوئی اسی کلمہ کو سو بار سے زیادہ کہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس سے زیادہ ثواب ہو گا اسی طرح جو کوئی اور زیادہ کہے اس کو اور زیادہ ثواب ہو گا۔
لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير في يوم مائة مرة كانت له عدل عشر رقاب وكتب له مائة حسنة ومحيت عنه مائة سيئة وكانت له حرزا من الشيطان يومه ذلك حتى يمسي ولم يأت أحد بأفضل مما جاء إلا رجل عمل أكثر منه
من قال لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير في يوم مائة مرة كانت له عدل عشر رقاب كتبت له مائة حسنة محيت عنه مائة سيئة كانت له حرزا من الشيطان يومه ذلك حتى يمسي لم يأت أحد أفضل مما جاء به إلا أحد عمل أكثر من ذلك
من قال لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو على كل شيء قدير في يوم مائة مرة كانت له عدل عشر رقاب كتبت له مائة حسنة محيت عنه مائة سيئة كان له حرزا من الشيطان يومه ذلك حتى يمسي لم يأت أحد بأفضل مما جاء به إلا أحد عمل أكثر من
لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير كان له عدل عشر رقاب وكتبت له مائة حسنة ومحي عنه مائة سيئة وكن له حرزا من الشيطان سائر يومه إلى الليل ولم يأت أحد بأفضل مما أتى به إلا من قال أكثر
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3468
´باب:۔۔۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ایک دن میں سو بار کہا: «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو على كل شيء قدير»۱؎، تو اس کو دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ہو گا، اور اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جائیں گی، اور اس کی سو برائیاں مٹا دی جائیں گی، اور یہ چیز اس کے لیے شام تک شیطان کے شر سے بچاؤ کا ذریعہ بن جائے گی، اور قیامت کے دن کوئی اس سے اچھا عمل لے کر نہ آئے گا سوائے اس شخص کے جس نے یہی عمل اس شخص سے زیادہ کیا ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3468]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے اللہ اکیلے کے، اس کا کوئی شریک و ساجھی نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے اور اسی کے لیے ہے ہر طرح کی تعریف، وہی زندہ کرتا اور وہی مارتا ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3468
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6843
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو شخص صبح و شام کے وقت سبحان اللہ وبحمدہ سو دفعہ کہتا ہے، قیامت کے دن کوئی اس کے عمل سے بہتر عمل لے کر حاضر نہیں ہو گا مگر وہ انسان جس نے اس کے برابر یا اس سے زیادہ دفعہ یہی کلمات کہے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6843]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ان احادیث سے معلوم ہوا، ان کلمات میں اضافہ مطلوب ہے اور وہ اجروثواب میں اضافہ کا باعث ہیں، یہ ان اشیاء کی طرح نہیں ہے، جن میں کمی و بیشی ممکن نہیں ہے۔