شعبی کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میرے شوہر نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تین طلاقیں دے دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے لیے نہ سکنی (رہائش) ہے، نہ نفقہ (اخراجات)“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اہلحدیث نے اس متفق علیہ حدیث سے دلیل لی ہے، صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ تیرے لئے نفقہ نہیں ہے مگر جب تو حاملہ ہو، جمہور کہتے ہیں کہ عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہما نے اس حدیث کا انکار کیا، اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم اپنے رب کی کتاب اور نبی کی سنت ایک عورت کے قول سے نہیں چھوڑ سکتے، معلوم نہیں اس نے یاد رکھا، یا بھول گئی، اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جب یہ بات پہنچی، تو انہوں نے کہا: تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ»(سورة الطلاق: 1) یہاں تک فرمایا: «لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا»(سورة الطلاق: 1) تین طلاق کے بعد کون سا امر پیدا ہو گا (یعنی رجوع کی امید نہیں تو نفقہ اور سکنی بھی واجب نہ ہو گا) اہل حدیث یہ بھی کہتے ہیں کہ امام احمد اور نسائی نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا: ”نفقہ اور سکنی اس عورت کے لئے ہے جس سے اس کا شوہر رجوع کر سکتا ہو“ اور امام احمد کی ایک روایت میں ہے کہ جب رجوع نہ کر سکتا ہو تو نہ نفقہ ہے نہ سکنی، اس کی سند میں مجالد بن سعید ہیں ان کی متابعت بھی ہوئی ہے اور وہ ثقہ ہیں تو اس کا حدیث کو مرفوع روایت کرنا مقبول ہو گا، اور قرآن میں بہت سی آیتیں ہیں جو نفقہ اور سکنی کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں لیکن وہ سب مطلقہ رجعی سے متعلق ہیں جیسے: «لا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ»(سورة الطلاق: 1) اور «أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ»(سورة الطلاق: 6) اور «وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ»(سورة البقرة: 241) اور دلیل اس تخصیص کی فاطمہ بنت قیس کی حدیث ہے، اور یہ آیت: «لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا»(سورة الطلاق: 1) اور یہ آیت: «وَإِن كُنَّ أُولاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ»(سورة الطلاق: 6) کیونکہ اس سے یہ نکلتا ہے کہ اگر حاملہ نہ ہوں تو ان کو خرچ دینا واجب نہیں، اور بیہقی میں جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ جس حاملہ عورت کا شوہر مر جائے اس کو نفقہ نہیں ہے، اس کے بارے میں ابن حجر نے کہا کہ محفوظ یہ ہے کہ یہ موقوف ہے، اور ابو حنیفہ نے کہا کہ وفات والی کے لئے سکنی نہیں ہے وہ جہاں چاہے عدت گزارے، اور مالک رحمہ اللہ نے کہا: اس کے لئے سکنی ہے، اور شافعی کے اس باب میں دو قول ہیں۔
It was narrated that Sha'bi said:
Fatimah bint Qais said: “My husband divorced me at the time of the Messenger of Allah (ﷺ) three times. The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'You have no right to accommodation or to maintenance.'”
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب عمرہ بنت جون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (اللہ کی) پناہ مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے ایسی ہستی کی پناہ مانگی جس کی پناہ مانگی جاتی ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے طلاق دے دی، اور اسامہ رضی اللہ عنہ یا انس رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے اسے سفید کتان کے تین کپڑے دیئے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17097، ومصباح الزجاجة: 718) (منکر)» (اسا مہ اور انس رضی اللہ عنہما کا ذکر اس حدیث میں منکر ہے، لیکن صحیح بخاری میں اس لفظ سے ثابت ہے، «فأمر أبا أ سید أن یجہزہا ویکسوہا ثوبین رازقیتین» (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابواسید کو حکم دیا کہ اس کو تیار کریں، اور دو سفید کتان کے کپڑے پہنائیں، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 7/ 146)
It was narrated from 'Aishah that:
'Amrah bint Jawn sought refuge.with Allah from the Messenger of Allah (ﷺ) when she was brought to him (as a bride) He said: "You have sought refuge with Him in Whom refuge is sought." So he divorced her and told Usamah or Anas to give her, a gift of three garments of white flax.
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: منكر بذكر أسامة أو أنس صحيح بلفظ فأمر أبا أسيد أن يجهزها ويكسوها ثوبين رازقيين خ
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده موضوع عبيد بن القاسم: متروك،كذبه ابن معين،واتهمه أبو داود بالوضع (تقريب: 4389) وحديث البخاري ھو الصحيح،انظر سنن ابن ماجه (2050) بتحقيقي انوار الصحيفه، صفحه نمبر 451
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عورت دعویٰ کرے کہ اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی ہے، اور طلاق پہ ایک معتبر شخص کو گواہ لائے (اور اس کا مرد انکار کرے) تو اس کے شوہر سے قسم لی جائے گی، اگر وہ قسم کھا لے تو گواہ کی گواہی باطل ہو جائے گی، اور اگر قسم کھانے سے انکار کرے تو اس کا انکار دوسرے گواہ کے درجہ میں ہو گا، اور طلاق جائز ہو جائے گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8752، ومصباح الزجاجة: 719) (ضعیف)» (سند میں زہیر بن محمد ضعیف حافظہ والے راوی ہیں، اور ابن جریج مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے)
It was narrated from 'Amr bin Shu'aib, from his father, from his grandfather, that:
the Prophet (ﷺ) said: "If a woman claims that her husband has divorced her, and she brings a witness of good character (to testify) to that, her husband should be asked to swear an oath. If he swears, that will invalidate the testimony of the witness, but if he refuses then that will be equivalent to a second witness, and the divorce will take effect."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن جريج عنعن وعمرو بن أبي سلمة يروي بواطيل عن زهير بن محمد انوار الصحيفه، صفحه نمبر 452
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین کام ہیں جو سنجیدگی سے کرنا بھی حقیقت ہے، اور مذاق کے طور پر کرنا بھی حقیقت ہے، ایک نکاح، دوسرے طلاق، تیسرے (طلاق سے) رجعت“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطلاق 9 (2194)، سنن الترمذی/الطلاق 9 (1184)، (تحفة الأشراف: 14854) (حسن)» (شواہد کی بناء پر یہ حسن کے درجہ کو ہے، عبد الرحمن بن حبیب میں ضعف ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی ہنسی مذاق اور ٹھٹھے کے طور پر اور اس کے مقابل جِد ہے یعنی درحقیقت ایک کام کا کرنا۔
It was narrated from Abu Hurairah that:
the Messenger of Allah (ﷺ) said: "There are three matters in which seriousness is serious and joking is serious: marriage, divorce and taking back (one's wife). "
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے میری امت سے معاف کر دیا ہے جو وہ دل میں سوچتے ہیں جب تک کہ اس پہ عمل نہ کریں، یا اسے زبان سے نہ کہیں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: دل میں اگر طلاق کا خیال گزرے لیکن زبان سے کچھ نہ کہے تو طلاق واقع نہ ہو گی، سب امور میں یہی حکم ہے جیسے عتاق، رجوع، بیع وشراء وغیرہ میں، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گناہ کا اگر کوئی ارادہ کرے لیکن ہاتھ پاؤں یا زبان سے اس کو نہ کرے تو لکھا نہ جائے گا، یعنی اس پر اس کی پکڑ نہ ہو گی، یہ اللہ تعالی کی اس امت پر عنایت ہے۔
It was narrated from Abu Hurairah that:
the Messenger of Allah (ﷺ) said: "Allah has forgiven my nation for what they think of to themselves, so long as they do not act upon it or speak of it."
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین افراد سے قلم اٹھا لیا گیا ہے: ایک تو سونے والے سے یہاں تک کہ وہ جاگے، دوسرے نابالغ سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے، تیسرے پاگل اور دیوانے سے یہاں تک کہ وہ عقل و ہوش میں آ جائے“۔ ابوبکر کی روایت میں «وعن المجنون حتى يعقل» کے بجائے «وعن المبتلى حتى يبرأ»”دیوانگی میں مبتلا شخص سے یہاں تک کہ وہ اچھا ہو جائے“ ہے ۱؎۔
It was narrated from Aishah that:
the Messenger of Allah said. "The Pen has been lifted from three : from the sleeping person until he awakens, from the minor until he grows up, and from the insane person until he comes to his senses."In his narration, (one of the narrators Abu Bakr (Ibn Abu Shaibah) said: "And from the afflicted person, unit he recovers" (1)
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (4398) نسائي (3462) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 452
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچے، دیوانے اور سوئے ہوئے شخص سے قلم اٹھا لیا جاتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10255)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الحدود 1 (1423) (صحیح)» (دوسرے شواہد کے بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، اس کی سند میں القاسم بن یزید مجہول ہیں، اور ان کی ملاقات علی رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے)
It was narrated from 'Ali bin Abu Talib that:
the Messenger of Allah (ﷺ) said: "The Pen is lifted from the minor, the insane person and the sleeper."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال البوصيري: ”ھذا إسناد ضعيف،القاسم بن يزيد ھذا مجھول و أيضًا لم يدرك علي بن أبي طالب‘‘ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 452
ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے میری امت سے بھول چوک، اور جس کام پہ تم مجبور کر دیئے جاؤ معاف کر دیا ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11922) (صحیح)» (سند میں ابو بکرالہذلی ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: جب اللہ تعالی نے اس کو معاف کیا، اور دنیا کے احکام میں معافی ہو گئی، تو جب اس نے بھولے سے طلاق دی یا مجبوری کی حالت میں تو طلاق نہ پڑے گی۔
It was narrated from Abu Dharr Al-Ghifari that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
Allah has forgiven for me my nation their mistakes and forgetfulness, and what they are forced to do."
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے میری امت سے جو ان کے دلوں میں وسوسے آتے ہیں معاف کر دیا ہے جب تک کہ اس پہ عمل نہ کریں، یا نہ بولیں، اور اسی طرح ان کاموں سے بھی انہیں معاف کر دیا ہے جس پر وہ مجبور کر دیئے جائیں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظرحدیث رقم: 2040 (صحیح)» (حدیث میں «وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ» کا لفظ شاذ ہے، لیکن اگلی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما میں یہ لفظ ثابت ہے)
وضاحت: ۱؎: شیخ عبدالحق محدث رحمہ اللہ لمعات التنقیح میں فرماتے ہیں کہ ائمہ ثلاثہ نے اسی حدیث کی رو سے یہ حکم دیا ہے کہ جس پر زبردستی کی جائے اس کی طلاق اور عتاق (آزادی) نہ پڑے گی اور ہمارے مذہب (حنفی) میں قیاس کی رو سے ہزل پر طلاق اور عتاق دونوں پڑ جائے گی تو جو عقد ہزل میں نافذ ہو جاتا ہے۔ وہ اکراہ (زبردستی) میں بھی نافذ ہو جائے گا، مولانا وحید الزمان صاحب اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ افسوس ہے کہ حنفیہ نے قیاس کو حدیث پر مقدم رکھا، اور نہ صرف اس حدیث پر بلکہ ابوذر، ابوہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کی احادیث پر بھی جو اوپر گزریں، اور یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حنفیہ نے جو اصول بنائے ہیں کہ خبر واحد، مرسل حدیث اور ضعیف حدیث بلکہ صحابی کا قول بھی قیاس پر مقدم ہے، یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں، سیکڑوں مسائل میں انہوں نے قیاس کو احادیث صحیحہ پر مقدم رکھا ہے، اور یقیناً یہ متاخرین حنفیہ کا فعل ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس سے بالکل بری تھے، جیسے انہوں نے نبیذ سے وضو اور نماز میں قہقہہ سے وضو ٹوٹ جانے میں ضعیف حدیث کی وجہ سے قیاس جلی کو ترک کر دیا ہے، تو بھلا صحیح حدیث کے خلاف وہ کیونکر اپنا قیاس قائم رکھتے، اور محدثین نے باسناد مسلسل امام ابوحنیفہ سے نقل کیا ہے کہ سب سے پہلے حدیث پر عمل لازم ہے، اور میرا قول حدیث کی وجہ سے چھوڑ دینا، امام ابوحنیفہ سے منقول ہے کہ جب تک لوگ علم حدیث حاصل کرتے رہیں گے اچھے رہیں گے، اور جب حدیث چھوڑ دیں گے تو بگڑ جائیں گے، لیکن افسوس ہے کہ حنفیہ نے اس باب میں اپنے امام کی وصیت پر عمل نہیں کیا۔
It was narrated from Abu Hurairah that the:
Messenger of Allah (ﷺ) said : "Allah has forgiven my nation for the evil suggestions of their hearts, so long as they do not act upon it or speak of it, and for what they are forced to do."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون قوله وما استكرهوا عليه فإنه شاذ وإنما صح في حديث ابن عباس
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ نے میری امت سے بھول چوک اور زبردستی کرائے گئے کام معاف کر دیئے ہیں“۔
It was narrated from Ibn 'Abbas that the Prophet (ﷺ) said :
"Allah has forgiven my nation for mistakes and forgetfulness, and what they are forced to do."