سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
95. باب مَا جَاءَ فِي الشِّعْرِ
باب: شعر کا بیان۔
حدیث نمبر: 5012
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ النَّحْوِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ثَابِتٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي صَخْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا، وَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ جَهْلًا، وَإِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حُكْمًا، وَإِنَّ مِنَ الْقَوْلِ عِيَالًا" , فقال صَعْصَعَةُ بْنُ صُوحَانَ: صَدَقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَمَّا قَوْلُهُ: إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا، فَالرَّجُلُ يَكُونُ عَلَيْهِ الْحَقُّ وَهُوَ أَلْحَنُ بِالْحُجَجِ مِنْ صَاحِبِ الْحَقِّ، فَيَسْحَرُ الْقَوْمَ بِبَيَانِهِ فَيَذْهَبُ بِالْحَقِّ، وَأَمَّا قَوْلُهُ: إِنَّ مِنَ الْعِلْمِ جَهْلًا، فَيَتَكَلَّفُ الْعَالِمُ إِلَى عِلْمِهِ مَا لَا يَعْلَمُ فَيُجَهِّلُهُ ذَلِكَ، وَأَمَّا قَوْلُهُ: إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حُكْمًا، فَهِيَ هَذِهِ الْمَوَاعِظُ وَالْأَمْثَالُ الَّتِي يَتَّعِظُ بِهَا النَّاسُ، وَأَمَّا قَوْلُهُ: إِنَّ مِنَ الْقَوْلِ عِيَالًا، فَعَرْضُكَ كَلَامَكَ وَحَدِيثَكَ عَلَى مَنْ لَيْسَ مِنْ شَأْنِهِ وَلَا يُرِيدُهُ.
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”بعض بیان یعنی گفتگو، خطبہ اور تقریر جادو ہوتی ہیں (یعنی ان میں جادو جیسی تاثیر ہوتی ہے)، بعض علم جہالت ہوتے ہیں، بعض اشعار حکمت ہوتے ہیں، اور بعض باتیں بوجھ ہوتی ہیں“۔ تو صعصہ بن صوحان بولے: اللہ کے نبی نے سچ کہا، رہا آپ کا فرمانا بعض بیان جادو ہوتے ہیں، تو وہ یہ کہ آدمی پر دوسرے کا حق ہوتا ہے، لیکن وہ دلائل (پیش کرنے) میں صاحب حق سے زیادہ سمجھ دار ہوتا ہے، چنانچہ وہ اپنی دلیل بہتر طور سے پیش کر کے اس کے حق کو مار لے جاتا ہے۔ اور رہا آپ کا قول ”بعض علم جہل ہوتا ہے“ تو وہ اس طرح کہ عالم بعض ایسی باتیں بھی اپنے علم میں ملانے کی کوشش کرتا ہے، جو اس کے علم میں نہیں چنانچہ یہ چیز اسے جاہل بنا دیتی ہے۔ اور رہا آپ کا قول ”بعض اشعار حکمت ہوتے ہیں“ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں کچھ ایسی نصیحتیں اور مثالیں ہوتی ہیں، جن سے لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں، رہا آپ کا قول کہ ”بعض باتیں بوجھ ہوتی ہیں“ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی بات یا اپنی گفتگو ایسے شخص پر پیش کرو جو اس کا اہل نہ ہو یا وہ اس کا خواہاں نہ ہو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 1979، 18817) (ضعیف)» (سند میں عبداللہ بن ثابت ابوجعفر مجہول اور صخر بن عبداللہ لین الحدیث ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
عبداﷲ بن ثابت النحوي: مجهول(تق: 3241) وشيخه صخر بن عبداﷲ مقبول (تقريب التهذيب: 2906) أي مجهول الحال
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 174