سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: جہاد کے فضائل و احکام
The Chapters on Jihad
حدیث نمبر: 2782
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب محمد بن العلاء ، حدثنا المحاربي ، عن عطاء بن السائب ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: اتى رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إني جئت اريد الجهاد معك ابتغي وجه الله والدار الآخرة ولقد اتيت وإن والدي ليبكيان، قال:" فارجع إليهما فاضحكهما كما ابكيتهما".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي جِئْتُ أُرِيدُ الْجِهَادَ مَعَكَ أَبْتَغِي وَجْهَ اللَّهِ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَقَدْ أَتَيْتُ وَإِنَّ وَالِدَيَّ لَيَبْكِيَانِ، قَالَ:" فَارْجِعْ إِلَيْهِمَا فَأَضْحِكْهُمَا كَمَا أَبْكَيْتَهُمَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا، اور اس نے عرض کیا: میں آپ کے ساتھ جہاد کے ارادے سے آیا ہوں، جس سے میرا مقصد رضائے الٰہی اور آخرت کا ثواب ہے، لیکن میں اپنے والدین کو روتے ہوئے چھوڑ کر آیا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے پاس واپس لوٹ جاؤ اور جس طرح تم نے انہیں رلایا ہے اسی طرح انہیں ہنساؤ ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجہاد 33 (2528)، سنن النسائی/الجہاد 5 (3105)، (تحفة الأشراف: 8640)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجہاد 138 (3004)، صحیح مسلم/البر 1 (2549)، سنن الترمذی/الجہاد 2 (1671)، مسند احمد (2/165، 194، 198، 204) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: ماں کا حق اس حدیث سے معلوم کرنا چاہئے کہ اس کے پاؤں کے پاس جنت ہے، ماں کی خدمت کو آپ ﷺ نے جہاد پر مقدم رکھا، ماں باپ جہاد کی اجازت دیں تو آدمی جہاد کر سکتا ہے ورنہ جب تک وہ زندہ ہیں ان کی خدمت کو جہاد پر مقدم رکھے، ان کے مرنے کے بعد پھر اختیار ہے، ماں کا حق اتنا بڑا ہے کہ جہاد جیسا فریضہ اور اسلام کا رکن بغیر اس کی اجازت کے ناجائز ہے۔ جلیل القدر محترم بزرگ اویس قرنی رحمہ اللہ اپنی بوڑھی ماں کی خدمت میں مصروف رہے اور نبی کریم ﷺ کی زیارت کے لئے نہ آ سکے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے وفات پائی۔ جو لوگ اپنے ماں باپ کو ستاتے، ان کو ناراض کرتے ہیں وہ ان حدیثوں پر غور کریں، اگر ماں باپ ناراض رہیں گے تو جنت کا ملنا دشوار ہے، جو اپنے ماں باپ کو ناراض کرتا ہے، ایسے شخص کی دنیاوی زندگی بھی بڑی خراب گزرتی ہے، یہ امر تجربہ اور مشاہدہ سے معلوم ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
13. بَابُ: النِّيَّةِ فِي الْقِتَالِ
13. باب: جہاد کی نیت کا بیان۔
Chapter: The intention in fighting
حدیث نمبر: 2783
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن شقيق ، عن ابي موسى ، قال: سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن الرجل يقاتل شجاعة ويقاتل حمية ويقاتل رياء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا فهو في سبيل الله".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يُقَاتِلُ شَجَاعَةً وَيُقَاتِلُ حَمِيَّةً وَيُقَاتِلُ رِيَاءً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو بہادری کی شہرت کے لیے لڑتا ہے، اور جو خاندانی عزت کی خاطر لڑتا ہے، اور جس کا مقصد ریا و نمود ہوتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے کلمے کی بلندی کے مقصد سے جو لڑتا ہے وہی مجاہد فی سبیل اللہ ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 45 (123)، الجہاد 15 (2810)، الخمس 10 (3126)، التوحید 28 (7458)، صحیح مسلم/الإمارة 42 (1904)، سنن ابی داود/الجہاد 26 (2517، 2518)، سنن الترمذی/فضائل الجہاد 16 (1646)، سنن النسائی/الجہاد 21 (3138)، (تحفة الأشراف: 8999)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/392، 397، 405، 417) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: بہادری کے اظہار کے لیے اور خاندانی شہرت و جاہ کے لیے یا ریاکاری اور دکھاوے کے لیے یا دنیا اور مال و ملک کے لئے جس میں کوئی دینی مصلحت نہ ہو لڑنا جہاد نہیں ہے، اسلام کے بول بالا کے لیے اللہ کے دین کے غلبہ کے لیے اللہ کو راضی کرنے کے لیے جو جہاد ہو گا وہ اسلامی جہاد ہو گا، اور وہی اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہو گا، اگلے لوگوں میں اگر کبھی جہاد کے دوران اللہ کے سوا کسی اور کا خیال بھی آ جاتا تو لڑائی چھوڑ دیتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 2784
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا جرير بن حازم ، عن محمد بن إسحاق ، عن داود بن الحصين ، عن عبد الرحمن بن ابي عقبة ، عن ابي عقبة وكان مولى لاهل فارس، قال: شهدت مع النبي صلى الله عليه وسلم يوم احد فضربت رجلا من المشركين، فقلت: خذها مني وانا الغلام الفارسي فبلغت النبي صلى الله عليه وسلم فقال:" الا قلت: خذها مني وانا الغلام الانصاري".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عُقْبَةَ ، عَنْ أَبِي عُقْبَةَ وَكَانَ مَوْلًى لِأَهْلِ فَارِسَ، قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ فَضَرَبْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَقُلْتُ: خُذْهَا مِنِّي وَأَنَا الْغُلَامُ الْفَارِسِيُّ فَبَلَغَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" أَلَا قُلْتَ: خُذْهَا مِنِّي وَأَنَا الْغُلَامُ الْأَنْصَارِيُّ".
ابوعقبہ رضی اللہ عنہ جو کہ اہل فارس کے غلام تھے کہتے ہیں کہ میں جنگ احد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھا، میں نے ایک مشرک پر یہ کہتے ہوئے حملہ کیا کہ لے میرا یہ وار، میں فارسی جوان ہوں، اس کی خبر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے یہ کیوں نہیں کہا کہ لے میرا یہ وار اور میں انصاری نوجوان ہوں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأدب 121 (5123)، (تحفة الأشراف: 12070)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/295) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں عبدالرحمن بن أبی عقبہ ضعیف اور محمد بن اسحاق مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (5123)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 480
حدیث نمبر: 2785
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن إبراهيم ، حدثنا عبد الله بن يزيد ، حدثنا حيوة ، اخبرني ابو هانئ ، انه سمع ابا عبد الرحمن الحبلي ، يقول: إنه سمع عبد الله بن عمرو ، يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:" ما من غازية تغزو في سبيل الله فيصيبوا غنيمة إلا تعجلوا ثلثي اجرهم، فإن لم يصيبوا غنيمة تم لهم اجرهم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ ، أَخْبَرَنِي أَبُو هَانِئٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيَّ ، يَقُولُ: إِنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَا مِنْ غَازِيَةٍ تَغْزُو فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُصِيبُوا غَنِيمَةً إِلَّا تَعَجَّلُوا ثُلُثَيْ أَجْرِهِمْ، فَإِنْ لَمْ يُصِيبُوا غَنِيمَةً تَمَّ لَهُمْ أَجْرُهُمْ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہو ے سنا: لشکر کی جو ٹکڑی اللہ کی راہ میں جہاد کرے اور مال غنیمت پا لے، تو سمجھو اس نے ثواب کا دو تہائی حصہ تو دنیا ہی میں حاصل کر لیا، لیکن اگر مال غنیمت نہیں ملتا تو ان کے لیے پورا ثواب ہو گا۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 44 (1906)، سنن ابی داود/الجہاد 13 (2497)، سنن النسائی/الجہاد 15 (3127)، (تحفة الأشراف: 8847)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/169) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
14. بَابُ: ارْتِبَاطِ الْخَيْلِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
14. باب: اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے گھوڑے رکھنے کا ثواب۔
Chapter: Keeping horses in the cause of Allah
حدیث نمبر: 2786
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو الاحوص ، عن شبيب بن غرقدة ، عن عروة البارقي ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الخير معقود بنواصي الخيل إلى يوم القيامة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ ، عَنْ عُرْوَةَ الْبَارِقِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْخَيْرُ مَعْقُودٌ بِنَوَاصِي الْخَيْلِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ".
عروہ بارقی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھوڑوں کی پیشانی پر قیامت تک خیر و برکت بندھی ہوئی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 43 (2850)، 44 (2852)، الخمس 8 (3119)، المناقب 28 (3642)، صحیح مسلم/الإمارة 26 (1873)، سنن الترمذی/الجہاد 19 (1694)، سنن النسائی/الخیل 6 (3604)، (تحفة الأشراف: 9897)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/375)، سنن الدارمی/الجہاد 34 (2470) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: مطلب یہ ہے کہ جو گھوڑا جہاد کی نیت سے رکھا جائے، اس کا کھلانا پلانا چرانا سب اجر ہی اجر ہے، اور ہر ایک میں گھوڑے کے مالک کو ثواب ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2787
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن رمح ، انبانا الليث بن سعد ، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه قال:" الخيل في نواصيها الخير إلى يوم القيامة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:" الْخَيْلُ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیر و برکت بندھی ہوئی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 26 (1871)، سنن النسائی/الخیل 6 (3603)، (تحفة الأشراف: 8287)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجہاد 43 (2849)، المناقب 28 (3644)، موطا امام مالک/الجہاد 19 (44)، مسند احمد (2/49، 57، 101، 112) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 2788
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب ، حدثنا عبد العزيز بن المختار ، حدثنا سهيل ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الخيل في نواصيها الخير" او قال:" الخيل معقود في نواصيها الخير"، قال سهيل: انا اشك الخير إلى يوم القيامة الخيل ثلاثة: فهي لرجل اجر، ولرجل ستر، وعلى رجل وزر، فاما الذي هي له اجر فالرجل يتخذها في سبيل الله ويعدها فلا تغيب شيئا في بطونها إلا كتب له اجر، ولو رعاها في مرج ما اكلت شيئا إلا كتب له بها اجر، ولو سقاها من نهر جار كان له بكل قطرة تغيبها في بطونها اجر، حتى ذكر الاجر في ابوالها وارواثها، ولو استنت شرفا او شرفين كتب له بكل خطوة تخطوها اجر، واما الذي هي له ستر فالرجل يتخذها تكرما وتجملا ولا ينسى حق ظهورها وبطونها في عسرها ويسرها، واما الذي هي عليه وزر فالذي يتخذها اشرا وبطرا وبذخا ورياء للناس فذلك الذي هي عليه وزر".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ ، حَدَّثَنَا سُهَيْلٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْخَيْلُ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ" أَوْ قَالَ:" الْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ"، قَالَ سُهَيْلٌ: أَنَا أَشُكُّ الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ الْخَيْلُ ثَلَاثَةٌ: فَهِيَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ، وَلِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَعَلَى رَجُلٍ وِزْرٌ، فَأَمَّا الَّذِي هِيَ لَهُ أَجْرٌ فَالرَّجُلُ يَتَّخِذُهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَيُعِدُّهَا فَلَا تُغَيِّبُ شَيْئًا فِي بُطُونِهَا إِلَّا كُتِبَ لَهُ أَجْرٌ، وَلَوْ رَعَاهَا فِي مَرْجٍ مَا أَكَلَتْ شَيْئًا إِلَّا كُتِبَ لَهُ بِهَا أَجْرٌ، وَلَوْ سَقَاهَا مِنْ نَهَرٍ جَارٍ كَانَ لَهُ بِكُلِّ قَطْرَةٍ تُغَيِّبُهَا فِي بُطُونِهَا أَجْرٌ، حَتَّى ذَكَرَ الْأَجْرَ فِي أَبْوَالِهَا وَأَرْوَاثِهَا، وَلَوِ اسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ كُتِبَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ تَخْطُوهَا أَجْرٌ، وَأَمَّا الَّذِي هِيَ لَهُ سِتْرٌ فَالرَّجُلُ يَتَّخِذُهَا تَكَرُّمًا وَتَجَمُّلًا وَلَا يَنْسَى حَقَّ ظُهُورِهَا وَبُطُونِهَا فِي عُسْرِهَا وَيُسْرِهَا، وَأَمَّا الَّذِي هِيَ عَلَيْهِ وِزْرٌ فَالَّذِي يَتَّخِذُهَا أَشَرًا وَبَطَرًا وَبَذَخًا وَرِيَاءً لِلنَّاسِ فَذَلِكَ الَّذِي هِيَ عَلَيْهِ وِزْرٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھوڑوں کی پیشانی میں بھلائی ہے یا فرمایا: گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت تک خیر اور بھلائی بندھی ہوئی ہے، گھوڑے تین طرح کے ہوتے ہیں، ایک شخص کے لیے وہ اجر و ثواب ہیں، ایک کے لیے ستر (پردہ) ہیں، اور ایک کے واسطے عذاب ہیں، (پھر آپ نے تفصیل بیان کی) اس شخص کے لیے تو باعث اجر و ثواب ہیں جو انہیں اللہ کی راہ میں جہاد کی غرض سے رکھے، اور انہیں تیار کرے، چنانچہ ان کے پیٹ میں جو چیز بھی جائے گی وہ اس شخص کے لیے نیکی شمار ہو گی، اگر وہ انہیں گھاس والی زمین میں بھی چرائے گا تو جو وہ کھائیں گے اس کا ثواب اسے ملے گا، اگر وہ انہیں بہتی نہر سے پانی پلائے گا تو پیٹ میں جانے والے ہر قطرے کے بدلے اسے ثواب ملے گا، حتیٰ کہ آپ نے ان کے پیشاب اور لید (گوبر) میں بھی ثواب بتایا، اگر وہ ایک یا دو میل دوڑیں تو بھی ہر قدم کے بدلے جسے وہ اٹھائیں گے ثواب ملے گا، اور جس شخص کے لیے گھوڑے ستر (پردہ) ہیں وہ ہے جو انہیں عزت اور زینت کی غرض سے رکھتا ہے، لیکن ان کی پیٹھ اور پیٹ کے حق سے تنگی اور آسانی کسی حال میں غافل نہیں رہتا، لیکن جس شخص کے حق میں یہ گھوڑے گناہ ہیں وہ شخص ہے جو غرور، تکبر، فخر اور ریا و نمود کی خاطر انہیں رکھتا ہے، تو یہی وہ گھوڑے ہیں جو اس کے حق میں گناہ ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزکاة 6 (987)، (تحفة الأشراف: 12785)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الشرب المساقاة 12 (2371)، الجہاد 48 (2860)، المناقب 28 (3646)، تفسیر سورة الزلزلة 1 (4962)، الاعتصام 24 (7356)، سنن الترمذی/فضائل الجہاد 10 (1636)، سنن النسائی/الخیل (3592)، موطا امام مالک/الجہاد 1 (3)، مسند احمد (2/262، 283) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: سواری کا حق یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان اس کو ضرورت کی وجہ سے مانگے تو اسے دے یا کوئی پریشان مسلمان راہ میں ملے تو اس کو سوار کر لے، اور بعضوں نے کہا: ان کی زکاۃ ادا کرے، لیکن جمہور علماء کے نزدیک گھوڑوں میں زکاۃ نہیں ہے اور پیٹ کا حق یہ ہے کہ ان کے پانی چارے کی خبر اچھی طرح رکھے اگر ہمیشہ ممکن نہ ہو تو کبھی کبھی خود اس کی دیکھ بھال کرے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 2789
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا وهب بن جرير ، حدثنا ابي ، قال: سمعت يحيى بن ايوب يحدث، عن يزيد بن ابي حبيب ، عن علي بن رباح ، عن ابي قتادة الانصاري ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" خير الخيل الادهم الاقرح المحجل الارثم طلق اليد اليمنى، فإن لم يكن ادهم فكميت على هذه الشية".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ أَيُّوبَ يُحَدِّثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ عُلَيِّ بْنِ رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" خَيْرُ الْخَيْلِ الْأَدْهَمُ الْأَقْرَحُ الْمُحَجَّلُ الْأَرْثَمُ طَلْقُ الْيَدِ الْيُمْنَى، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ أَدْهَمَ فَكُمَيْتٌ عَلَى هَذِهِ الشِّيَةِ".
ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کالا گھوڑا جس کی پیشانی، ہاتھ، پیر، ناک اور اوپر کا ہونٹ سفید ہوں، اور دایاں ہاتھ باقی جسم کی طرح ہو، سب سے عمدہ ہے، اگر وہ کالا نہ ہو تو انہیں صفات والا سرخ سیاہی مائل گھوڑا عمدہ ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الجہاد20 (1695)، (تحفة الأشراف: 12121)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/300)، سنن الدارمی/الجہاد 35 (2472) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی کمیت ہو سفید پیشانی یا کمیت سفید ہاتھ پاؤں یا کمیت سفید لب اور بینی یا کمیت صرف جس کا دایاں ہاتھ سفید ہو، یہ سب عمدہ قسمیں ہیں، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مشکی رنگ گھوڑوں کے سب رنگوں میں عمدہ ہے، اور حقیقت میں اس رنگ والا گھوڑا نہایت مضبوط اور محنتی ہوتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
حدیث نمبر: 2790
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن سلم بن عبد الرحمن النخعي ، عن ابي زرعة بن عمرو بن جرير ، عن ابي هريرة ، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم:" يكره الشكال من الخيل".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ سَلْمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ النَّخَعِيِّ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَكْرَهُ الشِّكَالَ مِنَ الْخَيْلِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے گھوڑے کو ناپسند فرماتے تھے جس کے تین پیر سفید اور ایک پیر کا رنگ باقی جسم کا ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 27 (1875)، سنن ابی داود/الجہاد 46 (2547)، سنن الترمذی/الجہاد 21 (1698)، سنن النسائی/الخیل 4 (3597)، (تحفة الأشراف: 14890)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/250، 436، 461، 476) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: «شکال»: وہ یہ ہے کہ تین پاؤں سفید ہوں ایک سارے بدن کے رنگ پر ہو، اس کو «ارجل» بھی کہتے ہیں، اب تک گھوڑے والے ایسے رنگ کو مکروہ اور نامبارک سمجھتے ہیں، مگر عوام میں یہ مشہور ہے کہ اگر پیشانی پر بھی سفیدی ہو تو «شکال» ضرر نہیں کرتا، لیکن حدیث مطلق ہے اور بعضوں نے کہا کہ «شکال» یہ ہے کہ داہنا ہاتھ سفید ہو تو بایاں پاؤں سفید ہو یا بایاں ہاتھ سفید نہ ہو تو داہنا پاؤں سفید ہو «واللہ اعلم»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 2791
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو عمير عيسى بن محمد الرملي ، حدثنا احمد بن يزيد بن روح الداري ، عن محمد بن عقبة القاضي ، عن ابيه ، عن جده ، عن تميم الداري ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من ارتبط فرسا في سبيل الله ثم عالج علفه بيده، كان له بكل حبة حسنة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عُمَيْرٍ عِيسَى بْنُ مُحَمَّدٍ الرَّمْلِيُّ ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ رَوْحٍ الدَّارِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَةَ الْقَاضِي ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنِ ارْتَبَطَ فَرَسًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ عَالَجَ عَلَفَهُ بِيَدِهِ، كَانَ لَهُ بِكُلِّ حَبَّةٍ حَسَنَةٌ".
تمیم داری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جس نے اللہ کے راستے میں جہاد کی غرض سے گھوڑا باندھا، پھر دانہ چارہ اپنے ہاتھ سے کھلایا، تو اس کے لیے ہر دانے کے بدلے ایک نیکی ہو گی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2059، ومصباح الزجاجة: 988) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں محمد بن عقبہ بیٹے، باپ اور دادا سب مجہول ہیں، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
و قال البوصيري: ”ھذا إسناد ضعيف،محمد (بن عقبة القاضي) و أبوه و جده مجهولون و الجد لم يسمّ“
و أحمد بن يزيد مستور (تقريب: 128) و حديث البخاري (2853) و أحمد (458/6) يغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 480

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.