Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الفرائض
کتاب: وراثت کے احکام و مسائل
9. بَابُ : ذَوِيِ الأَرْحَامِ
باب: ذوی الارحام کا بیان۔
حدیث نمبر: 2737
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ الزُّرَقِيِّ ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حَكِيمِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ حُنَيْفٍ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ ، أَنَّ رَجُلًا رَمَى رَجُلًا بِسَهْمٍ فَقَتَلَهُ وَلَيْسَ لَهُ وَارِثٌ إِلَّا خَالٌ فَكَتَبَ فِي ذَلِكَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ إِلَى عُمَرَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" اللَّهُ وَرَسُولُهُ مَوْلَى مَنْ لَا مَوْلَى لَهُ، وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ".
ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کو تیر مارا، جس سے وہ مر گیا، اور اس کا ماموں کے علاوہ کوئی اور وارث نہیں تھا تو ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو سارا قصہ لکھ بھیجا، جس کے جواب میں عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا کوئی مولیٰ نہیں اس کا مولیٰ اللہ اور اس کے رسول ہیں، اور جس کا کوئی وارث نہیں اس کا وارث اس کا ماموں ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الفرائض 12 (2103)، (تحفة الأشراف: 10384)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/28، 46) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اللہ تعالی نے فرمایا: «وأولوا الأرحام بعضهم أولى ببعض» (سورة الأنفال: 75) یعنی رشتے ناتے والے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، اور یہ شامل ہے ذوی الارحام کو بھی اور جمہور اسی کے قائل ہیں کہ ذوی الارحام وارث ہوں گے اور وہ بیت المال پر مقدم ہوں گے، اہل حدیث کا مذہب یہ ہے کہ عصبات اور ذوی الفروض نہ ہوں تو ذوی الارحام وارث ہوں گے اور وہ بیت المال پر مقدم ہیں۔ (الروضۃ الندیۃ)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (2103)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 478

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2737 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2737  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مولیٰ آزاد کردہ غلام کو بھی کہتے ہیں اور آزاد کرنے والے کو بھی۔
اس تعلق کی بنا پروراثت کا مسئلہ پہلے گزر چکا ہے۔ (دیکھئے حدیث: 2732)
اگرکسی آزاد ہونے والے کی وفات کے بعداس کے آزاد کرنے والوں میں سے کوئی موجود نہ ہو تو ترکہ بیت المال میں جمع ہو جائے گا، جس طرح کسی بھی لاوارث شخص کا ترکہ بیت المال کے لیے ہوتا ہے۔

(2)
جس کے وارثوں میں کوئی اصحاب الفروض یا عصبہ موجود نہ ہو تو اس کا ترکہ ذوی الارحام میں تقسیم ہوگا۔

(3)
وارثوں کی تین قسمیں ہیں۔

(ا)
اصحاب الفروض:
وہ ورثاء جن کا حصہ قرآن و حدیث میں مقرر کردیا گیا ہے۔
یہ کل بارہ افراد ہیں، چھ مردوں میں سے اور آٹھ عورتوں میں سے جو کہ درج ذیل ہیں:

خاوند۔

باپ۔

دادا۔

مادری بھائی۔

بیوی۔

ماں۔

دادی ونانی۔

بیٹی۔

پوتی پڑپوتی۔
10۔
حقیقی بہن۔
11۔
پدری بہن۔
12۔
مادری بہن۔

(ب)
عصبہ:
میت کے وہ قریبی رشتہ دار جن کے حصے متعین نہیں ہیں بلکہ اصحاب الفروض سے بچا ہوا ترکہ لیتے ہیں، نیز ان کا تعلق میت سے کسی عورت کے واسطے سے نہیں ہوتا، مثلاً:
چچا (باپ کا بھائی)
، بھتیجا (بھائی کا بیٹا)
، چچازاد بھائی (باپ کے بھائی کا بیٹا)
ان مثالوں میں میت سے تعلق مردوں ہی کے ذریعے سے قائم ہوا ہے۔

(ج)
ذوی الارحام:
میت کے وہ قریبی رشتے دار جو اصحاب الفروض یا عصبات میں سے نہ ہوں اور ان کا تعلق عورت کے واسطے سے ہو، مثلاً:
ماموں(ماں کا بھائی)
، بھانجا (بہن کا بیٹا)
، نانا (ماں کا باپ)
، نواسا (بیٹی کا بیٹا)
ان مثالوں میں وارث اور میت کا تعلق ایک عورت (ماں، بہن یا بیٹی وغیرہ)
کے ذریعے قائم ہورہا ہے۔
عصبہ کی عدم موجودگی میں یہ وارث ہوتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2737   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 812  
´فرائض (وراثت) کا بیان`
سیدنا ابوامامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے میرے ذریعہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ہر اس کا مولیٰ ہے جس کا کوئی مولیٰ نہ ہو اور جس کا کوئی وارث نہ ہو ماموں اس کا وارث ہے۔ اسے احمد اور چاروں نے سوائے ابوداؤد کے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 812»
تخریج:
«أخرجه الترمذي، الفرائض، باب ما جاء في ميراث الخال، حديث:2103، وابن ماجه، الفرائض، حديث:2737 والنسائي في الكبرٰي:4 /76، حديث:6351، وأحمد:4 /131، وابن حبان (الإحسان):7 /612.»
تشریح:
راویٔ حدیث:
«حضرت ابوامامہ بن سہل رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ان کا نام اسعد اور ایک قول کے مطابق سعد ہے‘ مگر یہ اپنی کنیت ہی سے مشہور و معروف ہیں۔
سلسلۂنسب یوں ہے: ابوامامہ بن سہل بن حُنَیف بن واہب انصاری اوسی مدنی۔
یعنی مدینہ کے انصار کے قبیلۂاوس سے تعلق رکھتے تھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے بہرہ ور ہوئے مگر کچھ سماعت نہیں کر سکے۔
۱۰۰ہجری میں ۹۲ برس کی عمر میں وفات پائی۔
وضاحت: «حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ عامر بن عبداللہ بن جراح بن ہلال قریشی فِہْری۔
عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔
قدیم الاسلام ہیں۔
دوسری ہجرت حبشہ میں شریک تھے۔
غزوۂ بدر سمیت تمام غزوات میں شریک رہے۔
جنگ احد کے روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار مبارک میں خود کے جو دو حلقے داخل ہوگئے تھے انھیں اپنے دانتوں سے کھینچ کر نکالتے وقت ان کے سامنے کے دونوں دانت گر گئے تھے۔
شام کی فتوحات میں لشکر اسلامی کی قیادت کے فرائض انجام دیے۔
۱۸ ہجری میں طاعون عمواس کے موقع پر وفات پائی۔
اس وقت ان کی عمر ۵۸ برس تھی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 812