قرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے موت کے وقت اللہ کی کتاب (قرآن) کے موافق وصیت کی تو یہ وصیت اس کی اس زکاۃ کا کفارہ ہو جائے گی جو اس نے اپنی زندگی میں ادا نہ کی ہو گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 11086، ومصباح الزجاجة: 959) (ضعیف)» (بقیہ بن الولید مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور ابوحلبس مجہول ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 4033)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف بقية عنعن وشيخه أبو حلبس: مجهول وخليد مجهول أيضًا(تقريب: 8062،1739) وللحديث شواهد ضعيفة عند الطبراني (33/19) وغيره انوار الصحيفه، صفحه نمبر 476
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا شريك ، عن عمارة بن القعقاع ، وابن شبرمة ، عن ابي زرعة ، عن ابي هريرة ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله نبئني ما حق الناس مني بحسن الصحبة، فقال:" نعم، وابيك لتنبان: امك"، قال: ثم من؟ قال:" ثم امك"، قال: ثم من؟ قال:" ثم امك"، قال: ثم من؟ قال:" ثم ابوك"، قال: نبئني يا رسول الله عن مالي كيف اتصدق فيه؟ قال:" نعم، والله لتنبان ان تصدق وانت صحيح شحيح تامل العيش وتخاف الفقر ولا تمهل حتى إذا بلغت نفسك ها هنا قلت: مالي لفلان ومالي لفلان وهو لهم وإن كرهت". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، وابْنِ شُبْرُمَةَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ نَبِّئْنِي مَا حَقُّ النَّاسِ مِنِّي بِحُسْنِ الصُّحْبَةِ، فَقَالَ:" نَعَمْ، وَأَبِيكَ لَتُنَبَّأَنَّ: أُمُّكَ"، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:" ثُمَّ أُمُّكَ"، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:" ثُمَّ أُمُّكَ"، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:" ثُمَّ أَبُوكَ"، قَالَ: نَبِّئْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ عَنْ مَالِي كَيْفَ أَتَصَدَّقُ فِيهِ؟ قَالَ:" نَعَمْ، وَاللَّهِ لَتُنَبَّأَنَّ أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ تَأْمُلُ الْعَيْشَ وَتَخَافُ الْفَقْرَ وَلَا تُمْهِلْ حَتَّى إِذَا بَلَغَتْ نَفْسُكَ هَا هُنَا قُلْتَ: مَالِي لِفُلَانٍ وَمَالِي لِفُلَانٍ وَهُوَ لَهُمْ وَإِنْ كَرِهْتَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بتائیے کہ لوگوں میں کس کے ساتھ حسن سلوک کا حق مجھ پر زیادہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، تمہارے والد کی قسم، تمہیں بتایا جائے گا، (سب سے زیادہ حقدار) تمہاری ماں ہے“، اس نے کہا: پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تمہاری ماں ہے“، اس نے کہا: پھر کون ہے؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر بھی تمہاری ماں ہے“، اس نے کہا: پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تمہارا باپ“ کہا: مجھے بتائیے کہ میں اپنا مال کس طرح صدقہ کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اللہ کی قسم! یہ بھی تمہیں بتایا جائے گا، صدقہ اس حال میں کرو کہ تم تندرست ہو، مال کی حرص ہو، زندہ رہنے کی امید ہو، فقر و فاقہ کا اندیشہ ہو، ایسا نہ کرو کہ تمہاری سانس یہاں آ جائے (تم مرنے لگو) تو اس وقت کہو: میرا یہ مال فلاں کے لیے اور یہ مال فلاں کے لیے ہے، اب تو یہ مال ورثاء کا ہے گرچہ تم نہ چاہو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی مرتے وقت وہ تمہارا مال ہی کہاں رہا جو تم کہتے ہو کہ میرا یہ مال فلاں اور فلاں کو دینا۔ جب آدمی بیمار ہوا اور موت قریب آ پہنچی تو دو تہائی مال پر وارثوں کا حق ہو گیا، اب ایک تہائی پر اختیار رہ گیا اس میں جو چاہے وہ کر لے، لیکن ایک تہائی سے زیادہ اگر صدقہ دے گا تو وہ صحیح نہ ہو گا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عادت کے طور پر غیر اللہ کی قسم کھانا منع نہیں ہے، کیونکہ نبی کریم نے اس کے باپ کی قسم کھائی، اور بعضوں نے کہا یہ حدیث ممانعت سے پہلے کی ہے، پھر آپ ﷺ نے باپ دادوں کی قسم کھانے سے منع فرمایا، نیز حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ماں کے ساتھ باپ سے تین حصے زیادہ سلوک کرنا چاہئے کیونکہ ماں کا حق سب پر مقدم ہے، ماں نے بچہ کے پالنے میں جتنی تکلیف اٹھائی ہے اتنی باپ نے نہیں اٹھائی گو باپ کا حق بھی بہت بڑا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح ق وليس عند خ زيادة نعم وأبيك لتنبأن وهي شهادة
بسر بن جحاش قرشی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی پر لعاب مبارک ڈالا، اور اس پر شہادت کی انگلی رکھ کر فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ابن آدم! تم مجھے کس طرح عاجز کرتے ہو، حالانکہ میں نے تمہیں اسی جیسی چیز (منی) سے پیدا کیا ہے پھر جب تمہاری سانس یہاں پہنچ جاتی ہے، آپ نے اپنے حلق کی جانب اشارہ فرمایا تو کہتا ہے کہ میں صدقہ کرتا ہوں، اب صدقہ کرنے کا وقت کہاں رہا“؟ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 2018، ومصباح الزجاجة: 960)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/210) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: بلکہ صدقہ کا عمدہ وقت وہ ہے جب آدمی صحیح اور تندرست ہو، اور وہ مال کا محتاج ہو بہت دنوں تک جینے کی توقع ہو، لیکن ان سب باتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے اور اپنا عمدہ مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرے۔
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، والحسين بن الحسن المروزي ، وسهل ، قالوا: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري ، عن عامر بن سعد ، عن ابيه ، قال: مرضت عام الفتح حتى اشفيت على الموت فعادني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: اي رسول الله إن لي مالا كثيرا وليس يرثني إلا ابنتي افاتصدق بثلثي مالي؟، قال:" لا"، قلت: فالشطر، قال:" لا"، قلت: فالثلث، قال:" الثلث، والثلث كثير ان تترك ورثتك اغنياء خير من ان تتركهم عالة يتكففون الناس". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، وَالْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ ، وسهل ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: مَرِضْتُ عَامَ الْفَتْحِ حَتَّى أَشْفَيْتُ عَلَى الْمَوْتِ فَعَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: أَيْ رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي مَالًا كَثِيرًا وَلَيْسَ يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَتِي أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي؟، قَالَ:" لَا"، قُلْتُ: فَالشَّطْرُ، قَالَ:" لَا"، قُلْتُ: فَالثُّلُثُ، قَالَ:" الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَنْ تَتَرُكَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَتْرُكَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ".
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال ایسا بیمار ہوا کہ موت کے کنارے پہنچ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لائے، تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت سارا مال ہے، اور ایک بیٹی کے علاوہ کوئی وارث نہیں ہے، تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کی وصیت کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”نہیں“، میں نے کہا: پھر آدھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“، میں نے کہا: تو ایک تہائی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، تہائی، حالانکہ یہ بھی زیادہ ہی ہے“، تمہارا اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ کر جانا، انہیں محتاج چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ وصیت تہائی مال سے زیادہ میں نافذ نہ ہو گی، اور دو تہائی وارثوں کو ملے گا اگرچہ وصیت تہائی سے زیادہ یا کل مال کی ہو، جمہور علماء کا یہی قول ہے، لیکن اگر موصی کا کوئی وارث نہ ہو توثلث مال سے زیادہ کی وصیت درست ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تمہاری وفات کے وقت تم پر تہائی مال کا صدقہ کیا ہے، (یعنی وصیت کی اجازت دی ہے) تاکہ تمہارے نیک اعمال میں اضافہ ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 14180، ومصباح الزجاجة: 961) (حسن)» (سند میں طلحہ بن عمرو ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث شواہد کی وجہ سے حسن ہے)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ضعفه البوصيري من أجل طلحة بن عمرو: متروك وتابعه عقبة بن عبد اللّٰه الأصم عن عطاء عند أبي نعيم في الحلية (322/3) وعقبة ضعيف (تقريب: 4642) وللحديث طرق كلھا ضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 477
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ابن آدم! میں نے دو ایسی چیزیں عنایت کیں جن میں سے ایک پر بھی تمہارا حق نہیں تھا، میں جس وقت تمہاری سانس روکوں اس وقت تمہیں مال کے ایک حصہ (یعنی تہائی مال کے صدقہ کرنے) کا اختیار دیا، تاکہ اس کے ذریعے سے میں تمہیں پاک کروں اور تمہارا تزکیہ کروں، دوسری چیز تمہارے مرنے کے بعد میرے بندوں کا تم پر نماز (جنازہ) پڑھنا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 8407، ومصباح الزجاجة: 962) (ضعیف)» (سند میں صالح بن محمد بن یحییٰ مجہول ہیں، اور مبار ک بن حسان ضعیف اور منکر الحدیث)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف مبارك بن حسان: لين الحديث (تقريب: 6460) وضعفه الجمهور انوار الصحيفه، صفحه نمبر 477
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میری تمنا ہے کہ لوگ تہائی مال کے بجائے چوتھائی مال میں وصیت کریں، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک تہائی حصہ بھی بڑا ہے یا زیادہ ہے“۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا يزيد بن هارون ، انبانا سعيد بن ابي عروبة ، عن قتادة ، عن شهر بن حوشب ، عن عبد الرحمن بن غنم ، عن عمرو بن خارجة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم خطبهم وهو على راحلته، وإن راحلته لتقصع بجرتها، وإن لغامها ليسيل بين كتفي، قال:" إن الله قسم لكل وارث نصيبه من الميراث، فلا يجوز لوارث وصية الولد للفراش، وللعاهر الحجر، ومن ادعى إلى غير ابيه او تولى غير مواليه فعليه لعنة الله، والملائكة، والناس اجمعين، لا يقبل منه صرف ولا عدل او قال: عدل ولا صرف". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَهُمْ وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، وَإِنَّ رَاحِلَتَهُ لَتَقْصَعُ بِجِرَّتِهَا، وَإِنَّ لُغَامَهَا لَيَسِيلُ بَيْنَ كَتِفَيَّ، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ قَسَمَ لِكُلِّ وَارِثٍ نَصِيبَهُ مِنَ الْمِيرَاثِ، فَلَا يَجُوزُ لِوَارِثٍ وَصِيَّةٌ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ، وَمَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ أَوْ تَوَلَّى غَيْرَ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ أَوْ قَالَ: عَدْلٌ وَلَا صَرْفٌ".
عمرو بن خارجہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس حال میں خطبہ دیا کہ آپ اپنی سواری (اونٹنی) پر تھے، وہ جگالی کر رہی تھی، اور اس کا لعاب میرے مونڈھوں کے درمیان بہہ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کے لیے میراث کا حصہ متعین کر دیا ہے، لہٰذا کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں، بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر اس کی ولادت ہوئی، اور زنا کرنے والے کے لیے پتھر ہے، جو شخص اپنے باپ دادا کے علاوہ دوسرے کی طرف نسبت کا دعویٰ کرے یا (غلام) اپنے مالک کے علاوہ دوسرے شخص کو مالک بنائے، تو اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے، نہ اس کا نفل قبول ہو گا، نہ فرض یا یوں کہا کہ نہ فرض قبول ہو گا نہ نفل“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: شروع اسلام میں یہ حکم تھا کہ جب کوئی مرنے لگے اور اس کے پاس مال ہو تو وہ اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں کے لئے وصیت کرے اور وصیت کے مطابق اس کا مال تقسیم کیا جائے، پھر اللہ تعالی نے ترکہ کی آیتیں اتاریں اور ہر ایک وارث کا حصہ مقرر کر دیا۔ اب وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں رہا کیونکہ اس میں دوسرے وارثوں کا نقصان ہو گا، البتہ اجنبی شخص کے لئے یا جس کو ترکہ میں سے کچھ حصہ نہ ملتا ہو موجودہ وارثوں کے سبب سے وصیت کرنا درست ہے، وہ بھی تہائی مال میں سے۔
ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ حجۃ الوداع کے سال اپنے خطبہ میں فرما رہے تھے: ”اللہ تعالیٰ نے (میت کے ترکہ میں) ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے، لہٰذا کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے“۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے نیچے کھڑا تھا، اس کا لعاب میرے اوپر بہہ رہا تھا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”اللہ تعالیٰ نے (میت کے ترکہ میں) ہر ایک حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے، تو سنو! کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے“۔