سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ
کتاب: جہاد کے مسائل
86. باب فِي الرَّجُلِ يُسَافِرُ وَحْدَهُ
باب: تنہا سفر کرنے کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2607
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الرَّاكِبُ شَيْطَانٌ وَالرَّاكِبَانِ شَيْطَانَانِ وَالثَّلَاثَةُ رَكْبٌ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سوار شیطان ہے اور دو سوار دو شیطان ہیں، اور تین سوار قافلہ ہیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الجھاد 4 (1674)، (تحفة الأشراف: 8740)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الاستئذان 14 (35)، مسند احمد (2/186، 214) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: ایک سوار کو شیطان کہا گیا کیونکہ اکیلا مسافر جماعت نہیں قائم کر سکتا، اور بوقت مصیبت اس کا کوئی معاون و مددگار نہیں ہوتا، اور دو سوار شیطان اس لئے ہیں کہ جب ان میں سے ایک کسی مصیبت و آفت سے دوچار ہوتا ہے تو دوسرا اس کی خاطر اس طرح مضطرب و پریشان ہو جاتا ہے کہ اس کی پریشانی کو دیکھ کر شیطان بے حد خوش ہوتا ہے، اور اگر مسافر تعداد میں تین ہیں تو مذکورہ پریشانیوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (3910)
أخرجه الترمذي (1674 وسنده حسن)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2607 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2607
فوائد ومسائل:
1۔
انسان کا اکیلے سفر کرنا بعض اوقات انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے۔
بالفرض کوئی حادثہ پیش آجائے تو اسے سنبھالنے والا کوئی نہ ہوگا۔
اور نہ کوئی خبر ہی ملے گی۔
اس طرح دو افراد کا معاملہ بہت کمزور ہے۔
البتہ تین ہوں تو سب کو مکمل سہولت ہوگی۔
باجماعت نماز پڑھیں گے۔
ایک دوسرے کے انیس اور معاون ہوں گے۔
2۔
موجودہ حالات میں بسوں گاڑیوں اورجہازوں میں اگرچہ ایک کثیرتعداد بطور قافلہ کے سفرکرتی ہے۔
اور مذکور نہی سے انسان خارج ہوجاتا ہے۔
مگر انسان کو اپنے محب اور انیس رفیق سفر ہوں۔
تو بہت ہی افضل ہے۔
کیونکہ عام ہمراہی کئی طرح کے ہوتے ہیں۔
بالخصوص اب جبکہ شروفساد بہت بڑھ گیا ہے۔
اور دین وامانت میں کمی آتی جا رہی ہے۔
3۔
یہ حدیث تنہا سفر کرنے کی قباحت پر صریح دلالت کرتی ہے۔
اس لئے بعض اہل علم نے اس حدیث سے یہ استنباط کیا ہے۔
کہ صوفی قسم کے لوگ تن تنہا تہذیب نفس اور مزعومہ چلہ کشی کے نام پرصحرائوں اور بے آباد علاقوں کے جو سفر اخیتار کرتے ہیں۔
وہ بھی صریحا غلط اور مردود ہیں۔
ایسے ہی وہ چلہ کشی جو آجکل بزرگ اور ولی اللہ بننے کے چکر میں کی جاتی ہے۔
یہ بھی قرآن وحدیث کے منافی ہے۔
اس لئے ایسے تمام امور سے احتراز اور اجتناب ضروری ہے۔
کیونکہ یہ چیزیں بدعت ہیں۔
بدعت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا واضح فرمان ہے۔
کہ جس نے بھی دین اسلام میں کوئی نئی بات پیدا کی جو اس میں نہیں ہے وتو وہ مردود ہے۔
(صحیح البخاري، الصلح، حدیث: 2697)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2607
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1674
´تنہا سفر کرنے کی کراہت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اکیلا سوار شیطان ہے، دو سوار بھی شیطان ہیں اور تین سوار قافلہ والے ہیں“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1674]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اکیلا یا دو آدمیوں کا سفر کرنا صحیح نہیں ہے،
تنہا ہونے میں کسی حادثہ کے وقت کوئی اس کا معاون و مدد گار نہیں رہے گا،
اسی طرح دو ہونے کی صورت میں ایک کوکسی ضرورت کے لیے جانا پڑا تو ایسی صورت میں پھر دونوں تنہا ہو جائیں گے،
اور اگر ایک دوسرے کو وصیت کرنا چاہے تو اس کے لیے کوئی گواہ نہیں ہوگا جب کہ دو گواہ کی ضرورت پڑے گی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1674