(مرفوع) حدثنا محمد بن سليمان الانباري، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدة، عن ابيه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا بعث اميرا على سرية او جيش اوصاه بتقوى الله في خاصة نفسه وبمن معه من المسلمين خيرا، وقال:" إذا لقيت عدوك من المشركين، فادعهم إلى إحدى ثلاث خصال او خلال فايتها اجابوك إليها فاقبل منهم، وكف عنهم ادعهم إلى الإسلام فإن اجابوك فاقبل منهم وكف عنهم، ثم ادعهم إلى التحول من دارهم إلى دار المهاجرين، واعلمهم انهم إن فعلوا ذلك، ان لهم ما للمهاجرين وان عليهم ما على المهاجرين فإن ابوا واختاروا دارهم، فاعلمهم انهم يكونون كاعراب المسلمين يجرى عليهم حكم الله الذي يجري على المؤمنين، ولا يكون لهم في الفيء والغنيمة نصيب إلا ان يجاهدوا مع المسلمين، فإن هم ابوا فادعهم إلى إعطاء الجزية، فإن اجابوا فاقبل منهم وكف عنهم، فإن ابوا فاستعن بالله تعالى وقاتلهم، وإذا حاصرت اهل حصن فارادوك ان تنزلهم على حكم الله تعالى فلا تنزلهم، فإنكم لا تدرون ما يحكم الله فيهم ولكن انزلوهم على حكمكم ثم اقضوا فيهم بعد ما شئتم"، قال سفيان بن عيينة: قال علقمة: فذكرت هذا الحديث لمقاتل بن حيان، فقال: حدثني مسلم، قال ابو داود: هو ابن هيصم، عن النعمان بن مقرن، عن النبي صلى الله عليه وسلم، مثل حديث سليمان بن بريدة. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ أَمِيرًا عَلَى سَرِيَّةٍ أَوْ جَيْشٍ أَوْصَاهُ بِتَقْوَى اللَّهِ فِي خَاصَّةِ نَفْسِهِ وَبِمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا، وَقَالَ:" إِذَا لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَادْعُهُمْ إِلَى إِحْدَى ثَلَاثِ خِصَالٍ أَوْ خِلَالٍ فَأَيَّتُهَا أَجَابُوكَ إِلَيْهَا فَاقْبَلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمُ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ فَإِنْ أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ إِلَى دَارِ الْمُهَاجِرِين، وَأَعْلِمْهُمْ أَنَّهُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَلِكَ، أَنَّ لَهُمْ مَا لِلْمُهَاجِرِينَ وَأَنَّ عَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُهَاجِرِينَ فَإِنْ أَبَوْا وَاخْتَارُوا دَارَهُمْ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّهُمْ يَكُونُونَ كَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِينَ يُجْرَى عَلَيْهِمْ حُكْمُ اللَّهِ الَّذِي يَجْرِي عَلَى الْمُؤْمِنِينَ، وَلَا يَكُونُ لَهُمْ فِي الْفَيْءِ وَالْغَنِيمَةِ نَصِيبٌ إِلَّا أَنْ يُجَاهِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ، فَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَادْعُهُمْ إِلَى إِعْطَاءِ الْجِزْيَةِ، فَإِنْ أَجَابُوا فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ، فَإِنْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ تَعَالَى وَقَاتِلْهُمْ، وَإِذَا حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوكَ أَنْ تُنْزِلَهُمْ عَلَى حُكْمِ اللَّهِ تَعَالَى فَلَا تُنْزِلْهُمْ، فَإِنَّكُمْ لَا تَدْرُونَ مَا يَحْكُمُ اللَّهُ فِيهِمْ وَلَكِنْ أَنْزِلُوهُمْ عَلَى حُكْمِكُمْ ثُمَّ اقْضُوا فِيهِمْ بَعْدُ مَا شِئْتُمْ"، قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: قَالَ عَلْقَمَةُ: فَذَكَرْتُ هَذَا الْحَدِيثَ لِمُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي مُسْلِمٌ، قَالَ أَبُو دَاوُد: هُوَ ابْنُ هَيْصَمٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ.
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکر یا سریہ کا کسی کو امیر بنا کر بھیجتے تو اسے اپنے نفس کے بارے میں اللہ کے تقویٰ کی وصیت کرتے، اور جو مسلمان اس کے ساتھ ہوتے ان کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیتے، اور فرماتے: ”جب تم اپنے مشرک دشمنوں کا سامنا کرنا تو انہیں تین چیزوں کی دعوت دینا، ان تینوں میں سے جس چیز کو وہ مان لیں تم ان سے اسے مان لینا اور ان سے رک جانا، (سب سے پہلے) انہیں اسلام کی جانب بلانا، اگر تمہاری اس دعوت کو وہ لوگ تسلیم کر لیں تو تم اسے قبول کر لینا اور ان سے لڑائی کرنے سے رک جانا، پھر انہیں اپنے وطن سے مہاجرین کے وطن کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دینا، اور انہیں یہ بتانا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کے لیے وہی چیز ہو گی جو مہاجرین کے لیے ہو گی، اور ان کے وہی فرائض ہوں گے، جو مہاجرین کے ہیں، اور اگر وہ انکار کریں اور اپنے وطن ہی میں رہنا چاہیں تو انہیں بتانا کہ وہ دیہاتی مسلمانوں کی طرح ہوں گے، ان پر اللہ کا وہی حکم چلے گا جو عام مسلمانوں پر چلتا ہے، اور فے اور مال غنیمت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو گا، الا یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد کریں، اور اگر وہ اسلام لانے سے انکار کریں تو انہیں جزیہ کی ادائیگی کی دعوت دینا، اگر وہ لوگ جزیہ کی ادائیگی قبول کر لیں تو ان سے اسے قبول کر لینا اور جہاد کرنے سے رک جانا، اور اگر وہ جزیہ بھی دینے سے انکار کریں تو اللہ سے مدد طلب کرنا، اور ان سے جہاد کرنا، اور اگر تم کسی قلعہ والے کا محاصرہ کرنا اور وہ چاہیں کہ تم ان کو اللہ کے حکم پر اتارو، تو تم انہیں اللہ کے حکم پر مت اتارنا، اس لیے کہ تم نہیں جانتے ہو کہ اللہ ان کے سلسلے میں کیا فیصلہ کرے گا، لیکن ان کو اپنے حکم پر اتارنا، پھر اس کے بعد ان کے سلسلے میں تم جو چاہو فیصلہ کرنا“۔ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: علقمہ کا کہنا ہے کہ میں نے یہ حدیث مقاتل بن حیان سے ذکر کی تو انہوں نے کہا: مجھ سے مسلم نے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: وہ ابن ہیصم ہیں، بیان کیا انہوں نے نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ سے اور نعمان رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سلیمان بن بریدہ کی حدیث کے مثل روایت کیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجھاد 2 (1731)، سنن الترمذی/السیر 48 (1617)، سنن ابن ماجہ/الجھاد 38 (2858)، (تحفة الأشراف: 1929)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/352، 358)، سنن الدارمی/السیر 5 (2483) (صحیح)»
Sulaiman bin Buraidah reported on the authority of his father. When the Messenger of Allah ﷺ appointed a Commander over an Army or a detachment, he instructed him to fear Allaah himself and consider the welfare of the Muslims who were with him. He then said “When you meet the polytheists who are your enemy, summon them tone of three things and accept whichever of them they are willing to agree to, and refrain from them. Summon them to Islam and if they agree, accept it from them and refrain from them. Then summon them to leave their territory and transfer to the abode of the Emigrants and tell them that if they do so, they will have the same rights and responsibilities as the Emigrants, but if they refuse and choose their own abode, tell them that they will be like the desert Arabs who are Muslims subject to Allaah’s jurisdiction which applies to the believers, but will have no spoil or booty unless they strive with the Muslims. If they refuse demand jizyah (poll tax) from them, if they agree accept it from them and refrain from them. But if they refuse, seek Alaah’s help and fight with them. When you invade the fortress and they (its people) offer to capitulate and have the matter referred to Allaah’s jurisdiction, do not grant this, for you do not know whether or not you will hit on Allaah’s jurisdiction regarding them. But let them capitulate and have the matter refereed to your jurisdiction and make a decision about them later on as you wish. Sufyan (bin ‘Uyainah) said thah Alqamah said “I mentioned this tradition to Muqatil bin Habban, He said “Muslim narrated it to me. ” Abu Dawud said “He is Ibn Haidam narrated from Al Numan in Muqqarin from the Prophet ﷺ like the tradition of Sulaiman bin Buraidah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2606
ادعهم إلى الإسلام فإن أجابوك فاقبل منهم وكف عنهم ثم ادعهم إلى التحول من دارهم إلى دار المهاجرين وأعلمهم أنهم إن فعلوا ذلك أن لهم ما للمهاجرين وأن عليهم ما على المهاجرين إن أبوا واختاروا دارهم فأعلمهم أنهم يكونون كأعراب المسلمين يجرى عليهم حكم الله الذي يج
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2612
فوائد ومسائل: 1۔ یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا۔ اور اب بھی ان قوموں سے متعلق ہے۔ جن کو اسلام کی دعوت واضح طور سے نہ پہنچی ہو۔ (صحیح البخاري، العتق، حدیث: 2541 و صحیح مسلم، الجهاد، حدیث: 1730 و سنن أبي داود، حدیث: 2633) 2۔ دین اسلا م کی دوسرے دینوں سے آویزش صرف اور صرف اللہ کی مخلوق تک اس کا کلمہ پہنچانے اور غالب کرنے کے لئے ہے۔ اس میں محض ملکوں کو فتح کرنا یا لوگوں کو اپنے تابع کرنا نہیں ہے۔
3۔ امیر مجاہدین (اور اس طرح دیگر مفتیان اور مجتہدین) کا فیصلہ بالعموم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دیئے ہوئے اصولوں کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ان میں سے اس کے حق یا خطا ہونے کا احتمال رہتا ہے۔ (ان اجتہادی امور میں) عین یہی دعویٰ کرنا کہ یہی اللہ کا فیصلہ ہے۔ بالکل غلط ہے۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ کی زبان سے صادر ہونے والے فیصلے اور احکام عین اللہ کے فیصلے ہوتے تھے۔ اور عین شریعت ہوتے تھے کیونکہ ﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ﴾(النجم: 3۔ 4) آپ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتے مگر جو اللہ کی وحی ہوتی ہے اور اجتہادی امور میں جہاں کہیں کوئی خطا ہوتی بھی تو فورا ً اس کی اصلاح ہوجاتی تھی نبی کریم ﷺکے بعد کسی بھی امتی کو یہ مقام حاصل نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2612