سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: تجارت کے احکام و مسائل
The Chapters on Business Transactions
حدیث نمبر: 2195
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب ، والعباس بن عبد العظيم العنبري ، قالا: حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا ايوب بن عتبة ، عن يحيى بن ابي كثير ، عن عطاء ، عن ابن عباس ، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الغرر".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، وَالْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ عُتْبَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع غرر سے منع کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5967)، ومصباح الزجاجة: 771)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/302) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں ایوب بن عتبہ ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)

It was narrated that Ibn 'Abbas said: "The Messenger of Allah (ﷺ) forbade Gharar transactions. "
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
24. بَابُ: النَّهْيِ عَنْ شِرَاءِ مَا فِي بُطُونِ الأَنْعَامِ وَضُرُوعِهَا وَضَرْبَةِ الْغَائِصِ
24. باب: جانوروں کے پیٹ اور تھن میں جو ہو اس کی بیع یا غوطہٰ خور کے غوطہٰ کی بیع ممنوع ہے۔
Chapter: Prohibition Of Buying What Is In The Wombs And Udders Of Cattle, And Whatever A Diver Is
حدیث نمبر: 2196
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا حاتم بن إسماعيل ، حدثنا جهضم بن عبد الله اليماني ، عن محمد بن إبراهيم الباهلي ، عن محمد بن زيد العبدي ، عن شهر بن حوشب ، عن ابي سعيد الخدري ، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن شراء ما في بطون الانعام حتى تضع وعما في ضروعها إلا بكيل، وعن شراء العبد وهو آبق، وعن شراء المغانم حتى تقسم، وعن شراء الصدقات حتى تقبض، وعن ضربة الغائص".
(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل ، حَدَّثَنَا جَهْضَمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْيَمَانِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْبَاهِلِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ الْعَبْدِيِّ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شِرَاءِ مَا فِي بُطُونِ الْأَنْعَامِ حَتَّى تَضَعَ وَعَمَّا فِي ضُرُوعِهَا إِلَّا بِكَيْلٍ، وَعَنْ شِرَاءِ الْعَبْدِ وَهُوَ آبِقٌ، وَعَنْ شِرَاءِ الْمَغَانِمِ حَتَّى تُقْسَمَ، وَعَنْ شِرَاءِ الصَّدَقَاتِ حَتَّى تُقْبَضَ، وَعَنْ ضَرْبَةِ الْغَائِصِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کے پیٹ میں جو ہو اس کے خریدنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ وہ جن دے، اور جو ان کے تھنوں میں ہے اس کے خریدنے سے بھی منع فرمایا ہے الا یہ کہ اسے دوھ کر اور ناپ کر خریدا جائے، اسی طرح بھاگے ہوئے غلام کو خریدنے سے، اور غنیمت (لوٹ) کا مال خریدنے سے بھی منع فرمایا یہاں تک کہ وہ تقسیم کر دیا جائے اور صدقات کو خریدنے سے (منع کیا) یہاں تک کہ وہ قبضے میں آ جائے، اور غوطہٰ خور کے غوطہٰ کو خریدنے سے (منع کیا) ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/السیر 14 (1563) مختصراً، (تحفة الأشراف: 4073)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/42) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں محمد بن ابراہیم باہلی مجہول راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 1293)

وضاحت:
۱؎:غوطہ خور کے غوطہ کو خریدنے کی صورت یہ ہے کہ غوطہ خور خریدنے والے سے کہے کہ میں غوطہ لگا رہا ہوں اس بار جو کچھ میں نکالوں گا وہ اتنی قیمت میں تیرا ہو گا یہ تمام بیعیں اس لئے ناجائز ہیں کہ ان سب میں غرر (دھوکا) اور جہالت ہے۔

It was narrated that Abu Sa'eed Al-Khudri said: “The Messenger of Allah (ﷺ) forbade selling what is in the wombs of cattle until they give birth, and selling what is in their udders unless it is measured out, and selling a slave who has fled, and selling spoils of war until it has been distributed, and selling Sadaqah until it has been received, and what a diver is going to bring up."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (1563)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 457
حدیث نمبر: 2197
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن ايوب ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم" نهى عن بيع حبل الحبلة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمل کے حمل کو بیچنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/البیوع 66 (4629)، (تحفة الأشراف: 7062)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/البیوع 61 (2143)، السلم 7 (2256)، مناقب الأنصار 26 (3843)، صحیح مسلم/البیوع 3 (1513)، سنن ابی داود/البیوع 25 (3380)، سنن الترمذی/البیوع 16 (1229)، /البیوع 26 (62)، مسند احمد (1/56، 63، 108، 140، 155) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: حمل کے حمل کو بیچنے کی صورت یہ ہے کہ کوئی کہے کہ میں تم سے اس حاملہ اونٹنی کے پیٹ کے بچہ کے بچہ کو اتنی قیمت میں بیچتا ہوں تو یہ بیع جائز نہیں کیونکہ یہ معدوم و مجہول کی بیع ہے۔

It was narrated from Ibn 'Umar that : the Prophet (ﷺ) forbade selling Hablul-Habalah.
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
25. بَابُ: بَيْعِ الْمُزَايَدَةِ
25. باب: نیلام (بولی) کا بیان۔
Chapter: Auctions
حدیث نمبر: 2198
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا عيسى بن يونس ، حدثنا الاخضر بن عجلان ، حدثنا ابو بكر الحنفي ، عن انس بن مالك ، ان رجلا من الانصار جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم يساله، فقال:" لك في بيتك شيء"، قال: بلى، حلس نلبس بعضه ونبسط بعضه وقدح نشرب فيه الماء، قال:" ائتني بهما"، قال: فاتاه بهما، فاخذهما رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده، ثم قال:" من يشتري هذين؟"، فقال رجل: انا آخذهما بدرهم، قال:" من يزيد على درهم مرتين او ثلاثا"، قال رجل: انا آخذهما بدرهمين، فاعطاهما إياه واخذ الدرهمين فاعطاهما الانصاري، وقال:" اشتر باحدهما طعاما، فانبذه إلى اهلك واشتر بالآخر قدوما، فاتني به"، ففعل، فاخذه رسول الله صلى الله عليه وسلم فشد فيه عودا بيده، وقال:" اذهب فاحتطب ولا اراك خمسة عشر يوما"، فجعل يحتطب ويبيع فجاء وقد اصاب عشرة دراهم، فقال:" اشتر ببعضها طعاما وببعضها ثوبا"، ثم قال:" هذا خير لك من ان تجيء والمسالة نكتة في وجهك يوم القيامة، إن المسالة لا تصلح إلا لذي فقر مدقع او لذي غرم مفظع، او دم موجع".
(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا الْأَخْضَرُ بْنُ عَجْلَانَ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ، فَقَالَ:" لَكَ فِي بَيْتِكَ شَيْءٌ"، قَالَ: بَلَى، حِلْسٌ نَلْبَسُ بَعْضَهُ وَنَبْسُطُ بَعْضَهُ وَقَدَحٌ نَشْرَبُ فِيهِ الْمَاءَ، قَالَ:" ائْتِنِي بِهِمَا"، قَالَ: فَأَتَاهُ بِهِمَا، فَأَخَذَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ:" مَنْ يَشْتَرِي هَذَيْنِ؟"، فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمٍ، قَالَ:" مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا"، قَالَ رَجُلٌ: أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمَيْنِ، فَأَعْطَاهُمَا إِيَّاهُ وَأَخَذَ الدِّرْهَمَيْنِ فَأَعْطَاهُمَا الْأَنْصَارِيَّ، وَقَالَ:" اشْتَرِ بِأَحَدِهِمَا طَعَامًا، فَانْبِذْهُ إِلَى أَهْلِكَ وَاشْتَرِ بِالْآخَرِ قَدُومًا، فَأْتِنِي بِهِ"، فَفَعَلَ، فَأَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَدَّ فِيهِ عُودًا بِيَدِهِ، وَقَالَ:" اذْهَبْ فَاحْتَطِبْ وَلَا أَرَاكَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا"، فَجَعَلَ يَحْتَطِبُ وَيَبِيعُ فَجَاءَ وَقَدْ أَصَابَ عَشْرَةَ دَرَاهِمَ، فَقَالَ:" اشْتَرِ بِبَعْضِهَا طَعَامًا وَبِبَعْضِهَا ثَوْبًا"، ثُمَّ قَالَ:" هَذَا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَجِيءَ وَالْمَسْأَلَةُ نُكْتَةٌ فِي وَجْهِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَصْلُحُ إِلَّا لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ أَوْ لِذِي غُرْمٍ مُفْظِعٍ، أَوْ دَمٍ مُوجِعٍ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا، وہ آپ سے کوئی چیز چاہ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے؟، اس نے عرض کیا: جی ہاں! ایک کمبل ہے جس کا ایک حصہ ہم اوڑھتے اور ایک حصہ بچھاتے ہیں، اور ایک پیالہ ہے جس سے ہم پانی پیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ، وہ گیا، اور ان کو لے آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ میں لیا پھر فرمایا: انہیں کون خریدتا ہے؟ ایک شخص بولا: میں یہ دونوں چیزیں ایک درہم میں لیتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک درہم پر کون بڑھاتا ہے؟ یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین بار فرمایا، ایک شخص بولا: میں انہیں دو درہم میں لیتا ہوں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں چیزیں اس شخص کے ہاتھ بیچ دیں، پھر دونوں درہم انصاری کو دئیے اور فرمایا: ایک درہم کا اناج خرید کر اپنے گھر والوں کو دے دو، اور دوسرے کا ایک کلہاڑا خرید کر میرے پاس لاؤ، اس نے ایسا ہی کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کلہاڑے کو لیا، اور اپنے ہاتھ سے اس میں ایک لکڑی جما دی اور فرمایا: جاؤ اور لکڑیاں کاٹ کر لاؤ (اور بیچو) اور پندرہ دن تک میرے پاس نہ آؤ، چنانچہ وہ لکڑیاں کاٹ کر لانے لگا اور بیچنے لگا، پھر وہ آپ کے پاس آیا، اور اس وقت اس کے پاس دس درہم تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کچھ کا غلہ خرید لو، اور کچھ کا کپڑا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ تم قیامت کے دن اس حالت میں آؤ کہ سوال کرنے کی وجہ سے تمہارے چہرے پر داغ ہو، یاد رکھو سوال کرنا صرف اس شخص کے لیے درست ہے جو انتہائی درجہ کا محتاج ہو، یا سخت قرض دار ہو یا تکلیف دہ خون بہا کی ادائیگی میں گرفتار ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الزکاة 26 (1641)، سنن الترمذی/البیوع 10 (1218)، سنن النسائی/البیوع 20 (4512)، (تحفة الأشراف: 978)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/100، 114، 126) (ضعیف) (سند میں ابوبکر حنفی مجہول راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 1289)۔» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: انتہائی درجے کی محتاجی یہ ہے کہ ایک دن اور ایک رات کی خواک اس کے پاس کھانے کے لئے نہ ہو، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ بہ قدر نصاب اس کے پاس مال نہ ہو۔ سخت قرض داری یہ ہے کہ قرضہ اس کے مال سے زیادہ ہو۔ تکلیف دہ خون کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو قتل کیا ہو، اور مقتول کے وارث دیت پر راضی ہو گئے ہوں لیکن اس کے پاس رقم نہ ہو کہ دیت ادا کر سکے، مقتول کے وارث اس کو ستا رہے ہوں اور دیت کا تقاضا کر رہے ہوں تو ایسے شخص کے لئے سوال کرنا جائز ہے۔

It was narrated from Anas bin Malik that : a man from among the Ansar came to the Prophet (ﷺ) and begged from him. He said, "Do you have anything in your house?" He said: "Yes, a blanket, part of which we cover ourselves with and part we spread beneath us, and a bowl from which we drink water." He said: "Givethem to me." So he brought them to him, and the Messenger of Allah (ﷺ) took them in his hand and said, "Who will by these two things?" A man said: "I will by them for one Dirham." He said: "Who will offer more than a Dirham?" two or three times. A man said: "I will buy them for two Dirham." So he gave them to him and took the two Dirham, which he gave to the Ansari and said: "Buy food with one of them and give it to your family, and buy an axe with the other and bring it to me." So he did that, and the Messenger of Allah (ﷺ) took it and fixed a handle to it, and said: "Go and gather firewood, and I do not want to see you for fifteen days." So he went and gathered firewood and sold it, then he came back, and he had earned ten Dirham. (The Prophet (ﷺ)) said: "Buy food with some of it and clothes with some." Then he said: "This is better for you than coming with begging (appearing) as a spot on your face on the Day of Resurrection. Begging is only appropriate for one who is extremely poor or who is in severe debt, or one who must pay painful blood money.”[1]
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
26. بَابُ: الإِقَالَةِ
26. باب: بیع فسخ کرنے کا بیان۔
Chapter: Letting Someone Off
حدیث نمبر: 2199
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا زياد بن يحيى ابو الخطاب ، حدثنا مالك بن سعير ، حدثنا الاعمش ، عن ابي صالح ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من اقال مسلما، اقاله الله عثرته يوم القيامة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ يَحْيَى أَبُو الْخَطَّابِ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ سُعَيْرٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا، أَقَالَهُ اللَّهُ عَثْرَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کے اقالے کو مان لے (یعنی اس کے ساتھ بیع کے فسخ پر راضی ہو جائے) تو اللہ تعالیٰ (اس احسان کے بدلہ میں) قیامت کے دن اس کے گناہوں کو مٹا دے گا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12457)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/البیوع 54 (3460)، مسند احمد (2/252) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah (ﷺ) said: Whoever agrees with a Muslim to cancel a transaction Allah will forgive his sins on the Day of Resurrection. "
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (3460)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 457
27. بَابُ: مَنْ كَرِهَ أَنْ يُسَعِّرَ
27. باب: قیمت مقرر کرنے کی کراہت کا بیان۔
Chapter: Whoever Does Not Like To Fix Prices
حدیث نمبر: 2200
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا حجاج ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن قتادة ، وحميد وثابت ، عن انس بن مالك ، قال: غلا السعر على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: يا رسول الله، قد غلا السعر فسعر لنا، فقال:" إن الله هو المسعر القابض الباسط الرازق، إني لارجو، ان القى ربي وليس احد يطلبني بمظلمة في دم ولا مال".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، وَحُمَيْدٌ وَثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: غَلَا السِّعْرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ غَلَا السِّعْرُ فَسَعِّرْ لَنَا، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ، إِنِّي لَأَرْجُو، أَنْ أَلْقَى رَبِّي وَلَيْسَ أَحَدٌ يَطْلُبُنِي بِمَظْلَمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَالٍ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک دفعہ قیمتیں چڑھ گئیں، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے لیے ایک نرخ (بھاؤ) مقرر کر دیجئیے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ ہی نرخ مقرر کرنے والا ہے، کبھی کم کر دیتا ہے اور کبھی زیادہ کر دیتا ہے، وہی روزی دینے والا ہے، اور مجھے امید ہے کہ میں اپنے رب سے اس حال میں ملوں کہ کوئی مجھ سے جان یا مال میں کسی ظلم کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 51 (3451)، سنن الترمذی/البیوع 73 (1314)، (تحفة الأشراف: 318، 614، 1158)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/156)، سنن الدارمی/البیوع 13 (2587) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی نہ مالی نہ جانی کسی طرح کا ظلم میں نے کسی پر نہ کیا ہو، حدیث میں اشارہ ہے کہ نرخ مقرر کرنا یعنی قیمتوں پر کنٹرول کرنا بیوپاریوں پر اور غلہ کے تاجروں پر ایک مالی ظلم ہے، یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اس سے بچنے کی آرزو کی۔

It was nanated that Anas bin Malik said: "Prices rose during the time of the Messenger of Allah (ﷺ), and they said: 'O Messenger of Allah, prices have risen, so fix the prices for us.' He said: 'Indeed Allah is the Musa'ir, [1] the Qabid, (Restrainer) the Basit,[2] the Razzaq (Provider). And I am hopeful that I meet my Lord and none of you are seeking (recompense from) me for an injustice involving blood or wealth."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2201
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن زياد ، حدثنا عبد الاعلى ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد ، قال: غلا السعر على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: لو قومت يا رسول الله، قال:" إني لارجو، ان افارقكم ولا يطلبني احد منكم بمظلمة ظلمته".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: غَلَا السِّعْرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: لَوْ قَوَّمْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" إِنِّي لَأَرْجُو، أَنْ أُفَارِقَكُمْ وَلَا يَطْلُبَنِي أَحَدٌ مِنْكُمْ بِمَظْلَمَةٍ ظَلَمْتُهُ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مہنگائی بڑھ گئی، تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ نرخ مقرر کر دیں تو اچھا رہے گا! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری خواہش ہے کہ میں تم سے اس حال میں جدا ہوں کہ کوئی مجھ سے کسی زیادتی کا جو میں نے اس پر کی ہو مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 438، ومصباح الزجاجة: 774)، مسند احمد (3/85) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: نبی کریم ﷺکے عہد مبارک میں غذائی اجناس کی قیمتیں بڑھ گئی تھیں شاید اس کا سبب قحط سالی اور بارش کا نہ برسنا تھا، یا مدینہ اور شام کے درمیان راستے کا خراب ہونا جہاں سے مدینہ منورہ کو غلہ آتا تھا، لوگوں نے رسول اکرم ﷺ سے قیمتوں اور منافع پر کنٹرول کی گزارش کی تو نبی کریم ﷺ نے اس معاملے کو اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹا دیا کہ وہی رزاق ہے اور اسی کے ہاتھ میں روزی کو کم اور زیادہ کرنا ہے، رسول اکرم ﷺ نے نرخ پر کنٹرول اس خیال سے نہ کیا کہ اس سے خواہ مخواہ کہیں لوگ ظلم و زیادتی کا شکار نہ ہو جائیں، لیکن حاکم وقت لوگوں کی خدمت کے لیے عادلانہ اور منصفانہ نرخ پر کنٹرول کا اقدام کر سکتا ہے، عام مصلحت کے پیش نظر علماء اسلام نے اس کی اجازت دی ہے، امام ابن القیم فرماتے ہیں کہ نرخ کے کنٹرول میں بعض چیزیں حرام کے قبیل سے ہیں، اور بعض چیزیں انصاف پر مبنی اور جائز ہیں، قیمتوں پر کنٹرول سے اگر لوگ ظلم کا شکار ہوں یا ناحق ان کو ایسی بیع پر مجبور کیا جائے، جو ان کے یہاں غیر پسندیدہ ہو یا ان کو مباح چیزوں سے روکنے والی ہو تو ایسا کنٹرول حرام ہے، اور لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کا ضامن کنٹرول جیسے لوگوں کو اس بات پر مجبور کرنا کہ وہ وہی قیمت لیں جس کے وہ حقیقی طور پر حقدار ہیں، اور ان کو اس حقیقی قیمت سے زیادہ لینے سے روک دے جو ان کے لیے لینا حرام ہے، تو ایسا کنٹرول جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے، خلاصہ کلام یہ کہ اگر لوگوں کی مصلحتیں قیمتوں پر کنٹرول کے بغیر نہ پوری ہو رہی ہوں تو منصفانہ طور پر ان کی قیمتوں کی تحدید کر دینی چاہئے اور اگر اس کی ضرورت نہ ہو اور اس کے بغیر کام چل رہا ہو تو قیمتوں پر کنٹرول نہ کرے۔ علامہ محمد بن ابراہیم آل الشیخ مفتی اکبر سعودی عرب فرماتے ہیں کہ ہم پر جو چیز واضح ہوئی اور جس پر ہمارے دلوں کو اطمینان ہے وہ وہی ہے جسے ابن القیم نے ذکر فرمایا ہے کہ قیمتوں کی تحدید میں سے بعض چیزیں ظلم ہیں، اور بعض چیزیں عدل و انصاف کے عین مطابق تو دوسری صورت جائز ہے، قیمتوں پر کنٹرول سے اگر لوگ ظلم کا شکار ہو رہے ہوں یا ناحق انہیں ایسی قیمت پر مجبور ہونا پڑے جس پر وہ راضی نہیں ہیں، یا اس سے وہ اللہ کی مباح کی ہوئی چیزوں سے روکے جا رہے ہوں تو ایسا کرنا حرام ہے، اور اگر قیمتوں پر کنٹرول سے لوگوں کے درمیان عدل کا تقاضا پورا ہو رہا ہے کہ حقیقی قیمت اور واجبی معاوضہ لینے پر ان کو مجبور کیا جا رہا ہو یا اس تدبیر سے ان کو اصلی قیمت سے زیادہ لینے سے روکا جا رہا ہو جس کا لینا ان کے لیے حرام ہے، تو یہ جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے، پس قیمتوں پر کنٹرول دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے، پہلی شرط یہ ہے کہ ایسی چیزوں کی قیمتوں پر کنٹرول ہو جن کے محتاج سارے لوگ ہوں، دوسری شرط یہ ہے کہ مہنگائی کا سبب بازار میں سامان کا کم ہونا ہے یا طلب کا زیادہ ہونا، تو جس چیز میں یہ دونوں شرطیں پائی جائیں اس میں قیمتوں کی تحدید عدل و انصاف اور عام مصلحتوں کی رعایت کے قبیل سے ہے، جیسے گوشت، روٹی اور دواؤں وغیرہ کی قیمتوں پر کنٹرول۔ مجمع الفقہ الإسلامی مکہ مکرمہ نے تاجروں کے منافع کے کنٹرول سے متعلق (۱۴۰۹) ہجری کی ایک قرارداد میں یہ طے کیا کہ حاکم صرف اس وقت مارکیٹ اور چیزوں کے بھاؤ کے سلسلے میں دخل اندازی کرے جب مصنوعی اسباب کی وجہ سے ان چیزوں میں واضح خلل پائے، تو ایسی صورت میں حاکم کو چاہئے کہ وہ ممکنہ عادلانہ وسائل اختیار کر کے اس مسئلے میں دخل اندازی کرے اور بگاڑ، مہنگائی اور غبن فاحش کے اسباب کا خاتمہ کرے۔ (ملاحظہ ہو: توضیح الأحکام من بلوغ المرام، تالیف عبداللہ بن عبدالرحمن البسام، ۴/۳۲۹)

It was narrated that Abu Sa'eed said: "Prices rose at the time of the Messenger of Allah (ﷺ), and they said: 'Why do you not fix the food prices, O Messenger of Allah?' He said: 'I hope that when I leave you, no one among you will be demanding restitution for a wrong that I have done to him."'
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
28. بَابُ: السَّمَاحَةِ فِي الْبَيْعِ
28. باب: خرید و فروخت میں نرمی اور آسانی برتنے کا بیان۔
Chapter: Being Lenient During Transactions
حدیث نمبر: 2202
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن ابان البلخي ابو بكر ، حدثنا إسماعيل بن علية ، عن يونس بن عبيد ، عن عطاء بن فروخ ، قال: قال عثمان بن عفان ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ادخل الله الجنة رجلا كان سهلا بائعا ومشتريا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ الْبَلْخِيُّ أَبُو بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ فَرُّوخَ ، قَالَ: قَالَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَدْخَلَ اللَّهُ الْجَنَّةَ رَجُلًا كَانَ سَهْلًا بَائِعًا وَمُشْتَرِيًا".
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو جنت میں لے جائے جو نرمی کرنے والا ہو، خواہ بیچ رہا ہو یا خرید رہا ہو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/البیوع 102 (4700)، (تحفة الأشراف: 9830)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/58، 67، 70) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں عطاء بن فروخ اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے مابین انقطاع ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1188)

'Uthman bin 'Affan narrated that the Messenger of Allah (ﷺ) said: “Allah will admit to Paradise a man who was lenient when he sold and when he bought. "
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 2203
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عمرو بن عثمان بن سعيد بن كثير بن دينار الحمصي ، حدثنا ابي ، حدثنا ابو غسان محمد بن مطرف ، عن محمد بن المنكدر ، عن جابر بن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" رحم الله عبدا سمحا، إذا باع سمحا، إذا اشترى سمحا، إذا اقتضى".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ الْحِمْصِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رَحِمَ اللَّهُ عَبْدًا سَمْحًا، إِذَا بَاعَ سَمْحًا، إِذَا اشْتَرَى سَمْحًا، إِذَا اقْتَضَى".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم کرے، جو نرمی کرے جب بیچے، نرمی کرے جب خریدے، اور نرمی کرے جب تقاضا کرے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/البیوع 16 (2076)، (تحفة الأشراف: 3080)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البیوع 76 (1320) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated from Jabir bin 'Abdullah that the Messenger of Allah (ﷺ) said: "May Allah have mercy on a person who is lenient when he sells, lenient when he buys, and lenient when he asks for payment. "
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
29. بَابُ: السَّوْمِ
29. باب: مول بھاؤ کرنے کا بیان۔
Chapter: Haggling
حدیث نمبر: 2204
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا يعقوب بن حميد بن كاسب ، حدثنا يعلى بن شبيب ، عن عبد الله بن عثمان بن خثيم ، عن قيلة ام بني انمار ، قالت: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض عمره عند المروة، فقلت: يا رسول الله، إني امراة ابيع واشتري، فإذا اردت ان ابتاع الشيء سمت به اقل مما اريد، ثم زدت، ثم زدت حتى ابلغ الذي اريد، وإذا اردت ان ابيع الشيء سمت به اكثر من الذي اريد، ثم وضعت حتى ابلغ الذي اريد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تفعلي يا قيلة، إذا اردت ان تبتاعي شيئا، فاستامي به الذي تريدين اعطيت، او منعت، وإذا اردت ان تبيعي شيئا، فاستامي به الذي تريدين اعطيت، او منعت".
(مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ شَبِيبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ قَيْلَةَ أُمِّ بَنِي أَنْمَارٍ ، قَالَتْ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ عُمَرِهِ عِنْدَ الْمَرْوَةِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي امْرَأَةٌ أَبِيعُ وَأَشْتَرِي، فَإِذَا أَرَدْتُ أَنْ أَبْتَاعَ الشَّيْءَ سُمْتُ بِهِ أَقَلَّ مِمَّا أُرِيدُ، ثُمَّ زِدْتُ، ثُمَّ زِدْتُ حَتَّى أَبْلُغَ الَّذِي أُرِيدُ، وَإِذَا أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَ الشَّيْءَ سُمْتُ بِهِ أَكْثَرَ مِنَ الَّذِي أُرِيدُ، ثُمَّ وَضَعْتُ حَتَّى أَبْلُغَ الَّذِي أُرِيدُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَفْعَلِي يَا قَيْلَةُ، إِذَا أَرَدْتِ أَنْ تَبْتَاعِي شَيْئًا، فَاسْتَامِي بِهِ الَّذِي تُرِيدِينَ أُعْطِيتِ، أَوْ مُنِعْتِ، وَإِذَا أَرَدْتِ أَنْ تَبِيعِي شَيْئًا، فَاسْتَامِي بِهِ الَّذِي تُرِيدِينَ أَعْطَيْتِ، أَوْ مَنَعْتِ".
قیلہ ام بنی انمار رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی عمرہ کے موقع پر مروہ پہاڑی کے پاس تھے، میں نے عرض کیا کہ میں ایک خرید و فروخت کرنے والی عورت ہوں، جب میں کوئی چیز خریدنا چاہتی ہوں تو پہلے اس کی قیمت اس سے کم لگاتی ہوں، جتنے میں خریدنا چاہتی ہوں، پھر تھوڑا تھوڑا بڑھاتی ہوں یہاں تک کہ اس قیمت تک پہنچ جاتی ہوں جو میں چاہتی ہوں، اور جب میں کسی چیز کو بیچنا چاہتی ہوں تو اس کی قیمت اس سے زیادہ لگاتی ہوں، جتنے میں بیچنا چاہتی ہوں، پھر تھوڑا تھوڑا کم کرتی ہوں یہاں تک کہ اس قیمت کو پہنچ جاتی ہوں جتنے میں اسے میں دینا چاہتی ہوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیلہ! ایسا نہ کرو جب تم کوئی چیز خریدنا چاہو تو وہی قیمت لگاؤ جو تمہارے پیش نظر ہو چاہے وہ چیز دی جائے یا نہ دی جائے، اور جب تم کوئی چیز بیچنا چاہو تو وہی قیمت کہو جو تمہارے پیش نظر ہے، چاہے تم دے سکو یا نہ دے سکو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18048، ومصباح الزجاجة: 776) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (عبد اللہ بن عثمان اور قیلة رضی اللہ عنہا کے درمیان انقطاع ہے نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 2156)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
يعلي بن شبيب: لين الحديث (تقريب: 7842)
لم يوثقه غير ابن حبان،و ابن خثيم عن قيلة مرسل كما قال الذھبي (الكاشف 433/3)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 457

Previous    3    4    5    6    7    8    9    10    11    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.