(مرفوع) حدثنا احمد بن عبدة، اخبرنا سفيان، عن يزيد بن خصيفة، عن بسر بن سعيد، عن ابي سعيد الخدري، قال: كنت جالسا في مجلس من مجالس الانصار، فجاء ابو موسى فزعا، فقلنا له: ما افزعك؟ قال:" امرني عمر ان آتيه فاتيته، فاستاذنت ثلاثا فلم يؤذن لي فرجعت، فقال: ما منعك ان تاتيني؟ قلت: قد جئت فاستاذنت ثلاثا، فلم يؤذن لي، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا استاذن احدكم ثلاثا، فلم يؤذن له، فليرجع , قال: لتاتين على هذا بالبينة، فقال ابو سعيد: لا يقوم معك إلا اصغر القوم، قال: فقام ابو سعيد معه، فشهد له. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا فِي مَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ الْأَنْصَارِ، فَجَاءَ أَبُو مُوسَى فَزِعًا، فَقُلْنَا لَهُ: مَا أَفْزَعَكَ؟ قَالَ:" أَمَرَنِي عُمَرُ أَنْ آتِيَهُ فَأَتَيْتُهُ، فَاسْتَأْذَنْتُ ثَلَاثًا فَلَمْ يُؤْذَنْ لِي فَرَجَعْتُ، فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِيَنِي؟ قُلْتُ: قَدْ جِئْتُ فَاسْتَأْذَنْتُ ثَلَاثًا، فَلَمْ يُؤْذَنْ لِي، وَقَدْ قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا اسْتَأْذَنَ أَحَدُكُمْ ثَلَاثًا، فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، فَلْيَرْجِعْ , قال: لَتَأْتِيَنَّ عَلَى هَذَا بِالْبَيِّنَةِ، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: لَا يَقُومُ مَعَكَ إِلَّا أَصْغَرُ الْقَوْمِ، قَالَ: فَقَامَ أَبُو سَعِيدٍ مَعَهُ، فَشَهِدَ لَهُ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں انصار کی مجالس میں سے ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا اتنے میں ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ گھبرائے ہوئے آئے، تو ہم نے ان سے کہا: کس چیز نے آپ کو گھبراہٹ میں ڈال دیا ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے عمر رضی اللہ عنہ نے بلا بھیجا تھا، میں ان کے پاس آیا، اور تین بار ان سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، مگر مجھے اجازت نہ ملی تو میں لوٹ گیا (دوبارہ ملاقات پر) انہوں نے کہا: تم میرے پاس کیوں نہیں آئے؟ میں نے کہا: میں تو آپ کے پاس گیا تھا، تین بار اجازت مانگی، پھر مجھے اجازت نہ دی گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم میں سے کوئی تین بار اندر آنے کی اجازت مانگے اور اسے اجازت نہ ملے تو وہ لوٹ جائے (یہ سن کر) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم اس بات کے لیے گواہ پیش کرو، اس پر ابوسعید نے کہا: (اس کی گواہی کے لیے تو) تمہارے ساتھ قوم کا ایک معمولی شخص ہی جا سکتا ہے، پھر ابوسعید ہی اٹھ کر ابوموسیٰ کے ساتھ گئے اور گواہی دی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 9 (2062)، الاستئذان 13 (6245)، صحیح مسلم/الآداب 7 (2153)، (تحفة الأشراف: 3970)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الاستئذان 3 (2690)، سنن ابن ماجہ/الأدب 17 (3706)، موطا امام مالک/الاستئذان 1 (3)، مسند احمد (4/398)، دي /الاستئذان 1 (2671) (صحیح)»
Abu Saeed Al-Khudri said: I was sitting in one of the meeting of the Ansar. Abu Musa came terrified. We asked him; what makes you terrified? He replied: Umar sent for me; so I went to him and asked his permission three times, but he did not permit me (to enter), so I came back. He asked; what has prevented you from coming to me? I replied: I came and asked permission three times, but it was not granted to me (so I returned). The Messenger of Allah ﷺ has said: When one of you asks permission three times and it is not granted to him, he should go away. He (Umar’) said; establish the proof of it. So Abu Saeed said: the youngest of the people will accompany you. So Abu Saeed got up with him and testified.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5161
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6245) صحيح مسلم (2153)
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا عبد الله بن داود، عن طلحة بن يحيى، عن ابي بردة، عن ابي موسى،" انه اتى عمر فاستاذن ثلاثا، فقال: يستاذن ابو موسى، يستاذن الاشعري، يستاذن عبد الله بن قيس، فلم يؤذن له فرجع، فبعث إليه عمر: ما ردك؟ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يستاذن احدكم ثلاثا، فإن اذن له، وإلا فليرجع , قال: ائتني ببينة على هذا، فذهب ثم رجع، فقال: هذا ابي، فقال ابي: يا عمر، لا تكن عذابا على اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال عمر: لا اكون عذابا على اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى،" أَنَّهُ أَتَى عُمَرَ فَاسْتَأْذَنَ ثَلَاثًا، فَقَالَ: يَسْتَأْذِنُ أَبُو مُوسَى، يَسْتَأْذِنُ الْأَشْعَرِيُّ، يَسْتَأْذِنُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ قَيْسٍ، فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ فَرَجَعَ، فَبَعَثَ إِلَيْهِ عُمَرُ: مَا رَدَّكَ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَسْتَأْذِنُ أَحَدُكُمْ ثَلَاثًا، فَإِنْ أُذِنَ لَهُ، وَإِلَّا فَلْيَرْجِعْ , قال: ائْتِنِي بِبَيِّنَةٍ عَلَى هَذَا، فَذَهَبَ ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ: هَذَا أُبَيٌّ، فَقَالَ أُبَيٌّ: يَا عُمَرُ، لَا تَكُنْ عَذَابًا عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ: لَا أَكُونُ عَذَابًا عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور ان سے اندر آنے کی اجازت تین مرتبہ مانگی: ابوموسیٰ اجازت کا طلب گار ہے، اشعری اجازت مانگ رہا ہے، عبداللہ بن قیس اجازت مانگ رہا ہے ۱؎ انہیں اجازت نہیں دی گئی، تو وہ لوٹ گئے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے بلانے کے لیے بھیجا (جب وہ آئے) تو پوچھا: لوٹ کیوں گئے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: تم میں سے ہر کوئی تین بار اجازت مانگے، اگر اسے اجازت دے دی جائے (تو اندر چلا جائے) اور اگر اجازت نہ ملے تو لوٹ جائے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس بات کے لیے گواہ پیش کرو، وہ گئے اور (ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو لے کر) واپس آئے اور کہا یہ ابی (گواہ) ہیں ۲؎، ابی نے کہا: اے عمر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے لیے باعث عذاب نہ بنو تو عمر نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے لیے باعث اذیت نہیں ہو سکتا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/ الآداب 7 (2154)، (تحفة الأشراف: 9100)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/398) (حسن الإسناد)» (اس کے راوی طلحہ سے غلطی ہو جایا کرتی تھی، ویسے پچھلی سند سے یہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: ابوموسیٰ اشعری کا نام عبداللہ بن قیس ہے، آپ نے نام سے، کنیت سے، قبیلہ کی طرف نسبت سے، تینوں طریقوں سے اجازت مانگی۔ ۲؎: اس سے پہلے والی حدیث میں ہے کہ شاہد ابوسعید تھے اور اس میں ہے ابی بن کعب تھے دونوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ ابوسعید خدری نے پہلے گواہی دی اس کے بعد ابی بن کعب آئے اور انہوں نے بھی گواہی دی۔
Abu Musa said that he came to Umar and asked permission three times saying: Abu Musa asks permission, al-Ash’ari ask permission, and Abdullah bin Qais asks permission, but it was not granted to him. So he went away and Umar sent for him saying: what did you return? He replied: The Messenger of Allah ﷺ said: When one of you asks permission three times and it is not granted to him, he should go away. He said: Establish the proof of it. He went, came back, and said; This is Ubayy. Ubayy said: Umar, do not be an agony for the Companions of the Messenger of Allah ﷺ. Umar said: I shall not be an agony for the Companions of the Messenger of Allah ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5162
(مرفوع) حدثنا يحيى بن حبيب، حدثنا روح، حدثنا ابن جريج، قال: اخبرني عطاء، عن عبيد بن عمير، ان ابا موسى استاذن على عمر بهذه القصة، قال فيه: فانطلق بابي سعيد فشهد له، فقال: اخفي علي هذا من امر رسول الله صلى الله عليه وسلم، الهاني السفق بالاسواق ولكن سلم ما شئت، ولا تستاذن. (مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، أَنَّ أَبَا مُوسَى اسْتَأْذَنَ عَلَى عُمَرَ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ فِيهِ: فَانْطَلَقَ بأَبِي سَعِيدٍ فَشَهِدَ لَهُ، فَقَالَ: أَخَفِيَ عَلَيَّ هَذَا مِنْ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَلْهَانِي السَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ وَلَكِنْ سَلِّمْ مَا شِئْتَ، وَلَا تَسْتَأْذِنْ.
عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے اجازت مانگی، پھر راوی نے یہی قصہ بیان کیا، اس میں ہے یہاں تک کہ ابوموسیٰ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو لے کر آئے، اور انہوں نے گواہی دی، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث مجھ سے پوشیدہ رہ گئی، بازاروں کی خرید و فروخت اور تجارت کے معاملات نے اس حدیث کی آگاہی سے مجھے غافل و محروم کر دیا، (اب تمہارے لیے اجازت ہے) سلام جتنی بار چاہو کرو، اندر آنے کے لیے اجازت طلب کرنے کی حاجت نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: (5180)، (تحفة الأشراف: 4146) (صحیح)» (لیکن آخری ٹکڑا '' جتنی بار چاہو... '' صحیح نہیں ہے، اور یہ صحیحین میں ہے بھی نہیں)
Ubaid bin Umair said: Abu Musa asked Umar for permission to enter the house. This version has: he went with Abu sa’ld who testified to it. He said Did this practice of the Messenger of Allah ﷺ remain hidden from me? My engagement in the transaction in the market made me oblivious of it. Now give me salutation as you wish; and do not ask permission.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5163
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2062) صحيح مسلم (2153)
اس سند سے بھی ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے یہی قصہ مروی ہے، اس میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ابوموسیٰ سے کہا: میں تم پر (جھوٹی حدیث بیان کرنے کا) اتہام نہیں لگاتا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرنے کا معاملہ سخت ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم: (5181)، (تحفة الأشراف: 9084) (صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: یعنی: حدیث کو روایت کرنے میں بڑی احتیاط اور ہوشیاری لازم ہے، ایسا نہ ہو کہ بھول چوک ہو جائے یا غلط فہمی سے الفاظ بدلنے میں مطلب کچھ کا کچھ ہو جائے۔
The tradition mentioned above has also been transmitted by Abu Musa in a similar way through a different chain of narrators. This version has: Umar said to Abu Musa: I do not blame you, but the matter of transmitting a tradition from the Messenger of Allah ﷺ is serious.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5164
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر الحديثين السابقين (5181، 5182) والآتي (5184)
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة عن مالك، عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن، وعن غير واحد من علمائهم في هذا، فقال عمر لابي موسى: اما إني لم اتهمك، ولكن خشيت ان يتقول الناس على رسول الله صلى الله عليه وسلم. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَعَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مَنْ عُلَمَائِهِمْ فِي هَذَا، فَقَالَ عُمَرُ لِأَبِي مُوسَى: أَمَا إِنِّي لَمْ أَتَّهِمْكَ، وَلَكِنْ خَشِيتُ أَنْ يَتَقَوَّلَ النَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ربیعہ بن ابوعبدالرحمٰن اور دوسرے بہت سے علماء سے اس سلسلہ میں مروی ہے عمر رضی اللہ عنہ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے کہا: میں نے تمہیں جھوٹا نہیں سمجھا لیکن میں ڈرا کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر کے جھوٹی حدیثیں نہ بیان کرنے لگیں۔
The tradition mentioned above has also been transmitted by Abu Musa through a different chain of narrators in a similar manner. This version has: Umar said to Abd Musa: I do not blame you, but I am afraid that the people may talk carelessly about the Messenger of Allah ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5165
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح وھو في الموطأ (2/964) مطولًا
(مرفوع) حدثنا هشام ابو مروان، ومحمد بن المثنى المعنى، قال محمد بن المثنى، حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا الاوزاعي، قال: سمعت يحيى بن ابي كثير، يقول: حدثني محمد بن عبد الرحمن بن اسعد بن زرارة، عن قيس بن سعد، قال:" زارنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في منزلنا، فقال: السلام عليكم ورحمة الله , فرد سعد ردا خفيا، قال قيس: فقلت: الا تاذن لرسول الله صلى الله عليه وسلم؟ , فقال ذره: يكثر علينا من السلام , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم السلام: عليكم ورحمة الله، فرد سعد ردا خفيا، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: السلام عليكم ورحمة الله، ثم رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم واتبعه سعد، فقال: يا رسول الله، إني كنت اسمع تسليمك وارد عليك ردا خفيا لتكثر علينا من السلام , قال: فانصرف معه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فامر له سعد بغسل، فاغتسل، ثم ناوله ملحفة مصبوغة بزعفران او ورس، فاشتمل بها، ثم رفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه، وهو يقول: اللهم اجعل صلواتك ورحمتك على آل سعد بن عبادة , قال: ثم اصاب رسول الله صلى الله عليه وسلم من الطعام، فلما اراد الانصراف قرب له سعد حمارا قد وطا عليه بقطيفة، فركب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال سعد: يا قيس اصحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال قيس: فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: اركب فابيت , ثم قال: إما ان تركب وإما ان تنصرف، قال: فانصرفت" , قال هشام ابو مروان: عن محمد بن عبد الرحمن بن اسعد بن زرارة، قال ابو داود: رواه عمر بن عبد الواحد، وابن سماعة، عن الاوزاعي مرسلا، ولم يذكرا قيس بن سعد. (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامٌ أَبُو مَرْوَانَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْمَعْنَى، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ:" زَارَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَنْزِلِنَا، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ , فَرَدَّ سَعْدٌ رَدًّا خَفِيًّا، قَالَ قَيْسٌ: فَقُلْتُ: أَلَا تَأْذَنُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ , فَقَالَ ذَرْهُ: يُكْثِرُ عَلَيْنَا مِنَ السَّلَامِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّلَامُ: عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، فَرَدَّ سَعْدُ رَدًّا خَفِيًّا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، ثُمَّ رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاتَّبَعَهُ سَعْدٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أَسْمَعُ تَسْلِيمَكَ وَأَرُدُّ عَلَيْكَ رَدًّا خَفِيًّا لِتُكْثِرَ عَلَيْنَا مِنَ السَّلَامِ , قال: فَانْصَرَفَ مَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ لَهُ سَعْدٌ بِغُسْلٍ، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ نَاوَلَهُ مِلْحَفَةً مَصْبُوغَةً بِزَعْفَرَانٍ أَوْ وَرْسٍ، فَاشْتَمَلَ بِهَا، ثُمَّ رَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ، وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِكَ وَرَحْمَتَكَ عَلَى آلِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ , قال: ثُمَّ أَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الطَّعَامِ، فَلَمَّا أَرَادَ الِانْصِرَافَ قَرَّبَ لَهُ سَعْدٌ حِمَارًا قَدْ وَطَّأَ عَلَيْهِ بِقَطِيفَةٍ، فَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا قَيْسُ اصْحَبْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ قَيْسٌ: فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ارْكَبْ فَأَبَيْتُ , ثُمَّ قَالَ: إِمَّا أَنْ تَرْكَبَ وَإِمَّا أَنْ تَنْصَرِفَ، قَالَ: فَانْصَرَفْتُ" , قال هِشَامٌ أَبُو مَرْوَانَ: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: رَوَاهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ، وَابْنُ سَمَاعَةَ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ مُرْسَلًا، وَلَمْ يَذْكُرَا قَيْسَ بْنَ سَعْدٍ.
قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر ملاقات کے لیے تشریف لائے (باہر رک کر) السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا، سعد رضی اللہ عنہ نے دھیرے سے سلام کا جواب دیا، قیس کہتے ہیں: میں نے (سعد سے) کہا: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندر تشریف لانے کی اجازت کیوں نہیں دیتے؟ سعد نے کہا چھوڑو (جلدی نہ کرو) ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلامتی کی دعا زیادہ کر لینے دو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا، سعد نے پھر دھیرے سے سلام کا جواب دیا، پھر تیسری بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ (اور جواب نہ سن کر) لوٹ پڑے، تو سعد نے لپک کر آپ کا پیچھا کیا اور آپ کو پا لیا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم آپ کا سلام سنتے تھے، اور دھیرے سے آپ کے سلام کا جواب دیتے تھے، خواہش یہ تھی کہ اس طرح آپ کی سلامتی کی دعا ہمیں زیادہ حاصل ہو جائے تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد کے ساتھ لوٹ آئے، اور اپنے گھر والوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے لیے (پانی وغیرہ کی فراہمی و تیاری) کا حکم دیا، تو آپ نے غسل فرمایا، پھر سعد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زعفران یا ورس میں رنگی ہوئی ایک چادر دی جسے آپ نے لپیٹ لیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، آپ دعا فرما رہے تھے: ”اے اللہ! سعد بن عبادہ کی اولاد پر اپنی برکت و رحمت نازل فرما“ پھر آپ نے کھانا کھایا، اور جب آپ نے واپسی کا ارادہ کیا تو سعد نے ایک گدھا پیش کیا جس پر چادر ڈال دی گئی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سوار ہو گئے، تو سعد نے کہا: اے قیس! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا، قیس کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”تم بھی سوار ہو جاؤ“ تو میں نے انکار کیا، آپ نے فرمایا: ”سوار ہو جاؤ ورنہ واپس جاؤ“۔ قیس کہتے ہیں: میں لوٹ آیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے عمر بن عبدالواحد اور ابن سماعۃ نے اوزاعی سے مرسلاً روایت کیا ہے اور ان دونوں نے اس میں قیس بن سعد کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11096)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الطھارة 59 (466)، اللباس22 (3604)، مسند احمد (3/421، 6/7) (ضعیف الإسناد)»
Narrated Qays ibn Saad: The Messenger of Allah ﷺ came to visit us in our house, and said: Peace and Allah's mercy be upon you! Saad returned the greeting in a lower tone. Qays said: I said: Do you not grant permission to the Messenger of Allah ﷺ to enter? He said: Leave him, he will give us many greetings. The Messenger of Allah ﷺ then said: Peace and Allah's mercy be upon you! Saad again responded in a lower tone. The Messenger of Allah ﷺ again said: Peace and Allah's mercy be upon you! So the Messenger of Allah ﷺ went away. Saad went after him and said: Messenger of Allah! I heard your greetings and responded in a lower tone so that you might give us many greetings. The Messenger of Allah ﷺ returned with him. Saad then offered to prepare bath-water for him, and he took a bath. He then gave him a long wrapper dyed with saffron or wars and he wrapped himself in it. The Messenger of Allah ﷺ then raised his hands and said: O Allah, bestow Thy blessings and mercy on the family of Saad ibn Ubadah! The Messenger of Allah ﷺ then shared their meals. When he intended to return, Saad brought near him an ass which was covered with a blanket. The Messenger of Allah ﷺ mounted it. Saad said: O Qays, accompany the Messenger of Allah. Qays said: The Messenger of Allah ﷺ said to me: Ride. But I refused. He again said: Either ride or go away. He said: So I went away. Hisham said: Abu Marwan (transmitted) from Muhammad ibn Abdur Rahman ibn Asad ibn Zurarah. Abu Dawud said: Umar bin Abd al-Wahid and Ibn Samaah transmitted it from al-Awzai' in mursal form (the ling of the Companion being missing), and they did not mention Qais bin Saad.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5166
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف في سماع محمد بن عبد الرحمٰن بن أسعد بن زرارة من قيس بن سعد بن عبادة نظر وللحديث طريق آخر ضعيف عند النسائي في عمل اليوم والليلة (324) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 179
(مرفوع) حدثنا مؤمل بن الفضل الحراني , في آخرين، قالوا: حدثنا بقية بن الوليد، حدثنا محمد بن عبد الرحمن، عن عبد الله بن بسر، قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اتى باب قوم لم يستقبل الباب من تلقاء وجهه، ولكن من ركنه الايمن او الايسر ويقول: السلام عليكم السلام عليكم وذلك ان الدور لم يكن عليها يومئذ ستور". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ الْحَرَّانِيُّ , فِي آخَرِينَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَى بَابَ قَوْمٍ لَمْ يَسْتَقْبِلِ الْبَابَ مِنْ تِلْقَاءِ وَجْهِهِ، وَلَكِنْ مِنْ رُكْنِهِ الْأَيْمَنِ أَوِ الْأَيْسَرِ وَيَقُولُ: السَّلَامُ عَلَيْكُمُ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَذَلِكَ أَنَّ الدُّورَ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهَا يَوْمَئِذٍ سُتُورٌ".
عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے دروازے پر آتے تو دروازہ کے سامنے منہ کر کے نہ کھڑے ہوتے بلکہ دروازے کے چوکھٹ کے دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے، اور کہتے: ”السلام علیکم، السلام علیکم“ یہ ان دنوں کی بات ہے جب گھروں میں دروازوں پر پردے نہیں تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 5201)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/189) (صحیح)»
Narrated Abdullah ibn Busr: When the Messenger of Allah ﷺ came to some people's door, he did not face it squarely, but faced the right or left corner, and said: Peace be upon you! peace be upon you! That was because there were no curtains on the doors of the house at that time.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5167
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (4673) أخرجه أحمد (4/189) والبخاري في الأدب المفرد (1078) بقية بن الوليد صرح بالسماع المسلسل وتابعه إسماعيل بن عياش ومحمد بن عبد الرحمن ھو الحميري الحمصي
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا بشر، عن شعبة، عن محمد بن المنكدر، عن جابر،" انه ذهب إلى النبي صلى الله عليه وسلم في دين ابيه، فدققت الباب، فقال: من هذا؟ قلت: انا , قال: انا انا كانه كرهه". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ،" أَنَّهُ ذَهَبَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دَيْنِ أَبِيهِ، فَدَقَقْتُ الْباب، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قُلْتُ: أَنَا , قال: أَنَا أَنَا كَأَنَّهُ كَرِهَهُ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد کے قرضے کے سلسلے میں گفتگو کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، تو میں نے دروازہ کھٹکھٹایا، آپ نے پوچھا: کون ہے؟ میں نے کہا: ”میں ہوں“ آپ نے فرمایا: ”میں، میں“(کیا؟) گویا کہ آپ نے (اس طرح غیر واضح جواب دینے) کو برا جانا۔
Jabir said that he went to the prophet ﷺ about the debt of my father. He said: I knocked at the door. He asked: who is there? I replied: it is I. he said: I, as though he disapproved of it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5168
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6250) صحيح مسلم (2155)
نافع بن عبدالحارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ ایک (باغ کی) چہار دیواری میں داخل ہوا، آپ نے مجھ سے فرمایا: ”دروازہ بند کئے رہنا“ پھر کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، میں نے پوچھا: کون ہے؟ اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یعنی ابوموسیٰ اشعری کی حدیث بیان کی ۱؎ اس میں «ضرب الباب» کے بجائے «فدق الباب» کے الفاظ ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11583)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/408) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: اس سے مؤلف کا اشارہ اس حدیث کی طرف ہے جسے مسلم نے اپنی صحیح میں عثمان رضی اللہ عنہ کے فضائل میں روایت کیا ہے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں گئے، ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو دربان بنایا، ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے، عمر رضی اللہ عنہ آئے پھر عثمان آئے، پھر بیئر اریس نامی کنویں پر آپ بیٹھ گئے الی آخرہ)
Narrated Nafi ibn AbdulHarith: I went out with the (Messenger of Allah ﷺ until I entered a garden, he said: Keep on closing the door. The door was then closed. I then said: Who is there ? He then narrated the rest of the tradition. Abu Dawud said: That is to say, the tradition of Abu Musa al-Ashari. In this version he said: "He then knocked at the door. "
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5169