(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، ويحيى بن حكيم ، قالا: حدثنا يزيد بن هارون ، انبانا حجاج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إن ابي اجتاح مالي، فقال:" انت ومالك لابيك". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن اولادكم من اطيب كسبكم فكلوا من اموالهم". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، وَيَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ أَبِي اجْتَاحَ مَالِي، فَقَالَ:" أَنْتَ وَمَالُكَ لِأَبِيكَ". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ أَطْيَبِ كَسْبِكُمْ فَكُلُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میرے والد نے میری دولت ختم کر دی (اس کے بارے میں فرمائیں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اور تمہاری دولت دونوں تمہارے والد کے ہیں“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے لہٰذا تم ان کے مال میں سے کھاؤ“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8675)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/البیوع 79 (3530)، مسند احمد (2/179) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ باپ اپنے بیٹے کے مال میں ضرورت کے مطابق تصرف کر سکتا ہے اور اگر ماں باپ بیٹے کا مال لے بھی لیں تو بھی بیٹے کو چاہئے کہ وہ ماں باپ سے مقابلہ نہ کرے، نہ ان سے سخت کلامی کرے اور اس وقت کو یاد کرے جب ماں باپ نے اسے محبت سے پالا پوسا تھا، پیشاب و پاخانہ دھویا، پھر کھلایا، پلایا، پڑھایا اور سکھایا، یہ سب احسانات ایسے ہیں کہ اگر ماں باپ کے کام میں بیٹے کا چمڑہ بھی آئے تو ان کا احسان نہ ادا ہو سکے اور یہ سمجھ لے کہ ماں باپ ہی کی رضامندی پر ان کی نجات منحصر ہے، اگر ماں باپ ناراض ہوئے تو دنیا و آخرت دونوں تباہ ہو گی، تجربہ سے معلوم ہوا کہ جن لڑکوں نے ماں باپ کو راضی رکھا ان کو بڑی برکت حاصل ہوئی اور انہوں نے چین سے زندگی بسر کی اور جنہوں نے ماں باپ کے ساتھ بدسلوکی کی وہ ہمیشہ دنیا میں جلتے اور کڑھتے ہی رہے، اگر ماں باپ بیٹے کا مال لے لیں تو کمال خوشی کرنا چاہئے کہ ہماری یہ قسمت کہاں تھی کہ ہمارا روپیہ ماں باپ کے کام آئے یا روپیہ اپنے موقع پر صرف ہوا، اور ماں باپ سے یوں کہنا چاہئے کہ روپیہ تو کیا میرا بدن اور میری جان بھی آپ ہی کی ہے، آپ اگر چاہیں تو مجھ کو بھی بازار میں بیچ لیں،میں آپ کا غلام ہوں۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہند رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوسفیان بخیل آدمی ہیں، مجھے اتنا نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولاد کے لیے کافی ہو سوائے اس کے جو میں ان کی لاعلمی میں ان کے مال میں سے لے لوں (اس کے بارے میں فرمائیں؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مناسب انداز سے اتنا لے لو جو تمہیں اور تمہاری اولاد کے لیے کافی ہو“۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابي ، وابو معاوية ، عن الاعمش ، عن ابي وائل ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا انفقت المراة"، وقال ابي في حديثه: إذا اطعمت المراة من بيت زوجها غير مفسدة كان لها اجرها وله مثله بما اكتسب ولها بما انفقت وللخازن مثل ذلك من غير ان ينقص من اجورهم شيئا". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَنْفَقَتِ الْمَرْأَةُ"، وَقَالَ أَبِي فِي حَدِيثِهِ: إِذَا أَطْعَمَتِ الْمَرْأَةُ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا غَيْرَ مُفْسِدَةٍ كَانَ لَهَا أَجْرُهَا وَلَهُ مِثْلُهُ بِمَا اكْتَسَبَ وَلَهَا بِمَا أَنْفَقَتْ وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عورت اپنے شوہر کے گھر میں سے خرچ کرے (کی روایت میں ”خرچ کرے“ کے بجائے ”جب عورت کھلائے“ ہے) اور اس کی نیت مال برباد کرنے کی نہ ہو تو اس کے لیے اجر ہو گا، اور شوہر کو بھی اس کی کمائی کی وجہ سے اتنا ہی اجر ملے گا، اور عورت کو خرچ کرنے کی وجہ سے، اور خازن کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کچھ کمی ہو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اگرچہ عورت کو اپنے شوہر کا اور خادم کو اپنے مالک کا مال بغیر ان کی اجازت کے صدقہ میں دینا جائز نہیں ہے، لیکن یہاں وہ مال مراد ہے جس کے خرچ کی عادتاً عورتوں کو اجازت دی جاتی ہے جیسے کھانے میں سے ایک روٹی فقیر کو دے دینا، یا پیسوں میں سے ایک پیسہ کسی مسکین کو، اور بعضوں نے کہا: اہل حجاز اپنی عورتوں کو صدقہ اور مہمانی کی اجازت دیا کرتے تھے، تو یہ حدیث ان سے خاص ہے، اور بعضوں نے کہا: مراد وہ مال ہے جو شوہر اپنی بیوی کو اس کے خرچ کے لئے دیتا ہے اس میں سے تو عورت بالاتفاق خرچ کر سکتی ہے۔
ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”عورت اپنے گھر میں سے اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کچھ خرچ نہ کرے“ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کھانا بھی کسی کو نہ دے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، کھانا بھی نہ دے، یہ تو ہمارے مالوں میں سب سے بہتر مال ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزکاة 34 (670)، (تحفة الأشراف: 4883)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/267) (حسن)»
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة حدثنا حفص بن غياث ، عن محمد بن زيد ، عن عمير مولى آبي اللحم، قال: كان مولاي يعطيني الشيء، فاطعم منه، فمنعني، او قال: فضربني، فسالت النبي صلى الله عليه وسلم او ساله، فقلت: لا انتهي او لا ادعه؟، فقال:" الاجر بينكما". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ عُمَيْرٍ مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ، قَالَ: كَانَ مَوْلَايَ يُعْطِينِي الشَّيْءَ، فَأُطْعِمُ مِنْهُ، فَمَنَعَنِي، أَوْ قَالَ: فَضَرَبَنِي، فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ سَأَلَهُ، فَقُلْتُ: لَا أَنْتَهِي أَوْ لَا أَدَعُهُ؟، فَقَالَ:" الْأَجْرُ بَيْنَكُمَا".
عمیر مولی آبی اللحم رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے مالک مجھے کوئی چیز دیتے تو میں اس میں سے اوروں کو بھی کھلا دیتا تھا تو انہوں نے مجھ کو ایسا کرنے سے روکا یا کہا: انہوں نے مجھے مارا، تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا اسی مالک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میں نے عرض کیا: میں اس سے باز نہیں آ سکتا، یا میں اسے چھوڑ نہیں سکتا (کہ مسکین کو کھانا نہ کھلاؤں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دونوں کو اس کا اجر ملے گا“۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا شبابة بن سوار ، ح وحدثنا محمد بن بشار ، ومحمد بن الوليد قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي بشر جعفر بن ابي إياس ، قال: سمعت عباد بن شرحبيل رجلا من بني غبر، قال: اصابنا عام مخمصة، فاتيت المدينة، فاتيت حائطا من حيطانها، فاخذت سنبلا ففركته واكلته وجعلته في كسائي، فجاء صاحب الحائط فضربني واخذ ثوبي، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فاخبرته، فقال للرجل:" ما اطعمته إذ كان جائعا او ساغبا ولا علمته إذ كان جاهلا"، فامره النبي صلى الله عليه وسلم فرد إليه ثوبه وامر له بوسق من طعام او نصف وسق. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ ، ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي إِيَاسٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبَّادَ بْنَ شُرَحْبِيلَ رَجُلًا مِنْ بَنِي غُبَرَ، قَالَ: أَصَابَنَا عَامُ مَخْمَصَةٍ، فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ، فَأَتَيْتُ حَائِطًا مِنْ حِيطَانِهَا، فَأَخَذْتُ سُنْبُلًا فَفَرَكْتُهُ وَأَكَلْتُهُ وَجَعَلْتُهُ فِي كِسَائِي، فَجَاءَ صَاحِبُ الْحَائِطِ فَضَرَبَنِي وَأَخَذَ ثَوْبِي، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ لِلرَّجُلِ:" مَا أَطْعَمْتَهُ إِذْ كَانَ جَائِعًا أَوْ سَاغِبًا وَلَا عَلَّمْتَهُ إِذْ كَانَ جَاهِلًا"، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ إِلَيْهِ ثَوْبَهُ وَأَمَرَ لَهُ بِوَسْقٍ مِنْ طَعَامٍ أَوْ نِصْفِ وَسْقٍ.
ابوبشر جعفر بن أبی ایاس کہتے ہیں میں نے عباد بن شرحبیل رضی اللہ عنہ جو بنی غبر کے ایک فرد ہیں کو کہتے سنا کہ ایک سال قحط ہوا تو میں مدینہ آیا، وہاں اس کے باغوں میں سے ایک باغ میں گیا، اور اناج کی ایک بالی اٹھا لی، اور مل کر اس میں سے کچھ کھایا، اور کچھ اپنے کپڑے میں رکھ لیا، اتنے میں باغ کا مالک آ گیا، اس نے مجھے مارا اور میرا کپڑا چھین لیا، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باغ والے سے کہا: ”تم نے اس کو کھانا نہیں کھلایا جبکہ یہ بھوکا تھا، اور نہ تم نے اس کو تعلیم دی جبکہ یہ جاہل تھا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کپڑے واپس کرنے اور ساتھ ہی ایک وسق یا نصف وسق غلہ دینے کا حکم دیا“۔
رافع بن عمرو غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور ایک لڑکا دونوں مل کر اپنے یا انصار کے کھجور کے درخت پر پتھر مار رہے تھے، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لڑکے! (ابن کاسب کا قول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا: میرے بیٹے!) تم کیوں کھجور کے درختوں پر پتھر مارتے ہو“؟، رافع بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں (کھجور) کھاؤں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”درختوں پر پتھر نہ مارو جو نیچے گرے ہوں انہیں کھاؤ“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا: ”اے اللہ! اسے آسودہ کر دے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجہاد 94 (2622)، سنن الترمذی/البیوع 54 (1288)، (تحفة الأشراف: 3595) (ضعیف)» (سند میں ابن ابی الحکم مستور اور جدتی (دادی) مبہم روایہ ہیں نیزملاحظہ ہو: ضعیف أبی داود: 453)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي دا ود (2622) ترمذي (1288) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 461
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا يزيد بن هارون ، انبانا الجريري ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إذا اتيت على راع فناده ثلاث مرار، فإن اجابك وإلا فاشرب في غير ان تفسد، وإذا اتيت على حائط بستان فناد صاحب البستان ثلاث مرات، فإن اجابك، وإلا فكل في ان لا تفسد". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا أَتَيْتَ عَلَى رَاعٍ فَنَادِهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ، فَإِنْ أَجَابَكَ وَإِلَّا فَاشْرَبْ فِي غَيْرِ أَنْ تُفْسِدَ، وَإِذَا أَتَيْتَ عَلَى حَائِطِ بُسْتَانٍ فَنَادِ صَاحِبَ الْبُسْتَانِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَإِنْ أَجَابَكَ، وَإِلَّا فَكُلْ فِي أَنْ لَا تُفْسِدَ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم کسی چرواہے کے پاس آؤ تو تین بار اسے آواز دو، اگر وہ جواب دے تو بہتر، ورنہ اپنی ضرورت کے مطابق بغیر خراب کئے دودھ دوہ کر پی لو، اور جب تم کسی باغ میں آؤ تو باغ والے کو تین بار آواز دو، اگر وہ جواب دے تو بہتر، ورنہ اپنی ضرورت کے مطابق پھل توڑ کر کھا لو، البتہ خراب مت کرو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4342، ومصباح الزجاجة: 806)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/7، 21، 85) (صحیح)» (ملاحظہ ہو: الإرواء: 2521)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال البوصيري: ”ھذا إسناد ضعيف،فيه الجريري واسمه سعيد بن إياس وقد اختلط بآخره ويزيد بن ھارون روي عنه بعد الإختلاط“ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 461
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی کسی باغ سے گزرے تو (پھل) کھائے، اور کپڑے میں نہ باندھے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: جن احادیث میں مالک کی اجازت کے بغیر دودھ یا پھل لینے کی اجازت ہے، اکثر علماء کے نزدیک یہ منسوخ ہیں، اور ان کی ناسخ وہ احادیث ہیں جن میں مسلمان کی اجازت کے بغیر اس کا مال لینا حرام ہے، اور بعضوں نے کہا کہ یہ حدیثیں اس حالت پر محمول ہیں کہ جب آدمی بھوک کے مارے بے تاب ہو یعنی مرنے کے قریب ہو، مخمصہ کی حالت ہو تو ایسی حالت میں حرام حلال ہو جاتا ہے، پھر پھل یا دودھ بھی بے اجازت کھا پی لینا جائز ہو گا،لیکن ضروری ہے کہ صرف اتنا لے جس سے جان بچ جائے، اور ضرورت سے زیادہ اس کا مال خراب نہ کرے نہ اپنے ساتھ باندھ کر لے جائے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (1287) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 461