عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو قیامت کے دن کیسے پہچانیں گے جن کو آپ نے دیکھا نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو کے اثر کی وجہ سے ان کی پیشانی، ہاتھ اور پاؤں سفید اور روشن ہوں گے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات کی صریح علامت ہے کہ صحابہ کرام رسول اکرم ﷺ کو ہر وقت، ہر جگہ حاضر و ناظر نہیں سمجھتے تھے، اور خود رسول اللہ کا بھی یہ عقیدہ نہ تھا، ورنہ صحابہ یہ سوال کیوں کرتے اور آپ جواب یہ کیوں دیتے؟
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9225، ومصباح الزجاجة: 117)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/403، 451، 453) (حسن صحیح)»
'Abdullah bin Mas'ud said:
"It was said: 'O Messenger of Allah, how will you recognize those whom you have not seen of your Ummah?' He said: 'From the blazes of their foreheads and feet, like horses with black and white traces (which make them distinct from others) which are the traces of ablution.'" (Hasan) Another chain with similar wording.
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث284
اردو حاشہ: (1)(غُرٌّ)(اَغَرُّ) كی جمع ہے جس سے مراد وہ جانور (گھوڑا وغیرہ) ہوتا ہے جس کی پیشانی سفید ہو اور (مُحَجَّل) وہ جانور ہوتا ہے جس کی ٹانگیں سفید ہوں (بُلُق) اَبْلَق كی جمع ہے یعنی وہ گھوڑا جو کچھ سیاہ اور کچھ سفید ہو۔ اس قسم کا گھوڑا سیاہ گھوڑوں میں ممتاز ہوتا ہے اور دور سے پہچانا جاتا ہے۔
(2) اس سے امت محمدیہ کا شرف ظاہر ہوتا ہے کیونکہ وضو کے اثر سے اعضائے وضو کا نورانی ہونا اس امت كا خاص امتياز ہے۔
(3) اعضاء کا نورانی ہونا، وضو کا اثر فرمایا گیا ہے۔ گویا بےنمازی مسلمان اس امتیازی شرف سے محروم ہوں گے اور وہ غیر مسلموں سے ممتاز نہیں ہوسکیں گے۔ اس سے بڑھ کر بدنصیبی کیا ہو سکتی ہے کہ نبی ﷺ امتی ہونے کا دعوی رکھنے والے کسی شخص کو پہنچاننے ہی سے انکار کردیں؟
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 284