(مرفوع) حدثنا ابو بشر بكر بن خلف ، حدثنا ابن ابي عدي ، عن داود بن ابي هند ، عن ابي العالية ، عن ابن عباس ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بين مكة والمدينة فمررنا بواد، فقال:" اي واد هذا؟"، قالوا: وادي الازرق، قال:" كاني انظر إلى موسى عليه السلام فذكر من طول شعره شيئا لا يحفظه داود واضعا إصبعيه في اذنيه، له جؤار إلى الله بالتلبية مارا بهذا الوادي"، قال: ثم سرنا حتى اتينا على ثنية، فقال:" اي ثنية هذه"؟، قالوا: ثنية هرشى او لفت، قال:" كاني انظر إلى يونس على ناقة حمراء عليه جبة صوف، وخطام ناقته خلبة مارا بهذا الوادي ملبيا". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَمَرَرْنَا بِوَادٍ، فَقَالَ:" أَيُّ وَادٍ هَذَا؟"، قَالُوا: وَادِي الْأَزْرَقِ، قَالَ:" كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلام فَذَكَرَ مِنْ طُولِ شَعَرِهِ شَيْئًا لَا يَحْفَظُهُ دَاوُدُ وَاضِعًا إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ، لَهُ جُؤَارٌ إِلَى اللَّهِ بِالتَّلْبِيَةِ مَارًّا بِهَذَا الْوَادِي"، قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى ثَنِيَّةٍ، فَقَالَ:" أَيُّ ثَنِيَّةٍ هَذِهِ"؟، قَالُوا: ثَنِيَّةُ هَرْشَى أَوْ لَفْتٍ، قَالَ:" كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى يُونُسَ عَلَى نَاقَةٍ حَمْرَاءَ عَلَيْهِ جُبَّةُ صُوفٍ، وَخِطَامُ نَاقَتِهِ خُلْبَةٌ مَارًّا بِهَذَا الْوَادِي مُلَبِّيًا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے، ہمارا گزر ایک وادی سے ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کون سی وادی ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: وادی ازرق ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گویا میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰ علیہ السلام کے بالوں کی لمبائی کا تذکرہ کیا (جو راوی داود کو یاد نہیں رہا) اپنی دو انگلیاں اپنے دونوں کانوں میں ڈالے ہوئے بلند آواز سے، لبیک کہتے ہوئے، اللہ سے فریاد کرتے ہوئے اس وادی سے گزرے“۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم چلے یہاں تک کہ ہم ایک وادی میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کون سی وادی ہے“؟ لوگوں نے عرض کیا: «هرشى أو لفت» کی وادی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گویا میں یونس علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں جو بالوں کا جبہ پہنے ہوئے، سرخ اونٹنی پر سوار ہیں، ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کے پتوں کی رسی کی ہے، اور وہ اس وادی سے لبیک کہتے ہوئے گزر رہے ہیں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: «هرشى أو لفت» دونوں ٹیلوں کے نام ہیں۔ ۲؎: احتمال ہے کہ عالم ارواح میں موسیٰ اور یونس علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس وقت اسی طرح سے گزرے ہوں، یا یہ واقعہ ان کے زمانہ کا ہے، اللہ تبارک وتعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر دکھلا دیا، یا یہ تشبیہ ہے کمال علم اور یقین کی جیسے اس بات کو دیکھ رہے ہیں۔
كأني أنظر إلى موسى فذكر من لونه وشعره شيئا لم يحفظه داود واضعا إصبعيه في أذنيه له جؤار إلى الله بالتلبية مارا بهذا الوادي قال ثم سرنا حتى أتينا على ثنية فقال أي ثنية هذه قالوا هرشى أو لفت فقال كأني أنظر إلى يونس على ناقة حمراء عليه جبة صوف خطام ناقته ليف
كأني أنظر إلى موسى هابطا من الثنية وله جؤار إلى الله بالتلبية ثم أتى على ثنية هرشى فقال أي ثنية هذه قالوا ثنية هرشى قال كأني أنظر إلى يونس بن متى على ناقة حمراء جعدة عليه جبة من صوف خطام ناقته خلبة وهو يلبي
كأني أنظر إلى موسى فذكر من طول شعره شيئا لا يحفظه داود واضعا إصبعيه في أذنيه له جؤار إلى الله بالتلبية مارا بهذا الوادي قال ثم سرنا حتى أتينا على ثنية فقال أي ثنية هذه قالوا ثنية هرشى أو لفت قال كأني أنظر إلى يونس على ناقة حمراء عليه جبة صوف وخطام ناقته خ
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2891
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) بنی اسرائیل کے انبیاء کرام علیہم السلام بھی کعبہ شریف کا حج کرتے تھے اگرچہ ان کا قبلہ بیت المقدس تھا۔
(2) رسول اللہ ﷺ کی وحی کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ گزشتہ واقعات آپ کو اس انداز سے دکھا دیے جاتےتھے گویا کہ وہ ابھی واقع ہو رہے ہیں اس طرح ماضی کے واقعات یا جنت اور جہنم کے حالات سے نبیﷺ اس طرح واقف ہو جاتے تھے جس طرح کوئی چشم دید واقعات کو جانتا اور یاد رکھتا ہے۔
(3) لبیک بلند آواز سے پکارنا مستحب ہے۔ (سنن ابن ماجة، حدیث: 2922 تا 2924)
(4) مرد کو احرام کی حالت میں سلا ہوا لباس پہننا منع ہے۔ (سنن ابن ماجة حدیث: 2929) ممکن ہے حضرت یونس علیہ السلام کی شریعت میں اس کی اجازت ہو اس لیے انھوں نےاونی جبہ پہنا ہوا ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2891
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 420
حضرت ابنِ عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ازرق وادی میں سے گزرے۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ”یہ کون سی وادی ہے؟“ لوگوں نے کہا: یہ وادی ازرق ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”گویا کہ میں موسیٰؑ کو چوٹی سے اترتے دیکھ رہا ہوں، اور وہ بلند آواز سے اللہ کے حضور تلبیہ کہہ رہے ہیں۔“ پھر آپ ﷺ ہرشیٰ کی چوٹی پر پہنچے تو پوچھا: ”یہ کون سی چوٹی ہے؟“ لوگوں نے کہا: یہ ہرشیٰ کی چوٹی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”گویا کہ میں یونس بن متیٰ ؑ کو دیکھ رہا ہوں، سرخ رنگ کی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:420]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) ثَنِيَّةٌ جمع ثَنَايَا: دره، گھاٹی، پہاڑی راستہ۔ (2) جُؤَارٌ: بلند آواز سے دعا کرنا، گڑگڑانا، بیل کا ڈکارنا۔ (3) تَلْبِيَةٌ: اللهم لبيك کہنا۔ فوائد ومسائل: رسول اللہ ﷺ کو شب معراج، بعض انبیاء کی زندگی کا حال دکھایا گیا کہ ان کا حج کیسا تھا، سواری کس قسم کی تھی، لبیک کس طرح کہا، آج انسان مختلف قسم کے پروگراموں کی وڈیوز تیار کر لیتے ہیں، اور پھر جب چاہتے ہیں، ان پروگراموں کو دیکھ لیتے ہیں، تو کیا اللہ تعالیٰ انسانوں کی زندگی، ان کے افعال واعما ل کی وڈیوز تیار نہیں کر سکتا، کہ جب چاہے وہ کسی کو دکھا دے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے "كَأَنِّي أَنْظُرُ" ”گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں۔ “ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ اسی طرح ودجال اورمالک خازن ناز کی تصویر دکھائی گئی، جس طرح آپ کو جنت اور دوزخ کی تصویر دکھائی گئی تھی۔ یہاں تک کہ آپ دوزخ کو دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے اور جنت کو دیکھ کر اس کے میوے توڑنےکے لیے آگے بڑھے، یہاں تک کہ آپ نے لوگوں کو جہنم میں سزا پاتے دیکھا۔