(مرفوع) حدثنا احمد بن يونس، حدثنا عبد الرحمن يعني ابن ابي الزناد، عن هشام بن عروة، عن ابيه، قال: قالت عائشة:" يا ابن اختي، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يفضل بعضنا على بعض في القسم من مكثه عندنا، وكان قل يوم إلا وهو يطوف علينا جميعا، فيدنو من كل امراة من غير مسيس حتى يبلغ إلى التي هو يومها فيبيت عندها، ولقد قالت سودة بنت زمعة حين اسنت وفرقت ان يفارقها رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله، يومي لعائشة، فقبل ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم منها، قالت: نقول في ذلك انزل الله تعالى، وفي اشباهها اراه، قال: وإن امراة خافت من بعلها نشوزا سورة النساء آية 128". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ:" يَا ابْنَ أُخْتِي، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُفَضِّلُ بَعْضَنَا عَلَى بَعْضٍ فِي الْقَسْمِ مِنْ مُكْثِهِ عِنْدَنَا، وَكَانَ قَلَّ يَوْمٌ إِلَّا وَهُوَ يَطُوفُ عَلَيْنَا جَمِيعًا، فَيَدْنُو مِنْ كُلِّ امْرَأَةٍ مِنْ غَيْرِ مَسِيسٍ حَتَّى يَبْلُغَ إِلَى الَّتِي هُوَ يَوْمُهَا فَيَبِيتَ عِنْدَهَا، وَلَقَدْ قَالَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ حِينَ أَسَنَّتْ وَفَرِقَتْ أَنْ يُفَارِقَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَوْمِي لِعَائِشَةَ، فَقَبِلَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا، قَالَتْ: نَقُولُ فِي ذَلِكَ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى، وَفِي أَشْبَاهِهَا أُرَاهُ، قَالَ: وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا سورة النساء آية 128".
عروہ کہتے ہیں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میرے بھانجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم ازواج مطہرات کے پاس رہنے کی باری میں بعض کو بعض پر فضیلت نہیں دیتے تھے اور ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب کے پاس نہ آتے ہوں، اور بغیر محبت کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے قریب ہوتے، اس طرح آپ اپنی اس بیوی کے پاس پہنچ جاتے جس کی باری ہوتی اور اس کے ساتھ رات گزارتے، اور سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا عمر رسیدہ ہو گئیں اور انہیں اندیشہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں الگ کر دیں گے تو کہنے لگیں: اللہ کے رسول! میری باری عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے رہے گی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات قبول فرما لی، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کہ ہم کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی سلسلہ میں یا اور اسی جیسی چیزوں کے سلسلے میں آیت کریمہ: «وإن امرأة خافت من بعلها نشوزا»(سورۃ النساء: ۱۲۸) نازل کی: ”اگر عورت کو اپنے خاوند کی بدمزاجی کا خوف ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17024)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/النکاح 99 (5212)، صحیح مسلم/التفسیر 1 (3022)، مسند احمد (6/107) (حسن صحیح)»
Narrated Hisham bin Urwah: On the authority of his father that Aishah said: O my nephew, the Messenger of Allah ﷺ did not prefer one of us to the other in respect of his division of the time of his staying with us. It was very rare that he did not visit us any day (i. e. he visited all of us every day). He would come near each of his wives without having intercourse with her until he reached the one who had her day and passed his night with her. When Saudah daughter of Zam'ah became old and feared that the Messenger of Allah ﷺ would divorce her, she said: Messenger of Allah, I give to Aishah the day you visit me. The Messenger of Allah ﷺ accepted it from her. She said: We thing that Allah, the Exalted, revealed about this or similar matter the Quranic verse: "If a wife fears cruelty or desertion on her husband's part. . . . " [4: 128]
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2130
(مرفوع) حدثنا يحيى بن معين، ومحمد بن عيسى المعنى، قالا: حدثنا عباد بن عباد، عن عاصم، عن معاذة، عن عائشة، قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يستاذننا إذا كان في يوم المراة منا بعد ما نزلت: ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء سورة الاحزاب آية 51"، قالت معاذة: فقلت لها: ما كنت تقولين لرسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: كنت اقول:" إن كان ذلك إلي لم اوثر احدا على نفسي". (مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ مُعَاذَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَأْذِنُنَا إِذَا كَانَ فِي يَوْمِ الْمَرْأَةِ مِنَّا بَعْدَ مَا نَزَلَتْ: تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ سورة الأحزاب آية 51"، قَالَتْ مَعَاذَةُ: فَقُلْتُ لَهَا: مَا كُنْتِ تَقُولِينَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: كُنْتُ أَقُولُ:" إِنْ كَانَ ذَلِكَ إِلَيَّ لَمْ أُوثِرْ أَحَدًا عَلَى نَفْسِي".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آیت کریمہ: «ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء»”آپ ان میں سے جسے آپ چاہیں دور رکھیں اور جسے آپ چاہیں اپنے پاس رکھیں“(سورۃ الاحزاب: ۵۱) نازل ہوئی تو ہم میں سے جس کسی کی باری ہوتی تھی اس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اجازت لیتے تھے۔ معاذہ کہتی ہیں کہ یہ سن کر میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: آپ ایسے موقع پر کیا کہتی تھیں؟ کہنے لگیں: میں تو یہ ہی کہتی تھی کہ اگر میرا بس چلے تو میں اپنے اوپر کسی کو ترجیح نہ دوں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر القرآن 7 (4789)، صحیح مسلم/الطلاق 4 (1476)، سنن النسائی/ الکبری/ عشرة النساء (8936)، (تحفة الأشراف: 17965)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/76، 158، 261) (صحیح)»
Narrated Aishah: The Messenger of Allah ﷺ used to aske our permission on the day he had to stay with one of his wives (by turns) after the following Quranic verse was revealed: "You may distance those whom you like, and draw close to those whom you like" [33: 51]. The narrator Muadhah said: I said to her: What did you say to the Messenger of Allah ﷺ ? She said: I used to say: If had an option for that, I would not preferred anyone to myself.
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2131
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت کے موقع پر سب بیویوں کو بلا بھیجا، وہ جمع ہوئیں تو فرمایا: ”اب تم سب کے پاس آنے جانے کی میرے اندر طاقت نہیں، اگر تم اجازت دے دو تو میں عائشہ کے پاس رہوں“، چنانچہ ان سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اجازت دے دی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17686)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الجنائز 64 (1618)، مسند احمد (6/31 187، 291) (صحیح)»
Aishah said The Messenger of Allah ﷺ sent for his wives during his illness. When they got together, he ﷺ said “I am unable to visit all of you. If you think to permit me to stay with Aishah you may do so. ” So they permitted him (to stay with Aishah).
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2132
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن أخرجه الترمذي في الشمائل (392 وسنده حسن)
(مرفوع) حدثنا احمد بن عمرو بن السرح، اخبرنا ابن وهب، عن يونس، عن ابن شهاب، ان عروة بن الزبير حدثه، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اراد سفرا اقرع بين نسائه فايتهن خرج سهمها خرج بها معه، وكان يقسم لكل امراة منهن يومها وليلتها، غير ان سودة بنت زمعة وهبت يومها لعائشة". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ فَأَيَّتُهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا مَعَهُ، وَكَانَ يَقْسِمُ لِكُلِّ امْرَأَةٍ مِنْهُنَّ يَوْمَهَا وَلَيْلَتَهَا، غَيْرَ أَنَّ سَوْدَةَ بِنْتَ زَمْعَةَ وَهَبَتْ يَوْمَهَا لِعَائِشَةَ".
ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے تو جس کا نام نکلتا اس کو لے کر سفر کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بیوی کے لیے ایک دن رات کی باری بنا رکھی تھی، سوائے سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کے انہوں نے اپنی باری عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے رکھی تھی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الھبة 15 (2593)، والنکاح 17 (5092)، (تحفة الأشراف: 16703، 16678)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/فضائل الصحابة 13 (2445)، سنن ابن ماجہ/النکاح 47 (1970)، سنن النسائی/ الکبری/ عشرة النساء (8923)، مسند احمد (6/ 117، 151، 197، 269)، سنن الدارمی/الجہاد 31 (2467) (صحیح)»
Aishah wife of the Prophet ﷺ reported “When the Messenger of Allah ﷺ intended to go on a journey he cast lots amongst his wives and the one who was chosen by lot went on it with him. He divided his time, day and night (equally) for each of his wives except that Saudah daughter of Zam’ah gave her day to Aishah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2133
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پورا کئے جانے کی سب سے زیادہ مستحق شرطیں وہ ہیں جن کے ذریعہ تم نے شرمگاہوں کو حلال کیا ہے“۔
وضاحت: ۱؎: یعنی نکاح کے وقت یہ طے ہو کہ بیوی اپنے میکے ہی میں رہے گی اور شوہر اس شرط کو قبول کر لے تو ظاہر حدیث کے مطابق اب اس کو اس کے میکے سے نکالنے کا حق نہیں ہے۔
Uqbah bin Amir reported the Messenger of Allah ﷺ as saying “The condition worthier to be fulfilled by you is the one by which you made the private parts (of your wife) lawful (for you).
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2134
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2721) صحيح مسلم (1418)
(مرفوع) حدثنا عمرو بن عون، اخبرنا إسحاق بن يوسف، عن شريك، عن حصين، عن الشعبي، عن قيس بن سعد، قال: اتيت الحيرة فرايتهم يسجدون لمرزبان لهم، فقلت: رسول الله احق ان يسجد له، قال: فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: إني اتيت الحيرة فرايتهم يسجدون لمرزبان لهم، فانت يا رسول الله احق ان نسجد لك، قال:" ارايت لو مررت بقبري اكنت تسجد له؟" قال: قلت: لا، قال:" فلا تفعلوا،لو كنت آمرا احدا ان يسجد لاحد لامرت النساء ان يسجدن لازواجهن، لما جعل الله لهم عليهن من الحق". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: أَتَيْتُ الْحِيرَةَ فَرَأَيْتُهُمْ يَسْجُدُونَ لِمَرْزُبَانٍ لَهُمْ، فَقُلْتُ: رَسُولُ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يُسْجَدَ لَهُ، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنِّي أَتَيْتُ الْحِيرَةَ فَرَأَيْتُهُمْ يَسْجُدُونَ لِمَرْزُبَانٍ لَهُمْ، فَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَكَ، قَالَ:" أَرَأَيْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِي أَكُنْتَ تَسْجُدُ لَهُ؟" قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ:" فَلَا تَفْعَلُوا،لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَاءَ أَنْ يَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِهِنَّ، لِمَا جَعَلَ اللَّهُ لَهُمْ عَلَيْهِنَّ مِنَ الْحَقِّ".
قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حیرہ آیا، تو دیکھا کہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کر رہے ہیں تو میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں سجدہ کیا جائے، میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے کہا کہ میں حیرہ شہر آیا تو میں نے وہاں لوگوں کو اپنے سردار کے لیے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو اللہ کے رسول! آپ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بتاؤ کیا اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے، تو اسے بھی سجدہ کرو گے؟“ وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ایسا نہ کرنا، اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں اس وجہ سے کہ شوہروں کا حق اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11090)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الصلاة 159 (1504) (صحیح)» (قبر پر سجدہ کرنے والا جملہ صحیح نہیں ہے)
Narrated Qays ibn Saad: I went to al-Hirah and saw them (the people) prostrating themselves before a satrap of theirs, so I said: The Messenger of Allah ﷺ has most right to have prostration made before him. When I came to the Prophet ﷺ, I said: I went to al-Hirah and saw them prostrating themselves before a satrap of theirs, but you have most right, Messenger of Allah, to have (people) prostrating themselves before you. He said: Tell me, if you were to pass my grave, would you prostrate yourself before it? I said: No. He then said: Do not do so. If I were to command anyone to make prostration before another I would command women to prostrate themselves before their husbands, because of the special right over them given to husbands by Allah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2135
قال الشيخ الألباني: صحيح دون جملة القبر
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (3266) شريك القاضي صرح بالسماع عند البيھقي (7/ 291) و للحديث شواھد عند الترمذي (1159 وسنده حسن) وغيره
(مرفوع) حدثنا محمد بن عمرو الرازي، حدثنا جرير، عن الاعمش، عن ابي حازم، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا دعا الرجل امراته إلى فراشه فابت فلم تاته، فبات غضبان عليها، لعنتها الملائكة حتى تصبح". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهِ فَأَبَتْ فَلَمْ تَأْتِهِ، فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَيْهَا، لَعَنَتْهَا الْمَلَائِكَةُ حَتَّى تُصْبِحَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کرے اور اس کے پاس نہ آئے جس کی وجہ سے شوہر رات بھر ناراض رہے تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت کرتے رہتے ہیں“۔
Abu Hurairah reported the Prophet ﷺ as saying “When a man calls his wife to come to his bed and she refuses and does not come to him and he spends the night angry, the angels curse her till the morning. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2136
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5193) صحيح مسلم (1436)
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، اخبرنا ابو قزعة الباهلي، عن حكيم بن معاوية القشيري، عن ابيه، قال: قلت: يا رسول الله، ما حق زوجة احدنا عليه؟ قال:" ان تطعمها إذا طعمت، وتكسوها إذا اكتسيت او اكتسبت، ولا تضرب الوجه، ولا تقبح ولا تهجر إلا في البيت". قال ابو داود: ولا تقبح، ان تقول: قبحك الله. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو قَزَعَةَ الْبَاهِلِيُّ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ مُعَاوِيَةَ الْقُشَيْرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا حَقُّ زَوْجَةِ أَحَدِنَا عَلَيْهِ؟ قَالَ:" أَنْ تُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمْتَ، وَتَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسَيْتَ أَوِ اكْتَسَبْتَ، وَلَا تَضْرِبْ الْوَجْهَ، وَلَا تُقَبِّحْ وَلَا تَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَلَا تُقَبِّحْ، أَنْ تَقُولَ: قَبَّحَكِ اللَّهُ.
معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے اوپر ہماری بیوی کا کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کہ جب تم کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ، جب پہنو یا کماؤ تو اسے بھی پہناؤ، چہرے پر نہ مارو، برا بھلا نہ کہو، اور گھر کے علاوہ اس سے جدائی ۱؎ اختیار نہ کرو“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «ولا تقبح» کا مطلب یہ ہے کہ تم اسے «قبحك الله» نہ کہو۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/النکاح 3(1850)، (تحفة الأشراف: 11396)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/ الکبری/ عشرة النساء (9171)، مسند احمد (4/447، 5/3) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی کسی بات پر ناراض ہو تو اسے گھر سے دوسری جگہ نہ بھگاؤ گھر ہی میں رکھو بطور سرزنش صرف بستر الگ کر دو۔
Narrated Muawiyah al-Qushayri: Muawiyah asked: Messenger of Allah, what is the right of the wife of one of us over him? He replied: That you should give her food when you eat, clothe her when you clothe yourself, do not strike her on the face, do not revile her or separate yourself from her except in the house. Abu Dawud said: The meaning of "do not revile her" is, as you say: "May Allah revile you".
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2137
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (3259) أخرجه ابن ماجه (1850 وسنده حسن)
(مرفوع) حدثنا ابن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا بهز بن حكيم، حدثني ابي، عن جدي، قال: قلت: يا رسول الله، نساؤنا ما ناتي منهن وما نذر؟ قال:" ائت حرثك انى شئت، واطعمها إذا طعمت، واكسها إذا اكتسيت، ولا تقبح الوجه ولا تضرب". قال ابو داود: روى شعبة تطعمها إذا طعمت وتكسوها إذا اكتسيت. (مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نِسَاؤُنَا مَا نَأْتِي مِنْهُنَّ وَمَا نَذَرُ؟ قَالَ:" ائْتِ حَرْثَكَ أَنَّى شِئْتَ، وَأَطْعِمْهَا إِذَا طَعِمْتَ، وَاكْسُهَا إِذَا اكْتَسَيْتَ، وَلَا تُقَبِّحْ الْوَجْهَ وَلَا تَضْرِبْ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى شُعْبَةُ تُطْعِمُهَا إِذَا طَعِمْتَ وَتَكْسُوهَا إِذَا اكْتَسَيْتَ.
معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اپنی عورتوں کے پاس کدھر سے آئیں، اور کدھر سے نہ آئیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”اپنی کھیتی ۱؎ میں جدھر سے بھی چاہو آؤ، جب خود کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ، اور جب خود پہنو تو اسے بھی پہناؤ، اس کے چہرہ کی برائی نہ کرو، اور نہ ہی اس کو مارو“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: شعبہ نے «أطعمها إذا طعمت واكسها إذا اكتسيت» کے بجائے «تطعمها إذا طعمت وتكسوها إذا اكتسيت» روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11385)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/ الکبری/ عشرة النساء (9160)، مسند احمد (5/3، 5) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی قُبل (شرمگاہ) میں جس طرف سے بھی چاہو آؤ، نہ کہ دبر (پاخانہ کے راستہ) میں کیونکہ دبر «حرث»” کھیتی“ نہیں ہے۔
Bahz bin Hakim reported on the authority of his father from his grandfather (Muawiyah ibn Haydah) as saying: I said: Messenger of Allah, how should we approach our wives and how should we leave them? He replied: Approach your tilth when or how you will, give her (your wife) food when you take food, clothe when you clothe yourself, do not revile her face, and do not beat her. Abu Dawud said: The version of Shubah has: That you give her food when you have food yourself, and that you clothe her when you clothe yourself.
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2138
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن انظر الحديث السابق (2142)
معاویہ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: ہماری عورتوں کے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو تم خود کھاتے ہو وہی ان کو بھی کھلاؤ، اور جیسا تم پہنتے ہو ویسا ہی ان کو بھی پہناؤ، اور نہ انہیں مارو، اور نہ برا کہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11395)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الکبری/ عشرة النساء (9151) (صحیح)»
Narrated Muawiyah al-Qushayri: I went to the Messenger of Allah ﷺ and asked him: What do you say (command) about our wives? He replied: Give them food what you have for yourself, and clothe them by which you clothe yourself, and do not beat them, and do not revile them.
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2139
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي (في الكبريٰ: 9151) داود الوراق مستور والحديث السابق (الأصل: 2143) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 81