عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک دن زکاۃ کے بارے میں آپس میں بات کی تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس وقت آپ زکاۃ میں خیانت کا ذکر کر رہے تھے یہ نہیں سنا: ”جس نے زکاۃ کے مال سے ایک اونٹ یا ایک بکری چرا لی تو وہ قیامت کے دن اسے اٹھائے ہوئے لے کر آئے گا“؟ عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں نہیں (ہاں، میں نے سنا ہے)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10481، ومصباح الزجاجة: 646)، وقد أخرجہ: مسند احمد3/498) (صحیح)» (ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2354)
Abdullah bin Unais said that he and Umar bin Khattab were speaking about Sadaqah one day, and:
Umar bin Khattab said: “Did you not hear the Messenger of Allah when he mentioned Ghulul with the Sadaqah (and said): 'Whoever steals a camel or a sheep from it, he will be brought carrying it on the Day of Resurrection?' ” Abdullah bin Unais said: “Yes.”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1810
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اجتماعی معاملات میں خیانت بہت بڑا جرم ہے۔ جن افراد کے ہاتھ میں مسجد، مدرسہ یا صوبے اور ملک کے مالی معاملات ہوں انہیں اس ذمے داری کا احساس رکھنا چاہیے۔ زکاۃ کی خیانت سے مراد یہ بھی ممکن ہے کہ صاحب مال اپنا پورا مال ظاہر نہ کرے، اسی طرح واجب مقدار سے کم زکاۃ دے۔ اس طرح بچائی ہوئی ایک بکری یا ایک اونٹ بھی قیامت کے دن سخت عذاب کا باعث ہو گا۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ زکاۃ وصول کرنے والا پورا مال بیت المال میں جمع نہ کرائے یا اسے جائز مصرف کے علاوہ اپنی کسی ضرورت کے لیے خرچ کرے تو اسے بھی اس جرم کی سخت سزا ملے گی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1810