سنن ابي داود
كِتَاب النِّكَاحِ
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
40. باب فِي الرَّجُلِ يَشْتَرِطُ لَهَا دَارَهَا
باب: شوہر یہ شرط مان لے کہ عورت اپنے گھر میں ہی رہے گی۔
حدیث نمبر: 2139
حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، أَخْبَرَنِي اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" إِنَّ أَحَقَّ الشُّرُوطِ أَنْ تُوفُوا بِهِ مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِهِ الْفُرُوجَ".
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پورا کئے جانے کی سب سے زیادہ مستحق شرطیں وہ ہیں جن کے ذریعہ تم نے شرمگاہوں کو حلال کیا ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشروط 6 (2721)، والنکاح 53 (5151)، صحیح مسلم/النکاح 8 (1418)، سنن الترمذی/النکاح 22 (1127)، سنن النسائی/النکاح 42 (3283)، سنن ابن ماجہ/النکاح 41 (1954)، (تحفة الأشراف: 9953)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/114، 150، 152)، سنن الدارمی/النکاح 21 (2249) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی نکاح کے وقت یہ طے ہو کہ بیوی اپنے میکے ہی میں رہے گی اور شوہر اس شرط کو قبول کر لے تو ظاہر حدیث کے مطابق اب اس کو اس کے میکے سے نکالنے کا حق نہیں ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2721) صحيح مسلم (1418)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2139 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2139
فوائد ومسائل:
امام صاحبؒ کا استدال ہے کہ ایسی شرطوں کا پورا کرنا واجب ہے بشرطیکہ کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال نہ ٹھہرایا گیا ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2139
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 847
´(نکاح کے متعلق احادیث)`
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”وہ شرط پورا کئے جانے کا زیادہ حق رکھتی ہے جس کے ذریعہ تم نے عورتوں کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے۔“ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 847»
تخریج: «أخرجه البخاري، النكاح، باب الشروط في النكاح، حديث:5151، ومسلم، النكاح، باب الوفاء بالشروط في النكاح، حديث:1418.»
تشریح:
1 .اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جو شرائط سب سے زیادہ پوری کرنے کی مستحق ہیں وہ شروط نکاح ہیں کیونکہ اس کا معاملہ بڑا ہی محتاط اور نازک ہے۔
2.یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ نکاح میں شرط طے کرنا جائز ہے اور اسے پورا کرنا ضروری ہے۔
3. نکاح کی شرطوں سے کیا مراد ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔
ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد ادائیگی ٔ مہر ہے کیونکہ مہر وطی سے مشروط ہے۔
اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ سب کچھ ہے جس کی عورت زوجیت کے تقاضے میں مستحق ٹھہرتی ہے۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مقصود ہر وہ شرط ہے جو خاوند عورت کو نکاح پر آمادہ کرنے کے لیے طے کر لے بشرطیکہ شریعت میں ممنوع نہ ہو۔
سیاق حدیث کی رو سے یہی آخری رائے زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 847
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3283
´نکاح کی شرطوں کا بیان۔`
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(نکاح کی) شرطوں میں سب سے پہلے پوری کی جانے والی شرط وہ ہے جس کے ذریعہ تم عورتوں کی شرمگاہیں اپنے لیے حلال کرتے ہو (یعنی مہر کی ادائیگی)۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3283]
اردو حاشہ:
ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کے وقت جو شرطیں عائد کی جائیں انہیں پورا کرنا ضروری ہے۔ ورنہ نکاح قائم نہ رہے گا، بشرطیکہ شریعت اور نکاح کے تقاضے کے خلاف نہ ہوں۔ بعض حضرات نے اس ”شرط“ سے مراد صرف مہر لیا ہے کہ اس کی ادائیگی ضروری ہے ورنہ عورت نکاح فسخ کرواسکتی ہے۔ بعض نے اس سے مراد بیوی کے وہ حقوق لیے ہیں جو نکاح کے بعد اسے حاصل ہوتے ہیں: مثلاً مہر، نفقہ اور حسن سلوک وغیرہ۔ الفاظ کے عموم کی رو سے راجح بات پہلی معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3283
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1954
´نکاح میں شرط کا بیان۔`
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے زیادہ پوری کی جانے کی مستحق شرط وہ ہے جس کے ذریعے تم نے شرمگاہوں کو حلال کیا ہے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1954]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نکاح مرد اور عورت کے درمیان ایک معاہدہ ہے جس میں کچھ فرائض مردوں پر عائد ہوتے ہیں اور کچھ عورتوں پر، لہٰذا مرد و عورت دونوں کو چاہیے کہ ان فرائض کا خیال رکھیں۔
(2)
نکاح کے موقع پر حالات کے مطابق مزید شرطیں رکھی جاسکتی ہیں جن کی وجہ سے عورت کو اس مرد سے نکاح کی ترغیب ہو، مثلاً:
مرد کہتا ہے اگر تم نے مجھ سے نکاح کیا تو میں تمہیں اس قدر جیب خرچ دیا کروں گا یا فلاں مکان تمہارے نام الاٹ کردوں گا۔
نکاح کے بعد مرد کا فرض ہے کہ یہ شرطیں پوری کرے۔
(3)
مرد کو اس قسم کا وعدہ نہیں کرنا چاہیے جس میں شرعاً قباحت پائی جائے عورت کو بھی اس قسم کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے مثلاً:
مرد سے یہ مطالبہ کہ وہ پہلی بیوی کو طلاق دے دے۔
مرد کو بھی چاہیے کہ عورت سے ناجائز مطالبات نہ کرے، مثلاً:
یہ مطالبہ کہ عورت غیر محرموں سے پردہ نہ کرے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1954
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3472
امام مختلف اساتذہ سے، حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب شرطوں سے زیادہ پورا کرنے کی حقدار وہ شرطیں ہیں، جن سے تم نے شرم گاہوں کو اپنے لیے حلال ٹھہرایا ہے۔“ بعض روایوں نے شرط کا لفظ مفرد بولا اور بعض نے شروط جمع کا لفظ استعمال کیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3472]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
میاں بیوی جب شادی کرتے ہیں تو نکاح سے ان کے کچھ مقاصد اور اغراض ہوتے ہیں اور کچھ شروط ایسی ہوتی ہیں جو خود نکاح کا تقاضا ہیں اس لیے ان شروط سے مراد وہ شرطیں ہیں جو تقاضا کے منافی نہ ہوں،
اگرچہ وہ نکاح کے مقتضیٰ سے زائد ہوں مثلاً عورت مہر مثل سے زیادہ کا تقاضا کرے،
یا بہتر اور اچھی رہائش کی شرط لگائے اور خاوند اس کے دوشیزہ ہونے یا کسی مخصوص خاندان سے ہونے کی شرط لگائے،
لیکن عورت یہ شرط لگائے کہ پہلی بیوی کو طلاق دو،
یا خاوند شرط لگائے کہ میں نان و نفقہ نہیں دوں گا،
یا تجھے اپنے ساتھ نہیں رکھوں گا،
تویہ درست نہیں ہے،
یا فریقین میں کوئی خلاف اسلام شرط لگائے،
مثلاً مرد کہے،
تم پردہ نہیں کر سکو گی یا عورت کہے،
میں پردہ نہیں کروں گی تو ایسی شرطوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3472
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2721
2721. حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ شرطیں جن کا پورا کرنا تمھارے لیے ضروری ہے وہ ہیں جن کو تم نکاح میں طے کر کے عورتوں کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2721]
حدیث حاشیہ:
جن میں ایجاب و قبول اور مہر کی شرطیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔
کوئی شخص مہر بندھواتے وقت دل میں نہ ادا کرنے کا خیال رکھتا ہو تو عنداللہ اس کا نکاح حلال نہ ہوگا۔
قسطلانی نے کہا مراد وہ شرطیں ہیں جو عقد نکاح کے مخالف نہیں ہیں، جیسے مباشرت یا نان و نفقہ کے متعلق شرطیں، لیکن اس قسم کی شرطیں کہ دوسرا نکاح نہ کرے گا یا لونڈی نہ رکھے گا، یا سفر میں نہ لے جائے گا، پوری کرنا ضروری نہیں بلکہ یہ شرطیں لغو ہوں گی۔
امام احمد اور اہل حدیث کا یہ قول ہے کہ ہر قسم کی شرطیں پوری کرنی پڑیں گی، کیوں کہ حدیث مطلق ہے۔
مگر وہ شرطیں جو کتاب و سنت کے خلاف ہوں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2721
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5151
5151. سیدنا عقبہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتےہیں کہ آپ نے فرمایا: ”وہ شرائط جن کا پورا کرنا انتہائی ضروری ہے وہ ہیں جن کی بدولت تم نے شرمگاہوں کو حلال کیا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5151]
حدیث حاشیہ:
نکاح کے وقت جو شرطیں کی جائيں ان کا پورا کر نا لازم ہے، امام احمد اور اہلحدیث کا یہی قول ہے مگر ایک شرط کہ مرد اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دے اس کا پورا کرنا ضروری نہیں اور ایسی شرطیں کہ مرد دوسری شادی نہ کرے یا لونڈی نہ رکھے یا بیوی کو اس کے ملک سے باہر نہ لے جائے یا نان و نفقہ اتنا دے تو ان شرطوں کا پورا کرنا خاوند پر لازم ہے ورنہ عورت قاضی کے یہاں نالش کر کے جدا ہوسکتی ہے۔
ہاں کوئی شرط شریعت کے خلاف ہو تواسے توڑ دینا لازم ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5151
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2721
2721. حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ شرطیں جن کا پورا کرنا تمھارے لیے ضروری ہے وہ ہیں جن کو تم نکاح میں طے کر کے عورتوں کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2721]
حدیث حاشیہ:
شرائط کے متعلق دو باتیں قابل غور ہیں:
٭ یہ شرائط واجب اور ضروری ہیں یا ان کو پورا کرنا مستحب ہے؟ راجح بات یہ ہے کہ ان شرائط کو پورا کرنا واجب اور ضروری ہے الا یہ کہ فریقین میں افہام و تفہیم ہو جائے۔
٭ دوسری بات یہ ہے کہ ان شرائط کا تعلق صرف عقد نکاح سے ہے، جیسے مہر کی ادائیگی اور اخراجات وغیرہ یا اس سے مراد وہ تمام شرائط ہیں جو عقد نکاح کے وقت طے پا جائیں؟ اس بارے میں علماء کی دونوں رائے ہیں۔
ہمارا رجحان یہ ہے کہ نکاح کے وقت جو شرائط طے ہو جائیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے بشرطیکہ وہ کتاب و سنت کے خلاف نہ ہوں کیونکہ حدیث مطلق ہے، اسے صرف نکاح سے متعلق شرائط کے ساتھ خاص کرنا صحیح نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2721
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5151
5151. سیدنا عقبہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتےہیں کہ آپ نے فرمایا: ”وہ شرائط جن کا پورا کرنا انتہائی ضروری ہے وہ ہیں جن کی بدولت تم نے شرمگاہوں کو حلال کیا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5151]
حدیث حاشیہ:
نکاح کے وقت فریقین کے درمیان جو شرائط رکھی جائیں، ان کا پورا کرنا ضروری ہے، مثلاً:
مرد دوسری شادی نہیں کرے گا یا اسے ملک سے باہر نہیں لےجائے گا یا اسے اتنا خرچہ دے گا یا گھر میں نوکرانی کا بندوبست کرے گا وغیرہ۔
ایسی شرائط کا پورا کرنا خاوند پر لازم ہے، بصورت دیگر عورت کو حق ہوگا کہ وہ حاکم وقت کے پاس فریاد کرے اور اسے خاوند سے علیحدگی کی درخواست دے۔
ہاں اگر کوئی شرط کتاب و سنت کے خلاف ہو تو اس کا توڑنا لازم ہے، مثلاً:
خاوند اس سے مباشرت نہیں کرے گا وغیرہ تو ایسی شرائط کو پورا نہیں کیا جائے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5151