سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
94. باب مَا جَاءَ فِي الْمُتَشَدِّقِ فِي الْكَلاَمِ
باب: ٹر ٹر باتیں کرنے والے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5007
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ:" قَدِمَ رَجُلَانِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَخَطَبَا فَعَجِبَ النَّاسُ يَعْنِي لِبَيَانِهِمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسِحْرًا، أَوْ إِنَّ بَعْضَ الْبَيَانِ لَسِحْرٌ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ دو آدمی ۱؎ پورب سے آئے تو ان دونوں نے خطبہ دیا، لوگ حیرت میں پڑ گئے، یعنی ان کے عمدہ بیان سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بعض تقریریں جادو ہوتی ہیں ۲؎ یعنی سحر کی سی تاثیر رکھتی ہیں“ راوی کو شک ہے کہ «إن من البيان لسحرا» کہا یا «إن بعض البيان لسحر» کہا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 47 (5146)، الطب 51 (5767)، سنن الترمذی/البر والصلة 81 (2029)، (تحفة الأشراف: 6727)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/16، 59، 62، 94، 4/263) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ان دونوں آدمیوں کے نام زبرقان بن بدر اور عمرو بن اہتم تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کی آمد کا وواقعہ ۹ ھ کا ہے۔
۲؎: یہ خوبی اگر حق کی طرف پھیرنے کے لئے ہو تو ممدوح ہوتی ہے اور اگر باطل کی طرف پھیرنے کے لئے ہو تو مذموم۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5767)
مشكوة المصابيح (4887)
و للحديث شاھد حسن عند الطبراني في الكبير (1/ 240 ح 662)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 5007 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5007
فوائد ومسائل:
یہ حدیث جوامع الکلم کی ایک عمدہ مثال ہے۔
علمائے اسلام کے ایک طبقے نے اسے بیان کی طرح قرار دیا ہے اور دوسرے نے اس سے مذمت کے معنی سمجھے ہیں جبکہ حقیقت ان دونوں کے بین بین ہے۔
گفتگو خطاب یا تحریر میں بیان اپنے عرفی اور اصطلاحی ہر دو معانی میں ایک صاحب علم کے لیے انتہائی اہم عمدہ اور مطلوب صفت ہے۔
تمام انبیائے کرام اس وصف سے موصوف تھے اور یہی وجہ تھی کہ لوگ انہیں ساحر اور ان کے مضامین دعوت کو سحر کہتے تھے کہ اس میں ان کے لئے انکار کو کوئی چارا نہ تھا۔
اور یہی معاملہ وارثین انبیاء علمائے کرام کا ہے کہ وہ اس وصف کو دعوت دین میں استعمال کریں اور نوآموز اس کی بخوبی مشق بہم پہنچائیں۔
لیکن جہاں معاملہ حد سے بڑھ کر محض مبالغہ آرائی زبان آوری اور حقائق کو مسخ کرنے اور الفاظ سے کھیلنے کا ہو تو، ناجائز اور قابل مذمت ہے جیسے اوپر کی حدیث میں گزرا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5007
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5146
´(عقد سے پہلے) نکاح کا خطبہ پڑھنا`
«. . . عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: جَاءَ رَجُلَانِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَخَطَبَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا . . .»
”. . . زید بن اسلم نے کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ دو آدمی مدینہ کے مشرق کی طرف سے آئے، وہ مسلمان ہو گئے اور خطبہ دیا، نہایت فصیح و بلیغ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ بعض تقریر جادو کی اثر کرتی ہے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ: 5146]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5146 کا باب: «بَابُ الْخُطْبَةِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمہ الباب اور حدیث میں یہاں مناسبت انتہائی مشکل ہے , کیونکہ باب میں خطبہ کا ذکر ہے اور تہت الباب خطبہ کا کوئی ذکر نہیں ہے، لہٰذا باب اور حدیث میں مناسبت کس طرح سے قائم ہو گی؟
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ترجمہ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ یوں ہو گی کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا ہے خطبہ کی جانب جو نکاح سے قبل ہوتا ہے اور وہ مشروع ہے اور (یہ خطبہ) متوسط ہو اور خطبہ اس چیز کا تقاضہ نہ کرے کہ حق کو پھیر دے باطل کی طرف (جس طرح سحر باطل ہوتا ہے)۔“
یعنی خطبہ نکاح سحر کی طرح نہ ہو، لیکن اس کی خوش بیانی اتنی اچھی ہو کہ بندہ اس سے متاثر ہو جائے۔
حافظ صاحب مزید لکھتے ہیں کہ:
”اس حدیث کو اس ترجمۃ الباب میں ذکر کر کے امام بخاری رحمہ اللہ نے نکاح میں خطبہ کی مشروعیت کی حکمت اور وجہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے، حدیث میں وارد ہے کہ بعض بیانات میں جادو ہوتا ہے، انسان اس سے ایک دم متاثر ہو جاتا ہے اور چونکہ نکاح کے وقت بھی اولیاء کو اپنی بچی کی رخصتی پر جدائی کا غم لاحق ہوتا ہے تو خطبہ نکاح مشروع کر دیا گیا، تاکہ اس کے ذریعے سے متاثر ہو کر اولیاء کا طبی تاثر ختم ہو جائے۔“ [فتح الباري 173/10]
محمد داود راز رحمہ اللہ شارح بخاری فرماتے ہیں:
”یہ حدیث لا کر امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ نکاح کا خطبہ صاف صاف متوسط تقریر میں ہونا چاہیے، نہ یہ کہ بڑے تکلف اور خوش تقریری کے ساتھ جس سے سامعین پر جادو کا سا اثر ہو۔“ [شرح صحيح بخاري محمد داود راز 552/6]
فیض الباری میں انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ:
«وهى مستحبة، الا أن الحديث فيه ليس على شرطه فأتي بحديث فى الجنس.» [فيض الباري: 441/5]
”امام بخاری رحمہ اللہ کو خطبہ نکاح کے بارے میں ایسی کوئی حدیث نہیں ملی جو کہ آپ کی شرط کے مطابق ہو، لہٰذا اسی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث باب کا ذکر فرمایا ہے، کیونکہ اس میں جنس خطبہ کا ذکر موجود ہے۔
لہٰذا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کی مناسبت زیادہ قریب تر ہے ترجمہ الباب کے مقصد کے۔
فائدہ:
یہ دونوں اشخاص جو مدینہ کے مشرق کی جانب سے آئے تھے، ان کا نام الزبرقان بن بدر اور دوسرے کا نام عمرو بن الاھتم تھا، یہ لوگ سن 9 ہجری میں وفد بنی تمیم میں تھے۔ [التوضيح: 444/24]
ان کے بارے میں امام بیہقی رحمہ اللہ نے ایک واقعہ میں نقل فرمایا ہے آپ ذکر فرماتے ہیں کہ:
«عن عبدالله بن عباس قال: جلس الى رسول الله صلى الله عليه وسلم قيس بن عاصم، والزبرقان بن بدر و عمرو بن الاهتم التميميون، فخر الزبرقان، فقال: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم انا سعيد تميم والمطاح فيهم والمجاب امنعهم من الظلم واٰخزلهم بحقوقهم وهذا يعلم ذلك يعني عمرو بن الاهتم، فقال عمرو بن الاهتم انه لشديد العارضة مانع لجانبه مطاع فى أذنبة فقال الذبرقان بن بدر، والله يا رسول الله صلى الله عليه وسلم لقد علم مني غير ما قال، وما منعه ان يتكلم الا الحسد، فقال عمرو بن الاهتم انا احسدك فو الله انك لثيم الخال، حديث المال، احمق الولد، مضيع فى العشيره، والله يا رسول الله صلى الله عليه وسلم لقد صدقت فيما قلت اولاً، و ما كذبت قلت اخراً، ولكني رجل اذا رضيت قلت احسن.....» [دلائل النبوة للبيهقي: 316/5]
”سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قیس بن عاصم، زبرقان اور عمرو بن الاھتم یہ سارے تمیمی آ کر بیٹھے اور زبرقان نے فخر کیا اور کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بنو تمیم کا سردار ہوں، میری اطاعت کی جاتی ہے ان میں اور میری ہر بات کو قبول کیا جاتا ہے، میں انہیں ظلم سے بچاتا ہوں اور ان کے حقوق لے کر دیتا ہوں اور یہ شخص بھی اس بات کو جانتا ہے، یعنی عمرو بن الاھتم، اسی دوران عمرو بن الاھتم نے کہا کہ واقعی یہ سخت مقابلہ ہے، اپنی جانب دفاع کرنے والا ہے، اپنی قوم میں سردار ہے، زبرقان نے کہا: اللہ کی قسم! یا رسول اللہ! البتہ تحقیق یہ میرے بارے میں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ جانتا ہے جو کچھ اس نے کہا ہے اس کو بتانے سے کوئی چیز مانع نہیں ہے، بتانے سے مگر جسے عمرو نے کہا، میں، تم سے حسد کروں؟ اللہ کی قسم بےشک تولئیم الخال ہے، حدیث المال ہے، احمق الولد ہے، کمینے قبیلے وضیع ہے، اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول! میں نے سچ کہا ہے، جو کچھ کہا ہے، پہلے بھی اور آخر میں بھی سچ ہی کہا ہے، لیکن میں ایک ایسا آدمی ہوں جب میں راضی ہوتا ہوں تو میں احسن بات کہتا ہوں جو مجھے معلوم ہوتی ہے اور جب میں ناراض ہوتا ہوں تو سب سے زیادہ قبیح بات بتاتا ہوں جو میں پاتا ہوں اللہ جانتا ہے میں نے پہلی مرتبہ بھی سچ کہا تھا اور دوسری مرتبہ بھی سب کچھ سچ کہا ہے، (یہ سن کر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بیان جادو ہے، یہ بیان جادو ہے۔“
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 90
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2028
´کچھ باتیں جادو کی سی اثر رکھتی ہیں۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دو آدمی آئے ۱؎ اور انہوں نے تقریر کی، لوگ ان کی تقریر سن کر تعجب کرنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”کچھ باتیں جادو ہوتی ہیں“ ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 2028]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎: 9 ھ میں بنو تمیم کے وفد میں یہ دونوں شامل تھے،
ان میں سے ایک کا نام زبرقان اور دوسرے کا نام عمرو بن اہیم تھا۔
؎:
اگر حق کی دفاع اور اخروی زندگی کی کامیابی سے متعلق اسی طرح کی خوبی کسی میں ہے تو قابل تعریف ہے،
اور اگر باطل کی طرف پھیرنے کے لیے ہے تو لائق مذمت ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2028
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5146
5146. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ دو آدمی مشرق کی جانب سے آئے اور ان دونوں نے (مؤثر) خطبہ پڑھا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”بعض بیان جادو اثر ہوتے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5146]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث لا کر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ نکاح کا خطبہ صاف صاف متوسط تقریر میں ہونا چاہئے نہ یہ کہ بڑے تکلف اور خوش تقریری کے ساتھ جس سے سامعین پر جادو کا اثر ہو اور خطبہ نکاح کے باب میں صریح حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی ہے جسے اصحاب سنن نے روایت کیا ہے لیکن حضرت امام بخاری رحمہ اللہ شاید اپنی شرط پر نہ ہونے سے اسے نہ لا سکے نکاح کا خطبہ مشہور یہ ہے:
الحَمدُ لله نحمده نستعينُه و نَستغفِرُه، ونؤمن و نتوکل علیه و نعوذُ به من شُرورِ أنفُسِنا، مَن يهدِ اللهُ فلا مُضِلَّ له، ومن يُضلِلْ فلا هادِيَ له، وأشهَدُ أنْ لا إلهَ إلَّا اللهُ، وأشهَدُ أنَّ مُحمَّدًا عَبدُه ورَسولُه، يا أيُّها الذين آمَنوا اتَّقُوا اللَّهَ الَّذي تَساءَلونَ به والأرْحامَ إنَّ اللَّهَ كان عليكم رَقيبًا، يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ [آل عمران: 102]، يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا * يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا)
۔
تک پڑھ کر پھر قاضی ایجاب و قبول کرائے۔
(خطبہ میں مذکور لفظ ونؤمن و نتوکل علیه محل نظر ہیں یعنی یہ لفظ سنداً ثابت نہیں ہیں۔
اس طرح دوسری آیت جس سے سورۃ نساء کا آغاز ہوتا ہے، وہ پوری پڑھنی چاہیئے واللہ أعلم بالصواب۔
عبدالرشید تونسوی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5146
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5146
5146. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ دو آدمی مشرق کی جانب سے آئے اور ان دونوں نے (مؤثر) خطبہ پڑھا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”بعض بیان جادو اثر ہوتے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5146]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان میں سے ایک کا نام زبرقان بن بدر اور دوسرے کا عمرو بن اہتم تھا۔
یہ دونوں بنو تمیم سے قبیلے سےتعلق رکھتے تھے۔
وہ نو ہجری میں مدینہ طیبہ آئے اور ان کا خطبہ کمال فصاحت و بلاغت پر مشتمل تھا۔
(عمدة القاري: 98/14)
یہ دونوں حضرات اپنی کسی ضرورت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حاجت کے وقت خطبہ پڑھنا عرب کے ہاں ایک قدیم رسم ہے تاکہ لوگوں کے دل مائل ہوں، غالباً اس لیے عقد نکاح کے وقت خطبہ خطبہ پڑھا جاتا ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے اشارہ فرمایا ہے کہ خطبۂ نکاح بھی صاف صاف اور متوسط ہونا چاہیے۔
اس میں تکلف اور بناوٹ وغیرہ نہ ہو۔
اس سے مقصود کسی باطل کو ثابت کرنا نہ ہوجیسا کہ قوت گویائی میں ماہر لوگ کرتے ہیں۔
عقد نکاح کے وقت خطبے کا مقصد یہ ہو کہ لوگوں کے دل مانوس ہوں اور ان میں نفرت کے جذبات پیدا نہ ہوں۔
ایسے مواقع پر اچھا کلام باعث مسرت اور اثر انگیز ہوتا ہے۔
اس میں نکاح کی اہمیت و افادیت اور معاشرتی زندگی کے اصول و ضوابط بیان کیے جائیں۔
خطبۂ نکاح میں جن آیات قرآنیہ کا انتخاب کیا جاتا ہے ان میں یہی معاشرتی اصول بیان ہوئے ہیں۔
ہم ایسے موقع پر ان اصولوں کی خوب وضاحت کرتے ہیں۔
وہ اصول حسب ذیل ہیں:
٭ ہر موقع پر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔
(آل عمران: 102)
٭ صلہ رحمی کی عادت اختیار کی جائے۔
(النساء: 1)
٭قول و گفتار میں دوغلہ پن نہ ہو بلکہ وہ قول سدید پر مشتمل ہو۔
(الأحزاب: 70)
٭کتب حدیث میں یہ خطبہ "خطبة الحاجة'' کے نام سے مروی ہے۔
(جامع الترمذي، النکاح، حدیث: 1105) (3)
نکاح کے وقت خطبہ ضرروری نہیں کہ اس کے بغیر نکاح نہ ہوتا ہو بلکہ اہل علم نے اسے مستحب قرار دیا ہے۔
والله اعلم حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بعض اہل ظاہر کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کے ہاں نکاح کے لیے خطبہ شرط ہے اور اس کے بغیر نکاح نہیں ہوتا لیکن یہ قول شاذ اور خلاف عقل و نقل ہے۔
(فتح الباري: 253/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5146