یزید بن سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا سامان (بلا اجازت) نہ لے نہ ہنسی میں اور نہ ہی حقیقت میں ۱؎“۔ سلیمان کی روایت میں ( «لاعبا ولا جادا"» کے بجائے) «لعبا ولا جدا» ہے، اور جو کوئی اپنے بھائی کی لاٹھی لے تو چاہیئے کہ (ضرورت پوری کر کے) اسے لوٹا دے۔ ابن بشار نے صرف عبداللہ بن سائب کہا ہے ابن یزید کا اضافہ نہیں کیا ہے اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا، کہنے کے بجائے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الفتن 3 (2160)، (تحفة الأشراف: 11827)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/221) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: حقیقت میں لینے کی ممانعت کی وجہ تو ظاہر ہے کہ یہ چوری ہے اور ہنسی میں لینے کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ کبھی کبھی یہ چیز سامان والے کی ناراضگی اور اس کے لئے تکلیف کا باعث بن جاتی ہے۔
Narrated Abdullah ibn as-Saib ibn Yazid: The Messenger of Allah ﷺ said: None of you should take the property of his brother in amusement (i. e. jest), nor in earnest. The narrator Sulayman said: Out of amusement and out of earnest. If anyone takes the staff of his brother, he should return it. The transmitter Ibn Bashshar did not say "Ibn Yazid, and he said: The Messenger of Allah ﷺ said.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4985
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (2948) أخرجه الترمذي (2160 وسنده صحيح)
(مرفوع) حدثنا محمد بن سليمان الانباري، حدثنا ابن نمير، عن الاعمش، عن عبد الله بن يسار، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، قال: حدثنا اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم:" انهم كانوا يسيرون مع النبي صلى الله عليه وسلم، فنام رجل منهم، فانطلق بعضهم إلى حبل معه، فاخذه ففزع، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يحل لمسلم ان يروع مسلما". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّهُمْ كَانُوا يَسِيرُونَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَانْطَلَقَ بَعْضُهُمْ إِلَى حَبْلٍ مَعَهُ، فَأَخَذَهُ فَفَزِعَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُرَوِّعَ مُسْلِمًا".
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ ہم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے، ان میں سے ایک صاحب سو گئے، کچھ لوگ اس رسی کے پاس گئے، جو اس کے پاس تھی اور اسے لے لیا تو وہ ڈر گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کے لیے درست نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو ڈرائے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15625)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/362) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: بطور مذاق بھی ایسا کرنا صحیح نہیں کیونکہ اس میں ایذا رسانی ہے۔
Narrated Abdur Rahman ibn Abu Layla: The Companions of the Prophet ﷺ told us that they were travelling with the Prophet ﷺ. A man of them slept, and one of them went to the rope which he had with him. He took it, by which he was frightened. The Prophet ﷺ said: It is not lawful for a Muslim that he frightens a Muslim.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4986
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (3545) أخرجه أحمد (5/362) وللحديث شواھد عند الطحاوي (تحفة الأخيار 7/104 ح4995) والطبراني (معجم البحرين 435) وغيرھما
(مرفوع) حدثنا محمد بن سنان الباهلي , وكان ينزل العوقة، حدثنا نافع بن عمر، عن بشر بن عاصم، عن ابيه، عن عبد الله، قال ابو داود: هو ابن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله عز وجل يبغض البليغ من الرجال الذي يتخلل بلسانه تخلل الباقرة بلسانها". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ الْبَاهِلِيُّ , وَكَانَ يَنْزِلُ الْعَوَقَةَ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ بِشْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قال أبو داود: هُوَ ابْنُ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُبْغِضُ الْبَلِيغَ مِنَ الرِّجَالِ الَّذِي يَتَخَلَّلُ بِلِسَانِهِ تَخَلُّلَ الْبَاقِرَةِ بِلِسَانِهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ دشمنی رکھتا ہے تڑتڑ بولنے والے ایسے لوگوں سے جو اپنی زبان کو ایسے پھراتے ہیں جیسے گائے (گھاس کھانے میں) چپڑ چپڑ کرتی ہے، یعنی بے سوچے سمجھے جو جی میں آتا ہے بکے جاتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأدب 72 (2853)، (تحفة الأشراف: 8833)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/165، 187) (صحیح)»
Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-As: The Messenger of Allah ﷺ said: Allah, the Exalted, hates the eloquent one among men who moves his tongue round (among his teeth), as cattle do.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4987
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (4800) أخرجه الترمذي (2853 وسنده حسن)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی باتوں کو گھمانا اس لیے سیکھے کہ اس سے آدمیوں یا لوگوں کے دلوں کو حق بات سے پھیر کر اپنی طرف مائل کر لے، تو اللہ قیامت کے دن اس کی نہ نفل (عبادت) قبول کرے گا اور نہ فرض“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 13510) (ضعیف)» (سند میں عبداللہ بن مسیب لین الحدیث ہیں)
Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: On the Day of resurrection Allah will not accept repentance or ransom from him who learns excellence of speech to captivate thereby the hearts of men, or of people.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4988
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف في سماع الضحاك بن شرحبيل من الصحابة نظر كما أشار المنذري رحمه اﷲ (انظر عون المعبود 459/4) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 174
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن زيد بن اسلم، عن عبد الله بن عمر، انه قال:" قدم رجلان من المشرق فخطبا فعجب الناس يعني لبيانهما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن من البيان لسحرا، او إن بعض البيان لسحر". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ:" قَدِمَ رَجُلَانِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَخَطَبَا فَعَجِبَ النَّاسُ يَعْنِي لِبَيَانِهِمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسِحْرًا، أَوْ إِنَّ بَعْضَ الْبَيَانِ لَسِحْرٌ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ دو آدمی ۱؎ پورب سے آئے تو ان دونوں نے خطبہ دیا، لوگ حیرت میں پڑ گئے، یعنی ان کے عمدہ بیان سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بعض تقریریں جادو ہوتی ہیں ۲؎ یعنی سحر کی سی تاثیر رکھتی ہیں“ راوی کو شک ہے کہ «إن من البيان لسحرا» کہا یا «إن بعض البيان لسحر» کہا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 47 (5146)، الطب 51 (5767)، سنن الترمذی/البر والصلة 81 (2029)، (تحفة الأشراف: 6727)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/16، 59، 62، 94، 4/263) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ان دونوں آدمیوں کے نام زبرقان بن بدر اور عمرو بن اہتم تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کی آمد کا وواقعہ ۹ ھ کا ہے۔ ۲؎: یہ خوبی اگر حق کی طرف پھیرنے کے لئے ہو تو ممدوح ہوتی ہے اور اگر باطل کی طرف پھیرنے کے لئے ہو تو مذموم۔
Abdullah bin Umar said: When two men who came from the east made a speech and the people were charmed with their eloquence, the Messenger of Allah ﷺ said: In some eloquent speech there is magic.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4989
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5767) مشكوة المصابيح (4887) و للحديث شاھد حسن عند الطبراني في الكبير (1/ 240 ح 662)
ابوظبیہ کا بیان ہے کہ عمرو بن العاص نے ایک دن کہا اور (اس سے پہلے) ایک شخص کھڑے ہو کر بے تحاشہ بولے جا رہا تھا، اس پر عمرو نے کہا: اگر وہ بات میں درمیانی روش اپناتا تو اس کے لیے بہتر ہوتا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: مجھے مناسب معلوم ہوتا ہے یا مجھے حکم ہوا ہے کہ میں گفتگو میں اختصار سے کام یعنی جتنی بات کافی ہو اسی پر اکتفا کروں اس لیے کہ اختصار ہی بہتر روش ہے۔
One day when a man got up and spoke at length Amr ibn al-As said If he had been moderate in what he said: It would have been better for him. I heard the Messenger of Allah ﷺ say: I think (or, I have been commanded) that I should be brief in what I say, for brevity is better.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4990
قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (4803)
(مرفوع) حدثنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لان يمتلئ جوف احدكم قيحا خير له من ان يمتلئ شعرا" , قال ابو علي: بلغني عن ابي عبيد، انه قال وجهه: ان يمتلئ قلبه حتى يشغله عن القرآن وذكر الله، فإذا كان القرآن والعلم الغالب، فليس جوف هذا عندنا ممتلئا من الشعر، وإن من البيان لسحرا , قال: كان المعنى: ان يبلغ من بيانه: ان يمدح الإنسان فيصدق فيه حتى يصرف القلوب إلى قوله، ثم يذمه فيصدق فيه حتى يصرف القلوب إلى قوله الآخر، فكانه سحر السامعين بذلك. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِكُمْ قَيْحًا خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا" , قال أَبُو عَلِيٍّ: بَلَغَنِي عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ، أَنَّهُ قَالَ وَجْهُهُ: أَنْ يَمْتَلِئَ قَلْبُهُ حَتَّى يَشْغَلَهُ عَنِ الْقُرْآنِ وَذِكْرِ اللَّهِ، فَإِذَا كَانَ الْقُرْآنُ وَالْعِلْمُ الْغَالِبَ، فَلَيْسَ جَوْفُ هَذَا عِنْدَنَا مُمْتَلِئًا مِنَ الشِّعْرِ، وَإِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسِحْرًا , قال: كَأَنَّ الْمَعْنَى: أَنْ يَبْلُغَ مِنْ بَيَانِهِ: أَنْ يَمْدَحَ الْإِنْسَانَ فَيَصْدُقَ فِيهِ حَتَّى يَصْرِفَ الْقُلُوبَ إِلَى قَوْلِهِ، ثُمَّ يَذُمَّهُ فَيَصْدُقَ فِيهِ حَتَّى يَصْرِفَ الْقُلُوبَ إِلَى قَوْلِهِ الْآخَرِ، فَكَأَنَّهُ سَحَرَ السَّامِعِينَ بِذَلِكَ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کے لیے اپنا پیٹ پیپ سے بھر لینا بہتر ہے اس بات سے کہ وہ شعر سے بھرے، ابوعلی کہتے ہیں: مجھے ابو عبید سے یہ بات پہنچی کہ انہوں نے کہا: اس کی شکل (شعر سے پیٹ بھرنے کی) یہ ہے کہ اس کا دل بھر جائے یہاں تک کہ وہ اسے قرآن، اور اللہ کے ذکر سے غافل کر دے اور جب قرآن اور علم اس پر چھایا ہوا ہو تو اس کا پیٹ ہمارے نزدیک شعر سے بھرا ہوا نہیں ہے (اور آپ نے فرمایا) بعض تقریریں جادو ہوتی ہیں یعنی ان میں سحر کی سی تاثیر ہوتی ہے، وہ کہتے ہیں: اس کے معنی گویا یہ ہیں کہ وہ اپنی تقریر میں اس مقام کو پہنچ جائے کہ وہ انسان کی تعریف کرے اور سچی بات (تعریف میں) کہے یہاں تک کہ دلوں کو اپنی بات کی طرف موڑ لے پھر اس کی مذمت کرے اور اس میں بھی سچی بات کہے، یہاں تک کہ دلوں کو اپنی دوسری بات جو پہلی بات کے مخالف ہو کی طرف موڑ دے، تو گویا اس نے سامعین کو اس کے ذریعہ سے مسحور کر دیا“۔
Abu Hurairah reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: it is better for a man’s belly to be full of pus than to be full of poetry. Abu Ali said: I have been told that Abu Ubaid said: It means that his heart is full of poetry so much so that it makes him neglectful of the Quran and remembrance of Allah. If the Quran and the knowledge (of religion) are dominant, the belly will not be full of poetry in our opinion. Some eloquent speech is magic. It means that a man expresses his eloquence by praising another man, and he speaks the truth about him so much so that he attracts the hearts to his speech. He then condemns him and speaks the truth about him so much so that he attracts the hearts to another of his speech, as if he spelled the audience by it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4991
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح رواه البخاري (6155) مسلم (2257)
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا ابو عوانة، عن سماك، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال:" جاء اعرابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم فجعل يتكلم بكلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن من البيان سحرا، وإن من الشعر حكما". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ يَتَكَلَّمُ بِكَلَامٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا، وَإِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حُكْمًا".
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور باتیں کرنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بعض بیان جادو ہوتے ہیں اور بعض اشعار «حكم»۱؎(یعنی حکمت) پر مبنی ہوتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأدب 69 (2845)، سنن ابن ماجہ/الأدب 41 (3756)، (تحفة الأشراف: 6106)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/269، 309، 313، 327، 332) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہاں «حُکْم»، «حِکْمَتْ» کے معنی میں ہے جیسا کہ آیت کریمہ «وآتیناہ الحُکْمَ صبیّاً» میں ہے۔
Narrated Abdullah ibn Abbas: A desert Arab came to the Prophet ﷺ and began to speak. Thereupon the Messenger of Allah ﷺ said: In eloquence there is magic and in poetry there is wisdom.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4993
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن وللحديث شواھد انظر الحديثين السابقين (5009، 5010)
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى بن فارس، حدثنا سعيد بن محمد، حدثنا ابو تميلة، قال: حدثني ابو جعفر النحوي عبد الله بن ثابت , قال: حدثني صخر بن عبد الله بن بريدة، عن ابيه، عن جده، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن من البيان سحرا، وإن من العلم جهلا، وإن من الشعر حكما، وإن من القول عيالا" , فقال صعصعة بن صوحان: صدق نبي الله صلى الله عليه وسلم , اما قوله: إن من البيان سحرا، فالرجل يكون عليه الحق وهو الحن بالحجج من صاحب الحق، فيسحر القوم ببيانه فيذهب بالحق، واما قوله: إن من العلم جهلا، فيتكلف العالم إلى علمه ما لا يعلم فيجهله ذلك، واما قوله: إن من الشعر حكما، فهي هذه المواعظ والامثال التي يتعظ بها الناس، واما قوله: إن من القول عيالا، فعرضك كلامك وحديثك على من ليس من شانه ولا يريده. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ النَّحْوِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ثَابِتٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي صَخْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا، وَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ جَهْلًا، وَإِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حُكْمًا، وَإِنَّ مِنَ الْقَوْلِ عِيَالًا" , فقال صَعْصَعَةُ بْنُ صُوحَانَ: صَدَقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَمَّا قَوْلُهُ: إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا، فَالرَّجُلُ يَكُونُ عَلَيْهِ الْحَقُّ وَهُوَ أَلْحَنُ بِالْحُجَجِ مِنْ صَاحِبِ الْحَقِّ، فَيَسْحَرُ الْقَوْمَ بِبَيَانِهِ فَيَذْهَبُ بِالْحَقِّ، وَأَمَّا قَوْلُهُ: إِنَّ مِنَ الْعِلْمِ جَهْلًا، فَيَتَكَلَّفُ الْعَالِمُ إِلَى عِلْمِهِ مَا لَا يَعْلَمُ فَيُجَهِّلُهُ ذَلِكَ، وَأَمَّا قَوْلُهُ: إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حُكْمًا، فَهِيَ هَذِهِ الْمَوَاعِظُ وَالْأَمْثَالُ الَّتِي يَتَّعِظُ بِهَا النَّاسُ، وَأَمَّا قَوْلُهُ: إِنَّ مِنَ الْقَوْلِ عِيَالًا، فَعَرْضُكَ كَلَامَكَ وَحَدِيثَكَ عَلَى مَنْ لَيْسَ مِنْ شَأْنِهِ وَلَا يُرِيدُهُ.
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”بعض بیان یعنی گفتگو، خطبہ اور تقریر جادو ہوتی ہیں (یعنی ان میں جادو جیسی تاثیر ہوتی ہے)، بعض علم جہالت ہوتے ہیں، بعض اشعار حکمت ہوتے ہیں، اور بعض باتیں بوجھ ہوتی ہیں“۔ تو صعصہ بن صوحان بولے: اللہ کے نبی نے سچ کہا، رہا آپ کا فرمانا بعض بیان جادو ہوتے ہیں، تو وہ یہ کہ آدمی پر دوسرے کا حق ہوتا ہے، لیکن وہ دلائل (پیش کرنے) میں صاحب حق سے زیادہ سمجھ دار ہوتا ہے، چنانچہ وہ اپنی دلیل بہتر طور سے پیش کر کے اس کے حق کو مار لے جاتا ہے۔ اور رہا آپ کا قول ”بعض علم جہل ہوتا ہے“ تو وہ اس طرح کہ عالم بعض ایسی باتیں بھی اپنے علم میں ملانے کی کوشش کرتا ہے، جو اس کے علم میں نہیں چنانچہ یہ چیز اسے جاہل بنا دیتی ہے۔ اور رہا آپ کا قول ”بعض اشعار حکمت ہوتے ہیں“ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں کچھ ایسی نصیحتیں اور مثالیں ہوتی ہیں، جن سے لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں، رہا آپ کا قول کہ ”بعض باتیں بوجھ ہوتی ہیں“ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی بات یا اپنی گفتگو ایسے شخص پر پیش کرو جو اس کا اہل نہ ہو یا وہ اس کا خواہاں نہ ہو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 1979، 18817) (ضعیف)» (سند میں عبداللہ بن ثابت ابوجعفر مجہول اور صخر بن عبداللہ لین الحدیث ہیں)
Narrated Buraydah ibn al-Hasib: I heard the Messenger of Allah ﷺ say: In eloquence there is magic, in knowledge ignorance, in poetry wisdom, and in speech heaviness. Sa'sa'ah ibn Suhan said: The Prophet of Allah ﷺ spoke the truth. His statement "In eloquence there is magic" means: (For example), there is a right due from a man who is more eloquent in reasoning than the man who is demanding his right. He (the defendant) charms the people by his speech and takes away his right. His statement "In knowledge there is ignorance" means: A scholar brings to his knowledge what he does not know, and thus he becomes ignorant of that. His statement "In poetry there is wisdom" means: These are the sermons and examples by which people receive admonition. His statement "In speech there is heaviness" means: That you present your speech and your talk to a man who is not capable of understanding it, and who does not want it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4994
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عبداﷲ بن ثابت النحوي: مجهول(تق: 3241) وشيخه صخر بن عبداﷲ مقبول (تقريب التهذيب: 2906) أي مجهول الحال انوار الصحيفه، صفحه نمبر 174