سنن ابن ماجه
كتاب الزكاة
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
12. بَابُ : صَدَقَةِ الْبَقَرِ
باب: گائے بیل کی زکاۃ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1804
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ خَصِيفٍ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" فِي ثَلَاثِينَ مِنَ الْبَقَرِ تَبِيعٌ، أَوْ تَبِيعَةٌ، وَفِي أَرْبَعِينَ مُسِنَّةٌ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیس گائے میں ایک «تبیع» یا ایک «تبیعہ» اور چالیس میں ایک «مسنة» ہے“
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزکاة 5 (622)، (تحفة الأشراف: 9606)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/411) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (622)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 444
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1804 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1804
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس باب کی مذکورہ دونوں روایتوں کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین میں سے بعض نے حسن اور بعض نے صحیح قرار ديا ہے اور انہوں نے اس کے شواہد بھی بیان کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہیں۔
مذکورہ دونوں روایتوں کی اسنادی بحث اور ان میں مذکور مسئلہ کی تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحدیثة مسند الإمام أحمد: 7؍21، 22، 23- 36؍341، 340، 339، و إرواء الغلیل: 3؍268، 271، رقم: 795، وسنن ابن ماجة للدکتور بشار عواد، حدیث: 1803، 1804)
تیس سے کم گائے بیلوں میں زکاۃ واجب نہیں۔
گائے دو سال کی مسنہ (دو دانت والی)
ہوتی ہے۔
گائے بیلوں کی زکاۃ کا حساب کرنے کے لیے دیکھنا چاہیے کہ ان کے تیس تیس یا چالیس چالیس کے کتنے گروہ بنتے ہیں، پھر اس کے مطابق ایک سال یا دو سال کے بچھڑے بچھڑیاں لے لی جائیں، یعنی تیس (30)
پر ایک سال کا ایک جانور اور چالیس (40)
پر دو سال کا ایک جانور واجب ہے۔
اس کے بعد ساتھ (60)
پر ایک ایک سال کے دو جانور۔
ستر (70)
پر دو سال کا ایک اور ایک سال کا ایک۔
اسی (80)
پر دو سال کے دو۔
نوے (90)
پر ایک سال کے تین۔
سو (100)
پر دو سال کا ایک اور ایک ایک سال کے دو بچھڑے بچھڑیاں بطور زکاۃ ادا اور وصول کیے جائیں گے۔
بھینس عرب کا جانور نہیں، اس لیے حدیث میں اس کا ذکر نہیں آیا لیکن اپنے فوائد اور قدر وقیمت کے لحاظ سے اور شکل و شباہت کے لحاظ سے یہ گائے سے ملتا جلتا جانور ہے، اس لیے احتیاط کا تقاضا ہے کہ اسے بھی گائے کے حکم میں سمجھا جائے۔
امام ابن المنذر نے اس پر اجماع لکھا ہے کہ بھینسیں بھی گایوں کے حکم میں ہیں۔
دیکھیئے:
(فتاوی ابن تیمیة: 25؍37)
اگر گائیں اور بھینسیں مل کر نصاب پورا ہوتا ہو تو زکاۃ ادا کردی جائے۔
زکاۃ کے طور پر وہ جانور دیا جائے جس کی تعداد ریوڑ میں زیادہ ہے، مثلاً:
اگر بیس گائیں اور دس بھینسیں ہیں تو زکاۃ کے طور پر ایک سالہ بچھڑی دی جائے اور اگر دس گائیں اور بیس بھینسیں ہیں تو ایک سالہ کٹڑایا کٹڑی (بھینس کا نر یا مادہ بچہ)
دے دی جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1804
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 622
´گائے کی زکاۃ کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیس گائے میں ایک سال کا بچھوا، یا ایک سال کی بچھیا کی زکاۃ ہے اور چالیس گایوں میں دو سال کی بچھیا کی زکاۃ ہے (دانتی یعنی دو دانت والی)۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 622]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(شواہد کی بنا پر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے،
ورنہ خصیف حافظہ کے ضعیف ہیں،
اور ابو عبیدۃ کا اپنے باپ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 622