ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین کام ہیں جو سنجیدگی سے کرنا بھی حقیقت ہے، اور مذاق کے طور پر کرنا بھی حقیقت ہے، ایک نکاح، دوسرے طلاق، تیسرے (طلاق سے) رجعت“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی ہنسی مذاق اور ٹھٹھے کے طور پر اور اس کے مقابل جِد ہے یعنی درحقیقت ایک کام کا کرنا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطلاق 9 (2194)، سنن الترمذی/الطلاق 9 (1184)، (تحفة الأشراف: 14854) (حسن)» (شواہد کی بناء پر یہ حسن کے درجہ کو ہے، عبد الرحمن بن حبیب میں ضعف ہے)
It was narrated from Abu Hurairah that:
the Messenger of Allah (ﷺ) said: "There are three matters in which seriousness is serious and joking is serious: marriage, divorce and taking back (one's wife). "
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2039
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) نکاح کا تعلق بہت اہم تعلق ہے جس کی وجہ سے ایک مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے حلال ہوجاتے ہیں اور ذمہ داریاں قبول کرتے ہیں۔ اسی تعلق کی بنا پر ان کی اولاد جائز قرار پاتی ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر بہت سے ایسے احکام نازل ہوئے ہیں جن اس کا تقدس قائم رہے۔
(2) نکاح کا تعلق قائم رکھنے یا منقطع کرنے کا تعلق زبان کے الفاظ سے ہے، اس لیے اس اہم تعلق کو مذاق کا نشانہ نہیں بننا چاہیے۔
(3) نکاح، طلاق اور رجوع میں مذاق کا دعویٰ تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں یہ حکمت ہے کہ کوئی شخص مذاق کا دعویٰ کرکے اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل نہ کرے۔ عین ممکن ہے کہ ایک مرد کسی عورت سے نکاح کرے، بعد میں کہ دے کہ میں نے مذاق میں نکاح کیا تھا جب کہ عورت نے سچے دل سے اسے زندگی کا ساتھی تسلیم کیا ہے۔ اس صورت میں اس واقعہ کو مذاق تسلیم کرلینا عورت پر ظلم اور مرد کو شتر بےمہار بنا دینےکے مترادف ہے۔ اسی طرح اگر طلاق میں مذاق کا دعویٰ تسلیم کرلیا جائے تو طلاق کا پورا نظام ہی کالعدم ہوجائے گا۔
(4) ایک شرعی ذمہ داری قبول کرتے وقت یا اس سے دست بردار ہوتے وقت انسان کو اچھی طرح سوچ سمجھ کراس کے نتائج پر غور کرلینا چاہیے تاکہ بعد میں ندامت اور پریشانی نہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2039
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2194
´ہنسی مذاق میں طلاق دینے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین چیزیں ایسی ہیں کہ انہیں چاہے سنجیدگی سے کیا جائے یا ہنسی مذاق میں ان کا اعتبار ہو گا، وہ یہ ہیں: نکاح، طلاق اور رجعت۔“[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2194]
فوائد ومسائل: سورۃالبقرہ میں ہے: (وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا)(البقره:٢٣١) جب تم عورتوں کو طلاق دواور وہ اپنی عدت ختم کرنے پر آئیں تواب انہیں اچھی طرح بسالو یا بھلائی کے ساتھ الگ کر دو اور انہیں تکلیف پہنچانے کی غرض سے ظلم اور زیادتی کے لیے نہ روکو۔ اور جو شخص ایسا کرے اس نے اپنی جان پر ظلم کیا۔ تم اللہ کے احکام کو ہنسی کھیل نہ بناؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن مجید کی اس آیت میں طلاق کی بابت بعض اہم ہدایات دینے کے ساتھ آخر میں احکام الہی کو استہزاء ومذاق بنانے سے منع فرمایا گیا ہے۔ انہی احکام میں نکاح و طلاق وعتاق بھی ہیں۔ ان کی بابت حدیث میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ کام اگر مذاق میں بھی کئے جائیں گے تو واقعتاً ان کا انعقاد ہوجائے گا۔ اس سے یہ معلو م ہوتا ہے کہ ڈراموں اور فلموں میں فرضی طور پر میاں بیوی کا کردار ادا کرنا کیوں کر صحیح ہوگا؟ کیونکہ اس طرح اندیشہ ہے کہ وہ دونوں اللہ کے ہاں میاں بیوی ہی مقصود ہوں جب کہ وہ ایسا سمجھتے ہوں نہ اس کے مطابق باہم معاملہ ہی کرتے ہوں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2194
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1184
´سنجیدگی سے اور ہنسی مذاق میں طلاق دینے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین چیزیں ایسی ہیں کہ انہیں سنجیدگی سے کرنا بھی سنجیدگی ہے اور ہنسی مذاق میں کرنا بھی سنجیدگی ہے نکاح، طلاق اور رجعت“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1184]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: سنجیدگی اورہنسی مذاق دونوں صورتوں میں ان کا اعتبارہوگا۔ اوراس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ ہنسی مذاق میں طلاق دینے والے کی طلاق جب وہ صراحت کے ساتھ لفظ طلاق کہہ کر طلاق دے تو وہ واقع ہوجائے گی اور اس کا یہ کہنا کہ میں نے بطورکھلواڑمذاق میں ایسا کہا تھا اس کے لیے کچھ بھی مفید نہ ہوگا کیونکہ اگر اس کی یہ بات مان لی جائے تو احکام شریعت معطل ہوکر رہ جائیں گے اورہرطلاق دینے والا یا نکاح کرنے والا یہ کہہ کر کہ میں نے ہنسی مذاق میں یہ کہا تھا اپنا دامن بچا لے گا، اس طرح اس سلسلے کے احکام معطل ہوکررہ جائیں گے۔
نوٹ: (آثار صحابہ سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ عبدالرحمن بن اردک ضعیف ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1184