عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سوار شیطان ہے اور دو سوار دو شیطان ہیں، اور تین سوار قافلہ ہیں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الجھاد 4 (1674)، (تحفة الأشراف: 8740)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الاستئذان 14 (35)، مسند احمد (2/186، 214) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: ایک سوار کو شیطان کہا گیا کیونکہ اکیلا مسافر جماعت نہیں قائم کر سکتا، اور بوقت مصیبت اس کا کوئی معاون و مددگار نہیں ہوتا، اور دو سوار شیطان اس لئے ہیں کہ جب ان میں سے ایک کسی مصیبت و آفت سے دوچار ہوتا ہے تو دوسرا اس کی خاطر اس طرح مضطرب و پریشان ہو جاتا ہے کہ اس کی پریشانی کو دیکھ کر شیطان بے حد خوش ہوتا ہے، اور اگر مسافر تعداد میں تین ہیں تو مذکورہ پریشانیوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-As: The Messenger of Allah ﷺ said: A single rider is a devil, and a pair of riders are a pair of devils, but three are a company of riders.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2601
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (3910) أخرجه الترمذي (1674 وسنده حسن)
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تین افراد کسی سفر میں ہوں تو ہوئے کہ اپنے میں سے کسی ایک کو امیر بنا لیں“۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تین افراد کسی سفر میں ہوں تو ان میں سے کسی کو امیر بنا لیں ۱؎“، نافع کہتے ہیں: تو ہم نے ابوسلمہ سے کہا: آپ ہمارے امیر ہیں۔
وضاحت: ۱؎: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم اس لئے دیا تا کہ ان میں آپس میں اجتماعیت برقرار رہے اور اختلاف کی نوبت نہ آئے اور ایسا جبھی ممکن ہے جب وہ کسی امیر کے تابع ہوں گے۔
Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: When three are on a journey, they should appoint one of them as their commander. Nafi said: We said to Abu Salamah: You are our commander.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2603
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف انظر الحديث السابق (2608) لعلته وللحديث طرق ضعيفة وأخرج الطبراني (الكبير 208/9 ح 8915) بإسناد حسن عن ابن مسعود قال: ”إذا كنتم ثلاثة في سفر فأمروا عليكم أحد كم“ إلخ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 95
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کو دشمن کی سر زمین میں لے کر سفر کرنے سے منع فرمایا ہے، مالک کہتے ہیں: میرا خیال ہے اس واسطے منع کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن اسے پا لے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجھاد 129 (2990)، (ولیس عندہ قول مالک)، صحیح مسلم/الإمارة 24 (1869)، سنن ابن ماجہ/الجھاد 45 (2879)، (تحفة الأشراف: 8347)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجھاد 2 (7)، مسند احمد (2/6، 7، 10، 55، 63، 76، 128) (صحیح)» (صحیح مسلم میں آخری ٹکڑا اصلِ حدیث میں سے ہے نہ کہ قولِ مالک سے)
Abd Allaah bin Umar said “The Messenger of Allah ﷺ prohibited to travel with a copy of the Quran to the enemy territory. The narrator Malik said “ (It is) I think lest the enemy should take it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2604
قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2990) صحيح مسلم (1869)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہتر ساتھی وہ ہیں جن کی تعداد چار ہو ۱؎، اور چھوٹی فوج میں بہتر فوج وہ ہے جس کی تعداد چار سو ہو، اور بڑی فوجوں میں بہتر وہ فوج ہے جس کی تعداد چار ہزار ہو، اور بارہ ہزار کی فوج قلت تعداد کی وجہ سے ہرگز مغلوب نہیں ہو گی ۲؎“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: صحیح یہ ہے کہ یہ مرسل ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/السیر 7 (1555)، (تحفة الأشراف: 5848)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/السرایا (2728)، سنن الدارمی/السیر 4 (2482)، مسند احمد (1/294، 299) (ضعیف) (الصحيحة: 986، وتراجع الألباني: 152)»
وضاحت: ۱؎: یعنی کم سے کم چار ہو کیونکہ ان میں سے اگر کبھی کوئی بیمار ہو اور وہ اپنے کسی ساتھی کو وصیت کرنا چاہے تو گواہی کے لئے ان میں سے دو باقی رہ جائیں، اس حدیث میں (بشرط صحت) مرتبہ أقل کا بیان ہے علماء نے لکھا ہے: چار سے پانچ بہتر ہیں بلکہ جس قدر زیادہ ہوں گے اتنا ہی خیر ہو گا۔ ۲؎: بارہ ہزار کا لشکر اپنی قلت کے سبب ہرگز نہیں ہارے گا، اب اگر دوسری قومیں اس پر غالب آ گئیں تو اس ہار کا سبب قلت نہیں بلکہ لشکر کا عجب و غرور میں مبتلا ہونا یا اسی طرح کا کوئی اور دوسرا سبب ہو سکتا ہے۔
Narrated Abdullah ibn Abbas: The Prophet ﷺ said: The best number of companions is four, the best number in expeditions four hundred, and the best number in armies four thousand; and twelve thousand will not be overcome through smallness of numbers. Abu Dawud said: What is correct is that this tradition is mursal (i. e. the link of the Companion is missing).
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2605
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (1555) الزهري عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 95
(مرفوع) حدثنا محمد بن سليمان الانباري، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدة، عن ابيه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا بعث اميرا على سرية او جيش اوصاه بتقوى الله في خاصة نفسه وبمن معه من المسلمين خيرا، وقال:" إذا لقيت عدوك من المشركين، فادعهم إلى إحدى ثلاث خصال او خلال فايتها اجابوك إليها فاقبل منهم، وكف عنهم ادعهم إلى الإسلام فإن اجابوك فاقبل منهم وكف عنهم، ثم ادعهم إلى التحول من دارهم إلى دار المهاجرين، واعلمهم انهم إن فعلوا ذلك، ان لهم ما للمهاجرين وان عليهم ما على المهاجرين فإن ابوا واختاروا دارهم، فاعلمهم انهم يكونون كاعراب المسلمين يجرى عليهم حكم الله الذي يجري على المؤمنين، ولا يكون لهم في الفيء والغنيمة نصيب إلا ان يجاهدوا مع المسلمين، فإن هم ابوا فادعهم إلى إعطاء الجزية، فإن اجابوا فاقبل منهم وكف عنهم، فإن ابوا فاستعن بالله تعالى وقاتلهم، وإذا حاصرت اهل حصن فارادوك ان تنزلهم على حكم الله تعالى فلا تنزلهم، فإنكم لا تدرون ما يحكم الله فيهم ولكن انزلوهم على حكمكم ثم اقضوا فيهم بعد ما شئتم"، قال سفيان بن عيينة: قال علقمة: فذكرت هذا الحديث لمقاتل بن حيان، فقال: حدثني مسلم، قال ابو داود: هو ابن هيصم، عن النعمان بن مقرن، عن النبي صلى الله عليه وسلم، مثل حديث سليمان بن بريدة. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ أَمِيرًا عَلَى سَرِيَّةٍ أَوْ جَيْشٍ أَوْصَاهُ بِتَقْوَى اللَّهِ فِي خَاصَّةِ نَفْسِهِ وَبِمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا، وَقَالَ:" إِذَا لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَادْعُهُمْ إِلَى إِحْدَى ثَلَاثِ خِصَالٍ أَوْ خِلَالٍ فَأَيَّتُهَا أَجَابُوكَ إِلَيْهَا فَاقْبَلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمُ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ فَإِنْ أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ إِلَى دَارِ الْمُهَاجِرِين، وَأَعْلِمْهُمْ أَنَّهُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَلِكَ، أَنَّ لَهُمْ مَا لِلْمُهَاجِرِينَ وَأَنَّ عَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُهَاجِرِينَ فَإِنْ أَبَوْا وَاخْتَارُوا دَارَهُمْ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّهُمْ يَكُونُونَ كَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِينَ يُجْرَى عَلَيْهِمْ حُكْمُ اللَّهِ الَّذِي يَجْرِي عَلَى الْمُؤْمِنِينَ، وَلَا يَكُونُ لَهُمْ فِي الْفَيْءِ وَالْغَنِيمَةِ نَصِيبٌ إِلَّا أَنْ يُجَاهِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ، فَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَادْعُهُمْ إِلَى إِعْطَاءِ الْجِزْيَةِ، فَإِنْ أَجَابُوا فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ، فَإِنْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ تَعَالَى وَقَاتِلْهُمْ، وَإِذَا حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوكَ أَنْ تُنْزِلَهُمْ عَلَى حُكْمِ اللَّهِ تَعَالَى فَلَا تُنْزِلْهُمْ، فَإِنَّكُمْ لَا تَدْرُونَ مَا يَحْكُمُ اللَّهُ فِيهِمْ وَلَكِنْ أَنْزِلُوهُمْ عَلَى حُكْمِكُمْ ثُمَّ اقْضُوا فِيهِمْ بَعْدُ مَا شِئْتُمْ"، قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: قَالَ عَلْقَمَةُ: فَذَكَرْتُ هَذَا الْحَدِيثَ لِمُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي مُسْلِمٌ، قَالَ أَبُو دَاوُد: هُوَ ابْنُ هَيْصَمٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ.
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکر یا سریہ کا کسی کو امیر بنا کر بھیجتے تو اسے اپنے نفس کے بارے میں اللہ کے تقویٰ کی وصیت کرتے، اور جو مسلمان اس کے ساتھ ہوتے ان کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیتے، اور فرماتے: ”جب تم اپنے مشرک دشمنوں کا سامنا کرنا تو انہیں تین چیزوں کی دعوت دینا، ان تینوں میں سے جس چیز کو وہ مان لیں تم ان سے اسے مان لینا اور ان سے رک جانا، (سب سے پہلے) انہیں اسلام کی جانب بلانا، اگر تمہاری اس دعوت کو وہ لوگ تسلیم کر لیں تو تم اسے قبول کر لینا اور ان سے لڑائی کرنے سے رک جانا، پھر انہیں اپنے وطن سے مہاجرین کے وطن کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دینا، اور انہیں یہ بتانا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کے لیے وہی چیز ہو گی جو مہاجرین کے لیے ہو گی، اور ان کے وہی فرائض ہوں گے، جو مہاجرین کے ہیں، اور اگر وہ انکار کریں اور اپنے وطن ہی میں رہنا چاہیں تو انہیں بتانا کہ وہ دیہاتی مسلمانوں کی طرح ہوں گے، ان پر اللہ کا وہی حکم چلے گا جو عام مسلمانوں پر چلتا ہے، اور فے اور مال غنیمت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو گا، الا یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد کریں، اور اگر وہ اسلام لانے سے انکار کریں تو انہیں جزیہ کی ادائیگی کی دعوت دینا، اگر وہ لوگ جزیہ کی ادائیگی قبول کر لیں تو ان سے اسے قبول کر لینا اور جہاد کرنے سے رک جانا، اور اگر وہ جزیہ بھی دینے سے انکار کریں تو اللہ سے مدد طلب کرنا، اور ان سے جہاد کرنا، اور اگر تم کسی قلعہ والے کا محاصرہ کرنا اور وہ چاہیں کہ تم ان کو اللہ کے حکم پر اتارو، تو تم انہیں اللہ کے حکم پر مت اتارنا، اس لیے کہ تم نہیں جانتے ہو کہ اللہ ان کے سلسلے میں کیا فیصلہ کرے گا، لیکن ان کو اپنے حکم پر اتارنا، پھر اس کے بعد ان کے سلسلے میں تم جو چاہو فیصلہ کرنا“۔ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: علقمہ کا کہنا ہے کہ میں نے یہ حدیث مقاتل بن حیان سے ذکر کی تو انہوں نے کہا: مجھ سے مسلم نے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: وہ ابن ہیصم ہیں، بیان کیا انہوں نے نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ سے اور نعمان رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سلیمان بن بریدہ کی حدیث کے مثل روایت کیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجھاد 2 (1731)، سنن الترمذی/السیر 48 (1617)، سنن ابن ماجہ/الجھاد 38 (2858)، (تحفة الأشراف: 1929)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/352، 358)، سنن الدارمی/السیر 5 (2483) (صحیح)»
Sulaiman bin Buraidah reported on the authority of his father. When the Messenger of Allah ﷺ appointed a Commander over an Army or a detachment, he instructed him to fear Allaah himself and consider the welfare of the Muslims who were with him. He then said “When you meet the polytheists who are your enemy, summon them tone of three things and accept whichever of them they are willing to agree to, and refrain from them. Summon them to Islam and if they agree, accept it from them and refrain from them. Then summon them to leave their territory and transfer to the abode of the Emigrants and tell them that if they do so, they will have the same rights and responsibilities as the Emigrants, but if they refuse and choose their own abode, tell them that they will be like the desert Arabs who are Muslims subject to Allaah’s jurisdiction which applies to the believers, but will have no spoil or booty unless they strive with the Muslims. If they refuse demand jizyah (poll tax) from them, if they agree accept it from them and refrain from them. But if they refuse, seek Alaah’s help and fight with them. When you invade the fortress and they (its people) offer to capitulate and have the matter referred to Allaah’s jurisdiction, do not grant this, for you do not know whether or not you will hit on Allaah’s jurisdiction regarding them. But let them capitulate and have the matter refereed to your jurisdiction and make a decision about them later on as you wish. Sufyan (bin ‘Uyainah) said thah Alqamah said “I mentioned this tradition to Muqatil bin Habban, He said “Muslim narrated it to me. ” Abu Dawud said “He is Ibn Haidam narrated from Al Numan in Muqqarin from the Prophet ﷺ like the tradition of Sulaiman bin Buraidah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2606
بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے نام سے اور اللہ کے راستے میں غزوہ کرو اور اس شخص سے جہاد کرو جو اللہ کا انکار کرے، غزوہ کرو، بدعہدی نہ کرو، خیانت نہ کرو، مثلہ نہ کرو، اور کسی بچہ کو قتل نہ کرو“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 1929) (صحیح)»
Sulaiman bin Buraidah reported on his father’s authority The Prophet ﷺ said “Fight in the name of Allaah and in the path of Allaah and with him who disbelieves in Allaah fight and do not be treacherous and do not be dishonest about boot yand do not deface (in killing) and do not kill a child. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2607
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر الحديث السابق (2613)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجاہدین کو رخصت کرتے وقت) فرمایا: ”تم لوگ اللہ کے نام سے، اللہ کی تائید اور توفیق کے ساتھ، اللہ کے رسول کے دین پر جاؤ، اور بوڑھوں کو جو مرنے والے ہوں نہ مارنا، نہ بچوں کو، نہ چھوٹے لڑکوں کو، اور نہ ہی عورتوں کو، اور غنیمت میں خیانت نہ کرنا، اور غنیمت کے مال کو اکٹھا کر لینا، صلح کرنا اور نیکی کرنا، اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 824) (ضعیف)» (اس کے راوی خالد بن فزر لین الحدیث ہیں)
Narrated Anas ibn Malik: The Prophet ﷺ said: Go in Allah's name, trusting in Allah, and adhering to the religion of Allah's Messenger. Do not kill a decrepit old man, o a young infant, or a child, or a woman; do not be dishonest about booty, but collect your spoils, do right and act well, for Allah loves those who do well.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2608
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف خالد بن الفرز ضعفه ابن معين وغيره ولم يوثقه غير ابن حبان فھو: مجهول أو ضعيف انظرالتحرير (1665) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 95
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن نافع، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم حرق نخل بني النضير وقطع وهي البويرة فانزل الله عز وجل ما قطعتم من لينة او تركتموها سورة الحشر آية 5. (مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ وَقَطَعَ وَهِيَ البُوَيْرَةُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا سورة الحشر آية 5.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کے کھجوروں کے باغات جلا دیے اور درختوں کو کاٹ ڈالا (یہ مقام بویرہ میں تھا) تو اللہ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها»”کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے، یا اپنی جڑوں پر انہیں قائم رہنے دیا، یہ سب اللہ کے حکم سے تھا“(سورۃ الحشر: ۵)۔
IbnUmar said “The Messenger of Allah ﷺ burned the palm tree of Banu Al Nadr and cut (them) down at Al Buwairah. So, Allaah the exalted sent down “the palm trees you cut down or left. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2609
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (4884) صحيح مسلم (1746)
عروہ کہتے ہیں کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وصیت کی تھی اور فرمایا تھا: ”ابنی ۱؎ پر صبح سویرے حملہ کرو اور اسے جلا دو“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجھاد 31 (2843)، (تحفة الأشراف: 107)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/205، 209) (ضعیف)» (اس کے راوی صالح ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: فلسطین میں رملہ اور عسقلان کے مابین ایک مقام کا نام ہے۔
Narrated Usamah: The Messenger of Allah ﷺ enjoined upon him to attack Ubna in the morning and burn the place.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2610
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (2843) صالح بن أبي الأخضر: ضعيف يعتبر به (تق:2844) و قال البوصيري: لينه الجمھور (زوائد ابن ماجه للبوصيري: 1098) و قال الھيثمي: و قد ضعفه الجمھور (مجمع الزوائد 150/2) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 96