ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے رشتہ توڑنے کی قسم کھائی، یا کسی ایسی چیز کی قسم کھائی جو درست نہیں، تو اس قسم کا پورا کرنا یہ ہے کہ اسے چھوڑ دے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1789، ومصباح الزجاجة: 740) (صحیح)» (سند میں حارثہ ضعیف راوی ہیں، لیکن مشکل الآثار 1/287، میں قوی شاہد کی وجہ سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2334)
It was narrated from 'Aishah that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
"Whoever takes an oath to cut off the ties of kinship, or to do something that is not right, the fulfillment of his vow is not to do that."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف حارثة بن أبي الرجال ضعيف وروي الطحاوي في مشكل الآثار (1/ 287) بإسناد حسن عن ابن عباس عن رسول اللّٰه ﷺ قال: ((من حلف بيمين علي قطيعة الرحم أو معصية فحنث فذلك كفارة له)) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 454
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے قسم کھائی، پھر اس کے خلاف کرنا اس سے بہتر سمجھا، تو قسم توڑ دینا ہی اس کا کفارہ ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفردبہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8762، ومصباح الزجاجة: 741)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأیمان والنذور 15 (3274)، سنن النسائی/الأیمان 16 (3823)، مسند احمد (2/212) (منکر)» (سند میں عون بن عمارہ منکر الحدیث راوی ہے، ملاحظہ ہو: إلارواء: 7/ 168، سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1365)
It was narrated from 'Amr bin Shu'aib, from his father, that his grandfather said that the Prophet (ﷺ) said:
"Whoever swears an oath then sees that something else is better than it, let him not do it, and his leaving it is the expiation for it. "
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجور کفارہ میں دی، میں لوگوں کو اسی کا حکم دیتا ہوں، تو جس کسی کے پاس ایک صاع کھجور نہ ہو تو آدھا صاع گیہوں دے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5636، ومصباح الزجاجة: 742) (ضعیف)» (سند میں عمر بن عبد اللہ ضعیف راوی ہیں)
It was narrated that Ibn Abbas said:
"The Messenger of Allah (ﷺ) offered expiation of a Sa' of dates, and he enjoined the people to do likewise. Whoever does not have that (must give) half a Sa' of wheat."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عمر بن عبد اللّٰه بن يعلي: ضعيف والحديث ضعفه ابن كثير في تفسيره (93/2) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 454
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بعض آدمی اپنے گھر والوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں جس میں فراخی ہوتی ہے، اور بعض آدمی تنگی کے ساتھ دیتے ہیں تب یہ آیت اتری: «من أوسط ما تطعمون أهليكم»”مسکینوں کو وہ کھانا دو جو درمیانی قسم کا اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو“۔
It was narrated that Ibn 'Abbas said:
"A man would give his family food that was abundant and another would give his family food that was barely sufficient, then the following was revealed: 'With the Awsat of that with which you feed your families...’”(2)
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سفيان بن عينة مدلس وعنعن ولا ينفعه كونه لا يدلس إلا عن ثقة مدلس وغير مدلسٍ كما حققته في تخريج النهاية في الفتن والملاحم (ح1030) يسر اللّٰه لنا طبعه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 454
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ اللہ کے رسول ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنی قسم پر اصرار کرے، تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کفارے سے زیادہ گنہگار ہو گا، جس کی ادائیگی کا اسے حکم دیا گیا ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14798)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأیمان 1 (6625)، صحیح مسلم/الأیمان 6 (1655)، مسند احمد (2/278، 317) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کفارہ ہمیشہ گناہ کا ہوتا ہے، تو قسم کا توڑنا بھی ایک گناہ ہے، اس لئے کہ اس میں اللہ کے نام کی بے حرمتی ہے، اسی کے نام پر کفارہ مقرر ہوا ہے، لیکن بری قسم کا نہ توڑنا، توڑنے سے زیادہ گناہ ہے۔
It was narrated that Hammam heard Abu Hurairah saying that 'Abul-Qasim (ﷺ) said:
"If anyone of you insists on fulfilling what he swore to (after learning that it is wrong) then it is more sinful before Allah than (breaking the oath for which) the expiation that has been enjoined upon him."
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا محمد بن فضيل ، عن يزيد بن ابي زياد ، عن مجاهد ، عن عبد الرحمن بن صفوان او صفوان بن عبد الرحمن القرشي ، قال: لما كان يوم فتح مكة جاء بابيه، فقال: يا رسول الله، اجعل لابي نصيبا في الهجرة، فقال:" إنه لا هجرة"، فانطلق فدخل على العباس، فقال: قد عرفتني، قال: اجل فخرج العباس في قميص ليس عليه رداء، فقال: يا رسول الله، قد عرفت فلانا، والذي بيننا وبينه وجاء بابيه لتبايعه على الهجرة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" إنه لا هجرة"، فقال العباس: اقسمت عليك، فمد النبي صلى الله عليه وسلم يده فمس يده، فقال:" ابررت عمي ولا هجرة". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ صَفْوَانَ أَوْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقُرَشِيِّ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ جَاءَ بِأَبِيهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اجْعَلْ لِأَبِي نَصِيبًا فِي الْهِجْرَةِ، فَقَالَ:" إِنَّهُ لَا هِجْرَةَ"، فَانْطَلَقَ فَدَخَلَ عَلَى الْعَبَّاسِ، فَقَالَ: قَدْ عَرَفْتَنِي، قَالَ: أَجَلْ فَخَرَجَ الْعَبَّاسُ فِي قَمِيصٍ لَيْسَ عَلَيْهِ رِدَاءٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ عَرَفْتَ فُلَانًا، وَالَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ وَجَاءَ بِأَبِيهِ لِتُبَايعَهُ عَلَى الْهِجْرَةِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ لَا هِجْرَةَ"، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ، فَمَدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ فَمَسَّ يَدَهُ، فَقَالَ:" أَبْرَرْتُ عَمِّي وَلَا هِجْرَةَ".
عبدالرحمٰن بن صفوان یا صفوان بن عبدالرحمٰن قرشی کہتے ہیں کہ جس دن مکہ فتح ہوا، وہ اپنے والد کو لے کر آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد کو ہجرت کے ثواب سے ایک حصہ دلوائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب ہجرت نہیں ہے، آخر وہ چلا گیا، اور عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور کہنے لگا: آپ نے مجھے پہچانا؟ انہوں نے کہا: ہاں، پھر عباس رضی اللہ عنہ ایک قمیص پہنے ہوئے نکلے ان پر چادر بھی نہ تھی عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھ میں اور فلاں شخص میں جو تعلقات ہیں وہ آپ کو معلوم ہیں، اور وہ اپنے والد کو لے کر آیا ہے تاکہ آپ اس سے ہجرت پہ بیعت کر لیں ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب ہجرت نہیں رہی“، عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ کو قسم دیتا ہوں، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ بڑھایا، اور اس کا ہاتھ چھو لیا، اور فرمایا: ”میں نے اپنے چچا کی قسم پوری کی، لیکن ہجرت تو نہیں رہی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9704، ومصباح الزجاجة: 744)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/430) (ضعیف)» (سند میں یزید بن آبی زیاد ضعیف راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎: یعنی میرے اور آپ کے درمیان جو دوستی ہے، اب اس کا حق ادا کیجیے، اور ہجرت کا ثواب دلوائیے۔
It was narrated from Mujahid, that 'Abdur-Rahman bin Safwan, or Safwan bin 'Abdur- Rahman Al-Qurashi said:
"On the Day of the conquest of Makkah, he came with his father and he said: 'O Messenger of Allah, give my father a share of Hijrah.' He said: 'There is no Hijrah.' Then he went away and entered upon 'Abbas and said: 'Do you know who I am?' He said: 'Yes.' Then 'Abbas went out, wearing a shirt and no upper wrap, and said: 'O Messenger of Allah, do you know so-and-so with whom we have friendly ties? He brought his father to swear an oath of allegiance (i.e., promise) to emigrate.' The Prophet (ﷺ) said: 'There is no Hijrah.'" 'Abbas said: 'I adjure you to do it.' The Prophet (ﷺ) stretched forth his hand and touched his hand, and said: 'I have fulfilled the oath of my uncle, but there is no Hijrah."' (Da'if)Another chain with similar wording. Yazid bin Abu Ziyad said: "Meaning: There is no Hijrah from a land whose people have accepted Islam."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف يزيد بن أبي زياد ضعفه الجمهور كما قال البوصيري انوار الصحيفه، صفحه نمبر 455
یزید بن ابی زیاد کہتے ہیں کہ اس شہر سے ہجرت نہیں جس کے رہنے والے مسلمان ہو گئے ہوں۔ اس سند سے بھی یزید بن ابی زیاد نے ایسے ہی روایت کی ہے، اور سند دونوں کی ایک ہی ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص قسم کھائے تو «ما شاء الله وشئت»”جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں“ نہ کہے، بلکہ یوں کہے: «ما شاء الله ثم شئت»”جو اللہ چاہے پھر آپ چاہیں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6552، ومصباح الزجاجة: 746)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/214، 224، 283، 347) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ اس میں مخاطب کو اللہ کے ساتھ کر دیا ہے جس سے شرک کی بو آتی ہے، اگرچہ مومن کی نیت شرک کی نہیں ہوتی پھر بھی ایسی بات کہنی جس میں شرک کا وہم ہو منع ہے۔
It was narrated from Ibn 'Abbas that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
'When anyone of you swears an oath, let him not say: 'What Allah wills and what you will.' Rather let him say: 'What Allah wills and then what you will.'