(مرفوع) حدثنا سليمان بن داود المهري، اخبرنا ابن وهب، حدثني سبرة بن عبد العزيز بن الربيع الجهني، عن ابيه، عن جده، ان النبي صلى الله عليه وسلم نزل في موضع المسجد تحت دومة، فاقام ثلاثا ثم خرج إلى تبوك وإن جهينة لحقوه بالرحبة فقال لهم:" من اهل ذي المروة؟ فقالوا: بنو رفاعة من جهينة فقال: قد اقطعتها لبني رفاعة فاقتسموها فمنهم من باع ومنهم من امسك فعمل"، ثم سالت اباه عبد العزيز عن هذا الحديث، فحدثني ببعضه ولم يحدثني به كله. (مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي سَبْرَةُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ الرَّبِيعِ الْجُهَنِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ فِي مَوْضِعِ الْمَسْجِدِ تَحْتَ دَوْمَةٍ، فَأَقَامَ ثَلَاثًا ثُمَّ خَرَجَ إِلَى تَبُوكَ وَإِنَّ جُهَيْنَةَ لَحِقُوهُ بِالرَّحْبَةِ فَقَالَ لَهُمْ:" مَنْ أَهْلُ ذِي الْمَرْوَةِ؟ فَقَالُوا: بَنُو رِفَاعَةَ مِنْ جُهَيْنَةَ فَقَالَ: قَدْ أَقْطَعْتُهَا لِبَنِي رِفَاعَةَ فَاقْتَسَمُوهَا فَمِنْهُمْ مَنْ بَاعَ وَمِنْهُمْ مَنْ أَمْسَكَ فَعَمِلَ"، ثُمَّ سَأَلْتُ أَبَاهُ عَبْدَ الْعَزِيزِ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَحَدَّثَنِي بِبَعْضِهِ وَلَمْ يُحَدِّثْنِي بِهِ كُلِّهِ.
ربیع جہنی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ جہاں اب مسجد ہے ایک بڑے درخت کے نیچے پڑاؤ کیا، وہاں تین دن قیام کیا، پھر تبوک ۱؎ کے لیے نکلے، اور جہینہ کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک وسیع میدان میں جا کر ملے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ”مروہ والوں میں سے یہاں کون رہتا ہے؟“، لوگوں نے کہا: بنو رفاعہ کے لوگ رہتے ہیں جو قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:،، میں یہ زمین (علاقہ) بنو رفاعہ کو بطور جاگیر دیتا ہوں تو انہوں نے اس زمین کو آپس میں بانٹ لیا، پھر کسی نے اپنا حصہ بیچ ڈالا اور کسی نے اپنے لیے روک لیا، اور اس میں محنت و مشقت (یعنی زراعت) کی۔ ابن وہب کہتے ہیں: میں نے پھر اس حدیث کے متعلق سبرہ کے والد عبدالعزیز سے پوچھا تو انہوں نے مجھ سے اس کا کچھ حصہ بیان کیا پورا بیان نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3812) (ضعیف)» (ربیع جہنی تابعی ضعیف ہیں، اور حدیث مرسل ہے، ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود 2/457)
وضاحت: ۱؎: تبوک مدینہ سے شمال شام کی طرف ایک جگہ کا نام ہے، جہاں نو ہجری میں لشکر اسلام گیا تھا۔
Narrated Saburah ibn Mabad al-Juhani: The Prophet ﷺ alighted at a place where a mosque has been built under a large tree. He tarried there for three days, and then proceeded to Tabuk. Juhaynah met him on a wide plain. He asked them: who are the people of Dhul-Marwah? They replied: Banu Rifaah of Juhaynah. He said: I have given this (land) to Banu Rifaah as a fief. Therefore, they divided it. Some of them sold (their share) and others retained and worked on it. (Sub-narrator Ibn Wahab said: I then asked Abdul Aziz about this tradition. He narrated a part of it to me and did not narrate it in full.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3062
قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عبدالعزيز بن الربيع بن سبرة: لم يسمع من جده لأنه من الطبقة السابعة انظر التقريب (4091) واللّٰه أعلم انوار الصحيفه، صفحه نمبر 113
اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ (اسماء رضی اللہ عنہا کے خاوند ہیں) کو کھجور کے کچھ درخت بطور جاگیر عنایت فرمائی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15732)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/فرض الخمس 19 (2815)، مسند احمد (6/347) (حسن صحیح)»
(مرفوع) حدثنا حفص بن عمر، وموسى بن إسماعيل، المعنى واحد قالا: حدثنا عبد الله بن حسان العنبري، حدثتني جدتاي صفية، ودحيبة ابنتا عليبة وكانتا ربيبتي قيلة بنت مخرمة، وكانت جدة ابيهما انها اخبرتهما، قالت: قدمنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: تقدم صاحبي تعني حريث بن حسان وافد بكر بن وائل فبايعه على الإسلام عليه وعلى قومه ثم قال: يا رسول الله اكتب بيننا وبين بني تميم بالدهناء ان لا يجاوزها إلينا منهم احد إلا مسافر او مجاور، فقال:" اكتب له يا غلام بالدهناء، فلما رايته قد امر له بها شخص بي وهي وطني وداري، فقلت: يا رسول الله إنه لم يسالك السوية من الارض إذ سالك إنما هي هذه الدهناء عندك مقيد الجمل ومرعى الغنم ونساء بني تميم وابناؤها وراء ذلك، فقال: امسك يا غلام صدقت المسكينة المسلم اخو المسلم يسعهما الماء والشجر ويتعاونان على الفتان". (مرفوع) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، الْمَعْنَى وَاحِدٌ قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَسَّانَ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَتْنِي جَدَّتَايَ صَفِيَّةُ، وَدُحَيْبَةُ ابْنَتَا عُلَيْبَةَ وَكَانَتَا رَبِيبَتَيْ قَيْلَةَ بِنْتِ مَخْرَمَةَ، وَكَانَتْ جَدَّةَ أَبِيهِمَا أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُمَا، قَالَتْ: قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: تَقَدَّمَ صَاحِبِي تَعْنِي حُرَيْثَ بْنَ حَسَّانَ وَافِدَ بَكْرِ بْنِ وَائِلٍ فَبَايَعَهُ عَلَى الإِسْلَامِ عَلَيْهِ وَعَلَى قَوْمِهِ ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اكْتُبْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ بَنِي تَمِيمٍ بِالدَّهْنَاءِ أَنْ لَا يُجَاوِزَهَا إِلَيْنَا مِنْهُمْ أَحَدٌ إِلَّا مُسَافِرٌ أَوْ مُجَاوِرٌ، فَقَالَ:" اكْتُبْ لَهُ يَا غُلَامُ بِالدَّهْنَاءِ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُ قَدْ أَمَرَ لَهُ بِهَا شُخِصَ بِي وَهِيَ وَطَنِي وَدَارِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ لَمْ يَسْأَلْكَ السَّوِيَّةَ مِنَ الأَرْضِ إِذْ سَأَلَكَ إِنَّمَا هِيَ هَذِهِ الدَّهْنَاءُ عِنْدَكَ مُقَيَّدُ الْجَمَلِ وَمَرْعَى الْغَنَمِ وَنِسَاءُ بَنِي تَمِيمٍ وَأَبْنَاؤُهَا وَرَاءَ ذَلِكَ، فَقَالَ: أَمْسِكْ يَا غُلَامُ صَدَقَتِ الْمِسْكِينَةُ الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ يَسَعُهُمَا الْمَاءُ وَالشَّجَرُ وَيَتَعَاوَنَانِ عَلَى الْفَتَّانِ".
عبداللہ بن حسان عنبری کا بیان ہے کہ مجھ سے میری دادی اور نانی صفیہ اور دحیبہ نے حدیث بیان کی یہ دونوں علیبہ کی بیٹیاں تھیں اور قیلہ بنت مخرمہ رضی اللہ عنہا کی پروردہ تھیں اور قیلہ ان دونوں کے والد کی دادی تھیں، قیلہ نے ان سے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ہمارا ساتھی حریث بن حسان جو بکر بن وائل کی طرف پیامبر بن کر آیا تھا ہم سے آگے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا، اور آپ سے اسلام پر اپنی اور اپنی قوم کی طرف سے بیعت کی پھر عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے اور بنو تمیم کے درمیان دہناء ۱؎ کو سرحد بنا دیجئیے، مسافر اور پڑوسی کے سوا اور کوئی ان میں سے آگے بڑھ کر ہماری طرف نہ آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے غلام! دہناء کو انہیں لکھ کر دے دو“، قیلہ کہتی ہیں: جب میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دہناء انہیں دے دیا تو مجھے اس کا ملال ہوا کیونکہ وہ میرا وطن تھا اور وہیں میرا گھر تھا، میں نے کہا: اللہ کے رسول! انہوں نے اس زمین کا آپ سے مطالبہ کر کے مبنی پر انصاف مطالبہ نہیں کیا ہے، دہناء اونٹوں کے باندھنے کی جگہ اور بکریوں کی چراگاہ ہے اور بنی تمیم کی عورتیں اور بچے اس کے پیچھے رہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے غلام رک جاؤ! (مت لکھو) بڑی بی صحیح کہہ رہی ہیں، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ایک دوسرے کے درختوں اور پانی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور مصیبتوں و فتنوں میں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے اور کام آ سکتے ہیں“۔
Narrated Qaylah bint Makhramah: Abdullah ibn Hasan al-Anbari said: My grandmothers, Safiyyah and Duhaybah, narrated to me, that hey were the daughters of Ulaybah and were nourished by Qaylah, daughter of Makhramah. She was the grandmother of their father. She reported to them, saying: We came upon the Messenger of Allah ﷺ. My companion, Hurayth ibn Hassan, came to him as a delegate from Bakr ibn Wail. He took the oath of allegiance of Islam for himself and for his people. He then said: Messenger of Allah ﷺ, write a document for us, giving us the land lying between us and Banu Tamim at ad-Dahna' to the effect that not one of them will cross it in our direction except a traveller or a passer-by. He said: Write down ad-Dahna' for them, boy. When I saw that he passed orders to give it to him, I became anxious, for it was my native land and my home. I said: Messenger of Allah, he did not ask you for a true border when he asked you. This land of Dahna' is a place where the camels have their home, and it is a pasture for the sheep. The women of Banu Tamim and their children are beyond it. He said: Stop, boy! A poor woman spoke the truth: a Muslim is a brother of a Muslim. Each one of them may benefit from water and trees, and they should cooperate with each other against Satan.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3064
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (2814) والحديث الآتي (4847) صفية بنت عليبة: مجهولة كما في التحرير (8626) وأختھا دحيبة: مثلھا (التحرير: 8579) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 113
اسمر بن مضرس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے آپ سے بیعت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی ایسے پانی (چشمے یا تالاب) پر پہنچ جائے (یعنی اس کا کھوج لگا لے) جہاں اس سے پہلے کوئی اور مسلمان نہ پہنچا ہو تو وہ اس کا ہے“، (یعنی وہ اس کا مالک و مختار ہو گا)(یہ سن کر) لوگ دوڑتے اور نشان لگاتے ہوئے چلے (تاکہ نشانی رہے کہ ہم یہاں تک آئے تھے)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 145) (ضعیف)» (یہ سند مسلسل بالمجاہیل ہے: ام الجنوب سویدة اور عقیلہ سب مجہول ہیں اور عبد الحمید لین الحدیث ہیں)
Narrated Asmar ibn Mudarris: I came to the Prophet ﷺ, and took the oath of allegiance to him. He said: If anyone reaches a water which has not been approached before by any Muslim, it belongs to him. The people, therefore, went out running and marking (on the land).
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3065
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سويدة: لا تعرف،عقيلة بنت أسمر لا يعرف حالھا،أم جنوب: لا يعرف حالھا (تقريب التهذيب:8613،8641،8712) فالسند مظلم انوار الصحيفه، صفحه نمبر 113
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کو اتنی زمین جاگیر میں دی جہاں تک ان کا گھوڑا دوڑ سکے، تو زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنا گھوڑا دوڑایا اور جہاں گھوڑا رکا اس سے آگے انہوں نے اپنا کوڑا پھینک دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دے دو زبیر کو جہاں تک ان کا کوڑا پہنچا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 7729)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/156) (ضعیف الإسناد)» (اس کے راوی عبد اللہ بن عمر ضعیف ہیں)
Narrated Abdullah ibn Umar: The Prophet ﷺ gave az-Zubayr the land as a fief up to the reach of his horse when he runs. He, therefore, made his horse run until it stopped. He then threw his flog. Thereupon he said: Give him (the land) up to the point where his flog has reached.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3066
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (2998) عبد الله العمري حسن الحديث عن نافع و ضعيف الحديث عن غيره
سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بنجر زمین کو آباد کرے تو وہ اسی کا ہے (وہی اس کا مالک ہو گا) کسی اور ظالم شخص کی رگ کا حق نہیں ہے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأحکام 38 (1378)، (تحفة الأشراف: 19043، 4463)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة 24 (26) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی کوئی ظالم اس کی آباد اور قابل کاشت بنائی ہوئی زمین کو چھین نہیں سکتا۔
(مرفوع) حدثنا هناد بن السري، حدثنا عبدة، عن محمد يعني ابن إسحاق، عن يحيى بن عروة، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" من احيا ارضا ميتة فهي له" وذكر مثله، قال: فلقد خبرني الذي حدثني هذا الحديث، ان رجلين اختصما إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم غرس احدهما نخلا في ارض الآخر فقضى لصاحب الارض بارضه وامر صاحب النخل ان يخرج نخله منها، قال: فلقد رايتها وإنها لتضرب اصولها بالفؤوس وإنها لنخل عم حتى اخرجت منها. (مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاق، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيْتَةً فَهِيَ لَهُ" وَذَكَرَ مِثْلَهُ، قَالَ: فَلَقَدْ خَبَّرَنِي الَّذِي حَدَّثَنِي هَذَا الْحَدِيثَ، أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَرَسَ أَحَدُهُمَا نَخْلًا فِي أَرْضِ الآخَرِ فَقَضَى لِصَاحِبِ الأَرْضِ بِأَرْضِهِ وَأَمَرَ صَاحِبَ النَّخْلِ أَنْ يُخْرِجَ نَخْلَهُ مِنْهَا، قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُهَا وَإِنَّهَا لَتُضْرَبُ أُصُولُهَا بِالْفُؤُوسِ وَإِنَّهَا لَنَخْلٌ عُمٌّ حَتَّى أُخْرِجَتْ مِنْهَا.
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بنجر زمین کو آباد کرے تو وہ زمین اسی کی ہے“۔ پھر راوی نے اس کے مثل ذکر کیا، راوی کہتے ہیں: جس نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی اسی نے یہ بھی ذکر کیا کہ دو شخص اپنا جھگڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر گئے ایک نے دوسرے کی زمین میں کھجور کے درخت لگا رکھے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو اس کی زمین دلا دی، اور درخت والے کو حکم دیا کہ تم اپنے درخت اکھاڑ لے جاؤ میں نے دیکھا کہ ان درختوں کی جڑیں کلہاڑیوں سے کاٹی گئیں اور وہ زمین سے نکالی گئیں، حالانکہ وہ لمبے اور گنجان پورے پورے درخت ہو گئے تھے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 4463) (حسن)» (پچھلی روایت سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے ورنہ یہ روایت مرسل ہے)
Narrated Urwah: The Prophet ﷺ said: If anyone brings barren land into cultivation, it belong to him. He then transmitted a similar tradition mentioned above (No. 3067). He (Urwah) said: One who transmitted this tradition to me said that two persons brought their dispute to the Messenger of Allah ﷺ. One of them grew palm trees in the land of the other. He decided to return the land to its owner of the palm-trees to remove his palm-trees. He said: I saw when their roots were being struck with axes. The trees were fully grown up, but they were removed from there.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3068
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف محمد بن إسحاق عنعن والحديث السابق (الأصل: 3073) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 113
(مرفوع) حدثنا احمد بن سعيد الدارمي، حدثنا وهب، عن ابيه، عن ابن إسحاق، بإسناده ومعناه، إلا انه قال عند قوله مكان الذي حدثني هذا، فقال رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، واكثر ظني انه ابو سعيد الخدري، فانا رايت الرجل يضرب في اصول النخل. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا وَهْبٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقِ، بِإِسْنَادِه وَمَعْنَاهُ، إلا أَنَّهُ قَالَ عِنْدَ قَوْلِهِ مَكَانَ الَّذِي حَدَّثَنِي هَذَا، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَكْثَرُ ظَنِّي أَنَّهُ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ، فَأَنَا رَأَيْتُ الرَّجُلَ يَضْرِبُ فِي أُصُولِ النَّخْلِ.
ابن اسحاق اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں مگر اس میں «الذي حدثني هذا» کی جگہ یوں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک شخص نے کہا: میرا گمان غالب یہ ہے کہ وہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رہے ہوں گے کہ میں نے اس آدمی کو دیکھا کہ وہ اپنے درختوں کی جڑیں کاٹ رہا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: (3073)، (تحفة الأشراف: 4463) (حسن)» (حدیث نمبر:3073 سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے ورنہ یہ حدیث مرسل ہے)
The tradition mentioned above has also been transmitted by Ibn Ishaq through a different chain of narrators and to the same effect. Instead of the phrase “one who transmitted this tradition to me” this version has “A man from among the Companions of the Prophet ﷺ and probably he was Abu Saeed Al Khudri. I saw the man striking at the roots of the palm trees. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3069
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف انظر الحديث السابق (3074) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 113
عروہ کہتے ہیں کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فیصلہ) فرمایا ہے کہ زمین اللہ کی ہے اور بندے بھی سب اللہ کے بندے ہیں اور جو شخص کسی بنجر زمین کو آباد کرے تو وہ اس زمین کا زیادہ حقدار ہے، یہ حدیث ہم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے ان لوگوں نے بیان کی ہے جنہوں نے آپ سے نماز کی روایت کی ہے۔
Narrated Urwah: I testify that the Messenger of Allah ﷺ decided that the land is the land of Allah, and the servants are the servants of Allah. If anyone brings barren land into cultivation, he has more right to it. This tradition has been transmitted to us from the Prophet ﷺ by those who transmitted the traditions about prayer from him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3070
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف مرسل وحديث السابق (3073) يغني عنه (معاذ علي زئي) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 113
سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی بنجر زمین پر دیوار کھڑی کرے تو وہی اس زمین کا حقدار ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 4596)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/12، 21) (ضعیف)» (حسن بصری اور قتادہ مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں)