سنن ابن ماجه
كتاب الزكاة
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
14. بَابُ : مَا جَاءَ فِي عُمَّالِ الصَّدَقَةِ
باب: زکاۃ کی وصولی کرنے والوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 1811
حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ عَبَّادُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَتَّابٍ ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَطَاءٍ مَوْلَى عِمْرَانَ، حَدَّثَنِي أَبِي ، أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ الْحُصَيْنِ ، اسْتُعْمِلَ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا رَجَعَ، قِيلَ لَهُ، أَيْنَ الْمَالُ؟، قَالَ: وَلِلْمَالِ أَرْسَلْتَنِي، أَخَذْنَاهُ مِنْ حَيْثُ كُنَّا نَأْخُذُهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَضَعْنَاهُ حَيْثُ كُنَّا نَضَعُهُ.
عمران رضی اللہ عنہ کے غلام عطا بیان کرتے ہیں کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہما زکاۃ پہ عامل بنائے گئے، جب لوٹ کر آئے تو ان سے پوچھا گیا: مال کہاں ہے؟ انہوں نے کہا: آپ نے مجھے مال لانے کے لیے بھیجا تھا؟ ہم نے زکاۃ ان لوگوں سے لی جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لیا کرتے تھے، اور پھر اس کو ان مقامات میں خرچ ڈالا جہاں ہم خرچ کیا کرتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الزکاة 22 (1625)، (تحفة الأشراف: 10834) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ زکاۃ وصول کر کے آپ کے پاس لانا ضروری نہ تھا، بلکہ زکاۃ جن لوگوں سے لی جائے انہی کے فقراء و مساکین میں بانٹ دینا بہتر ہے، البتہ اگر دوسرے لوگ ان سے زیادہ ضرورت مند اور محتاج ہوں تو ان کو دینا چاہئے، پس میں نے سنت کے موافق جن لوگوں سے زکاۃ لینی چاہی تھی، ان سے لی اور وہیں فقیروں اور محتاجوں کو بانٹ دی، آپ کے پاس کیا لاتا؟ کیا آپ نے مجھ کو مال کے یہاں اپنے پاس لانے پر مقرر کیا تھا؟۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1811 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1811
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حضرت عمران بن حصین مشہور صحابی ہیں جو غزوہ خیبر کے سال اسلام لائے۔
حضرت عمر نے انہیں بصرہ بھیج دیا تھا تاکہ لوگوں کو دین کی تعلیم دیں۔
حضرت عمران بن حصین کی یہ بات چیت حضرت عمر سے ہوئی، وہ انہی کے حکم سے بصرہ گئے تھے۔
زکاۃ کے زیادہ مستحق اس علاقے کے غریب لوگ ہیں جہاں سے زکاۃ وصول کی گئی۔
صحابہ کرام نبی اکرم ﷺ کی حدیث اور سنت پر سختی سے عمل کرتے تھے۔
حضرت عمران کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ خدمت رسول اللہ کی حیات مبارکہ میں بھی انجام دی تھی۔
حضرت عمران نے یہ خدمت زمانہ نبوی سے زمانہ فاروقی تک مسلسل انجام دی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص صحیح طور پر فرائض انجام دے رہا ہو تو بلاوجہ اس کا تبادلہ نہیں کرنا چاہیے البتہ کوئی معقول وجہ موجود ہو تو تبادلہ کرنے میں حرج بھی نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1811
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1625
´زکاۃ ایک شہر سے دوسرے شہر میں لے جانا کیسا ہے؟`
عطا کہتے ہیں زیاد یا کسی اور امیر نے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کو زکاۃ کی وصولی کے لیے بھیجا، جب وہ لوٹ کر آئے تو اس نے عمران سے پوچھا: مال کہاں ہے؟ انہوں نے کہا: کیا آپ نے مجھے مال لانے بھیجا تھا؟ ہم نے اسے لیا جس طرح ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں لیتے تھے، اور اس کو صرف کر دیا جہاں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں صرف کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1625]
1625. اردو حاشیہ: اصل بنیادی قاعدہ زکواۃ کے بارے میں یہی ہے کہ جس شہر سے لی جائے وہیں کے حاجت مندوں میں تقسیم کردی جائے۔ہاں دوسرے شہر میں اگر زیادہ ضرورت مند ہوں تو اسے منتقل کرنا جائز ہے۔جیسے کے دور نبوت میں اطراف واکناف سے زکواۃ جمع ہوتی اور مرکز مدینہ میں لائی جاتی۔اور اہل مدینہ کو بھی دی جاتی تھی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1625