عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ زمانہ قریب ہے کہ میرے بعد تمہارے معاملات کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آئے گی جو سنت کو مٹائیں گے، بدعت پر عمل پیرا ہوں گے، اور نماز کی وقت پر ادائیگی میں تاخیر کریں گے“، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میں ان کا زمانہ پاؤں تو کیا کروں؟ فرمایا: ”اے ام عبد کے بیٹے! مجھ سے پوچھ رہے ہو کہ کیا کروں؟ جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے اس کی بات نہیں مانی جائے گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9370، ومصباح الزجاجة: 1013)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/399، 5/325، 329) (صحیح) (صحیح أبی داود: 458، و سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2/ 139)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2865
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) سنت کو چھوڑ کر بدعتوں پر عمل کرنا گمراہی ہے۔
(2) اگر حکومتی ارکان بدعتوں کی ترویج کریں تو رعایا کو اس میں تعاون نہیں کرنا چاہیے۔ علماء کو چاہیے کہ بدعت کی تردید کریں اور سنت سے روشناس کرائیں اور عوام کو چاہیے کہ بدعتوں سے بچتے ہوئے سنت پر عمل پیرا رہیں۔
(3) علمائے حق کا ہر دور میں یہی شیوہ رہا ہے کہ وہ حکومتی گمراہیوں کے مقابلے میں سنت پر عمل کرنے اور اس کی اشاعت کرنے میں ثابت قدم رہتے ہیں۔ اور ہر قسم کی سختیوں اور ترغیب و تحریص سے متاثر ہوئے بغیر حق کا اعلان کرتے ہیں جیسے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جبری طلاق کے مسئلے میں اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے خلق قرآن کے مسئلے میں استقامت کا مظاہرہ فرمایا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2865