سنن ابن ماجه
كتاب الكفارات
کتاب: قسم اور کفاروں کے احکام و مسائل
11. بَابُ : النَّهْيِ أَنْ يَسْتَلِجَّ الرَّجُلُ فِي يَمِينِهِ وَلاَ يُكَفِّرَ
باب: قسم پر اصرار کرنے اور کفارہ نہ دینے کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 2114
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الْمَعْمَرِيُّ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ هَمَّامٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا اسْتَلَجَّ أَحَدُكُمْ فِي الْيَمِينِ، فَإِنَّهُ آثَمُ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ مِنَ الْكَفَّارَةِ الَّتِي أُمِرَ بِهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ اللہ کے رسول ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنی قسم پر اصرار کرے، تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کفارے سے زیادہ گنہگار ہو گا، جس کی ادائیگی کا اسے حکم دیا گیا ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14798)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأیمان 1 (6625)، صحیح مسلم/الأیمان 6 (1655)، مسند احمد (2/278، 317) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کفارہ ہمیشہ گناہ کا ہوتا ہے، تو قسم کا توڑنا بھی ایک گناہ ہے، اس لئے کہ اس میں اللہ کے نام کی بے حرمتی ہے، اسی کے نام پر کفارہ مقرر ہوا ہے، لیکن بری قسم کا نہ توڑنا، توڑنے سے زیادہ گناہ ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2114 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2114
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قسم پر اصرار کرنے کا مطلب ایسی قسم پوری کرنے کا عزم ہے جو کسی گناہ یا مکروہ کام پر مشتمل ہو۔
ایسی قسم کو توڑ کر کفارہ ادا کرنا ضروری ہے
(2)
بری بات پر قسم کھا کر اس پر قائم رہنا بھی گنا ہے، اس لیے بہتر ہے قسم توڑنے کا گناہ کر لیا جائے کیونکہ وہ کفارہ ادا کرنے سے معاف ہو جائے گا جبکہ غلطی پر قائم رہنے سے گناہ بڑھتا چلا جائے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2114
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6626
6626. حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اپنے گھر والوں کے معاملے میں قسم پر اڑا رہے اور بہت گناہ گار ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ نیکی کرے“ یعنی قسم توڑ کر اس کا کفارہ ادا کر دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6626]
حدیث حاشیہ:
اس میں یہ اشارہ ہےکہ غلط قسم پر اڑے رہنا کوئی عمدہ کام نہیں ہے بلکہ اسے توڑ کر اس کا کفارہ ادا کر دینا یہ ہی بہتر ہے ذیل کی احادیث میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے۔
قسم کھانے میں غور واحتیاط کی بہت ضرورت ہے اور قسم صرف اللہ کے نام کی کھانی چاہیے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6626
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6626
6626. حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اپنے گھر والوں کے معاملے میں قسم پر اڑا رہے اور بہت گناہ گار ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ نیکی کرے“ یعنی قسم توڑ کر اس کا کفارہ ادا کر دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6626]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگر کسی کے قسم پر قائم رہنے سے اس کے اہل خانہ کو نقصان ہو اور وہ اس سے پریشان ہوں تو وہ اپنی قسم پر اصرار نہ کرے بلکہ قسم توڑ کر اس کا کفارہ دے دے۔
اسے یہ گمان نہیں کرنا چاہیے کہ قسم پر اڑے رہنا نیکی ہے۔
ایسے حالات میں قسم توڑ دی جائے تاکہ اس کے گھر والے ضرر اور نقصان سے محفوظ رہیں۔
اگر وہ کہے کہ میں قسم نہیں توڑتا کیونکہ مجھے اس اقدام سے گناہ کا خوف ہے تو وہ غلطی پر ہے۔
واللہ أعلم۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اہل خانہ کا ذکر اتفاقی ہے اگر یہی علت دوسروں میں پائی جائے تو ان کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ قسم کو توڑ کر اس کا کفارہ دے دیا جائے۔
(فتح الباري: 635/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6626