Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب النِّكَاحِ
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
42. باب فِي حَقِّ الْمَرْأَةِ عَلَى زَوْجِهَا
باب: شوہر پر بیوی کے حقوق کا بیان۔
حدیث نمبر: 2142
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو قَزَعَةَ الْبَاهِلِيُّ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ مُعَاوِيَةَ الْقُشَيْرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا حَقُّ زَوْجَةِ أَحَدِنَا عَلَيْهِ؟ قَالَ:" أَنْ تُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمْتَ، وَتَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسَيْتَ أَوِ اكْتَسَبْتَ، وَلَا تَضْرِبْ الْوَجْهَ، وَلَا تُقَبِّحْ وَلَا تَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَلَا تُقَبِّحْ، أَنْ تَقُولَ: قَبَّحَكِ اللَّهُ.
معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے اوپر ہماری بیوی کا کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہ جب تم کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ، جب پہنو یا کماؤ تو اسے بھی پہناؤ، چہرے پر نہ مارو، برا بھلا نہ کہو، اور گھر کے علاوہ اس سے جدائی ۱؎ اختیار نہ کرو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «ولا تقبح» کا مطلب یہ ہے کہ تم اسے «قبحك الله» نہ کہو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/النکاح 3(1850)، (تحفة الأشراف: 11396)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/ الکبری/ عشرة النساء (9171)، مسند احمد (4/447، 5/3) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی کسی بات پر ناراض ہو تو اسے گھر سے دوسری جگہ نہ بھگاؤ گھر ہی میں رکھو بطور سرزنش صرف بستر الگ کر دو۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
مشكوة المصابيح (3259)
أخرجه ابن ماجه (1850 وسنده حسن)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2142 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2142  
فوائد ومسائل:
بوقت ضرورت تادیب کی صورت میں چہرے پر مارنا منع ہے اگر بستر سے علیحدہ کرنا ہو تو گھر کے اندر ہی ہو اپنے گھر سے مت نکال دے اور زبانی توبیخ میں بھی بد دعا دینا ناجائز ہے۔
قرآن مجید نے تادیب کے آداب میں فرمایا (وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا) (النساء) اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں ابدیشہ ہو تو انہیں نصیحت کر و، بستروں سے الگ کر دو اور مار کر سزا دو اگر وہ تمہاری تابعداری کریں تو ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2142   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1850  
´شوہر پر بیوی کے حقوق کا بیان۔`
معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: بیوی کا شوہر پر کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کھائے تو اس کو کھلائے، جب خود پہنے تو اس کو بھی پہنائے، اس کے چہرے پر نہ مارے، اس کو برا بھلا نہ کہے، اور اگر اس سے لاتعلقی اختیار کرے تو بھی اسے گھر ہی میں رکھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1850]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
اسلام نے معاشرے کو صحیح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے ہر فرد کے حقوق و فرائض کا تعین کر دیا ہے۔
ان کو پیش نظر رکھ کر معاشرے میں امن قائم کیا جاسکتا ہے۔

(2)
جس طرح مردوں کے حقوق ہیں اسی طرح عورتوں کے بھی حقوق ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُ‌وفِ﴾ (البقرۃ، 2: 228)
اور دستور کے مطابق عورتوں کے لیے مردوں پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے لیے عورتوں پر ہیں۔
گھر میں امن و سکون قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں۔

(3)
عورت کی بنیادی ضروریات یعنی خوراک، لباس اور رہائش وغیرہ مہیا کرنا مرد کا فرض ہے۔

(4)
مرد کو حق حاصل ہے کہ عورت کو غلطی پر مناسب تنبیہ کرے۔

(5)
اگر معمولی تنبیہ کا اثر نہ ہو تو معمولی سی جسمانی سزا بھی دی جا سکتی ہے لیکن چہرے پر مارنا منع ہے۔

(6) (لَا یقبح)
کا ایک مفہوم یہ ہے کہ ڈانٹتے وقت نامناسب الفاظ استعمال نہ کرے، جیسے عربوں میں رواج تھا کہ وہ کہتے (قَبَّحَ اللهُ وَجْهَكَ)
اللہ تیرے چہرے کو قبیح کردے۔
یا (قَبَّحَکَ الله)
اللہ تجھے بدصورت کر دے۔
اس طرح کی گالی اور بددعا سے اجتناب کرنا چاہیے۔
دوسرامفہوم یہ ہے کہ چہرے پر نہ مارے، زور سے مارنے سے چہرے پر نشان پڑ جائے گا اور چہرہ بدصورت ہو جائے گا اس لیے فرمایا کہ اسے بدصورت نہ بنا دے۔

(7)
تنبیہ کے لیے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے وقتی طور پر بول چال بند کرنا جائز ہے لیکن بیوی کو گھر سے نکال دینا یا خود گھر سے کئی دن کے لیے باہر چلے جانا مناسب نہیں۔
گھر میں دونوں کی موجودگی سے ناراضی جلد دور ہو جانے کی امید ہوتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1850