عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں کی زکاۃ ان کے پانی پلانے کی جگہوں میں لی جائے گی“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ہر ایک اپنے جانوروں کو اپنی بستی میں پانی پلاتا ہے تو مطلب یہ ہے کہ زکاۃ وصول کرنے والا ان کی بستیوں میں جا کر زکاۃ وصول کرے گا یہ نہ ہو گا کہ وہ اپنی بستیوں کے باہر زکاۃ دینے کے لئے بلائے جائیں، یہ بھی رعایا پر ایک شفقت ہے، پانی کے گھاٹ پر جانوروں کے زکاۃ وصول کرنے کا محصل کو فائدہ یہ بھی ہو گا کہ وہاں تمام ریوڑ اور ہر ریوڑ کے تمام جانور پانی پینے کے لیے جمع ہوتے ہیں، گنتی میں آسانی رہتی ہے، جب کہ چراگاہوں میں جانور بکھرے ہوئے ہوتے ہیں، اور وہاں ان کا شمار کرنا مشکل ہوتا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6734، ومصباح الزجاجة: 645)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/184) (حسن صحیح) (ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1779)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1806
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) گزشتہ دور میں ہر شخص اپنے جانوروں کو پانی پلانے کے لیے چشمے پر لے جاتا تھا، یا اپنے اپنے کنویں پر پانی پلایا جاتا تھا، خاص طور پر اونٹوں کے لیے خاص اہتمام کیا جاتا تھا اور ہر شخص اپنے اونٹوں کے لیے حوض تیار کرتا تھا جس کے قریب ہی اونٹوں کا باڑا ہوتا تھا۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ وصول کرنے والے کو چاہیے کہ جہاں جہاں لوگوں کے ریوڑ چرتے چگتے ہیں وہاں وہاں جا کر زکاۃ وصول کی جائے۔ زکاۃ دینے والوں کو یہ حکم نہ دیا جائے کہ وہ اپنے مویشی لے کر عامل (زکاۃ وصول کرنے والے افسر) کے پاس آئیں اور وہاں زکاۃ ادا کریں۔ اس میں جانوروں کے مالکوں کے لیے مشقت ہے جبکہ عامل کے لیے ہر جگہ پہنچنا آسان ہے۔ اسلامی شریعت میں عوام اور رعایا کی سہولت کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھا گیا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1806