Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الفرائض
کتاب: وراثت کے احکام و مسائل
8. بَابُ : مِيرَاثِ الْقَاتِلِ
باب: قاتل کی میراث کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2735
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ أَبِي فَرْوَةَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:" الْقَاتِلُ لَا يَرِثُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قاتل وارث نہ ہو گا۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الفرائض 17 (2109)، (تحفة الأ شراف: 12286) وقد مضی برقم: (2645) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2735 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2735  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قتل وراثت سے محرومی کا باعث ہے، یعنی اگر قاتل مقتول سے ایسا رشتہ رکھتا ہو جس کی بنا پروہ وراثت میں حصے کا مستحق ہے تو قتل کی وجہ سے وہ اپنے اس حق سے محروم ہو جائے گا۔

(2)
  یہ حکم ہر قاتل کے لیے ہے، خواہ اصحاب الفروض میں سے ہو یا عصبہ میں سے ہو، مثلاً:
اگر ایک شخص کے دوبیٹے ہوں، ان میں سے ایک اپنے باپ کا قتل کردے تو مقتول کے ترکے میں سے اصحاب الفروض کا حصہ نکال کرباقی مال مقتول کےاس بیٹے کو ملے گا جو قتل کے جرم میں شریک نہیں۔
دوسرا بیٹا جو قاتل ہے اسے کچھ نہیں ملے گا۔

(3)
  قتل کا محرک بعض دفعہ یہ جذبہ بھی ہوتا ہے کہ قاتل مقتول کی وراثت جلد حاصل کرنا چاہتا ہے۔
حدیث میں مذکورہ قانون کی وجہ سے یہ محرک ختم ہوجاتا ہے۔
اس طرح یہ قانون انسانوں کی جانوں کا محافظ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2735   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2109  
´قاتل کی میراث باطل ہونے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قاتل (مقتول کا) وارث نہیں ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الفرائض/حدیث: 2109]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں اسحاق بن ابی فروہ ضعیف راوی ہے،
لیکن حدیث عمر،
عبداللہ بن عمرو بن العاص،
اور ابن عباس کے شواہد کی بنا پر صحیح لغیرہ ہے،
الإرواء: 1670، 1671، 1672)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2109