سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
4. بَابُ : الْمُحَافَظَةِ عَلَى الْوُضُوءِ
باب: پابندی سے وضو کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 277
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ ثَوْبَانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اسْتَقِيمُوا وَلَنْ تُحْصُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ خَيْرَ أَعْمَالِكُمُ الصَّلَاةَ، وَلَا يُحَافِظُ عَلَى الْوُضُوءِ إِلَّا مُؤْمِنٌ".
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”راہ استقامت پر قائم رہو ۱؎، تم ساری نیکیوں کا احاطہٰ نہیں کر سکو گے، اور تم جان لو کہ تمہارا بہترین عمل نماز ہے، اور وضو کی محافظت صرف مومن کرتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2086، ومصباح الزجاجة: 114)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/277، 282)، سنن الدارمی/الطہارة 2 (681) (صحیح)» (سند میں سالم بن ابی الجعد اور ثوبان رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن دارمی اور ابن حبان میں سند متصل ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 412)
وضاحت: ۱؎: راہ استقامت پر قائم رہو کا مطلب ہے کہ پوری ثابت قدمی کے ساتھ اسلام کے اوامر و نواہی پر جمے رہو، استقامت کمال ایمان کی علامت ہے، اس لئے اس مرتبہ پر بہت ہی کم لوگ پہنچ پاتے ہیں کیونکہ یہ مشکل امر ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 277 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث277
اردو حاشہ:
(1)
سیدھی راہ پر قائم رہو اس کا مطلب یہ ہے کہ دین اسلام پر قائم رہو، جیسے حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی اپنی اولاد کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا:
﴿فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ﴾ (البقرۃ: 132/2)
تمھیں جب موت آئے اسلام پر آئے۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ افراط وتفریط سے بچ کر راہ اعتدال پر قائم رہو۔
نہ ذکر وعبادت سے بے پراوائی کرو نہ خود پر اتنا بوجھ ڈال لو کہ اس پر کار بند رہنا دشوار ہوجائے۔
(2) (لَنْ تُحْصُوا)
کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص اس انداز سے نیکی کی راہ پر قائم نہیں رہ سکتا کہ اس سے کوئی غلطی اور کوتاہی سرزد نہ ہو نہ یہ ممکن ہے کہ ذکر، شکر اور عبادت کا حق ادا کرسکے۔
یہ اللہ تعالی کے اس ارشاد کی طرف اشارہ ہے:
(عَلِمَ اَن لَّنْ تُحْصُوْه) (المزمل: 73؍2)
”اسے معلوم ہے کہ تم پوری طرح نباہ نہ سکوگے“ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے:
(لَا اُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أثْنَيْتَ عَلٰي نَفْسِكَ) (صحيح مسلم، الصلاة، باب مايقال في الركوع والسجود؟ حديث: 486)
”(اے اللہ)
میں تیری پوری پوری تعریف نہیں کرسکتا تو ایسے ہی ہے جیسے تو نےاپنی ثنا فرمائی۔
(3)
وضو کا قائم رہنا یا ٹوٹ جانا ایسی چیز ہے جس کا علم دوسروں کو عام طور پر نہیں ہوتا اور اس معاملے کو آسانی سے پوشیدہ رکھا جاسکتا ہے۔
اس کا اہتمام محض اسی یقین کی بناء پرہوسکتا ہے کہ دوسرے جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں اللہ تعالی سب کچھ جانتا ہے۔
وضو کی حفاظت کا مطلب اولاً سردیوں اور گرمیوں میں پوری طرح اعضاء کو دھونا ہے۔
ثانیاً وضو کرتے وقت اعضاء کو توجہ سے دھونا کہ کوئی حصہ خشک نہ رہ جائے۔
اور ثالثاً زیادہ سے زیادہ اوقات میں باوضو رہنا بھی ہو سکتا ہےاوریہ کام ایمان کی قوت کے بغیر انجام نہیں دیا جاسکتا۔
(4)
ایمان ایک قلبی کیفیت ہے جس کا اظہاراعمال سے ہوتا ہے۔
اعمال میں اہم ترین عمل نماز ہے۔
فرضی نماز تو اتنا اہم عمل ہے کہ اسے کفر اور ایمان کے درمیان امتیاز کے لیے ایک علامت قرار دیا گیا۔
متقین کی سب سے اہم صفت اور اخروی فلاح وکامیابی کے لیے اولین شرط نماز کو قرار دیا گیا ہے۔
(دیکھیے سورۃ البقرۃ: 2؍5، 2)
نفل نماز کی ایک اپنی اہمیت ہے۔
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی ؓ نے جب نبیﷺ سے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ وہ جنت میں آپﷺ کی رفاقت چاہتے ہیں تو رسول اللہﷺ نے اس مقام کے حصول کا طریقہ بتایا اور فرمایا:
(فَأَعِنِّيْ عَلٰي نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُوْدِ) (صحيح مسلم، الصلاة، باب فضل السجود والحث عليه، حديث: 489)
”سجدوں کی کثرت کے ذریعے سے اپنے نفس کے خلاف میری مدد کرو“
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 277