It was narrated that Anas bin Malik said:
"The Messenger of Allah used to perform ablution for every prayer, and we used to perform all of the prayers with one ablution."
بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کیا کرتے تھے، لیکن فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وضو سے ساری نماز پڑھیں ۱؎۔
Sulaiman bin Buraidah narrated from his father that:
The Prophet used to perform ablution for every prayer, but on the day of the conquest of Makkah, he performed all of the prayers with one ablution.
فضل بن مبشر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو ایک ہی وضو سے کئی نماز پڑھتے دیکھا، تو میں نے کہا: یہ کیا ہے؟ عرض کیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے، چنانچہ میں بھی ویسے ہی کرتا ہوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2571، ومصباح الزجاجة: 211) (صحیح)» (اس حدیث کی سند میں الفضل بن مبشر ضعیف ہیں، لیکن سابقہ شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: اگر وضو باقی ہے ٹوٹا نہیں ہے، تو ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں۔
Fadl bin Mubashshir said:
"I saw Jabir bin 'Abdullah performing every prayer with one ablution, and I said: 'What is this?' He said: 'I saw the Messenger of Allah doing this, and I am doing as the Messenger of Allah did.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال البوصيري: ”ھذا إسناد ضعيف،الفضل بن مبشر ضعفه الجمھور“ وقال الحافظ: فيه لين (تقريب: 5416) والحديث السابق (الأصل: 510) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 396
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الله بن يزيد المقرئ ، حدثنا عبد الرحمن بن زياد ، عن ابي غطيف الهذلي ، قال: سمعت عبد الله بن عمر بن الخطاب في مجلسه في المسجد، فلما حضرت الصلاة قام فتوضا وصلى، ثم عاد إلى مجلسه، فلما حضرت العصر قام فتوضا وصلى، ثم عاد إلى مجلسه، فلما حضرت المغرب قام فتوضا وصلى، ثم عاد إلى مجلسه، فقلت: اصلحك الله افريضة ام سنة الوضوء عند كل صلاة؟ قال: او فطنت إلي، وإلى هذا مني، فقلت: نعم، فقال: لا، لو توضات لصلاة الصبح لصليت به الصلوات كلها ما لم احدث، ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من توضا على كل طهر فله عشر حسنات"، وإنما رغبت في الحسنات. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادٍ ، عَنْ أَبِي غُطَيْفٍ الْهُذَلِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي مَجْلِسِهِ فِي الْمَسْجِدِ، فَلَمَّا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ قَامَ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى، ثُمَّ عَادَ إِلَى مَجْلِسِهِ، فَلَمَّا حَضَرَتِ الْعَصْرُ قَامَ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى، ثُمَّ عَادَ إِلَى مَجْلِسِهِ، فَلَمَّا حَضَرَتِ الْمَغْرِبُ قَامَ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى، ثُمَّ عَادَ إِلَى مَجْلِسِهِ، فَقُلْتُ: أَصْلَحَكَ اللَّهُ أَفَرِيضَةٌ أَمْ سُنَّةٌ الْوُضُوءُ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ؟ قَالَ: أَوَ فَطِنْتَ إِلَيَّ، وَإِلَى هَذَا مِنِّي، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: لَا، لَوْ تَوَضَّأْتُ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ لَصَلَّيْتُ بِهِ الصَّلَوَاتِ كُلَّهَا مَا لَمْ أُحْدِثْ، وَلَكِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ تَوَضَّأَ عَلَى كُلِّ طُهْرٍ فَلَهُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ"، وَإِنَّمَا رَغِبْتُ فِي الْحَسَنَاتِ.
ابوغطیف ہذلی کہتے ہیں کہ میں نے مسجد میں عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے ان کی مجلس میں سنا، پھر جب نماز کا وقت ہوا، تو وہ اٹھے وضو کیا، اور نماز ادا کی، پھر مجلس میں دوبارہ حاضر ہوئے، پھر جب عصر کا وقت آیا تو اٹھے وضو کیا، اور نماز پڑھی، پھر اپنی مجلس میں واپس آئے، پھر جب مغرب کا وقت ہوا تو اٹھے وضو کیا، اور نماز ادا کی پھر اپنی مجلس میں دوبارہ حاضر ہوئے تو میں نے کہا: اللہ آپ کو سلامت رکھے، کیا یہ وضو (ہر نماز کے لیے) فرض ہے یا سنت؟ کہا: کیا تم نے میرے اس کام کو سمجھ لیا اور یہ سمجھا ہے کہ یہ میں نے اپنی طرف سے کیا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، بولے: نہیں، (ہر نماز کے لیے وضو کرنا فرض نہیں) اگر میں نماز فجر کے لیے وضو کرتا تو اس سے وضو نہ ٹوٹنے تک ساری نماز پڑھتا، لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جس شخص نے وضو ہوتے ہوئے وضو کیا، تو اس کے لیے دس نیکیاں ہیں“، اور مجھ کو ان نیکیوں ہی کا شوق ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/لطہارة 32 (62)، سنن الترمذی/الطہارة 44 (59)، (تحفة الأشراف: 859، ومصباح الزجاجة: 212) (ضعیف)» (اس حدیث کی سند میں ابو غطیف مجہول و عبد الرحمن بن زیاد افریقی ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود: /9)
It was narrated that Abu Ghutaif Al-Hudhali said:
"I was listening to 'Abdullah bin 'Umar bin Khattab in the mosque, and when the time for prayer came, he got up, performed ablution, and offered prayer, then he went back to where he had been sitting. When the time for 'Asr (Afternnon prayer) came, he got up, performed ablution, and offered prayer, then he went back to where he had been sitting. When the time for Maghrib (Sunset prayer) came, he got up, performed ablution, and offered prayer, then he went back to where he had been sitting. I said: 'May Allah improve you (i.e., your condition) Is it obligatory or Sunnah to perform ablution for every prayer?' He said: 'Did you notice that?' I said: 'Yes.' He said: 'No (it is not obligatory). If I perform ablution for Morning prayer I can perform all of the prayers with this ablution, so as long as I do not get impure. But I heard the Messenger of Allah say: "Whoever performs ablution while he is pure, he will have ten merits." So I wanted to earn the merits.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (62) ترمذي (59) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 396
عباد بن تمیم کے چچا عبداللہ بن زید بن عاصم انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس شخص کا معاملہ لے جایا گیا جس نے نماز میں (حدث کا) شبہ محسوس کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، شک و شبہ سے وضو نہیں ٹوٹتا جب تک کہ وہ گوز کی آواز نہ سن لے، یا بو نہ محسوس کرے“۱؎۔
'Abbad bin Tamim narrated that his paternal uncle said:
"A complaint was made to the Prophet about a man who sensed something (some doubt about his ablution) during prayer. He said: 'No (he does not have to perform ablution) unless he notices a smell or hears a sound.'"
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں حدث کا شبہ ہو جانے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تک کہ آواز نہ سن لے یا بو نہ محسوس کر لے نماز نہ توڑے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4048، ومصباح الزجاجة: 213)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/96) (صحیح)» (اس سند میں ضعف ہے، اس لئے کہ محاربی کا معمر سے سماع ثابت نہیں ہے، نیز وہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، زہری کے حفاظ تلامذہ نے اس حدیث کو زہر ی عن ابن المسیب عن عبد اللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، جو صحیحین اور سنن ابی داود، و نسائی میں ہے، ملاحظہ ہو: (513) اس سابقہ حدیث سے تقویت پاکر اصل حدیث صحیح ہے، نیز ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث دوسرے طریق سے مسند احمد میں بھی ہے، (3/37)
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ جب ہوا کے خارج ہونے کا یقین ہو جائے، تب نماز توڑے، اور جا کر وضو کرے محض شک اور وہم کی بناء پر نہیں۔
It was narrated that Abu Sa'eed Al-Khudri said:
"The Prophet was asked about doubts (concerning ablution) during prayer. He said: 'he should not leave until he hears a sound or detects an odor.'"
محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں کہ میں نے سائب بن یزید رضی اللہ عنہما کو اپنا کپڑا سونگھتے دیکھا، میں نے پوچھا: اس کا سبب کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”بغیر بو سونگھے یا آواز سنے وضو واجب نہیں ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3798)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/426) (صحیح)» (سند میں عبد العزیز بن عبید اللہ الأحمصی ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: یہ سب روایتیں شک کی صورت پر محمول ہیں کہ جب ہوا خارج ہونے میں شک ہو تو شک سے وضو باطل نہیں ہوتا، ہاں اگر یقین ہو جائے تو وضو باطل ہو جائے گا۔
It was narrated that 'Amr bin 'Ata' said:
"I saw Sa'ib bin Yazid sniffing his garment, and I said: 'Why (are you doing) that?' He said: 'I heard the Messenger of Allah say: "No ablution (is needed) unless there is an odor or a sound."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال البوصيري: ”عبدالعزيز ضعيف“ وقال الحافظ: ”عبدالعزيز بن عبيداللّٰه بن حمزة بن صھيب بن سنان الحمصي: ضعيف ولم يرو عنه غير إسماعيل بن عياش“ (تقريب: 4111) وللحديث شاھد ضعيف عند أحمد (3 / 426 ح 15591) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 396
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحراء اور میدان میں واقع ان گڈھوں کے پانی کے بارے میں پوچھا گیا جن سے مویشی اور درندے پانی پیتے رہتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب پانی دو قلہ (دو بڑے مٹکے کے برابر) ہو تو اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اگر پانی دو قلہ سے زیادہ ہو گا تو بدرجہ اولی ناپاک نہ ہو گا، اور اگر اس کا رنگ، بو، یا مزہ یا ان میں سے کوئی کسی ناپاک چیز کے پڑنے سے بدل جائے، تو ناپاک ہو جائے گا، دو قلہ کا اندازہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حجۃ اللہ البالغہ میں یہ بیان کیا ہے کہ کسی ایسے حوض میں کہ جس کی زمین برابر ہوا گر پانی جمع کریں تو تقریباً سات بالشت لمبا اور پانچ بالشت چوڑا ہو گا، اور یہ ادنیٰ درجہ ہے حوض کا اور اعلیٰ درجہ ہے برتنوں کا، عرب میں اس سے بڑا برتن نہیں ہوتا تھا۔ ”قلہ“: کے معنی مٹکے کے ہیں یہاں مراد ہجر کے مٹکے ہیں کیونکہ عرب میں یہی مٹکے مشہور تھے، اس میں ڈھائی سو رطل پانی سمانے کی گنجائش ہوتی تھی، اس اعتبار سے دو قلوں کے پانی کی مقدار پانچ سو رطل ہوئی، جو موجودہ زمانے کے پیمانے کے مطابق دو سو ستائیس کلوگرام (۲۲۷) بنتی ہے۔
It was narrated from 'Ubaidullah bin 'Abdullah bin 'Umar that his father said:
"I heard the Messenger of Allah being asked about water in the wilderness that is frequented by beasts and predators. The Messenger of Allah said: "If the water reaches the amount of two Qullah, nothing can make it impure (Najis).'" (Sahih) Another chain with similar wording.