ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”معراج کی رات میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ مکانوں کے مانند تھے، ان میں باہر سے سانپ دکھائی دیتے تھے، میں نے کہا: جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ سود خور ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15443، ومصباح الزجاجة: 798)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/353، 363) (ضعیف)» (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أبو الصلت:مجهول (تقريب: 8178) وتلميذه علي بن زيد ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 460
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سود ستر گناہوں کے برابر ہے جن میں سے سب سے چھوٹا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے نکاح کرے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13073، ومصباح الزجاجة: 799) (صحیح)» (سند میں ابومعشر نجیح بن عبد الرحمن سندی ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پرحدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: ستر کی تعداد سے مراد گنا ہ کی زیادتی اور اس فعل کی شناعت و قباحت کا اظہار ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف وقال البوصيري: ”ھذا إسناد ضعيف،أبو معشر ھو نجيح بن عبد الرحمٰن متفق علي تضعيفه“ و للحديث شواھد ضعيفة عند ابن الجارود (647) و الحاكم (2/ 37) وغيرهما انوار الصحيفه، صفحه نمبر 460
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف إبراھيم النخعي مدلس وعنعن اضافه از معاذ: وله شاھد موقوف صحيح عند المروزي في السنة (201،وسنده صحيح) والخلال في السنة (1496) وھو يغني عنه،لعله حكمًا مرفوعًا،والله اعلم انوار الصحيفه، صفحه نمبر 460
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آخری آیت جو نازل ہوئی، وہ سود کی حرمت والی آیت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفسیر ہم سے بیان نہیں کی، لہٰذا سود کو چھوڑ دو، اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے بھی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10454)، وقد أخرجہ: (حم (1/36، 49) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اگرچہ سود کی آیت کے بعد اور کئی آیتیں اتریں، لیکن اس کو آخری اس اعتبار سے کہا کہ معاملات کے باب میں اس کے بعد کوئی آیت نہیں اتری، مقصد یہ ہے کہ سود کی آیت منسوخ نہیں ہے، اس کا حکم قیامت تک باقی ہے، اور نبی کریم ﷺ نے اس کی تفسیر نہیں کی یعنی جیسا چاہئے ویسا کھول کر سود کا مسئلہ بیان نہیں کیا، چھ چیزوں کا بیان کر دیا کہ ان میں سود ہے: سونا، چاندی، گیہوں، جو، نمک، اور کھجور، اور چیزوں کا بیان نہیں کیا کہ ان میں سود ہوتا ہے یا نہیں، لیکن مجتہدین نے اپنے اپنے قیاس کے موافق دوسری چیزوں میں بھی سود قرار دیا، اب جن چیزوں کو نبی کریم ﷺ نے بیان کر دیا ان میں تو سود کی حرمت قطعی ہے، کسی مسلمان کو اس کے پاس پھٹکنا نہ چاہئے، رہیں اور چیزیں جن میں اختلاف ہے تو تقوی یہ ہے کہ ان میں بھی سود کا پرہیز کرے، لیکن اگر کوئی اس میں مبتلا ہو جائے تو اللہ سے استغفار کرے اور حتی المقدور دوبارہ احتیاط رکھے، اور یہ زمانہ ایسا ہے کہ اکثر لوگ سود کھانے سے بچتے ہیں تو دینے میں گرفتار ہوتے ہیں، حالانکہ دونوں کا گناہ برابر ہے، اللہ ہی اپنے بندوں کو بچائے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قتادة عنعن وله طريق آخر عند الإسماعيلي كما في مسند الفاروق (571/2) وإسناده ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 460
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کے کھانے والے پر، کھلانے والے پر، اس کی گواہی دینے والے پر، اور اس کا حساب لکھنے والے پر لعنت بھیجی ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقیناً لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کوئی ایسا نہ بچے گا جس نے سود نہ کھایا ہو، جو نہیں کھائے گا اسے بھی اس کا غبار لگ جائے گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 3 (3331)، سنن النسائی/البیوع 2 (4460)، (تحفة الأشراف: 12241)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/494) (ضعیف)» (سعید بن أبی خیرہ مقبول راوی ہیں، یعنی متابعت کی موجود گی میں، اور متابع کوئی نہیں ہے، اس لئے لین الحدیث ہیں، یعنی کمزوری اور ضعیف ہیں، حسن بصری کا سماع ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داو د (3331) نسائي (4460) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 460
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے بھی سود سے مال بڑھایا، اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ اس کا مال گھٹ جاتا ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9203، ومصباح الزجاجة: 802)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/395، 424) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سودی کاروبار کرنے والا اپنا مال بڑھانے کے لئے زیادہ سود لیتا ہے، لیکن غیب سے ایسی آفتیں اترتی ہیں کہ مال میں برکت نہیں رہتی، سب تباہ و برباد ہو جاتا ہے، اور آدمی مفلس بن جاتا ہے۔ اس امر کا تجربہ ہو چکا ہے، مسلمان کو کبھی سودی کاروبار سے ترقی نہیں ہوتی، البتہ کفار و مشرکین کا مال سود سے بڑھتا ہے، وہ کافر ہیں ان کو سود کی حرمت سے کیا غرض، ان کو تو پہلے ایمان لانے کا حکم ہے۔ اورچونکہ ان کی آخرت تباہ کن ہے، اس لیے دنیا میں ان کو ڈھیل دے دی گئی ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، اس وقت اہل مدینہ دو سال اور تین سال کی قیمت پہلے ادا کر کے کھجور کی بیع سلف کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کھجور میں بیع سلف کرے یعنی قیمت پیشگی ادا کر دے تو اسے چاہیئے کہ یہ بیع متعین ناپ تول اور مقررہ میعاد پر کرے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: بیع سلف اور سلم دونوں ایک ہیں یعنی ایک آدمی دوسرے آدمی کو روپیہ نقد دے، لیکن مال لینے کے لئے ایک میعاد مقرر کر لے، اہل حدیث کے نزدیک اس میں دو ہی شرطیں ہیں: ایک یہ کہ جس مال کے لینے پر اتفاق ہوا ہے اس کی کیفیت،جنس اور نوع واضح طور پر بیان کر دے، اگر ناپ تول کی چیز ہو تو ناپ تول صراحت سے مقرر کر دی جائے، مثلاً سو من گیہوں سفید اعلیٰ قسم کا، فلاں کپڑا اس قسم کے اتنے گز اور میٹر، دوسرے یہ کہ مال کے لینے کی میعاد مقرر ہو، مثلاً ایک مہینہ، دو مہینہ، ایک سال۔اگر ان شرطوں میں سے کوئی شرط نہ ہو تو بیع سلم فاسد ہوگی، کیونکہ اس میں نزاع کی صورت پیدا ہو گی، بعضوں نے اور شرطیں بھی رکھیں ہیں لیکن ان کی دلیل ذرا مشکل سے ملے گی، اور شاید نہ ملے۔
(مرفوع) حدثنا يعقوب بن حميد بن كاسب ، حدثنا الوليد بن مسلم ، عن محمد بن حمزة بن يوسف بن عبد الله بن سلام ، عن ابيه ، عن جده عبد الله بن سلام ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إن بني فلان اسلموا لقوم من اليهود، وإنهم قد جاعوا، فاخاف ان يرتدوا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" من عنده"، فقال رجل من اليهود: عندي كذا وكذا لشيء قد سماه اراه، قال: ثلاث مائة دينار بسعر كذا وكذا من حائط بني فلان، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بسعر كذا وكذا إلى اجل كذا وكذا وليس من حائط بني فلان". (مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَمْزَةَ بْنِ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ بَنِي فُلَانٍ أَسْلَمُوا لِقَوْمٍ مِنْ الْيَهُودِ، وَإِنَّهُمْ قَدْ جَاعُوا، فَأَخَافُ أَنْ يَرْتَدُّوا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ عِنْدَهُ"، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْيَهُودِ: عِنْدِي كَذَا وَكَذَا لِشَيْءٍ قَدْ سَمَّاهُ أُرَاهُ، قَالَ: ثَلاثُ مِائَةِ دِينَارٍ بِسِعْرِ كَذَا وَكَذَا مِنْ حَائِطِ بَنِي فُلَانٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بِسِعْرِ كَذَا وَكَذَا إِلَى أَجَلِ كَذَا وَكَذَا وَلَيْسَ مِنْ حَائِطِ بَنِي فُلَانٍ".
عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور اس نے آ کر عرض کیا: فلاں قبیلہ کے یہودی مسلمان ہو گئے ہیں، اور وہ بھوک میں مبتلا ہیں، مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ مرتد نہ ہو جائیں، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کے پاس کچھ نقدی ہے“(کہ وہ ہم سے بیع سلم کرے)؟ ایک یہودی نے کہا: میرے پاس اتنا اور اتنا ہے، اس نے کچھ رقم کا نام لیا، میرا خیال ہے کہ اس نے کہا: میرے پاس تین سو دینار ہیں، اس کے بدلے میں بنی فلاں کے باغ اور کھیت سے اس اس قیمت سے غلہ لوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیمت اور مدت کی تعیین تو منظور ہے لیکن فلاں کے باغ اور کھیت کی جو شرط تم نے لگائی ہے وہ منظور نہیں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5329، ومصباح الزجاجة: 803) (ضعیف)» (سند میں ولید بن مسلم مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ احتمال ہے کہ اس باغ یا کھیت میں کچھ نہ ہو یا وہاں کا غلہ تباہ ہو جائے تو یہ شرط لغو اور بیکار ہے، البتہ یہ شرط قبول ہے کہ اس بھاؤ سے اتنے کا غلہ فلاں وقت اور تاریخ پر دے دیں گے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف الوليد لم يصرح بالسماع المسلسل وللحديث طريق ضعيف عند الدار قطني في المؤتلف والمختلف (1388/3) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 460
عبداللہ بن ابی مجالد کہتے ہیں کہ عبداللہ بن شداد اور ابوبرزہ رضی اللہ عنہما کے درمیان بیع سلم کے سلسلہ میں جھگڑا ہو گیا، انہوں نے مجھے عبداللہ ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، میں نے جا کر ان سے اس کے سلسلے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اور ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کے عہد میں گیہوں، جو، کشمش اور کھجور میں ایسے لوگوں سے بیع سلم کرتے تھے جن کے پاس اس وقت مال نہ ہوتا، پھر میں نے ابن ابزیٰ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا، تو انہوں نے بھی ایسے ہی کہا۔