معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا، اور حکم دیا کہ ہر چالیس گائے میں ایک «مسنة» لوں، اور ۳۰ تیس گائے میں ایک «تبیع» یا «تبیعہ» لوں ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: «مسنة» ایسی گائے جو دو سال پورے کر کے تیسرے میں داخل ہو گئی ہو۔ اور اس کے سامنے والے دانت گر کر دوبارہ نکل آئے ہوں۔ ۲؎: «تبیع» گائے کا وہ بچھڑا جو ایک سال پورا کرکے دوسرے میں داخل ہو گیا ہو۔ ۳؎: «تبیعہ» گائے کی وہ بچھڑی جو ایک سال پورے کر کے دوسرے میں داخل ہو گئی ہو۔
It was narrated that:
Suwa Mu'adh bin Jabal said: “The Messenger of Allah(ﷺ) send me to Yemen and commanded me; for every forty cows, to take a Musinnah and for every thirty, a Tabi or Tabi'ah.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (1578) ترمذي (623) نسائي (2452) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 444
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیس گائے میں ایک «تبیع» یا ایک «تبیعہ» اور چالیس میں ایک «مسنة» ہے“
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزکاة 5 (622)، (تحفة الأشراف: 9606)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/411) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا بكر بن خلف ، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا سليمان بن كثير ، حدثنا ابن شهاب ، عن سالم بن عبد الله ، عن ابيه ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" اقراني سالم كتابا كتبه رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصدقات قبل ان يتوفاه الله عز وجل، فوجدت فيه في اربعين شاة شاة، إلى عشرين ومائة، فإذا زادت واحدة، ففيها شاتان إلى مائتين، فإن زادت واحدة، ففيها ثلاث شياه إلى ثلاث مائة، فإذا كثرت، ففي كل مائة شاة، ووجدت فيه لا يجمع بين متفرق، ولا يفرق بين مجتمع، ووجدت فيه لا يؤخذ في الصدقة تيس، ولا هرمة، ولا ذات عوار". (مرفوع) حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَقْرَأَنِي سَالِمٌ كِتَابًا كَتَبَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّدَقَاتِ قَبْلَ أَنْ يَتَوَفَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَوَجَدْتُ فِيهِ فِي أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ، إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا شَاتَانِ إِلَى مِائَتَيْنِ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَى ثَلاثِ مِائَةٍ، فَإِذَا كَثُرَتْ، فَفِي كُلِّ مِائَةٍ شَاةٌ، وَوَجَدْتُ فِيهِ لَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ، وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ، وَوَجَدْتُ فِيهِ لَا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ تَيْسٌ، وَلَا هَرِمَةٌ، وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھے سالم نے ایک تحریر پڑھائی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کے سلسلے میں اپنی وفات سے پہلے لکھوائی تھی، اس تحریر میں میں نے لکھا پایا: ”چالیس سے ایک سو بیس بکریوں تک ایک بکری زکاۃ ہے، اگر ۱۲۰ سے ایک بھی زیادہ ہو جائے تو اس میں دو سو تک دو بکریاں ہیں، اور اگر ۲۰۰ سے ایک بھی زیادہ ہو جائے تو اس میں ۳۰۰ تک تین بکریاں ہیں، اور اگر اس سے بھی زیادہ ہو تو ہر سو میں ایک بکری زکاۃ ہے، اور میں نے اس میں یہ بھی پایا: ”متفرق مال اکٹھا نہ کیا جائے، اور اکٹھا مال متفرق نہ کیا جائے“، اور اس میں یہ بھی پایا: ”زکاۃ میں جفتی کے لیے مخصوص بکرا، بوڑھا اور عیب دار جانور نہ لیا جائے“۔
It was narrated from Ibn Shihab, from Salim bin Abdullah, from his father, from the Messenger of Allah:
Salim said: “My father read to me a letter that the Messenger of Allah (ﷺ) had written about Sadaqat before Allah caused him to pass away. I read in it: 'For forty sheep, one sheep, up to one hundred and twenty. If there is more than that - even one - then two sheep, up to two hundred, If there is one more than that - even one = then three sheep, up to three hundred. If there are many sheep, then for each hundred, one sheep.' And I read in it: 'Separate flocks should not be combined, and a combined flock should not be separated.' And I read in it: 'And a male goat should not be taken for Sadaqah, nor a decrepit nor defective animal.' ”
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں کی زکاۃ ان کے پانی پلانے کی جگہوں میں لی جائے گی“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6734، ومصباح الزجاجة: 645)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/184) (حسن صحیح) (ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1779)»
وضاحت: ۱؎: ہر ایک اپنے جانوروں کو اپنی بستی میں پانی پلاتا ہے تو مطلب یہ ہے کہ زکاۃ وصول کرنے والا ان کی بستیوں میں جا کر زکاۃ وصول کرے گا یہ نہ ہو گا کہ وہ اپنی بستیوں کے باہر زکاۃ دینے کے لئے بلائے جائیں، یہ بھی رعایا پر ایک شفقت ہے، پانی کے گھاٹ پر جانوروں کے زکاۃ وصول کرنے کا محصل کو فائدہ یہ بھی ہو گا کہ وہاں تمام ریوڑ اور ہر ریوڑ کے تمام جانور پانی پینے کے لیے جمع ہوتے ہیں، گنتی میں آسانی رہتی ہے، جب کہ چراگاہوں میں جانور بکھرے ہوئے ہوتے ہیں، اور وہاں ان کا شمار کرنا مشکل ہوتا ہے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن عثمان بن حكيم الاودي ، حدثنا ابو نعيم ، حدثنا عبد السلام بن حرب ، عن يزيد بن عبد الرحمن ، عن ابي هند ، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" في اربعين شاة شاة إلى عشرين ومائة، فإذا زادت واحدة، ففيها شاتان إلى مائتين، فإن زادت واحدة، ففيها ثلاث شياه إلى ثلاث مائة، فإن زادت، ففي كل مائة شاة، لا يفرق بين مجتمع، ولا يجمع بين متفرق خشية الصدقة، وكل خليطين يتراجعان بالسوية، وليس للمصدق هرمة، ولا ذات عوار، ولا تيس، إلا ان يشاء المصدق". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فِي أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا شَاتَانِ إِلَى مِائَتَيْنِ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَى ثَلاثِ مِائَةٍ، فَإِنْ زَادَتْ، فَفِي كُلِّ مِائَةٍ شَاةٌ، لَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ، وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، وَكُلُّ خَلِيطَيْنِ يَتَرَاجَعَانِ بِالسَّوِيَّةِ، وَلَيْسَ لِلْمُصَدِّقِ هَرِمَةٌ، وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ، وَلَا تَيْسٌ، إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَّدِّقُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چالیس سے لے کر ایک سو بیس بکریوں تک ایک بکری زکاۃ ہے، اگر ایک سو بیس سے ایک بھی زیادہ ہو جائے تو دو سو تک دو بکریاں ہیں، اور اگر دو سو سے ایک بھی زیادہ ہو جائے تو تین سو تک تین بکریاں ہیں، اور اگر تین سو سے زیادہ ہوں تو ہر سو میں ایک بکری ہے، اور جو جانور اکٹھے ہوں انہیں زکاۃ کے ڈر سے الگ الگ نہ کیا جائے، اور نہ ہی جو الگ الگ ہوں انہیں اکٹھا کیا جائے، اور اگر مال میں دو شخص شریک ہوں تو دونوں اپنے اپنے حصہ کے موافق زکاۃ پوری کریں ۱؎، اور زکاۃ میں عامل زکاۃ کو بوڑھا، عیب دار اور جفتی کا مخصوص بکرا نہ دیا جائے، الا یہ کہ عامل زکاۃ خود ہی لینا چاہے ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: مثلاً دو شریک ہیں ایک کی ایک ہزار بکریاں ہیں، اور دوسرے کی صرف چالیس بکریاں ہیں، اس طرح کل ایک ہزار چالیس بکریاں ہوئیں،زکاۃ وصول کرنے والا آیا اور اس نے دس بکریاں زکاۃ میں لے لیں، فرض کیجیے ہر بکری کی قیمت چھبیس چھبیس روپے ہے، اس طرح ان کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے ہوئی جس میں دس روپے اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس کی چالیس بکریاں ہیں، اور دو سو پچاس روپے اس پر ہوں گے جس کی ایک ہزار بکریاں ہیں کیونکہ ایک ہزار چالیس کے چھبیس چالیسے بنتے ہیں جن میں سے ایک چالیسہ کی زکاۃ چالیس بکریوں والے پر ہو گی اور ۲۵ چالیسوں کی زکاۃ ایک ہزار بکریوں والے پر ہو گی، اب اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے چالیس بکریوں والے شخص کی بکریوں سے دس بکریاں زکاۃ میں لی ہیں جن کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے بنتی ہے تو ہزار بکریوں والا اسے ڈھائی سو روپئے واپس کرے گا، اور اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے ایک ہزار بکریوں والے شخص کی بکریوں میں سے دس بکریاں لی ہیں تو چالیس بکریوں والا اسے دس روپیہ ادا کرے گا۔ ۲؎: یعنی جب کسی مصلحت کی وجہ سے محصل (زکاۃ وصول کرنے والا) کسی عیب دار یا بوڑھے یا نر جانور کو لینا چاہے تو صاحب مال پر کوئی زور نہیں کہ وہ دے ہی دے اور محصل کی مرضی کے بغیر اس قسم کے جانور کو زکاۃ میں دینا منع ہے، مصلحت یہ ہے کہ مثلاً عیب دار جانور قوی اورموٹا ہو، دودھ کی زیادہ توقع ہو، یا زکاۃ کے جانور سب مادہ ہوں، ان میں نر کی ضرورت ہو تو نر قبول کرے یا بوڑھا جانور ہو لیکن عمدہ نسل کا ہو تو اس کو قبول کرے۔ «واللہ اعلم» ۔
Ibn Umar narrated that:
the Messenger of Allah said: “For forty sheep, one sheep up to one hundred and twenty. If there is one more. Then two sheep, up to two hundred. If there is one more, then three sheep, up to three hundred. If there are more than that, then for every hundred one sheep. Do not separate combined flock and do not combine separate flocks for fear of Sadaqah. Each partner (who has a share in the flock) should pay in proportion to his shares. And the Zakat collector should not accept any decrepit or defective animal, nor any male goat, unless he wishes to.”
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”حق و انصاف کے ساتھ زکاۃ وصول کرنے والا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے، جب تک کہ لوٹ کر اپنے گھر واپس نہ آ جائے“۱؎۔
It was narrated that:
Rafi bin Khadij said: “I heard the Messenger of Allah say: 'The person who is appointed to collect the Sadaqah - who does so with sincerity and fairness is like one who foes out to fight for the sake of Allah, until he returns to the house.' ”
عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک دن زکاۃ کے بارے میں آپس میں بات کی تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس وقت آپ زکاۃ میں خیانت کا ذکر کر رہے تھے یہ نہیں سنا: ”جس نے زکاۃ کے مال سے ایک اونٹ یا ایک بکری چرا لی تو وہ قیامت کے دن اسے اٹھائے ہوئے لے کر آئے گا“؟ عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں نہیں (ہاں، میں نے سنا ہے)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10481، ومصباح الزجاجة: 646)، وقد أخرجہ: مسند احمد3/498) (صحیح)» (ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2354)
Abdullah bin Unais said that he and Umar bin Khattab were speaking about Sadaqah one day, and:
Umar bin Khattab said: “Did you not hear the Messenger of Allah when he mentioned Ghulul with the Sadaqah (and said): 'Whoever steals a camel or a sheep from it, he will be brought carrying it on the Day of Resurrection?' ” Abdullah bin Unais said: “Yes.”
عمران رضی اللہ عنہ کے غلام عطا بیان کرتے ہیں کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہما زکاۃ پہ عامل بنائے گئے، جب لوٹ کر آئے تو ان سے پوچھا گیا: مال کہاں ہے؟ انہوں نے کہا: آپ نے مجھے مال لانے کے لیے بھیجا تھا؟ ہم نے زکاۃ ان لوگوں سے لی جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لیا کرتے تھے، اور پھر اس کو ان مقامات میں خرچ ڈالا جہاں ہم خرچ کیا کرتے تھے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ زکاۃ وصول کر کے آپ کے پاس لانا ضروری نہ تھا، بلکہ زکاۃ جن لوگوں سے لی جائے انہی کے فقراء و مساکین میں بانٹ دینا بہتر ہے، البتہ اگر دوسرے لوگ ان سے زیادہ ضرورت مند اور محتاج ہوں تو ان کو دینا چاہئے، پس میں نے سنت کے موافق جن لوگوں سے زکاۃ لینی چاہی تھی، ان سے لی اور وہیں فقیروں اور محتاجوں کو بانٹ دی، آپ کے پاس کیا لاتا؟ کیا آپ نے مجھ کو مال کے یہاں اپنے پاس لانے پر مقرر کیا تھا؟۔
Ibrahim bin Ata, the freed slave of Imran bin Husain, said:
“My father told me that 'Imran bin Hussain was appointed to collect the Sadaqah. When he came back, it was said to him: 'Where is the wealth?' He said: 'Was it for wealth that you sent me? We took it from where we used to take it at the time of the Messenger of Allah, and we distributed it where we used to distribute it.' ”
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے جو غلام، لونڈی اور گھوڑوں میں زکاۃ کو واجب نہیں کہتے، اور بعضوں نے کہا: اس حدیث میں گھوڑوں سے مراد غازی اور مجاہد کا گھوڑا ہے، جیسے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، اور بعض نے کہا: اگر گھوڑے جنگل میں چرتے ہوں اور ان میں نر اور مادہ دونوں ہوں تو ان کے مالک کو اختیار ہے خواہ ہر گھوڑے کے بدلے ایک دینار زکاۃ دے یا جملہ گھوڑوں کی قیمت لگا کر اس کا چالیسواں حصہ دے، ایسا ہی عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، امام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے، لیکن صاحبین اور جمہور علماء اور ائمہ اہل حدیث کا یہ قول ہے کہ گھوڑے، غلام اور لونڈی میں مطلقاً زکاۃ نہیں ہے اور یہی صحیح ہے۔