عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنیچر کے دن روزہ نہ رکھو، سوائے فرض روزہ کے، اگر تم میں سے کسی کو انگور کی شاخ یا کسی درخت کی چھال کے علاوہ کوئی اور چیز کھانے کو نہ ملے تو اسی کو چوس لے“(لیکن روزہ نہ رکھے)۱؎۔
وضاحت: ۱؎: امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے، اور اس میں کراہت کا مطلب یہ ہے آدمی سنیچر کو روزے کے لیے مخصوص کر دے کیونکہ یہود اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، رہی وہ روایتیں جن میں سنیچر کے دن صوم رکھنے کا ذکر ہے تو ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں کیونکہ ممانعت اس صورت میں ہے جب اسے روزے کے لیے خاص کر لے۔
It was narrated from ‘Abdullah bin Busr that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
“Do not fast on Saturdays apart from days when you are obliged to fast. If anyone of you cannot find anything other than grape stalks or the bark of a tree, let him suck on it.”
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن مسلم البطين ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما من ايام العمل الصالح فيها احب إلى الله من هذه الايام يعني العشر"، قالوا: يا رسول الله، ولا الجهاد في سبيل الله، قال:" ولا الجهاد في سبيل الله، إلا رجل خرج بنفسه وماله فلم يرجع من ذلك بشيء". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ يَعْنِي الْعَشْرَ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ:" وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان دنوں یعنی ذی الحجہ کے دس دنوں سے بڑھ کر کوئی بھی دن ایسا نہیں کہ جس میں نیک عمل کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان دنوں کے نیک عمل سے زیادہ پسندیدہ ہو“، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بھی اتنا پسند نہیں، مگر جو شخص اپنی جان اور مال لے کر نکلے، اور پھر لوٹ کر نہ آئے“۔
It was narrated from Ibn ‘Abbas that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
“There are no days during which righteous deeds are more beloved to Allah than these days,” meaning the (first) ten days of Dhul- Hijjah. They said: “O Messenger of Allah! Not even Jihad in the cause of Allah?” He said: “Not even Jihad in the cause of Allah, unless a man goes out with himself and his wealth and does not bring anything back.”
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا کے کسی دن میں عبادت کرنا اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند نہیں جتنا کہ ان دس دنوں میں ہے، اور ان میں ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے، اور ان میں ایک رات شب قدر (قدر کی رات) کے برابر ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصوم 52 (758)، (تحفة الأشراف: 13098) (ضعیف)» (نہاس بن قہم قوی نہیں ہے)
It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
“There are no days in this world during which worship is more beloved to Allah, Glorious is He, than the (first) ten days (of Dhul- Hijjah). Fasting one of these days is equivalent to fasting for one year, and one night of them is equal to Lailatul-Qadr.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (758) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 441
وضاحت: ۱؎: اس سے مراد ذی الحجہ کے ابتدائی نو دن ہیں، یہ حدیث ان روایات میں سے ہے جن کی تاویل کی جاتی ہے کیونکہ ان نو دنوں میں روزہ رکھنا مکروہ نہیں بلکہ مستحب ہے، خاص کر عرفہ کے دن کے روزے کی بڑی فضیلت آئی ہے، ہو سکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کسی بیماری یا سفر کی وجہ سے کبھی روزہ نہ رکھا ہو۔
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں سمجھتا ہوں کہ عرفہ ۱؎ کے دن روزہ رکھنے کا ثواب اللہ تعالیٰ یہ دے گا کہ اگلے پچھلے ایک سال کے گناہ بخش دے گا“۲؎۔
وضاحت: ۱؎: یوم عرفہ سعودی عرب کے کلنڈر کے حساب سے ۹ ذی الحجہ کے دن کا روزہ جس دن حج ہوتا ہے، یہ عرفات میں حجاج کے اجتماع کے دن کا روزہ ہے، اختلاف مطالع کی وجہ سے تاریخوں کے فرق میں عام مسلمان مکہ کی تاریخ کا خیال رکھیں، اور حجاج کے عرفات میں اجتماع والے حج کے دن کا روزہ رکھیں، اس دن کے روزہ سے دو سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں البتہ جو حجاج کرام اس دن عرفات میں ہوتے ہیں ان کے لیے روزہ رکھنا منع ہے کیونکہ یہ ذکر و دعا میں مشغولیت کا دن ہوتا ہے، اس دن ان کے لیے یہی سب سے بڑی عبادت ہے۔ ۲؎: یہاں ایک اشکال پیدا ہوتا ہے، وہ یہ کہ ابھی جو سال نہیں آیا، اس کے گناہ بندہ پر نہیں لکھے گئے تو ان کی معافی کے کیا معنی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ عزوجل کے علم میں وہ گناہ موجود ہیں، پس ان کی معافی ہو سکتی ہے جیسے فرمایا «ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك وما تاخر» اور ممکن ہے کہ بعد کی معافی سے یہ غرض ہو کہ اللہ تعالی اپنی رحمت سے اس کو گناہ کرنے سے بچا لے گا، یا اس کا ثواب اتنا دے گا جو دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہو سکے گا «واللہ اعلم۔
It was narrated from Abu Qatadah that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
“Fasting on the Day of ‘Arafah, I hope from Allah, expiates for the sins of the year before and the year after.”
قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس نے عرفہ کے دن روزہ رکھا تو اس کے ایک سال کے اگلے اور ایک سال کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11076، ومصباح الزجاجة: 621) (صحیح) (سند میں اسحاق بن عبداللہ بن أبی فردہ ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ شاہد سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 4/09 1- 110)
It was narrated that Qatadah bin Nu’man said:
“I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: ‘Whoever fasts the Day of ‘Arafah, his sins of the previous and following year will be forgiven.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا إسحاق بن عبد اللّٰه بن أبي فروة: متروك والحديث السابق (الأصل: 1730) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 441
عکرمہ کہتے ہیں کہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان کے گھر ملنے گیا تو ان سے عرفات میں عرفہ کے روزے کے سلسلے میں پوچھا؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام عرفات میں عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔
It was narrated that ‘Ikrimah said:
“I entered upon Abu Hurairah in his house and asked him about fasting the Day of ‘Arafah at ‘Arafat. Abu Hurairah said: ‘The Messenger of Allah (ﷺ) forbade fasting the Day of ‘Arafah at ‘Arafat.’”
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاشوراء (محرم کی دسویں تاریخ) کا روزہ رکھتے، اور اس کے رکھنے کا حکم دیتے تھے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: محرم کی دسویں تاریخ کو یوم عاشوراء کہتے ہیں،نبی اکرم ﷺ مکہ سے ہجرت کر کے جب مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی اس دن روزہ رکھتے ہیں، آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: ”تم لوگ اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو“؟ تو ان لوگوں نے کہا کہ اس دن اللہ تعالی نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات عطا فرمائی تھی، اسی خوشی میں ہم روزہ رکھتے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہم اس کے تم سے زیادہ حقدار ہیں“ چنانچہ آپ ﷺ نے اس دن کا روزہ رکھا، اور یہ بھی فرمایا: ”اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو اس کے ساتھ ۹ محرم کا روزہ بھی رکھوں گا“ تاکہ یہود کی مخالفت ہو جائے، بلکہ ایک روایت میں آپ ﷺ نے اس کا حکم بھی دیا ہے کہ تم عاشوراء کا روزہ رکھو، اور یہود کی مخالفت کرو، اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا بعد کا روزہ بھی رکھو۔
(مرفوع) حدثنا سهل بن ابي سهل ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن ايوب ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، قال: قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة فوجد اليهود صياما، فقال:" ما هذا؟"، قالوا: هذا يوم انجى الله فيه موسى، واغرق فيه فرعون فصامه موسى شكرا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نحن احق بموسى منكم، فصامه، وامر بصيامه". (مرفوع) حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنِ أَبِي سَهْلٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَوَجَدَ الْيَهُودَ صُيَّامًا، فَقَالَ:" مَا هَذَا؟"، قَالُوا: هَذَا يَوْمٌ أَنْجَى اللَّهُ فِيهِ مُوسَى، وَأَغْرَقَ فِيهِ فِرْعَوْنَ فَصَامَهُ مُوسَى شُكْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَحْنُ أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ، فَصَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ آئے تو یہودیوں کو روزہ رکھتے ہوئے پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کیا ہے“؟ انہوں نے کہا: یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی، اور فرعون کو پانی میں ڈبو دیا، تو موسیٰ علیہ السلام نے اس دن شکریہ میں روزہ رکھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا، اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا“۔
It was narrated that Ibn ‘Abbas said:
“The Prophet (ﷺ) came to Al- Madinah, and he found the Jews observing a fast. He said: ‘What is this?’ They said: ‘This is the day when Allah saved Musa and drowned Pharaoh, so Musa fasted this day in gratitude.’ The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘We have more right to Musa than you do.’ So he fasted (that day) and enjoined (others) to fast it also.’”