انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پرانے کجاوے پر سوار ہو کر ایک ایسی چادر میں حج کیا جس کی قیمت چار درہم کے برابر رہی ہو گی، یا اتنی بھی نہیں، پھر فرمایا: ”اے اللہ! یہ ایسا حج ہے جس میں نہ ریا کاری ہے اور نہ شہرت“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1672، ومصباح الزجاجة: 1019)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 3 (1517)، عن ثمامة بن عبد اللہ بن أنس قال: حج أنس علی رحل ولم یکن شحیحاً وحدث أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج علی رحل وکانت زاعلتہ (صحیح)» (الربیع بن صبیح و یزید بن ابان دونوں ضعیف ہیں، لیکن حدیث متابعت اور شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2617، و مختصر الشمائل: 288، فتح الباری: 3؍ 387)
وضاحت: ۱؎: یعنی خالص تیری رضا مندی اور ثواب کے لیے حج کرتا ہوں، نہ نمائش اور فخر و مباہات کے لیے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج میں زیادہ زیب و زینت کرنا اور زیادہ عمدہ سواری یا عمدہ لباس رکھنا خلاف سنت ہے، حج میں بندہ اپنے مالک کے حضور میں جاتا ہے تو جس قدر عاجزی کے ساتھ جائے پھٹے پرانے حال سے اتنا ہی بہتر ہے تاکہ مالک کی رحمت جوش میں آئے، اور یہی وجہ ہے کہ حج میں سلے ہوئے کپڑے پہننے سے اور خوشبو لگانے سے منع کیا گیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف يزيد بن أبان الرقاشي ضعيف وله شاھد ضعيف عند ابن خزيمة (2836) وللحديث شواھد ضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 482
(مرفوع) حدثنا ابو بشر بكر بن خلف ، حدثنا ابن ابي عدي ، عن داود بن ابي هند ، عن ابي العالية ، عن ابن عباس ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بين مكة والمدينة فمررنا بواد، فقال:" اي واد هذا؟"، قالوا: وادي الازرق، قال:" كاني انظر إلى موسى عليه السلام فذكر من طول شعره شيئا لا يحفظه داود واضعا إصبعيه في اذنيه، له جؤار إلى الله بالتلبية مارا بهذا الوادي"، قال: ثم سرنا حتى اتينا على ثنية، فقال:" اي ثنية هذه"؟، قالوا: ثنية هرشى او لفت، قال:" كاني انظر إلى يونس على ناقة حمراء عليه جبة صوف، وخطام ناقته خلبة مارا بهذا الوادي ملبيا". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَمَرَرْنَا بِوَادٍ، فَقَالَ:" أَيُّ وَادٍ هَذَا؟"، قَالُوا: وَادِي الْأَزْرَقِ، قَالَ:" كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلام فَذَكَرَ مِنْ طُولِ شَعَرِهِ شَيْئًا لَا يَحْفَظُهُ دَاوُدُ وَاضِعًا إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ، لَهُ جُؤَارٌ إِلَى اللَّهِ بِالتَّلْبِيَةِ مَارًّا بِهَذَا الْوَادِي"، قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى ثَنِيَّةٍ، فَقَالَ:" أَيُّ ثَنِيَّةٍ هَذِهِ"؟، قَالُوا: ثَنِيَّةُ هَرْشَى أَوْ لَفْتٍ، قَالَ:" كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى يُونُسَ عَلَى نَاقَةٍ حَمْرَاءَ عَلَيْهِ جُبَّةُ صُوفٍ، وَخِطَامُ نَاقَتِهِ خُلْبَةٌ مَارًّا بِهَذَا الْوَادِي مُلَبِّيًا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے، ہمارا گزر ایک وادی سے ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کون سی وادی ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: وادی ازرق ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گویا میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰ علیہ السلام کے بالوں کی لمبائی کا تذکرہ کیا (جو راوی داود کو یاد نہیں رہا) اپنی دو انگلیاں اپنے دونوں کانوں میں ڈالے ہوئے بلند آواز سے، لبیک کہتے ہوئے، اللہ سے فریاد کرتے ہوئے اس وادی سے گزرے“۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم چلے یہاں تک کہ ہم ایک وادی میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کون سی وادی ہے“؟ لوگوں نے عرض کیا: «هرشى أو لفت» کی وادی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گویا میں یونس علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں جو بالوں کا جبہ پہنے ہوئے، سرخ اونٹنی پر سوار ہیں، ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کے پتوں کی رسی کی ہے، اور وہ اس وادی سے لبیک کہتے ہوئے گزر رہے ہیں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: «هرشى أو لفت» دونوں ٹیلوں کے نام ہیں۔ ۲؎: احتمال ہے کہ عالم ارواح میں موسیٰ اور یونس علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس وقت اسی طرح سے گزرے ہوں، یا یہ واقعہ ان کے زمانہ کا ہے، اللہ تبارک وتعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر دکھلا دیا، یا یہ تشبیہ ہے کمال علم اور یقین کی جیسے اس بات کو دیکھ رہے ہیں۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حجاج اور معتمرین (حج اور عمرہ کرنے والے) اللہ کے وفد (مہمان) ہیں، اگر وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں تو وہ ان کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے، اور اگر وہ اس سے مغفرت طلب کرتے ہیں تو وہ انہیں معاف کر دیتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12888، ومصباح الزجاجة: 1020) (ضعیف)» (سند میں صالح بن عبد اللہ منکر الحدیث راوی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف صالح بن عبد اللّٰه بن صالح: منكر الحديث،قاله البخاري (التاريخ الكبير 285/4) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 482
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا، حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کا مہمان ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو بلایا تو انہوں نے حاضری دی، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگا تو اس نے انہیں عطا کیا“۔
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت عطا فرمائی، اور ان سے فرمایا: ”اے میرے بھائی! ہمیں بھی دعاؤں میں شریک رکھنا، اور ہمیں نہ بھولنا“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 358 (1498)، سنن الترمذی/الدعوات 110 (3562)، (تحفة الأشراف: 10522)، وقد أٰخرجہ: مسند احمد (/29) (ضعیف)» (سند میں عاصم بن عبید اللہ ضعیف راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (1498) ترمذي (3562) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 482
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا يزيد بن هارون ، عن عبد الملك بن ابي سليمان ، عن ابي الزبير ، عن صفوان بن عبد الله بن صفوان ، قال: وكانت تحته ابنة ابي الدرداء، فاتاها فوجد ام الدرداء ، ولم يجد ابا الدرداء، فقالت له: تريد الحج العام؟، قال: نعم، قالت: فادع الله لنا بخير، فإن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول:" دعوة المرء مستجابة لاخيه بظهر الغيب، عند راسه ملك يؤمن على دعائه كلما دعا له بخير، قال: آمين، ولك بمثله"، قال: ثم خرجت إلى السوق، فلقيت ابا الدرداء فحدثني عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثل ذلك. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ ، قَالَ: وَكَانَتْ تَحْتَهُ ابْنَةُ أَبِي الدَّرْدَاءِ، فَأَتَاهَا فَوَجَدَ أُمَّ الدَّرْدَاءِ ، وَلَمْ يَجِدْ أَبَا الدَّرْدَاءِ، فَقَالَتْ لَهُ: تُرِيدُ الْحَجَّ الْعَامَ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَتْ: فَادْعُ اللَّهَ لَنَا بِخَيْرٍ، فَإِنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ:" دَعْوَةُ الْمَرْءِ مُسْتَجَابَةٌ لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ، عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ يُؤَمِّنُ عَلَى دُعَائِهِ كُلَّمَا دَعَا لَهُ بِخَيْرٍ، قَالَ: آمِينَ، وَلَكَ بِمِثْلِهِ"، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ إِلَى السُّوقِ، فَلَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فَحَدَّثَنِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ ذَلِكَ.
صفوان بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کی زوجیت میں ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں، وہ ان کے پاس گئے، وہاں ام الدرداء یعنی ساس کو پایا، ابو الدرداء کو نہیں، ام الدرداء نے ان سے پوچھا: کیا تمہارا امسال حج کا ارادہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں، تو انہوں نے کہا: ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے خیر کی دعا کرنا، اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”آدمی کی وہ دعا جو وہ اپنے بھائی کے لیے اس کے غائبانے میں کرتا ہے قبول کی جاتی ہے، اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ ہوتا ہے، جو اس کی دعا پر آمین کہتا ہے، جب وہ اس کے لیے خیر کی دعا کرتا ہے تو وہ آمین کہتا ہے، اور کہتا ہے: تیرے لیے بھی ایسا ہی ہو“۔ صفوان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں بازار کی طرف چلا گیا، تو میری ملاقات ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو انہوں نے بھی مجھ سے اسی کے مثل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑا ہوا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سی چیز حج کو واجب کر دیتی ہے،؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”زاد سفر اور سواری (کا انتظام)“ اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! حاجی کیسا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پراگندہ سر اور خوشبو سے عاری“ ایک دوسرا شخص اٹھا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حج کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «عج» اور «ثج»“۔ وکیع کہتے ہیں کہ «عج» کا مطلب ہے لبیک پکارنا، اور «ثج» کا مطلب ہے خون بہانا یعنی قربانی کرنا۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الحج 4 (813)، (تحفة الأشراف: 7440) (ضعیف جدا)» (ابراہیم بن یزید مکی متروک الحدیث راوی ہے، لیکن «العج و الثج» کا جملہ دوسری حدیث سے ثابت ہے، جو 2924 نمبر پر آئے گا، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 988)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا لكن جملة العج والثج ثبتت في حديث آخر
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (813،2998) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 482
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے فرمان: «من استطاع إليه سبيلا» کا مطلب زاد سفر اور سواری ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6152، 6163، ومصباح الزجاجة: 1022) (ضعیف جدا) (سوید بن سعید متکلم فیہ اور عمر بن عطاء ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الإروا ء: 988)»
وضاحت: ۱؎: یعنی قرآن میں جو آیا ہے کہ جو حج کے راہ کی طاقت رکھے اس سے مراد یہ ہے کہ کھانا اور سواری کا خرچ اس کے پاس ہو جائے تو حج فرض ہو گیا۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عمر بن عطاء بن وراز: ضعيف هشام بن سليمان: مقبول (تقريب: 7296) أي مجهول الحال و سويدبن سعيد: ضعيف وللحديث طريق موقوف عند البيهقي (331/4) وسنده ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 482
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن ابي صالح ، عن ابي سعيد ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تسافر المراة سفرا ثلاثة ايام فصاعدا، إلا مع ابيها او اخيها او ابنها او زوجها، او ذي محرم". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تُسَافِرُ الْمَرْأَةُ سَفَرًا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَصَاعِدًا، إِلَّا مَعَ أَبِيهَا أَوْ أَخِيهَا أَوِ ابْنِهَا أَوْ زَوْجِهَا، أَوْ ذِي مَحْرَمٍ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت تین یا اس سے زیادہ دنوں کا سفر باپ یا بھائی یا بیٹے یا شوہر یا کسی محرم کے بغیر نہ کرے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: محرم: شوہر یا وہ شخص جس سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہو مثلاً باپ دادا، نانا، بیٹا، بھائی، چچا، ماموں، بھتیجا، داماد وغیرہ یا رضاعت سے ثابت ہونے والے رشتہ دار۔ محرم سے مراد وہ شخص ہے جس سے نکاح حرام ہو، تو دیور یا جیٹھ کے ساتھ عورت کا سفر کرنا جائز نہیں، اسی طرح بہنوئی، چچا زاد یا خالہ زاد یا ماموں زاد بھائی کے ساتھ کیونکہ یہ لوگ محرم نہیں ہیں، محرم سے مراد وہ شخص ہے جس سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہو۔ اور اس حدیث میں تین دن کی قید اتفاقی ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تین دن سے کم سفر غیر محرم کے ساتھ جائز ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ایک دن کا ذکر ہے۔ اور اہل حدیث کے نزدیک سفر کی کوئی حد مقرر نہیں جس کو لوگ عرف عام میں سفر کہیں وہ عورت کو بغیر محرم کے جائز نہیں، البتہ جس کو سفر نہ کہیں وہاں عورت بغیر محرم کے جا سکتی ہے جیسے شہر میں ایک محلہ سے دوسرے محلہ میں، یا نزدیک کے گاؤں میں جس کی مسافت ایک دن کی راہ سے بھی کم ہو۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو، یہ درست نہیں ہے کہ وہ ایک دن کی مسافت کا سفر کرے، اور اس کے ساتھ کوئی محرم نہ ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13035)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 4 (1088)، صحیح مسلم/الحج 74 (1339)، سنن ابی داود/الحج 2 (1723)، سنن الترمذی/الرضاع 15 (1669)، موطا امام مالک/الإستئتذان 14 (37)، مسند احمد (2/236، 340، 347، 423، 437، 445، 493) (صحیح)»