عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص قسم کھائے تو «ما شاء الله وشئت»”جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں“ نہ کہے، بلکہ یوں کہے: «ما شاء الله ثم شئت»”جو اللہ چاہے پھر آپ چاہیں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ اس میں مخاطب کو اللہ کے ساتھ کر دیا ہے جس سے شرک کی بو آتی ہے، اگرچہ مومن کی نیت شرک کی نہیں ہوتی پھر بھی ایسی بات کہنی جس میں شرک کا وہم ہو منع ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6552، ومصباح الزجاجة: 746)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/214، 224، 283، 347) (حسن صحیح)»
It was narrated from Ibn 'Abbas that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
'When anyone of you swears an oath, let him not say: 'What Allah wills and what you will.' Rather let him say: 'What Allah wills and then what you will.'
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2117
اردو حاشہ: فائدہ: مسلمان جب یہ لفظ کہتا ہے: ”جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے۔“ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ معاملات اللہ کے اختیار میں ہیں لیکن ظاہری طور پر معاملہ فلاں کے اختیار میں ہے اس کے فیصلے پر عمل ہوگا۔ یہ بات صحیح ہے لیکن الفاظ اس قسم کے ہیں گویا اللہ تعالیٰ اور انسان مل کر کوئی فیصلہ کرتے ہیں، اس لیے ایسے الفاظ سے اجتناب کرنا چاہیے جن کا ظاہری مطلب نامناسب ہو اگرچہ کہنے والے کا مقصد وہ نامناسب بات نہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2117