(مرفوع) حدثنا احمد بن عمرو بن السرح ، حدثنا عبد الله بن وهب ، انبانا يونس ، عن ابن شهاب ، عن علي بن الحسين انه حدثه، ان عمرو بن عثمان اخبره، عن اسامة بن زيد انه قال: يا رسول الله، اتنزل في دارك بمكة قال:" وهل ترك لنا عقيل من رباع او دور"، وكان عقيل ورث ابا طالب هو وطالب ولم يرث جعفر ولا علي شيئا لانهما كانا مسلمين، وكان عقيل وطالب كافرين، فكان عمر من اجل ذلك يقول: لا يرث المؤمن الكافر، قال اسامة: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يرث المسلم الكافر، ولا الكافر المسلم". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَنْبَأَنَا يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ أَنَّهُ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ عُثْمَانَ أَخْبَرَهُ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَنْزِلُ فِي دَارِكَ بِمَكَّةَ قَالَ:" وَهَلْ تَرَكَ لَنَا عَقِيلٌ مِنْ رِبَاعٍ أَوْ دُورٍ"، وَكَانَ عَقِيلٌ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ هُوَ وَطَالِبٌ وَلَمْ يَرِثْ جَعْفَرٌ وَلَا عَلِيٌّ شَيْئًا لِأَنَّهُمَا كَانَا مُسْلِمَيْنِ، وَكَانَ عَقِيلٌ وَطَالِبٌ كَافِرَيْنِ، فَكَانَ عُمَرُ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ يَقُولُ: لَا يَرِثُ الْمُؤْمِنُ الْكَافِرَ، قَالَ أُسَامَةُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ، وَلَا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ".
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ مکہ میں اپنے گھر میں ٹھہریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عقیل نے ہمارے لیے گھر یا زمین چھوڑی ہی کہاں ہے“؟ عقیل اور طالب دونوں ابوطالب کے وارث بنے اور جعفر اور علی رضی اللہ عنہما کو کچھ بھی ترکہ نہیں ملا اس لیے کہ یہ دونوں مسلمان تھے، اور عقیل و طالب دونوں (ابوطالب کے انتقال کے وقت) کافر تھے، اسی بناء پر عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ مومن کافر کا وارث نہیں ہو گا۔ اور اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ مسلمان کافر کا وارث ہو گا، اور نہ ہی کافر مسلمان کا“۔
تخریج الحدیث: «حدیث '' لایرث المسلم الکافر '' تقدم تخریجہ بالحدیث السابق (2729)، وحدیث '' وہل ترک لنا عقیل '' أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 44 (1588)، الجہاد 180 (3058)، المغازي 48 (4282)، صحیح مسلم/الحج 80 (1351)، سنن ابی داود/المناسک (2010)، (تحفة الأشراف: 114)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الفرائض 13 (10)، مسند احمد (2/237، سنن الدارمی/الفرائض 29 (3036) (صحیح)»
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو مذہب والے (جیسے کافر اور مسلمان) ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے“۔
تخریج الحدیث: «تفردبہ ابن ماجہ: (تحفة الأشراف: 8780)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الفرائض 10 (2911)، سنن الترمذی/الفرائض 16 (2109)، مسند احمد (2/178، 195) (حسن صحیح)»
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو اسامة ، حدثنا حسين المعلم ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: تزوج رئاب بن حذيفة بن سعيد بن سهم ام وائل بنت معمر الجمحية فولدت له ثلاثة فتوفيت امهم فورثها بنوها رباعا وولاء مواليها. فخرج بهم عمرو بن العاص إلى الشام فماتوا في طاعون عمواس فورثهم عمرو وكان عصبتهم فلما رجع عمرو بن العاص جاء بنو معمر يخاصمونه في ولاء اختهم إلى عمر ، فقال عمر: اقضي بينكم بما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، سمعته يقول:" ما احرز الولد والوالد فهو لعصبته من كان"، قال: فقضى لنا به، وكتب لنا به كتابا فيه شهادة عبد الرحمن بن عوف وزيد بن ثابت وآخر حتى إذا استخلف عبد الملك بن مروان توفي مولى لها، وترك الفي دينار فبلغني ان ذلك القضاء قد غير فخاصموه إلى هشام بن إسماعيل، فرفعنا إلى عبد الملك فاتيناه بكتاب عمر فقال:" إن كنت لارى ان هذا من القضاء الذي لا يشك فيه وما كنت ارى ان امر اهل المدينة بلغ هذا ان يشكوا في هذا القضاء فقضى لنا فيه فلم نزل به بعد". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: تَزَوَّجَ رِئَابُ بْنُ حُذَيْفَةَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ سَهْمٍ أُمَّ وَائِلٍ بِنْتَ مَعْمَرٍ الْجُمَحِيَّةَ فَوَلَدَتْ لَهُ ثَلَاثَةً فَتُوُفِّيَتْ أُمُّهُمْ فَوَرِثَهَا بَنُوهَا رِبَاعًا وَوَلَاءَ مَوَالِيهَا. فَخَرَجَ بِهِمْ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ إِلَى الشَّامِ فَمَاتُوا فِي طَاعُونِ عَمْوَاسٍ فَوَرِثَهُمْ عَمْرُو وَكَانَ عَصَبَتَهُمْ فَلَمَّا رَجَعَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ جَاءَ بَنُو مَعْمَرٍ يُخَاصِمُونَهُ فِي وَلَاءِ أُخْتِهِمْ إِلَى عُمَرَ ، فَقَالَ عُمَرُ: أَقْضِي بَيْنَكُمْ بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ:" مَا أَحْرَزَ الْوَلَدُ وَالْوَالِدُ فَهُوَ لِعَصَبَتِهِ مَنْ كَانَ"، قَالَ: فَقَضَى لَنَا بِهِ، وَكَتَبَ لَنَا بِهِ كِتَابًا فِيهِ شَهَادَةُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَآخَرَ حَتَّى إِذَا اسْتُخْلِفَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ تُوُفِّيَ مَوْلًى لَهَا، وَتَرَكَ أَلْفَيْ دِينَارٍ فَبَلَغَنِي أَنَّ ذَلِكَ الْقَضَاءَ قَدْ غُيِّرَ فَخَاصَمُوهُ إِلَى هِشَامِ بْنِ إِسْمَاعِيل، فَرَفَعَنَا إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ فَأَتَيْنَاهُ بِكِتَابِ عُمَرَ فَقَالَ:" إِنْ كُنْتُ لَأَرَى أَنَّ هَذَا مِنَ الْقَضَاءِ الَّذِي لَا يُشَكُّ فِيهِ وَمَا كُنْتُ أَرَى أَنَّ أَمْرَ أَهْلِ الْمَدِينَةِ بَلَغَ هَذَا أَنْ يَشُكُّوا فِي هَذَا الْقَضَاءِ فَقَضَى لَنَا فِيهِ فَلَمْ نَزَلْ بِهِ بَعْدُ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رباب بن حذیفہ بن سعید بن سہم نے ام وائل بنت معمر جمحیہ سے نکاح کیا، اور ان کے تین بچے ہوئے، پھر ان کی ماں کا انتقال ہوا، تو اس کے بیٹے زمین جائیداد اور ان کے غلاموں کی ولاء کے وارث ہوئے، ان سب کو لے کر عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ شام گئے، وہ سب طاعون عمواس میں مر گئے تو ان کے وارث عمرو رضی اللہ عنہ ہوئے، جو ان کے عصبہ تھے، اس کے بعد جب عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ شام سے لوٹے تو معمر کے بیٹے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے خلاف اپنی بہن کے ولاء (حق میراث) کا مقدمہ لے کر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اسی کے مطابق تمہارا فیصلہ کروں گا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس ولاء کو لڑکا اور والد حاصل کریں وہ ان کے عصبہ کو ملے گا خواہ وہ کوئی بھی ہو“، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے ہمارے حق میں فیصلہ کر دیا، اور ہمارے لیے ایک دستاویز لکھ دی، جس میں عبدالرحمٰن بن عوف، زید بن ثابت رضی اللہ عنہما اور ایک تیسرے شخص کی گواہی درج تھی، جب عبدالملک بن مروان خلیفہ ہوئے تو ام وائل کا ایک غلام مر گیا، جس نے دو ہزار دینار میراث میں چھوڑے تھے، مجھے پتہ چلا کہ عمر رضی اللہ عنہ کا کیا ہوا فیصلہ بدل دیا گیا ہے، اور اس کا مقدمہ ہشام بن اسماعیل کے پاس گیا ہے، تو ہم نے معاملہ عبدالملک کے سامنے اٹھایا، اور ان کے سامنے عمر رضی اللہ عنہ کی دستاویز پیش کی جس پر عبدالملک نے کہا: میرے خیال سے تو یہ ایسا فیصلہ ہے جس میں کسی کو بھی شک نہیں کرنا چاہیئے، اور میں یہ نہیں سمجھ رہا تھا کہ مدینہ والوں کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ وہ اس جیسے (واضح) فیصلے میں شک کر رہے ہیں، آخر کار عبدالملک نے ہماری موافقت میں فیصلہ کیا، اور ہم برابر اس میراث پر قابض رہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الفرائض 12 (2917)، (تحفة الأشراف: 10581)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/27) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: ولاء کا قاعدہ یہ ہے کہ اس غلام یا لونڈی کے ذوی الفروض سے جو بچ رہے گا وہ آزاد کرنے والے کو ملے گا، اگر ذوی الفروض میں سے کوئی نہ ہو اور نہ قریبی عصبات میں سے تو کل مال آزاد کرنے والے کو مل جائے گا، اور جب ایک مرتبہ ام وائل کے غلاموں کی ولاء اس کے بیٹوں کی وجہ سے سسرال والوں میں آ گئی تو وہ اب کبھی پھر ام وائل کے خاندان میں جانے والی نہیں تھی جیسے عمر رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلام کھجور کے درخت پر سے گر کر مر گیا، اور کچھ مال چھوڑ گیا، اس نے کوئی اولاد یا رشتہ دار نہیں چھوڑا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی میراث اس کے گاؤں میں سے کسی کو دے دو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ میراث رسول اکرم ﷺ کی تھی مگر انبیاء کسی کے وارث نہیں ہوتے اور نہ ان کا کوئی وارث ہوتا ہے اس لیے آپ نے میراث نہیں لی، بیت المال میں ایسی میراث رکھنے کا امام کو اختیار ہے، آپ نے یہی مناسب سمجھا کہ اس کی بستی والے اس کے مال سے فائدہ اٹھائیں۔
عبداللہ بن شداد کی اخیافی بہن بنت حمزہ کہتی ہیں کہ میرا ایک غلام فوت ہو گیا، اس نے ایک بیٹی چھوڑی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا مال میرے اور اس کی بیٹی کے درمیان تقسیم کیا، اور مجھے اور اس کی بیٹی کو آدھا آدھا دیا، (بیٹی کو بطور فرض اور بہن کو بطور عصبہ)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18372، ومصباح الزجاجة: 966)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الفرائض 31 (3056) (حسن)» (سند میں ابن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 1696)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف محمد ابن أبي ليلي ضعيف وخالفه شعبة عن الحكم عن عبد اللّٰه بن شداد به مرسلاً،وأخرجه أبو داود في المراسيل (ح364) وتابعه غير واحد عن الحكم به فالحديث منقطع كما قال البيھقي (6/ 241) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 478
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے، اور فرمایا: ”عورت اپنے شوہر کی دیت اور مال دونوں میں وارث ہو گی، اور شوہر بیوی کی دیت اور مال میں وارث ہو گا، جب کہ ان میں سے ایک نے دوسرے کو قتل نہ کیا ہو، لیکن جب ایک نے دوسرے کو جان بوجھ کر قتل کر دیا ہو تو اس دیت اور مال سے کسی بھی چیز کا وارث نہیں ہو گا، اور اگر ان میں سے ایک نے دوسرے کو غلطی سے قتل کر دیا ہو تو اس کے مال سے تو وارث ہو گا، لیکن دیت سے وارث نہ ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8766، ومصباح الزجاجة: 968) (موضوع) (سند میں محمد بن سعید ابو سعید مصلوب فی الزند قہ ہے، جو حدیثیں وضع کرتا تھا، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 4674)»
ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کو تیر مارا، جس سے وہ مر گیا، اور اس کا ماموں کے علاوہ کوئی اور وارث نہیں تھا تو ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو سارا قصہ لکھ بھیجا، جس کے جواب میں عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کا کوئی مولیٰ نہیں اس کا مولیٰ اللہ اور اس کے رسول ہیں، اور جس کا کوئی وارث نہیں اس کا وارث اس کا ماموں ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الفرائض 12 (2103)، (تحفة الأشراف: 10384)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/28، 46) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اللہ تعالی نے فرمایا: «وأولوا الأرحام بعضهم أولى ببعض»(سورة الأنفال: 75) یعنی ”رشتے ناتے والے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، اور یہ شامل ہے ذوی الارحام کو بھی اور جمہور اسی کے قائل ہیں کہ ذوی الارحام وارث ہوں گے اور وہ بیت المال پر مقدم ہوں گے، اہل حدیث کا مذہب یہ ہے کہ عصبات اور ذوی الفروض نہ ہوں تو ذوی الارحام وارث ہوں گے اور وہ بیت المال پر مقدم ہیں۔ (الروضۃ الندیۃ)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (2103) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 478
مقدام ابوکریمہ رضی اللہ عنہ (جو اہل شام میں سے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے تھے) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے مال چھوڑا تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جو شخص بوجھ (قرض یا محتاج اہل و عیال) چھوڑ جائے تو وہ ہمارے ذمہ ہے“، اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ ہے، جس کا کوئی وارث نہ ہو، اس کا وارث میں ہوں، میں ہی اس کی دیت دوں گا، اور میں ہی میراث لوں گا، اور ماموں اس شخص کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو، وہی اس کی طرف سے دیت دے گا، اور وہی اس کا وارث بھی ہو گا“۔