ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز کی کنجی پاکی (وضو) ہے، اور اس کی منافی چیزیں پہلی تکبیر تحریمہ سے حرام ہو جاتی ہیں، اور اس (یعنی نماز) سے باہر امور کو حلال کر دینے والی چیز سلام پھیرنا ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلا ة 62 (238)، (تحفة الأشراف: 4357) (صحیح)» (یہ سند ابو سفیان طریف سعدی کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن سابقہ حدیث کی بناء پر یہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: «تحریم»: نماز کی حرمت میں دخول اور «تحلیل»: نماز کی حرمت سے خروج کے معنی میں بھی ہو سکتا ہے، یعنی نماز میں داخلہ تکبیر ہی سے اور نماز سے خروج تسلیم ہی کے ذریعہ ہو سکتا ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کا دروازہ بند ہوتا ہے بندہ اسے طہارت ہی سے کھول سکتا ہے، یعنی بغیر وضو اور طہارت کے نماز نہیں پڑھ سکتا، اسی طرح نماز میں آدمی «اللہ اکبر» ہی کہہ کر داخل ہو سکتا ہے، اور «السلام علیکم» ہی کہہ کر اس سے باہر نکل سکتا ہے۔
It was narrated from Abu Sa'eed Al-Khudri that:
The Messenger of Allah said: "The key to prayer is purification, its opening is to say Allahu Akbar and its closing is to say As-salamu 'alaikum."
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”راہ استقامت پر قائم رہو ۱؎، تم ساری نیکیوں کا احاطہٰ نہیں کر سکو گے، اور تم جان لو کہ تمہارا بہترین عمل نماز ہے، اور وضو کی محافظت صرف مومن کرتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2086، ومصباح الزجاجة: 114)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/277، 282)، سنن الدارمی/الطہارة 2 (681) (صحیح)» (سند میں سالم بن ابی الجعد اور ثوبان رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن دارمی اور ابن حبان میں سند متصل ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 412)
وضاحت: ۱؎: راہ استقامت پر قائم رہو کا مطلب ہے کہ پوری ثابت قدمی کے ساتھ اسلام کے اوامر و نواہی پر جمے رہو، استقامت کمال ایمان کی علامت ہے، اس لئے اس مرتبہ پر بہت ہی کم لوگ پہنچ پاتے ہیں کیونکہ یہ مشکل امر ہے۔
It was narrated that Thawban said:
"The Messenger of Allah said: 'Adhere to righteousness even though you will not be able to do all acts of virtue. Know that the best of your deeds is Salat (prayer) and that no one maintains his ablution except a believer.'"
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”راہ استقامت پر قائم رہو، تم ساری نیکیوں کا احاطہٰ نہیں کر سکتے، اور جان لو کہ تمہارا سب سے افضل عمل نماز ہے، اور وضو کی محافظت صرف مومن ہی کرتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8923، ومصباح الزجاجة: 115) (صحیح)» (سند میں لیث بن أبی سلیم ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 2/137)
It was narrated that 'Abdullah bin 'Amr said:
"The Messenger of Allah said: 'Adhere to righteousness even though you will not be able to do all acts of virtue. Know that among the best of your deeds is prayer and that no one maintains his ablution except a believer.'"
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم استقامت پر قائم رہو، اور کیا ہی بہتر ہے، اگر تم اس پر قائم رہ سکو، اور تمہارے اعمال میں سب سے بہتر عمل نماز ہے، اور وضو کی محافظت صرف مومن ہی کرتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4933، ومصباح الزجاجة: 116) (صحیح)» (سند میں ابو حفص دمشقی مجہول ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 2/137)
It was narrated that Abu Umamah said, in a marfu' Hadith:
"Adhere to righteousness and it is a blessing if you are able to do so. Know that the best of your deeds is prayer and that no one maintains his ablution except a believer."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف إسحاق بن أسيد: فيه ضعف و شيخه أبو حفص الدمشقي: مجهول (تقريب: 342،8057) والحديث السابق (الأصل: 277) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 386
ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مکمل وضو کرنا نصف ایمان ہے ۱؎، اور «الحمد لله» میزان کو (ثواب سے) بھر دیتا ہے، اور «سبحان الله»، «الله أكبر» آسمان و زمین کو (ثواب سے) بھر دیتے ہیں، نماز نور ہے، اور زکاۃ برہان (دلیل و حجت) ہے، اور صبر (دل کی) روشنی ہے، اور قرآن دلیل و حجت ہے، ہر شخص صبح کرتا ہے تو وہ اپنے نفس کو بیچنے والا ہوتا ہے، پھر وہ یا تو اسے (جہنم سے) آزاد کرا لیتا ہے یا ہلاک کر دیتا ہے“۔
وضاحت: ۱؎: وضو نصف (آدھا) ایمان ہے کیونکہ اس سے ظاہری طہارت حاصل ہوتی ہے، اور یہ طہارت نماز کے لئے شرط ہے اس لئے اسے آدھے ایمان یا آدھی نماز سے تعبیر کیا گیا اور باطنی طہارت ایمان و اقرار توحید سے حاصل ہوتی ہے، زکاۃ کی ادائیگی سے ایمان کی سچائی کا پتہ چلتا ہے، صبر باعث نور و ضیاء ہے، اور ممکن ہے صبر سے مراد یہاں روزہ ہو، کیونکہ شہوات کے توڑنے میں اس کی تاثیر قوی ہے، اور یہ دل کی نورانیت کا باعث ہوتا ہے، قرآن پر عمل کرنے سے نجات، اور اس کو چھوڑ دینے سے ہلاکت کا قوی اندیشہ ہے، ہر شخص اپنے کردار و عمل سے اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں لگا کر اس کو عذاب سے آزاد کرانے والا ہے، یا شیطان کی فرمانبرداری سے اس کے عذاب میں گرفتار کرنے والا ہے، اس حدیث سے حمد باری تعالیٰ اور تسبیح و تحمید کی فضیلت بھی معلوم ہوئی کہ اس کے اجر و ثواب سے اعمال کی میزان بھاری ہو جائے گی۔
It was narrated from Abu Malik Ash'ari that:
The Messenger of Allah said: "Performing ablution properly is half of faith, saying Al-Hamdu Lillah fills the Scale (of good deeds), saying Subhan-Allah and Allahu Akbar fills the heavens and the earth, prayer is light, Zakat is proof, patience is brightness and the Qur'an is proof for you or against you. Every person goes out in the morning to sell his soul, so he either frees it or destroys it.'"
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن ابي صالح ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن احدكم إذا توضا فاحسن الوضوء، ثم اتى المسجد لا ينهزه إلا الصلاة، لم يخط خطوة إلا رفعه الله عز وجل بها درجة، وحط عنه بها خطيئة حتى يدخل المسجد". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ أَتَى الْمَسْجِدَ لَا يَنْهَزُهُ إِلَّا الصَّلَاةُ، لَمْ يَخْطُ خَطْوَةً إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا دَرَجَةً، وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً حَتَّى يَدْخُلَ الْمَسْجِدَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جب کوئی وضو کرتا ہے، اور اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر مسجد آتا ہے، اور اس کے گھر سے نکلنے کا سبب صرف نماز ہی ہوتی ہے، تو اس کے ہر قدم کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کرتا اور ایک گناہ مٹاتا ہے، یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہو جائے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12552 (ألف)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/ الصلاة 87 (477)، سنن ابی داود/الصلاة 52 (564)، مسند احمد (2/252، 475)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 774) (صحیح)»
It was narrated that Abu Hurairah said:
"The Messenger of Allah said: 'When anyone of you performs ablution and does it well, then he comes to the mosque for no other purpose than prayer, he does not take one step but Allah will raise him one degree (in status) thereby, and remove one sin from him thereby, until he enters the mosque.'"
(مرفوع) حدثنا سويد بن سعيد ، حدثني حفص بن ميسرة ، حدثني زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، عن عبد الله الصنابحي ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" من توضا فمضمض، واستنشق خرجت خطاياه من فيه وانفه، فإذا غسل وجهه خرجت خطاياه من وجهه حتى تخرج من تحت اشفار عينيه، فإذا غسل يديه خرجت خطاياه من يديه، فإذا مسح براسه خرجت خطاياه من راسه حتى تخرج من اذنيه، فإذا غسل رجليه خرجت خطاياه من رجليه حتى تخرج من تحت اظفار رجليه، وكانت صلاته، ومشيه إلى المسجد نافلة". (مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنِي حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَار ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الصُّنَابِحِيِّ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ تَوَضَّأَ فَمَضْمَضَ، وَاسْتَنْشَقَ خَرَجَتْ خَطَايَاهُ مِنْ فِيهِ وَأَنْفِهِ، فَإِذَا غَسَلَ وَجْهَهُ خَرَجَتْ خَطَايَاهُ مِنْ وَجْهِهِ حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَشْفَارِ عَيْنَيْهِ، فَإِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ خَرَجَتْ خَطَايَاهُ مِنْ يَدَيْهِ، فَإِذَا مَسَحَ بِرَأْسِهِ خَرَجَتْ خَطَايَاهُ مِنْ رَأْسِهِ حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ أُذُنَيْهِ، فَإِذَا غَسَلَ رِجْلَيْهِ خَرَجَتْ خَطَايَاهُ مِنْ رِجْلَيْهِ حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَظْفَارِ رِجْلَيْهِ، وَكَانَتْ صَلَاتُهُ، وَمَشْيُهُ إِلَى الْمَسْجِدِ نَافِلَةً".
عبداللہ صنابحی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے وضو کیا، کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا تو اس کے گناہ ناک اور منہ سے نکل جاتے ہیں، اور جب وہ اپنا منہ دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے منہ سے نکل جاتے ہیں، یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کی پلکوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں، پھر جب وہ اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے دونوں ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں، پھر جب وہ اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے گناہ اس کے سر سے نکل جاتے ہیں، یہاں تک کہ اس کے کانوں سے بھی نکل جاتے ہیں، اور جب وہ اپنے دونوں پاؤں دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے دونوں پاؤں سے نکل جاتے ہیں، یہاں تک کہ پاؤں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں، اور اس کی نماز اور مسجد کی جانب اس کا جانا ثواب مزید کا باعث ہوتا ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الطہارة 85 (103)، (تحفة الأشراف: 9677)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة 6 (30)، مسند احمد (4/348، 349) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے مراد صغائر (گناہ صغیرہ) ہیں کیونکہ کبائر (گناہ کبیرہ) بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے، اسی طرح حقوق العباد (بندوں کے حقوق) سے متعلق گناہ اس وقت تک معاف نہیں ہوتے جب تک ان کے حقوق کی ادائیگی نہ کر دی جائے، یا ان سے معاف نہ کرا لیا جائے، نیز اس حدیث سے گھر سے وضو کر کے مسجد میں جانے کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔
It was narrated from 'Abdullah As-Sunabihi that:
The Messenger of Allah said: "Whoever performs ablution and rinses his mouth and nose, his sins will exit through his mouth and nose. When he washes his face, his sins will exit from his face, even from beneath his eyelids. When he washes his hands, his sins will exit from his hands. When he wipes his head, his sins will exit from his head, and even from his ears. When he washes his feet, his sins will exit from his feet, even from beneath his toenails. Then his prayer and walking towards the mosque will earn extra merit for him."
عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بندہ وضو کرتا اور اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے ہاتھوں سے جھڑ جاتے ہیں، جب وہ اپنا چہرہ دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے چہرے سے جھڑ جاتے ہیں، اور جب اپنے بازو دھوتا ہے اور سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے گناہ بازوؤں اور سر سے جھڑ جاتے ہیں، اور جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے پاؤں سے جھڑ جاتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10763)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المسافرین 52 (832)، سنن النسائی/الطہارة 108 (147)، مسند احمد (4/112، 113، 114) (صحیح)»
It was narrated that 'Amr bin 'Abasah said:
"The Messenger of Allah said: 'When a person performs ablution and washes his hands, his sins exit through his hands. When he washes his face, his sins exit through his face. When he washes his forearms and wipes his head, his sins exit though his forearms and head. When he washes his feet, his sins exit through his feet.'"
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو قیامت کے دن کیسے پہچانیں گے جن کو آپ نے دیکھا نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو کے اثر کی وجہ سے ان کی پیشانی، ہاتھ اور پاؤں سفید اور روشن ہوں گے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9225، ومصباح الزجاجة: 117)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/403، 451، 453) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات کی صریح علامت ہے کہ صحابہ کرام رسول اکرم ﷺ کو ہر وقت، ہر جگہ حاضر و ناظر نہیں سمجھتے تھے، اور خود رسول اللہ کا بھی یہ عقیدہ نہ تھا، ورنہ صحابہ یہ سوال کیوں کرتے اور آپ جواب یہ کیوں دیتے؟
'Abdullah bin Mas'ud said:
"It was said: 'O Messenger of Allah, how will you recognize those whom you have not seen of your Ummah?' He said: 'From the blazes of their foreheads and feet, like horses with black and white traces (which make them distinct from others) which are the traces of ablution.'" (Hasan) Another chain with similar wording.