ام الحصین رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اگر تم پر کوئی نک کٹا حبشی غلام امیر (حاکم) بنا دیا جائے تو بھی اس کی بات سنو اور مانو، جب تک کہ وہ اللہ کی کتاب (قرآن) کے مطابق تمہاری سربراہی کرتا رہے“۔
ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ مقام ربذہ میں پہنچے تو نماز کے لیے تکبیر کہی جا چکی تھی، تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک غلام لوگوں کی امامت کر رہا ہے، اس سے کہا گیا: یہ ابوذر رضی اللہ عنہ ہیں، یہ سن کر وہ پیچھے ہٹنے لگا تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے خلیل (جگری دوست) محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ وصیت کی کہ امام گرچہ اعضاء کٹا حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو میں اس کی بات سنوں اور مانوں ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر حال میں مسلمانوں کی جماعت سے اتفاق کا خیال رکھنا ضروری ہے اور اگر کسی مستحب یا مسنون امر کی وجہ سے اتفاق ختم ہو جانے کا اندیشہ ہو تو جب تک یہ اندیشہ باقی رہے، اس امر مستحب یا مسنون سے باز رہ سکتے ہیں، لیکن جہاں تک ہو سکے حکمت عملی سے لوگوں کو سمجھا دینا چاہئے کہ یہ فعل مستحب اور سنت رسول ہے، اور اس کے لئے فتنہ و فساد کرنا صریح غیر ایمانی بات ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا يزيد بن هارون ، حدثنا محمد بن عمرو ، عن عمر بن الحكم بن ثوبان ، عن ابي سعيد الخدري " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث علقمة بن مجزر على بعث وانا فيهم، فلما انتهى إلى راس غزاته او كان ببعض الطريق استاذنته طائفة من الجيش فاذن لهم، وامر عليهم عبد الله بن حذافة بن قيس السهمي، فكنت فيمن غزا معه فلما كان ببعض الطريق، اوقد القوم نارا ليصطلوا او ليصنعوا عليها صنيعا، فقال عبد الله وكانت فيه دعابة: اليس لي عليكم السمع والطاعة، قالوا: بلى، قال: فما انا بآمركم بشيء إلا صنعتموه، قالوا: نعم، قال: فإني اعزم عليكم إلا تواثبتم في هذه النار، فقام ناس فتحجزوا فلما ظن انهم واثبون، قال: امسكوا على انفسكم فإنما كنت امزح معكم، فلما قدمنا ذكروا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من امركم منهم بمعصية الله، فلا تطيعوه". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَكَمِ بْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ عَلْقَمَةَ بْنَ مُجَزِّرٍ عَلَى بَعْثٍ وَأَنَا فِيهِمْ، فَلَمَّا انْتَهَى إِلَى رَأْسِ غَزَاتِهِ أَوْ كَانَ بِبَعْضِ الطَّرِيقِ اسْتَأْذَنَتْهُ طَائِفَةٌ مِنَ الْجَيْشِ فَأَذِنَ لَهُمْ، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ حُذَافَةَ بْنِ قَيْسٍ السَّهْمِيَّ، فَكُنْتُ فِيمَنْ غَزَا مَعَهُ فَلَمَّا كَانَ بِبَعْضِ الطَّرِيقِ، أَوْقَدَ الْقَوْمُ نَارًا لِيَصْطَلُوا أَوْ لِيَصْنَعُوا عَلَيْهَا صَنِيعًا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ وَكَانَتْ فِيهِ دُعَابَةٌ: أَلَيْسَ لِي عَلَيْكُمُ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ، قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَمَا أَنَا بِآمِرِكُمْ بِشَيْءٍ إِلَّا صَنَعْتُمُوهُ، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنِّي أَعْزِمُ عَلَيْكُمْ إِلَّا تَوَاثَبْتُمْ فِي هَذِهِ النَّارِ، فَقَامَ نَاسٌ فَتَحَجَّزُوا فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّهُمْ وَاثِبُونَ، قَالَ: أَمْسِكُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ فَإِنَّمَا كُنْتُ أَمْزَحُ مَعَكُمْ، فَلَمَّا قَدِمْنَا ذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَمَرَكُمْ مِنْهُمْ بِمَعْصِيَةِ اللَّهِ، فَلَا تُطِيعُوهُ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علقمہ بن مجزر رضی اللہ عنہ کو ایک لشکر کا سردار بنا کر بھیجا، میں بھی اس لشکر میں تھا، جب وہ لشکر کے آخری پڑاؤ پر پہنچے یا درمیان راستے ہی میں تھے تو لشکر کی ایک جماعت نے (آگے جانے کی) اجازت مانگی، علقمہ رضی اللہ عنہ نے اجازت دے دی، اور عبداللہ بن حذافہ بن قیس سہمی رضی اللہ عنہ کو ان پر امیر مقرر کر دیا، میں بھی ان لوگوں میں تھا جنہوں نے ان کے ساتھ غزوہ کیا، ابھی وہ راستہ ہی میں تھے کہ ان لوگوں نے تاپنے یا کچھ پکانے کے لیے آگ جلائی، تو عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ (جن کے مزاج میں خوش طبعی پائی جاتی تھی) نے کہا: کیا تم پر میری بات سننا اور اطاعت کرنا واجب نہیں؟ لوگوں نے جواب دیا: کیوں نہیں؟ کہا: میں کسی کام کے کرنے کا تمہیں حکم دوں تو تم حکم بجا لاؤ گے؟ لوگوں نے جواب دیا: ہاں، کہا: میں لازمی حکم دیتا ہوں کہ تم اس آگ میں چھلانگ لگا دو، کچھ لوگ کھڑے ہو گئے اور کودنے کے لیے کمر کس لی، عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ گمان ہوا کہ واقعی یہ تو کود ہی جائیں گے، تو بولے: ٹھہرو، میں تم سے یونہی مذاق کر رہا تھا ۱؎۔ جب ہم لوگ واپس مدینہ آئے، لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا ماجرا سنایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حکام میں جو تمہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دے تو اس کی بات نہ ما نو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4266، ومصباح الزجاجة: 1012)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/67) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: اس واقعہ سے پتہ چلاکہ جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دے تو اس کی بات ہرگز مت مانو اگرچہ وہ امام ہو یا حاکم یا خلیفہ یا بادشاہ یا رئیس یا سردار، اللہ کی اطاعت سب پر مقدم ہے، پھر جب خلاف شریعت باتوں میں امام کی اطاعت منع ہوئی تو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف کسی مجتہد یا عالم کی اطاعت کیوں کر جائز ہو گی، اس حدیث سے تقلید کی جڑ کٹ گئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو بادشاہ یا امام شریعت کے خلاف حکم دے تو اس کی بات نہ ماننی چاہئے بلکہ اس کو شریعت کی اطاعت کے لئے مجبور کرنا چاہئے، اگر شریعت کی اطاعت قبول نہ کرے تو اگر قدرت اور طاقت ہو تو اس کو فوراً معزول کر کے دوسرے کسی پرہیزگار دین دار کو اپنا امام یا بادشاہ بنانا چاہئے، یہی اسلام کا شیوہ ہے اور یہی حکم الٰہی ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان آدمی پر (امیر اور حاکم کی) بات ماننا لازم ہے، چاہے وہ اسے پسند ہو یا ناپسند، ہاں اگر اللہ اور رسول کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو اس کو سننا ماننا نہیں ہے“۔
تخریج الحدیث: «حدیث عبد اللہ بن رجاء المکی تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7927)، وحدیث اللیث بن سعد أخرجہ: صحیح مسلم/الإمارة 8 (1839)، سنن الترمذی/الجہاد 29 (1707)، (تحفة الأشراف: 8088) وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجہاد 108 (2955)، الأحکام 4 (7144)، سنن ابی داود/الجہاد 96 (2626)، سنن النسائی/البیعة 34 (4211)، مسند احمد (2/17، 42) (صحیح)»
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ زمانہ قریب ہے کہ میرے بعد تمہارے معاملات کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آئے گی جو سنت کو مٹائیں گے، بدعت پر عمل پیرا ہوں گے، اور نماز کی وقت پر ادائیگی میں تاخیر کریں گے“، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میں ان کا زمانہ پاؤں تو کیا کروں؟ فرمایا: ”اے ام عبد کے بیٹے! مجھ سے پوچھ رہے ہو کہ کیا کروں؟ جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے اس کی بات نہیں مانی جائے گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9370، ومصباح الزجاجة: 1013)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/399، 5/325، 329) (صحیح) (صحیح أبی داود: 458، و سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2/ 139)»
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے تنگی اور فراخی، خوشی و ناخوشی، اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دئیے جانے کی حالت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی، نیز اس بات پر بیعت کی کہ حکمرانوں سے نہ جھگڑیں، اور جہاں بھی ہوں حق بات کہیں، اور اللہ کے سلسلے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی جس بات میں اللہ کی خوشی ہو یعنی ثواب اور عبادت کے کام میں کسی کی بدگوئی سے ہم کو ڈر نہ ہو، یہ مومنین کاملین کی شان ہے کہ وہ سنت پر چلنے میں کسی سے نہیں ڈرتے اور نہ ہی جاہلوں اور اہل بدعت کے غلط پروپگنڈہ سے متاثر ہوتے ہیں، جاہل اور بدعتی حدیث سے محبت رکھنے اور ان پر عمل کرنے والوں کو برے القاب اور خطابات سے پکارتے اور انہیں طرح طرح سے بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جب یہ محبان رسول نماز میں زورسے آمین، رفع یدین اور امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کی قرأت کرتے ہیں، تو جاہل مقلد اور بدعتی ان کو لا مذہب کہتے ہیں اور جب شرک کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں، اور غیر اللہ کے پکارنے یا ماسوا اللہ کی عبادت کرنے یا مدد مانگنے سے خود رکتے ہیں اور دوسروں کو روکتے ہیں، تو یہ لوگ انہیں وہابی کے نام سے بدنام کرتے ہیں، اور جب یہ محبان رسول، اللہ تعالیٰ کی صفات جیسے استواء علی العرش، ضحک، (ہنسنا) نزول (آسمان دنیا پر اترنا) وغیرہ وغیرہ ثابت کرتے ہیں تو یہ انہیں مشبہہ کہتے ہیں، اور جب ید (ہاتھ)، وجہ (چہرہ)، عین (آنکھ)، قدم، صوت (آواز) جیسی صفات کا اثبات کرتے ہیں تو وہ انہیں مجسمہ کا لقب دیتے ہیں، لیکن ان سب تہمتوں سے حق پرستوں کو کوئی ڈر نہیں، اور وہ جاہلوں اور بدعتیوں کی عیب جوئی، اور گالی گلوج اور غلط پروپگنڈے سے ڈرتے اور گھبراتے نہیں بلکہ بلا کھٹکے احادیث صحیحہ پر عمل کرتے ہیں، اس حدیث میں آپ ﷺ نے صبر و ثبات پر اور شرع کی اطاعت اور حاکم کی اطاعت پر بیعت لی۔
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا سعيد بن عبد العزيز التنوخي ، عن ربيعة بن يزيد ، عن ابي إدريس الخولاني ، عن ابي مسلم ، قال: حدثني الحبيب الامين اما هو إلي فحبيب، واما هو عندي فامين عوف بن مالك الاشجعي ، قال: كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم سبعة او ثمانية او تسعة، فقال:" الا تبايعون رسول الله؟"، فبسطنا ايدينا، فقال قائل: يا رسول الله، إنا قد بايعناك، فعلام نبايعك؟، فقال:" ان تعبدوا الله، ولا تشركوا به شيئا، وتقيموا الصلوات الخمس، وتسمعوا وتطيعوا واسر كلمة خفية، ولا تسالوا الناس شيئا"، قال: فلقد رايت بعض اولئك النفر يسقط سوطه، فلا يسال احدا يناوله إياه. (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ التَّنُوخِيُّ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ ، عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَبِيبُ الْأَمِينُ أَمَّا هُوَ إِلَيَّ فَحَبِيبٌ، وَأَمَّا هُوَ عِنْدِي فَأَمِينٌ عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيُّ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَةً أَوْ ثَمَانِيَةً أَوْ تِسْعَةً، فَقَالَ:" أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللَّهِ؟"، فَبَسَطْنَا أَيْدِيَنَا، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ، فَعَلَامَ نُبَايِعُكَ؟، فَقَالَ:" أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ، وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُوا الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، وَتَسْمَعُوا وَتُطِيعُوا وَأَسَرَّ كَلِمَةً خُفْيَةً، وَلَا تَسْأَلُوا النَّاسَ شَيْئًا"، قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ بَعْضَ أُولَئِكَ النَّفَرِ يَسْقُطُ سَوْطُهُ، فَلَا يَسْأَلُ أَحَدًا يُنَاوِلُهُ إِيَّاهُ.
عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہم سات یا آٹھ یا نو آدمی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم لوگ اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرو گے“؟ ہم نے بیعت کے لیے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے (بیعت کرنے کے بعد) ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! ہم آپ سے بیعت تو کر چکے لیکن یہ کس بات پر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات پر کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، پانچ وقت کی نماز کا اہتمام کرو، حکم سنو اور مانو“، پھر ایک بات چپکے سے فرمائی: ”لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرو“، راوی کا بیان ہے کہ (اس بات کا ان لوگوں پر اتنا اثر ہوا کہ) میں نے ان میں سے بعض کو دیکھا کہ اس کا کوڑا بھی گر جاتا تو کسی سے یہ نہ کہتا کہ کوڑا اٹھا کر مجھے دو ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ بات عادت میں داخل ہے کہ جب آدمی گھوڑے یا کسی دوسری سواری پر ہو اور اس کا کوڑا گر پڑے تو کسی سے بھی کہتا ہے کہ بھائی ذرا میرا کوڑا اٹھا دو، اور ہر ایک راہ چلتا یہ کام کر دیتا ہے، بلکہ اگر کوئی نہ کرے تو لوگ اس کو برا کہیں گے، مگر ان لوگوں نے جن کو آپ ﷺ نے بیعت میں یہ فرمایا تھا کہ کسی سے کچھ مت مانگنا، اتنا کام بھی اپنا کسی اور سے کرانا گوارا نہ کیا، یہ بہت بڑا مرتبہ ہے کہ آدمی سوا اپنے مالک کے کسی سے درخواست نہ کرے، نہ کسی سے کچھ مانگے اور چونکہ یہ کام بہت مشکل تھا اور ہر ایک شخص اس کو نہیں کر سکتا تھا، لہذا آپ ﷺ نے آہستہ سے اس کو فرمایا۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی، تو آپ نے فرمایا: ”جہاں تک تم سے ہو سکے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1087)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/119، 172، 185) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سبحان اللہ، آپ ﷺ ماں باپ سے زیادہ اپنی امت پر مہربان تھے، آپﷺ نے فرمایا: ”جہاں تک تم سے ہو سکے“ تاکہ وہ لوگ جھوٹے نہ ہوں جب کسی ایسی بات کا ان کو حکم دیا جائے جو ان کی طاقت سے خارج ہو۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن رمح ، انبانا الليث بن سعد ، عن ابي الزبير ، عن جابر ، قال: جاء عبد فبايع النبي صلى الله عليه وسلم على الهجرة، ولم يشعر النبي صلى الله عليه وسلم انه عبد، فجاء سيده يريده، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" بعنيه"، فاشتراه بعبدين اسودين، ثم لم يبايع احدا بعد ذلك، حتى يساله: اعبد هو؟. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: جَاءَ عَبْدٌ فَبَايَعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْهِجْرَةِ، وَلَمْ يَشْعُرِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ عَبْدٌ، فَجَاءَ سَيِّدُهُ يُرِيدُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بِعْنِيهِ"، فَاشْتَرَاهُ بِعَبْدَيْنِ أَسْوَدَيْنِ، ثُمَّ لَمْ يُبَايِعْ أَحَدًا بَعْدَ ذَلِكَ، حَتَّى يَسْأَلَهُ: أَعَبْدٌ هُوَ؟.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کر لی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے غلام ہونے کا معلوم ہی نہ ہوا، چنانچہ اس کا مالک جب اسے لینے کے مقصد سے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ غلام مجھے بیچ دو“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دو کالے غلاموں کے عوض خرید لیا، پھر اس کے بعد کسی سے بھی یہ معلوم کئے بغیر بیعت نہیں کرتے کہ وہ غلام تو نہیں ہے؟۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعلي بن محمد ، واحمد بن سنان ، قالوا: حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن ابي صالح ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ثلاثة لا يكلمهم الله، ولا ينظر إليهم يوم القيامة، ولا يزكيهم، ولهم عذاب اليم: رجل على فضل ماء بالفلاة يمنعه من ابن السبيل، ورجل بايع رجلا بسلعة بعد العصر فحلف بالله لاخذها بكذا وكذا فصدقه وهو على غير ذلك، ورجل بايع إماما لا يبايعه إلا لدنيا فإن اعطاه منها وفى له، وإن لم يعطه منها لم يف له". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَأَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: رَجُلٌ عَلَى فَضْلِ مَاءٍ بِالْفَلَاةِ يَمْنَعُهُ مِنَ ابْنِ السَّبِيلِ، وَرَجُلٌ بَايَعَ رَجُلًا بِسِلْعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ فَحَلَفَ بِاللَّهِ لَأَخَذَهَا بِكَذَا وَكَذَا فَصَدَّقَهُ وَهُوَ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ، وَرَجُلٌ بَايَعَ إِمَامًا لَا يُبَايِعُهُ إِلَّا لِدُنْيَا فَإِنْ أَعْطَاهُ مِنْهَا وَفَى لَهُ، وَإِنْ لَمْ يُعْطِهِ مِنْهَا لَمْ يَفِ لَهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے نہ بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ ہی انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے: ایک وہ آدمی جس کے پاس چٹیل میدان میں فالتو پانی ہو اور مسافر کو پانی لینے سے منع کرے، دوسرا وہ شخص جس نے عصر کے بعد کسی کے ہاتھ سامان بیچا اور اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ اس نے یہ چیز اتنے اتنے میں لی ہے، پھر خریدار نے اس کی بات کا یقین کر لیا، حالانکہ اس نے غلط بیانی سے کام لیا تھا، تیسرا وہ آدمی جس نے کسی امام کے ہاتھ پر بیعت کی، اور مقصد محض دنیاوی فائدہ تھا، چنانچہ اگر اس نے اسے کچھ دیا تو بیعت کو پورا کیا، اور اگر نہیں دیا تو پورا نہیں کیا“۔