سنن ابن ماجه
كتاب الطلاق
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
15. بَابُ : طَلاَقِ الْمَعْتُوهِ وَالصَّغِيرِ وَالنَّائِمِ
باب: دیوانہ، نابالغ اور سوئے ہوئے شخص کی طلاق کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2041
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ خِدَاشٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ: عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الصَّغِيرِ حَتَّى يَكْبَرَ، وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّى يَعْقِلَ، أَوْ يُفِيقَ"، قَالَ أَبُو بَكْرٍ فِي حَدِيثِهِ: وَعَنِ الْمُبْتَلَى حَتَّى يَبْرَأَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین افراد سے قلم اٹھا لیا گیا ہے: ایک تو سونے والے سے یہاں تک کہ وہ جاگے، دوسرے نابالغ سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے، تیسرے پاگل اور دیوانے سے یہاں تک کہ وہ عقل و ہوش میں آ جائے“۔ ابوبکر کی روایت میں «وعن المجنون حتى يعقل» کے بجائے «وعن المبتلى حتى يبرأ» ”دیوانگی میں مبتلا شخص سے یہاں تک کہ وہ اچھا ہو جائے“ ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحدود 16 (4398)، سنن النسائی/الطلاق 21 (3462)، (تحفة الأشراف: 15935)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/100، 101، 144)، سنن الدارمی/الحدود 1 (2342) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ان میں سے کسی کی طلاق نہ پڑے گی، لیکن پاگل اور دیوانے میں اختلاف ہے اور اکثر کے نزدیک اس کی طلاق پڑ جائے گی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (4398) نسائي (3462)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 452
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2041 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2041
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قلم اٹھائے جانےکا مطلب یہ ہے کہ اس کے اعمال نہیں لکھے جاتے۔
(2)
حدیث میں مذکور افراد کے کسی عمل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، وہ اعمال کالعدم ہیں۔
(3)
اگر کوئی شخص نیند میں اپنی زبان سے ”طلاق“ کے الفاظ نکالے تو وہ طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ نہ اس کا ارادہ طلاق دینے کا تھا، نہ اسے معلو م تھا کہ اس نے طلاق دی ہے۔
(4)
نابالغ بچے کے نکاح طلاق وغیرہ کےمعاملات اس کے سرپرست کے ہاتھ میں ہیں، لہٰذا طلاق بھی بچے کے دینے سے نہیں بلکہ سرپرست کی مرضی سے ہوگی۔
جب بالغ ہوجائے، پھر اس کی طلاق معتبر ہوگی۔
اس میں سرپرست کی منظوری یا ناراضی کا اثر نہیں ہوگا۔
(5)
مجنون کی بیماری اگر اس قسم کی ہوکہ کبھی ہوش میں ہوتاہے کبھی نہیں تو جب وہ ہوش وحواس میں ہواوراسی حالت میں دے، تب اس کی طلاق معتبر ہوگی ورنہ نہیں۔
اگر اسے کبھی ہوش نہیں آتا تو اس کے منہ سے نکلی ہوئی طلاق کالعدم ہے۔
اگر عورت اس سے الگ ہونے کی ضرورت محسوس کرتی ہے تو عدالت کے ذریعے سےنکاح فسخ ہوسکتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2041
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 927
´طلاق کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تین آدمیوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے۔ سونے والا جب تک بیدار نہ ہو، بچہ جب تک بالغ نہ ہو، دیوانہ جب تک صحیح العقل نہ ہو۔“ بروایت امام احمد اور ابوداؤد، ابن ماجہ و نسائی۔ حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 927»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الحدود، باب في المجنون يسرق أو يصيب حدًا، حديث:4398، والترمذي، الحدود، حديث:1423، والنسائي، الطلاق، حديث:3462، وابن ماجه، الطلاق، حديث:2041، وأحمد:1 /118، 240، 155، 158، والحاكم:2 /59 وصححه علي شرط مسلم، ووافقه الذهبي.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسے لوگوں کی طرف سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 927
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3462
´کن شوہروں کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین طرح کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے ۱؎ ایک تو سونے والے سے یہاں تک کہ وہ جاگے ۲؎، دوسرے نابالغ سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے، تیسرے دیوانے سے یہاں تک کہ وہ عقل و ہوش میں آ جائے۔“ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3462]
اردو حاشہ:
ان تین اشخاص کے مرفوع القلم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان حالتوں کے دوران میں ان سے کوئی غلطی ہوجائے تو اس پر گرفت نہیں ہوتی کیونکہ ان حالتوں میں انسان بے اختیار ہوتا ہے اور اختیار کیے بغیر پوچھ گچھ بے معنیٰ ہے۔ البتہ اگر کسی کا مالی نقصان ہوجائے تو وہ بھرنا پڑے گا۔ طلاق کوئی مالی مسئلہ نہیں‘ لہٰذا ان تین حالتوں میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ ان حالتو ں میں انسان مرفوع القلم ہوتا ہے۔ البتہ نشے والی حالت میں طلاق مختلف فیہ ہے۔ احناف موالک وقوع اور شوافع وحنابلہ عدوم وقوع کے قائل ہیں۔ اصولی لحاظ سے نشے میں طلاق واقع نہیں ہوتی کیونکہ قصدواختیار نہیں۔ اور نشے کی سزا شریعت میں مقرر ہے‘ وہ اسے دی جائے گی۔ بطور سزا طلاق کو نافذ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہم اسکی سزا میں اضافہ یا دوسزائیں جمع کرنے کے مجاز نہیں۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3462
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4398
´دیوانہ اور پاگل چوری کرے یا حد کا ارتکاب کرے تو کیا حکم ہے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین شخصوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے، سوئے ہوئے شخص سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے، دیوانہ سے یہاں تک کہ اسے عقل آ جائے، اور بچہ سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے۔“ [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4398]
فوائد ومسائل:
مجنون یعنی فاترالعقل اور پاگل نابالغ بچہ اور سویا ہوا آدمی اگر کوئی ایسا کام کر گزرے جو قابل حد ہوتو اس پر شرعا کوئی مواخذہ نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4398